مسائل قربانی

 اس میں ان امور کا خیال رکھنا ہوگا: جس دن پاکستان میں کسی ایسے شخص کی قربانی بطور وکیل کی جا رہی ہے، جو امریکہ یا کینیڈا میں مقیم ہے، توضروری ہے کہ اس دن وہاں قربانی کے ایام ہوں (یعنی دس تا بارہ ذوالحجہ) اور یہاں بھی وہ قربانی کا دن ہو، خواہ وہ یہاں کے اعتبار سے عید کا پہلا دن ہو یا دوسرا یا تیسرا، کیونکہ بعض اوقات امریکہ یا کینیڈا میں عید ایک دن پہلے ہو جاتی ہے۔ البتہ وقت میں مقامِ ذبح کا اعتبار ہوگا، جن شہروں یا قصبات میں نماز عید ہوتی ہے، وہاں دس ذوالحجہ کو پہلی نمازِ عید کے بعد قربانی کی جائے گی، تین دن اور دو راتیں ایام قربانی ہیں، ہمارے فقہائے کرام نے رات کو قربانی کرنے کو مکروہ لکھا تھا اور اس کی علت رات کا اندھیرا ہے، لیکن اب بجلی کی روشنی کے سبب وجہِ کراہت مرتفع ہوچکی ہے۔

(مفتی منیب الرحمان)

ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے، وہ یکم ذو الحجہ سے عیدالاضحی کے دن تک یا جس دن قربانی کرے گا، اُس وقت تک ناخن اور بال نہ ترشوائے، اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں کہ یہ مستحب ہے واجب نہیں۔ احادیث مبارکہ میں طہارت و نظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے، بغل اور زیرِ ناف بال صاف کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا مکروہِ تحریمی ہے، حدیث میں ہے: ‘‘حضرت انس بیان کرتے ہیں: مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم:599)’’۔امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ‘‘اگرکسی شخص نے۱ ۳ دن کسی عذر کے سبب یا بلاعذر نہ ناخن تراشے ہوں، نہ خط بنوایا ہو کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتاہو، اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا، اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا مکروہِ تحریمی ہے، اور مستحب کی رعایت کرنے کے لیے واجب کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ردالمحتار میں ہے: ذوالحجہ کے دس دنوں میں ناخن کاٹنے اور سرمنڈانے کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ سنّت کو موخر نہ کیا جائے جبکہ اس کے متعلق حکم وارد ہے، تاہم تاخیر واجب نہیں ہے۔ تو یہ بالاجماع استحباب پر محمول ہے اور وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے، لہٰذا مستحب ہے۔ ہاں! اگر استحباب پر عمل اباحت کی مدت میں تاخیر کا باعث بنے جس کی انتہا چالیس روز ہے، تواستحباب پر عمل کو ترک کردے۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد20، ص:354،بتصرف)’’۔ بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، اُنہیں ذوالحجہ کے چاند سے ایک دو دن پہلے طہارت یعنی ناخن تراشنے، مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوالینے چاہییں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے۔
 

(مفتی منیب الرحمان)

ج۔ اگر کوئی ادارہ قربانی کے جانور اور ہڈیوں کو فروخت کرتا ہے اور اس کی رقم کو اپنی ضروریات میں استعمال کرتا ہے تو شرعاً یہ جائز ہے، البتہ خود قربانی کرنے والے کے لیے ان اشیاء کو فروخت کرکے حاصل شدہ رقم اپنی ضروریات میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس رقم کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج: ایسے جانور کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ‘وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ’ (اور تم نہ کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو) جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اس کی جان لینے کے لیے آپ کو اذن ہی حاصل نہیں ہوا، اس لیے کہ آپ کون ہوتے ہیں خدا کے نام کے بغیر کسی کی جان لینے والے، لہٰذا وہ جانور بھی حرام ہو گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید نے لازم کیا ہے کہ کسی جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کا نام نہیں لیا جائے گا۔ تیسری بات یہ کہ جب آپ ذبح کر رہے ہیں تو اس طریقے سے ذبح کریں جو انبیا علیہم السلام نے بتایا ہے۔ اور وہ طریقہ یہ ہے کہ جانور کا خون اچھی طرح سے نکل جائے، اس کی فوری موت واقع نہ ہو۔ اور ذبح کرنے والا وہ ہونا چاہیے جو اصلاً توحید کو اپنا دین سمجھتا ہو۔ جو لوگ دینِ شرک کو اپنائے ہوئے ہیں ان کا ذبیحہ جائز نہیں ہے، خواہ وہ اللہ ہی کے نام پر کیوں نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلے ذبح نہیں کیا جاسکتا ۔ اس معاملے میں رسالت مآب ﷺ نے بہت سختی فرمائی ہے اور کہا ہے کہ جس نے ہماری نماز سے پہلی قربانی کر لی ، اس کی قربانی کوئی قربانی نہیں ہے ، وہ تو بس ایک جانور تھا جو اس نے ذبح کر لیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: جمہور فقہاء کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قربانی کرنا واجب ہے۔ احناف کے یہاں واجب ہے۔ فرض اور سنت کے درمیان ہے۔ اور واجب کا ترک کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔

            حدیث نبویؐ ہے: من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا. (حاکم عن ابی ہریرہ)

            ‘‘جو صاحب حیثیت ہے اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔’’

            ایک دوسری حدیث ہے کہ صحابہؓ نے قربانی کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا: سنۃ ابیکم ابراھیم. (ترمذی،حاکم)

            ‘‘تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔’’

            ان دونوں حدیثوں کی بنیاد پر کسی نے قربانی کو صاحب حیثیت کے لیے واجب قرار دیا اور کسی نے سنت قرار دیا۔ جنھوں نے اسے سنت قرار دیا ہے ان کے نزدیک صاحب حیثیت کا قربانی نہ کرنا مکروہ ہے۔

            قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے۔ عید کی نماز سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر پہلے دن قربانی کرنا ممکن نہ ہو تو دوسرے اور تیسرے دن بھی کی جا سکتی ہے۔

            قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا پڑوسیوں کے لیے اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین کے لیے۔ اگر سارے کا سارا گوشت پڑوسیوں اور غریبوں میں تقسیم کر دے تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ البتہ تھوڑا بہت گوشت بطور برکت خود بھی کھانا چاہیے۔

            بے شبہ قربانی ایک عبادت ہے اور جیسا کہ ہم نے متعدد مقام پر کہا ہے کہ عبادت کے لیے ضروری ہے کہ اسی طریقے اور وقت پر ادا کی جائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے متعین کر دیا ۔ قربانی بھی ایک عبادت ہے۔ اس کا بھی ایک وقت اور طریقہ متعین ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس طریقہ اور وقت کا پورا پورا خیال رکھیں۔

قربانی سے متعلق چند دوسرے سوالات

            سوال: قربانی کا وقت کون سا ہے؟ کس جانور کی قربانی کی جا سکتی ہے؟ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک قربانی ضروری ہے یا ایک قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے؟ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے یا قربانی کے پیسے کو صدقہ کر دینا۔

            جواب: قربانی حضوؐر کی سنت موکدہ ہے۔ نبیؐ نے اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے دو تندرست مینڈھے ذبح کیے تھے اور فرمایا تھا کہ ‘‘اے اللہ یہ میری طرف سے میرے گھر والوں کی طرف سے اور میری امت میں سے جن لوگوں نے قربانی نہیں کی ان لوگوں کی طرف سے ہے۔’’

            قربانی کا وقت عید کی نماز کے فوراً بعدشروع ہو جاتا ہے۔ اس سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں۔ اس سے قبل جو قربانی ہو گی اس کے بارے میں حضوؐرنے فرمایا: شاتہ شاۃ لحم.

            ‘‘اس کی بکری گوشت کھانے کی بکری ہے۔’’

            یعنی ایسی بکری محض گوشت کھانے کے لیے ہے۔ یہ قربانی تصور نہیں کی جائے گی۔ قربانی ایک عبادت ہے۔ نماز کی طرح۔ جس طرح نماز کا وقت معین ہے اسی طرح قربانی کا وقت معین ہے۔جس طرح ظہر کی نماز وقت سے قبل نہیں پڑھی جا سکتی اسی طرح وقت سے قبل قربانی نہیں ہوسکتی۔قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد سے شروع ہوکر عید کے تیسرے دن اوربعض فقہاء کے نزدیک عید کے چوتھے دن تک رہتا ہے۔ قربانی کا افضل وقت زوال تک ہے۔زوال تک قربانی نہ کی تو دوسرے دن قربانی کرنی چاہیے۔ بعض فقہاء کے نزدیک رات اور دن میں کسی بھی وقت قربانی کرنا صحیح ہے۔ میری رائے میں بہتر یہ ہو گا کہ ایک ہی دن سارے لوگ قربانی نہ کریں تاکہ ایک دم سے ضرورت سے زائد گوشت نہ جمع ہو جائے، بلکہ کچھ لوگ دوسرے دن اور کچھ تیسرے دن قربانی کریں تاکہ غریبوں کو ہر دن گوشت ملتا رہے۔

            قربانی میں اونٹ، گائے اور بکرے کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ جو جانور چوپایوں میں شمار کیے جاتے ہیں ان میں سے کسی کی بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ ایک بکرا ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔ اونٹ اور گائے میں سات حصے لگائے جائیں گے اور ہر ایک حصہ ایک مستقل قربانی تصور کی جائے گی اور ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اونٹ پانچ سال سے کم کا نہ ہو۔ گائے دو سال سے کم کی نہ ہو اور بکرا ایک سال سے کم کا نہ ہو۔ قربانی کا جانور جتنا صحت مند اور تگڑا ہو اسی قدر افضل ہے کیونکہ قربانی اللہ کی خدمت میں ہدیہ ہے اور مسلمان کو چاہیے کہ بہتر سے بہتر ہدیہ اللہ کی خدمت میں پیش کرے۔ اسی لیے لاغر، لنگڑا، اندھا، کانا، ٹوٹے سینگ والا، کٹے کانوں والا یا کسی قسم کے عیب والا جانور قربانی کے لیے جائز نہیں ہے۔

            رہا یہ مسئلہ کہ قربانی زیادہ افضل ہے یا قربانی کے روپے کو صدقہ کرنا ۔ تو میری رائے یہ ہے کہ بے شبہ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے جس کا مقصد حضرت ابراہیمؑ کی سنت کو برقراراور زندہ رکھنا ہے۔ یہ عبادت ہمیشہ اس عظیم الشان واقعے کی یاد دلاتی رہتی ہے جب ابراہیم ؑاپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اسی کی بارگاہ میں قربانی کرنے چلے تھے۔ اپنے رب سے محبت کی یہ ایسی مثال ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پیارے بندے کو اس کا یہ صلہ دیا کہ اس کے اس فعل کو قیامت تک کے لیے یادگار بنا دیا۔ ہر قوم اپنے اہم دن مثلاً آزادی کا دن یا جنگ میں فتح کا دن وغیرہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ہر سال اس کا جشن مناتی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قربانی کرکے اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ رکھیں۔ اس لیے قربانی کرنا ، قربانی کی قیمت کو صدقہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ افضل اور احسن ہے۔

            گھر کے تمام افراد کی طرف سے صرف ایک قربانی کا جانور کافی ہے۔ کیونکہ نبیؐ نے جب قربانی کی تو فرمایا کہ اے اللہ یہ محمد اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ہے۔ ابو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ حضوؐر کے زمانے میں ہم میں سے ہر شخص اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے صرف ایک بکری ذبح کرتا تھا۔ لیکن اس کے بعد لوگوں نے فخر و مباحات کے لیے زیادہ قربانیاں کرنی شروع کر دیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: قربانی بے شک حج کے مناسک میں شامل ہے۔ لیکن حج کے علاوہ قربانی ایک مستقل عبادت کی حیثیت سے ہمارے دین کا حصہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قربانی کی یہ عبادت فرض نہیں کی گئی۔ لیکن اس سے اس کے مستقل عبادت ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال اعتکاف کی عبادت ہے۔ اعتکاف بھی فرض نہیں ہے لیکن ایک الگ عبادت کی حیثیت سے ہمارے دین کا حصہ ہے۔ قربانی اللہ کے حضور میں جان کے نذرانے کا علامتی اظہار ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ اللہ کے دین کا حصہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: قربانی ایک عبادت ہے ، قربانی کا ثواب تو قربانی کرنے سے ہی ملے گا ،غریب کو پیسے دینا الگ سے ایک نیکی ہے اس کا الگ ثواب ہے۔ اس لیے آپ اس میں ادلہ بدلہ کیوں کرتے ہیں۔قربانی ایک بہت بڑی عبادت ہے یہ اصل میں اپنے آپ کو خدا کی نظر کر دینے کا علامتی اظہا ر ہے، عبادات کو عبادت سمجھ کر کیجیے۔ کل کو آپ کوکہیں گے کہ نماز کا وقت کسی اسپتال میں جا کر خدمت کے لیے دے دیا جائے ۔ عبادت عبادت ہے اور دین نام ہے عبادت کا ۔خدا کے ساتھ تعلق کے اظہار کے لیے جو عبادات مقرر کی گئی ہیں ان کو کبھی کوئی چیز معمولی نہ سمجھیں وہ اصل میں بندگی کا اظہا ر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)


جواب: آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔
جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو، وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گاؤ پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے رہتے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ ’’ُاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْل‘‘۔ پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کرلیں،لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھالے اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلہ کو اختیار کیا جو ہمارا ہے اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے‘‘۔ یہ’’ہمارا ذبیحہ کھایا‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

جواب:دس ذوالحجہ سے پہلے یا قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر صاحب قربانی کا انتقال ہوجائے تو قربانی ساقط ہوجائے گی اور وہ جانور وارثوں کا ہوگا۔لہٰذا صورت مسؤلہ میں یہ جانور وارثوں کا ہے۔ ان پر مرحوم کی طرف سے اس کا ذبح کرنا واجب نہیں، البتہ تمام وارثوں کی رضامندی سے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)