سوال ، جواب

مصنف : مولانا طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جون 2007

جواب:عربی زبان میں بسم اللہ سے بَسْمَلہ کا مخفف رائج ہے لیکن اس کو کسی نے کبھی نام کے طور پر اختیار نہیں کیا۔ بسمہ کا لفظ اصل میں بِأِسْمِہِ (اس کے نام سے)ہے۔ جسے بِسْمِہِ لکھا اور بولا جا تا ہے۔غالباً بسمہ کا لفظ یہیں سے لیا گیا ہے۔ بولنے والے اسے میم کی زبر کے ساتھ بولیں گے جو غلط ہے۔اگر اس کا صحیح تلفظ رائج کیا جا سکے تو نام رکھنے میں حرج نہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: حقیقت یہ ہے کہ نقش بنانے والوں کی اکثریت مشرکانہ عقائد رکھتی ہے لہذا ان کے تعویزوں میں بھی یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ان سے بچا جائے اور اپنے عقیدہ وعمل کو بہتر کرتے ہوئے اللہ تعالی کے رسولﷺ کی سکھائی ہوئی دعائیں اختیار کی جائیں۔اس صورت میں کسی تعویز کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ضروری نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے لہذا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہر نماز کے بعد ہاتھ اـٹھا کر دعا کرنا ضروری ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ہر نماز کے بعد لازماً ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا اور اسے نماز کے باقی ارکان کی طرح ضروری سمجھنا ، یہ بات درست نہیں ہاں البتہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بجائے خود درست ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب۔ تہجدکا اصل وقت آدھی رات کے بعد ہے یعنی نیند سے بیدار ہو کریہ نماز پڑھی جائے ۔البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو تہجد کے وقت اٹھ کر طاق رکعتیں نہیں پڑھ سکتے عشاکے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ آپ کی یہ اجازت اصل میں اسی نماز کے افضل وقت کے معاملے میں ایک رخصت ہے۔یعنی تہجد کی طاق نماز اگر اپنے اصل وقت پر پڑھنا ممکن نہ ہو تو نیند سے پہلے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔۔ تہجد کی نماز کی رکعتیں چونکہ یہ ایک طاق نماز ہے اس لیے تین سے کم نہیں ہوسکتیں۔ لیکن ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد کیا ہو،اس کا کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شک زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعتیں ہی پڑھی ہیں۔ لیکن آپ کا یہ عمل کسی تحدید کا ماخذ نہیں بن سکتا۔ جیسے اگر یہ متعین کر لیا جائے کہ آپ سال میں کتنے نفلی روزے رکھتے تھے اس بات کا ماخذ نہیں کہ سال میں اس تعداد سے زیادہ نفلی روزے نہیں رکھے جا سکتے۔ کیا آپ اس اصول کو متعین کرنا چاہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیرات سے بڑھ کر خیرات بھی نہیں کی جا سکتی وغیرہ۔ نفلی عبادات میں عدم تعین ہی اصل اصول ہے اور اسی پر ساری امت کا عمل ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قرآن مجید میں جتنی دعائیں بیان ہوئی ہیں وہ اس طرح کے کسی بھی اسلوب سے بالکل خالی ہیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو دعائیں سکھائی ہیں ان میں وسیلہ یا واسطہ جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔ اگر یہ دعا کرنے کا کوئی بہتر طریقہ ہوتا تو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں اس کی کئی مثالیں مل جاتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا کا یہ طریقہ اللہ تعالی کے بارے میـں ناقص تصور کا مظہر ہے۔ اللہ تعالی کی ذات ہر اعتبار سے غنی ہے۔ وہ کسی بھی ہستی کے ساتھ اس طرح متعلق نہیں ہے کہ وہ اس کی کمزوری ہو۔ بلکہ ہر ذات اس کے سامنے محتاج محض ہے۔دعا کرنے میں ہمیں وہ طریقے اختیار کرنے چاہیں جو اللہ کے پیغمبروں نے اختیار کیے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قضا نمازیں ادا کرنے کا یہ طریقہ کہ رمضان میں جمعۃ الوداع کے دن تمام نمازیں رہ جانے والی نمازوں کی قضا کے لیے پڑھ لی جائیں سرتاسر خود ساختہ ہے۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ رہ جانے والی نمازوں کا اندازہ کرکے ہر نماز کے ساتھ پڑھ کر ان کی تعداد پوری کر دی جائے۔ اس عرصے میں اگر چاہیں تو سنتیں(یعنی نوافل) نہ پڑھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس نماز کے بارے میں صحیح روایات سے کوئی بات ثابت نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: گن کر اللہ کی یاد میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صرف ایک بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ ذکر ایک پوری بامعنی بات ہونی چاہیے۔کوئی اکیلا لفظ خواہ وہ قرآن مجید میں آیا ہوا اللہ کا نام ہی کیوں نہ ہو بار بار دہرانے کے لیے اختیار کرنا موزوں نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے تمام اذکار اپنی جگہ ایک مکمل بات ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: آپ کا یہ مشاہدہ تو درست ہے کہ یہ کائنات کچھ متعین اصولوں پر چل رہی ہے۔ لیکن یہ نتیجہ درست نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس میں مداخلت نہیں کرتے یا وہ ان قوانین کے پابند ہیں۔ قرآن مجیدمیں مذکور اللہ تعالی کی دو صفات حی قیوم اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے آئی ہیں۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو جس آزمایش میں ڈالا ہے اس کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے کے لیے بھی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی حسب ضرورت مداخلت کرتے رہیں۔ قوموں کے بارے میں اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ وہ دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو دنیا کی عبادت گاہیں اجڑ کر رہ جائیں۔ اس طرح کے متعدد امور سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس دنیا کو براہ راست چلا رہے ہیں اور اس میں جس وقت اور جہاں چاہتے ہیں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ دعائیں سنتے ہیں اور انھیں قبول کرتے ہیں۔ تقدیر پر ایمان کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالی ہی کو کار فرما اور کار ساز مانیں اور اپنی تدبیر و سعی کو اصل قرار نہ دیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قربانی بے شک حج کے مناسک میں شامل ہے۔ لیکن حج کے علاوہ قربانی ایک مستقل عبادت کی حیثیت سے ہمارے دین کا حصہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قربانی کی یہ عبادت فرض نہیں کی گئی۔ لیکن اس سے اس کے مستقل عبادت ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال اعتکاف کی عبادت ہے۔ اعتکاف بھی فرض نہیں ہے لیکن ایک الگ عبادت کی حیثیت سے ہمارے دین کا حصہ ہے۔ قربانی اللہ کے حضور میں جان کے نذرانے کا علامتی اظہار ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ اللہ کے دین کا حصہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب: یہ بات متعین کرنے کے لیے کہ کوئی حکم دور رسالت سے متعلق ہے یا قیامت تک کے لیے عام ہے خود قرآن سے معلوم ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کے جرم وسزا سے متعلق احکام ابدی ہیں اور کسی تخصیص کا کوئی ذکر یا قرینہ قرآن مجید میں مذکور نہیں۔ شریعت کے تمام احکام قیامت تک کے لیے ہے صرف وہ احکام اس سے مستثنی ہیں جن کے بارے میں خود قرآن کی تصریحات سے واضح ہے کہ وہ وقتی تھے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اگرچہ یہ بات معمول بنانا پسندیدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ مسجد کی حاضری سے گریزکسی سبب ہی سے ہونا چاہیے۔ لیکن اگر گھر میں نماز پڑھی جارہی ہو تو جماعت کرائی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں اگر دوہی افراد ہیں تو بیوی کو کچھ پیچھے ہٹ کر دائیں طرف کھڑا ہونا چاہیے ۔ واضح رہے کہ یہ جواب کسی نص سے ماخوذ نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: انسان اپنی شخصیت کے تمام داعیات کی تکمیل کرنے میں آزاد ہے۔ البتہ خود اس کا اپنا اخلاقی وجود اس پر کچھ قدغنیں لگا دیتا ہے۔ یہی قدغنیں ہیں جو دین میں بھی بیان ہوئی ہیں اور وہاں انسان کی رہنمائی کرتی ہیں جہاں وہ خود فیصلہ کرنے میں ٹھوکر کھا سکتا ہے یا عملی صورت کی تعیین میں ناکام رہ سکتا ہے۔ تفریح انسانی شخصیت کا داعیہ ہے۔ اس پر اخلاقی قدغنیں ہیں جیسے بے حیائی، اسراف ، ضیاع وقت یا دینی یا سماجی ذمہ داریوں سے بے پراوائی وغیرہ۔تفریح کیا ہے ، یہ بات دین کا موضوع نہیں ہے ۔ البتہ یہ بات دین کے مطالعے اور مطالبات سے سمجھ میں آتی ہے کہ تفریح کے مواقع پر بھی خدا سے غفلت نہیں ہونی چاہیے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: یہ سوال جس مقدمے پر قائم ہے وہ مقدمہ ہی غلط ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی بتوں کو توڑنے سے منع نہیں کیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا ایک بڑا موضوع شرک کا خاتمہ تھا۔ بلکہ ہر پیغمبر اور نبی شرک کے استیصال ہی کے لیے مبعوث ہوتا ہے۔ اس لیے ان دوباتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ اقدام نہ کرتے تو یہ ان کے فرائض منصبی کے منافی ہوتا۔ یہ دنیا اللہ تعالی کی ہے اور اللہ تعالی کے احکامات ہی اس میں جاری ہیں۔ شرک اور آثار شرک کا خاتمہ اسی کے حکم کے تحت ہوا ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ ساری کارروائی سرزمین عرب تک محدود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جو علاقے فتح کیے وہاں کے معبد جوں کے توں قائم رکھے۔ جس طرح بنی اسماعیل کے کسی فرد کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے عقیدہ وعمل پر قائم رہے اسے لازماً اسلام قبول کرنا تھا ورنہ اسے مار دیا جاتا اسی طرح اس کا بھی کوئی سوال نہیں تھا کہ ان کے معبد اور بت قائم رکھے جاتے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اللہ تعالی نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اس میں ظاہر ہونے والے تمام معاملات اصلاً آزمایش ہی کے لیے ہوتے ہیں۔ کسی نقصان یا مصیبت کی وجہ تینوں باتیں یاان میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے یعنی گناہ کا نتیجہ ، یا تدبیر کی غلطی کا ثمرہ ، یا اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ یہ باتیں اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن یہ پوری بات نہیں ہے ۔ پوری بات وہی ہے جو ہم نے عرض کر دی ہے کہ ان سب باتوں کے ساتھ حاوی پہلو آزمایش کا ہی ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ رسولوں کی براہ راست مخاطب قوموں کا معاملہ مختلف ہے اس لیے کہ اس میں خو داللہ تعالی بتا دیتے ہیں کہ یہ عذاب ہے۔باقی رہا معصوم بچوں کا بیماریوں یا افلاس سے مرنا تویہ والدین کی آزمایش ہے۔بچہ بے شک ایک تکلیف سے گزرا ہے لیکن یہ نہ اس کی آزمایش تھی اور نہ کسی خطا کا خمیازہ۔ ساری دنیا کی کہانی کو آخرت سے ملائے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ایسا آدمی مخاطب ہو جو آخرت کو نہیں مانتا تواس کے اس نوع کے سوالات کا جواب یہی ہے کہ خدا ، آزمایش اور آخرت کو مانے بغیر ان سوالات کا تشفی بخش جواب ممکن نہیں۔ دنیا میں جاری اصول آزمایش کا ہے عدل کا نہیں ہیں۔ اللہ تعالی اصل عدل آخرت میں قائم کرے گاالبتہ انسان کو جو اقدامات بھی دنیا میں کرنے ہیں اس کے ذمہ ہے کہ وہ ان میں عدل کو ملحوظ ر کھے ۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:آپ کا اشکال ایک نقطے پر قائم ہے۔ اگرچہ لفظ علم دست شناسی اور نجوم وغیرہ کے لیے لکھا اور بولا جاتا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت میں یہ علم نہیں ہیں۔ علم دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں ایک خدا کی اتاری ہوئی ہدایت کا علم اور دوسرے کائنات اور مخلوقات میں جاری قوانین کا علم۔ پہلا علم نقل کی محکم بنیاد پر قائم ہے اور دوسرا مشاہدے اور تجربے کی۔ آپ نے جس چیز کو علم قرار دیا ہے وہ ان بنیادوں سے محروم ہے۔ قرآن مجید میں جس چیز کو جبت قرار دیا گیا ہے اور اسے ایک گناہ کہا ہے ، یہ فنون اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی شے یا وقت ( خواہ وہ ہاتھ کی لکریں ہوں یا نجوم وکواکب یا کوئی اور مادی چیز)کے ساتھ کسی غیر مرئی اثر کو متعلق کرنا جبت ہے۔ قرآن مجید نے اسے گناہ قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فنون توہم پرست معاشروں کی باقیات ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں اس طرح کی چیزوں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ان فنون سے شغف آدمی کو بے ہمت بنا دیتا ہے۔ اسے تدبیر اور سعی پر اعتماد سے محروم کر دیتا ہے۔ چنانچہ صائب بات یہی ہے کہ ان فنون سے دور ہی رہنا چاہیے۔ اگر ان کا مطالعہ بھی کریں تو محض معلومات کے لیے کریں انھیں اپنی اور اپنے لوگوں کی زندگی کا حصہ نہ بننے دیں۔

(مولانا طالب محسن)