نماز کے مسائل

جی ہاں آدھے بازو تک شرٹ پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے اور نماز ہو جاتی ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

 

                                                                                                                                                      Unitجواب:پوری نماز ایک اکائی u                                                                                                                                                                            ہے۔ رکعتوں کوالگ الگ کرکے ایک رکعت کودرست اور دوسری رکعت کونادرست قرار دینا صحیح نہیں۔ یا توپوری نماز صحیح ہوگی یا پوری فاسد ہوگی۔                                                                                                                                                                                            اگر کسی غلطی کی وجہ سے امام صاحب کی نماز فاسد ہوگئی اور انہیں دہرانی پڑی تو تمام مقتدیوں کوبھی نماز دہرانا ہوگی۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس رکعت میں غلطی تھی ، اس میں شریک نہیں تھا، اس لیے ان کی صحیح رکعت میں ایک اوررکعت شامل کرکے میری نماز درست ہوگئی۔ اس بنا پر ان صاحب کی نماز نہیں ہوئی۔ انہیں اس کی قضا کرلینی چاہیے۔

()

فقہ مالکی اور قیام میں ہاتھ باندھنا
سوال:’زندگی نو‘ جنوری ۲۰۱۶ میں نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق سوال کے جواب میں آپ نے حدیثوں کا تفصیلی حوالہ دیا ہے، پھر لکھا ہے کہ جمہورعلماء(احناف ، شوافع، حنابلہ) کے نزدیک نمازی کو دورانِ قیام ہاتھ باندھنا چاہئے، البتہ امام مالک سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں۔ ان اقوال کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھوں کا کھلا چھوڑنا یعنی مطلق نہ باندھنا قابل ترجیح ہے۔
آپ کے جواب سے مزید چند سوالات ابھرتے ہیں:
۱۔ احادیث کی بیش تر کتابیں بعد کے زمانے میں مرتب ہوئی ہیں۔ قدیم ترین مجموعہ احادیث غالباً خود امام مالک کا مرتب کردہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی کتاب ’موطا‘ میں کیا اس کے متعلق کوئی وضاحت ہے ؟
۲۔ امام مالک کی پوری زندگی مدینہ منورہ میں گزری۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔ عرصہ تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے۔ انہوں نے مدینہ میں تابعین اورتبع تابعین کی ایک بڑی تعداد کو لمبے عرصے تک مسجد نبوی میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نماز ایسی عبادت ہے جس کا تواتر وتسلسل رسول اللہ کے عہد سے لے کر آج تک قائم ہے اور قیامت تک رہے گا۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ائمہ کے مقابلے میں امام مالک کو اہلِ مدینہ کا تعامل و تواتر دیکھنے کا زیادہ موقع ملا تھا۔ ایسی صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ اہلِ مدینہ کا تواتر وتعامل اس مسئلہ میں کیا رہا ہے 
اگران سوالات کی مناسب وضاحت ہوجائے تواس مسئلہ کا شافی جواب مل سکتا ہے۔

جواب: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طریقہ نماز سے متعلق جواحادیث مروی ہیں ، ان میں سے بعض میں یہ صراحت موجود نہیں ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد آپ ہاتھ باندھ لیتے تھے البتہ بعض میں اس کاذکر ہے۔ احناف ، شوافع اورحنابلہ نے موخر الذکر احادیث کے پیش نظر ہاتھ باندھنے کوسنت قرار دیا ہے، جبکہ امام مالک کے نزدیک وہ احادیث قابلِ ترجیح ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کا تذکرہ نہیں ہے۔
موطا امام مالک میں مذکور بعض احادیث میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے۔ مثلاً حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں:کَانَ النَّاسْ یْومَرْونَ اَن یَّضَعَ الرَّجْلْ الیَدَ الیْمنٰی عَلَی ذِرَاعِہِ الیْسرَیٰ فِی الصَّلاَۃِ (حدیث نمبر ۷۰۸)’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نمازمیں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے۔‘‘اس حدیث کی بنا پر امام مالک ہاتھ باندھنے کو’مندوب‘ کہتے ہیں ، لیکن وہ اسے سنت نہیں قراردیتے۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ، عبدالرحمن الجزیری ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۲۴ھ : ۲۲۷۱)
علامہ ابن رشد مالکی نے اپنی تصنیف ’بدایۃ المجتہد ‘میں امام مالک کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ ہاتھ باندھنا افعال نمازمیں سے نہیں ہے ، بلکہ وہ استعانت کے قبیل سے ہے۔ اسی لیے امام مالک نے نفل میں اس کی اجازت دی ہے ، فرض میں نہیں۔‘‘ (بدایۃ المجتہد ، دارالباز ، مکۃ المکرمۃ : ۱۳۷۱)علامہ ابن عبد البر مالکی نے بیان کیا ہے کہ ’’امام مالک زندگی کے آخری لمحے تک ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے رہے۔‘‘ (فقہ السنۃ ، السید سابق، دارالفکر ، بیروت :۱۲۳۱)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنے کا کیا حکم ہے ؟ فقہاء ثلاثہ اسے مسنون کہتے ہیں ، جبکہ امام مالک مندوب قرار دیتے ہیں۔

()

جواب: قرآن کریم میں ہے :اِنَّ الصَّلٰوۃ کَانَت عَلَی المْومِنِینَ کِتٰبًا مَوقْوتَا (النساء: ۱۰۳)’’نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان پر نمازیں ان کے اوقات میں فرض کی گئی ہیں۔ کسی نماز کو اس کا وقت شروع ہونے سے پہلے نہیں پڑھا جاسکتا اوراگر اس کے وقت میں اسے ادا نہیں کیا جائے گا تووہ قضا ہوجائے گی۔یہ بات درست ہے کہ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ بغیر کسی عذر کے حضر میں دونمازیں جمع کی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بغیر خوف اور بغیر سفر کے، ظہر اورعصر کی نمازیں اکٹھی پڑھیں۔ اس موقع پر آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی اکٹھی پڑھی تھیں۔‘‘ ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے سعیدسے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے فرمایا : آپ چاہتے تھے کہ میری امت میں سے کوئی شخص مشقت میں نہ پڑے۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین ، باب الجمع بین الصلوٰتین فی الحضر ) صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ’سفر ‘کی جگہ ’بارش‘ کا لفظ ہے۔اس حدیث سے حضر میں جمع بین الصلوٰتین پر استدلال کرتے وقت یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ حضرت ابن عباسؓ نے صرف ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کی روایت کی ہے۔پوری حیاتِ طیبہ میں کسی اور موقع پر آپ سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ خود اس حدیث کے راوی حضرت ابن عباس سے ثابت نہیں ہے کہ وہ حضر میں جمع بین الصلوٰۃ کرتے تھے۔البتہ حضرت ابن عباس نے کم از کم ایک بار مدینہ میں رہتے ہوئے مغرب اورعشاء کی نمازوں کو جمع کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک موقع پر کسی شدید ضرورت کے تحت ایسا کیا تھا ،ورنہ آپ نمازوں کو ان کے اوقات پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔

()

جواب : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَن صَلّٰی عَلٰی جَنَازٍَۃ فِی المَسجِدِ فَلَیسَ لَہْ شَئی (ابن ماجہ : ۷ا۸ا۔علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔) ’’جس شخص نے مسجدمیں نماز جنازہ پڑھی، اسے کچھ اجر نہیں ملے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد نبوی کے باہر ایک جگہ نماز جنازہ کے لیے متعین کردی گئی تھی۔ وہیں آپ نماز پڑھایا کرتے تھے۔ بہت سی احادیث میں اس کا تذکرہ موجودہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ جگہ مسجد نبوی سے متصل مشرقی جانب تھی۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، المکتبہ السلفیہ ، ۳۰،۹۹ا)اس بنا پر بہتر یہ ہے کہ عام حالات میں سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے نماز جنازہ مسجد کے باہرادا کی جائے۔ لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں بعض مواقع پر مسجد میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں:
لَقَد صَلّٰی رَسْولْ اللہِ صَلّٰی اللہْ عَلَیہِ وَسَلَّمَ عَلَی ابنَی بَیضَاءَ فِی المَسجِدِ(مسلم : ۹۷۳، ابوداؤد : ۸۹ا۳، ترمذی : ۰۳۳ا، نسائی : ۹۶۸ا)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں اداکی۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمر فاروق کی نماز جنازہ بھی مسجد میں ادا کی گئی۔ (مصنف عبدالر ز اق : ۶۵۷۶،موطا امام مالک : ۹۶۹)
اسی بنا پر امام بخاری نے یہ ترجمۃ الباب قائم کیا ہے : باب الصلاٰۃ علی الجنائز بالمصلیٰ وبالمسجد (اس چیز کا بیان کہ جنازہ گاہ اور مسجد دونوں جگہ نماز جنازہ اداکی جاسکتی ہے)
علامہ ناصر الدین البانی نے لکھا ہے : ’’مسجد میں نماز جناز ہ جائز ہے ( بہ طور دلیل انہوں نے کئی حدیثیں نقل کی ہیں، لیکن افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں ادا کی جائے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معمول تھا۔‘‘ (احکام الجنائز ، ص ۵۳۱)
فقہامیں امام شافعی اورامام احمدکے نزدیک اگر مسجد میں گندگی ہونے کا اندیشہ نہ ہوتو وہاں نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ امام مالک کے نزدیک مسجد میں جنازہ کولے جانا مکروہ ہے ، البتہ اگروہ مسجد کے باہر رکھا ہو تومسجد میں موجودہ افراد اس کی نماز میں شریک ہوسکتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جس مسجد میں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے اس میں جنازہ کی نماز پڑھنی مکروہ ہے ، خواہ جنازہ اورنمازی دونوں مسجد میں ہوں ،یا جنازہ مسجد سے باہر اورنمازی مسجد کے اندر ہوں، یا جنازہ مسجد میں اور نمازی مسجد کے باہر ہو ں۔ البتہ بارش یا کسی دوسرے عذر کی بناپر مسجد میں نماز جنازہ بلا کراہت جائز ہے (الفتاویٰ الہندیۃ: ۱،۶۲ا فتاویٰ شامی :۱،۹ا۶۔)
اس موضوع پر تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: الموسوعۃالفقہیۃ کویت :۶ا،،۳۶۔۳۵

(ابو یحییٰ)

جواب :اگر کوئی شخص نماز عید کی جماعت میں نہ پہنچ سکا تو اکیلے اس کی قضاء نہیں پڑھ سکتا، البتہ اگر گھر لوٹ کر چار رکعت نفل پڑھ لے تو بہتر ہے۔

()

ج133 اگر امام تکبیرات سے فارغ ہوچکا ہو، خواہ قرآت شروع کی ہو یا نہ کی ہو، بعد میں آنے والا مقتدی تکبیرِ تحریمہ کے بعد زائد تکبیریں بھی کہہ لے اور اگر امام رْکوع میں جاچکا ہے اور یہ گمان ہو کہ تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رْکوع میں شامل ہوجائے گا تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد کھڑے کھڑے تین تکبیریں کہہ کر رْکوع میں جائے، اور اگر یہ خیال ہو کہ اتنے عرصے میں امام رْکوع سے اْٹھ جائے گا تو تکبیرِ تحریمہ کہہ کر رْکوع میں چلا جائے، اور رْکوع میں رْکوع کی تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہہ لے، ہاتھ اْٹھائے بغیر، اور اگر اس کی تکبیریں پوری نہیں ہوئی تھیں کہ امام رْکوع سے اْٹھ گیا تو تکبیریں چھوڑ دے امام کی پیروی کرے، اور اگر رکعت نکل گئی تو جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رکعت پوری کرے گا تو پہلے قر?ت کرے، پھر تکبیریں کہے، اس کے بعد رْکوع کی تکبیر کہہ کر رْکوع میں جائے۔

()

ج133 اگر غلطی ایسی ہو کہ جس سے نماز فاسد نہیں ہوتی تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اور فقہاء نے لکھا ہے کہ عیدین میں اگر مجمع زیادہ ہو تو سجدہ سہو نہ کیا جائے کہ اس سے نماز میں گڑبڑ ہوگی۔

()

ج133 نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلیا جائے، بشرطیکہ پیچھے مقتدیوں کو معلوم ہوسکے کہ سجدہ سہو ہو رہا ہے، اور اگر مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے گڑبڑ کا اندیشہ ہو تو سجدہ سہو بھی چھوڑ دیا جائے۔

()

ج۔۔ نیت باندھ کر پہلے زائد تکبیرات کہہ لے۔ امام کو رکوع میں پایا تو اگر رکوع نکل جانے کا اندیشہ نہ ہو تو پہلے زائد تکبیرات کہے، پھر رکوع میں جائے اور اگر رکوع نکل جانے کا اندیشہ ہو تو تکبیرہ تحریم کہہ کر رکوع میں چلا جائے
اور ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع ہی میں تینوں تکبیرات کہہ لے اور رکوع کی تسبیح ’’سبحان ربی العظیم‘‘ بھی پڑھ لے، دونوں کا جمع کرنا ممکن نہ ہو تو صرف تکبیرات کہے، تسبیحات چھوڑ دے، تکبیرات واجب اور تسبیحات سنت ہیں، اگر تکبیرات پوری کہنے سے پہلے ہی امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا تو بقیہ تکبیرات چھوڑ کر امام کا اتباع کرے۔
اگر امام کو دوسری رکعت میں پایا تو بعینہ وہی تفصیل ہے جو اوپر درج کی گئی۔ البتہ امام کے سلام کے بعد جب فوت شدہ رکعت ادا کرے گا تو پہلے قراء ت کرے، پھر تکبیرات کہے۔ 
اگر کسی کی دونوں رکعتیں نکل گئیں، سلام سے پہلے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر حسب قاعدہ دونوں رکعتیں پڑھے اور تکبیرات اپنے اپنے مقام پر یعنی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد قراء ت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قراء ت کے بعد رکوع سے پہلے کہے۔ 
دوسری رکعت میں تکبیرات کو قراء ت سے موخر کرنا واجب نہیں: 
دوسری رکعت میں تکبیرات زائدہ کو قراء ت سے موخر کرنا اولی ہے، واجب نہیں۔

 

()

ج133 عید کا خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے، دْعا بعض حضرات نماز کے بعد کرتے ہیں اور بعض خطبہ کے بعد، دونوں کی گنجائش ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور فقہائے اْمت سے اس سلسلے میں کچھ منقول نہیں۔
 

()

ج 133 133 اگر کئی آدمیوں کی نماز عید رہ گئی تو وہ کسی دوسری مسجد یا عید گاہ میں جہاں پہلے عید کی نماز نہ ہوئی ہو اپنی الگ جماعت کر کے نماز عید پڑھ سکتے ہیں، ایسی مسجد یا عید گاہ نہ ملے تو کسی دوسری جگہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

()

جواب:۔ نماز میں تشھد پڑھتے ہوئے انگلی اٹھا نا متعدد شرعی نصوص سے ثابت ہے،اسی وجہ سے اس پر امت کا تسلسل کے ساتھ عمل چلا آرہا ہے ، حدیث اور فقہ کی تقریباً ہر کتاب میں اس کا ثبوت اور سنت ہونا واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔اس سلسلے میں اگر کسی قسم کا شک وشبہ بھی اگر کبھی پیدا ہوا ہو تو اس کا جواب بھی تفصیلی طور پر دیا گیا ہے،علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ٹھوس وقیع رسالہ بھی تحریر فرمایا ہے،جس کا نام’’نورالعینین فی اثبات الاشارۃ فی التشھدین‘‘رکھا ہے،یہ رسالہ اگرچہ تاحال طبع نہیں ہوا مگر ہمارے پاس اس کا مخطوطہ موجود ہے،اور اس پر تحقیق و تخریج ہو چکی ہے ،رسالہ عربی زبان میں ہے، اہل علم کے فائدے کے لیے طباعت کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ہم یہاں پر ترمذی شریف کی ایک رویت نقل کرنے پر اکتفاکرتے ہیں ’’حضرت عباس بن سہل الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوحمید،ابواسید،سہل بن سعداور محمد بن مسلم رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا ،تو ابوحمید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں،بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے (یعنی تشھد کے لیے) اور انہوں نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا اور دائیں پاؤں کا اگلا حصہ قبلہ رخ فرمایا اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پر رکھی اور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر،اور اپنی انگلی سے اشارہ کیا (یعنی شھادت والی انگلی سے اشارہ کیا)۔امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(ترمذی شریف :38۔1)
مزید تفصیل کے لیے اہل علم حضرات اعلاالسنن،سنن ابی داؤد،سنن نسائی،سنن ابن ماجہ،بدائع الصنائع اور فتاویٰ شامی کی متعلقہ مباحث میں تفصیلات ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
ا

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:1۔ صورت مسؤلہ میں دفتر میں اکیلے نماز پڑھے تواذان و اقامت مستحب ہے البتہ دونوں کے بغیر بھی نماز جائز ہوجائے گی۔
2۔ وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ سوائے مغرب کے اور نمازوں میں کچھ تاخیرکرنامستحب ہے۔
3۔خواتین اذان ہوتے ہی نماز پڑھ لیا کریں، جماعت ہوجانے کا انتظارکرنا ضروری نہیں۔
4۔ فوت شدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو غالب گمان پر عمل کریں اگر کوئی غالب رائے نہ بنتی ہوتوپھر اتنی قضا نمازیں پڑھیں کہ یقین ہوجائے کہ اب کو ئی نماز ذمے باقی نہیں ہوگی۔
5۔عین طلوع،عین غروب اور دن کے بالکل بیچ کے وقت میں جس کو نصف النھار کہتے ہیں کوئی نماز،سجدہ تلاوت ،نماز جنازہ وغیرہ جائز نہیں سوائے اس دن کی عصرکی نمازکے،وہ غروب کے وقت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :مسجد میں نماز کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں پر جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ اگر دینا چاہیں تو بغیر آواز کے جواب دے سکتے ہیں
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :لفظ " ض" کو صحیح ادا کرنے کے لیے ماہرِ تجوید قاری کی ضرورت ہوتی ہے ،اس کا صحیح فرق براہِ راست مشق ہی سے سمجھا جا سکتا ہے ،البتہ عوام کو یہ معلوم ہونا کافی ہے کہ لفظ "ض" کی ادائیگی میں "ظ" کی آواز نکلے یا"د"کی دونوں صحیح ہیں اور دونوں طرح پڑھنے والوں کی نمازہو جاتی ہے یہ دونوں لفظ عربی کے ہیں ،نماز میں غیر عربی قرأت جائز نہیں ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:حدیث شریف میں ان دعاؤں کا پڑھنا ثابت ہے لہٰذا صورت مسؤلہ میں نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے الفاظ پڑھ سکتے ہیں ،اسی طرح سجدے میں سبحان ربی الاعلیٰ کے بعد اور تشہد کے آخر میں کوئی بھی دعایا ایک سے زائد دعائیں عربی زبان میں مانگ سکتے ہیں،البتہ اگر امام ہوتو پھر مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے مذکورہ دعائیں نہ مانگے تو کوئی حرج نہیں۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:1۔ بچوں کا پیشاب، پاخانہ دھلانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ 
2۔ اولاً تو اتنے چھوٹے بچوں کو جو مسجد اور نماز کے آداب سے واقف نہ ہوں مسجد لے جانا منع ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صراحۃً اس سے منع فرمایا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی پیمپر پہنے بچے کو گود میں اٹھا کر نماز پڑھتا ہے جب کہ اس پیمپر کے ناپاک ہونے کا یقین یا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ہوجائے گی۔ 

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب : لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ طلوعِ فجر تک عشا کا آخری وقت باقی رہتا ہے اگر کسی شخص نے عشا کی نماز نہیں پڑھی اور سوگیا پھر طلوعِ فجر سے پہلے پہلے عشاکی نماز پڑھ لے تو وہ نمازادا شمارہوگی ،قضا شمار نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ عشاکا آخری وقت ہے۔البتہ آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے اس لیے آدھی رات سے پہلے عشاکی نماز پڑھ لیا کرے تاکہ کراہت نہ ہو۔
 

()

جواب: اس میں اختلاف کی موجودگی تشویش ناک بات نہیں ہے رسولﷺْ نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے مجمع کے سامنے نمازیں پڑھیں اور مختلف انداز میں پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ رسول ﷺ نے نماز میں جس طرح سے بھی کیا اور جو جوبھی کیا وہ سب محفوظ رہے ۔ رسول ﷺ کی کوئی ادا ایسی نہ ہو جو مسلمانوں میں محفوظ نہ رہے اور مسلمانوں کا کوئی طبقہ اسے اختیار نہ کرے۔ رسولْﷺ بعض اوقات پوری پوری رات نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ پاؤں مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا۔ بعض اوقات مسجد نبویﷺ میں ظہر کے بعد طویل نوافل پڑھتے تھے۔ طویل نوافل میں جب آدمی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے تو بعض اوقات ہاتھ تھک جاتا ہے اور ہاتھ کو کھول کر نماز پڑھنے میںآرام ملتا ہے۔ تورسول ﷺ بھی طویل نمازوں میں کبھی کبھی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اب کسی نے دیکھا کہ حضور ﷺ دست مبارک چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ کبھی ہاتھ اوپر باندھ لیے اور تھک گئے توپھر نیچے باندھ لیے۔ نیچے تھک گئے تواوپر باندھ لیے ۔اس میں آرام مل جاتا ہے اس لئے اس میں نہ تو کسی جائز ناجائز کا مسئلہ ہے نہ اس میں کسی مکروہ اور مستحب کا مسئلہ ہے۔ ہر طرز عمل سنت ہے اور ان میں سے ہر طرز عمل جائز ہے ۔فقہا نے صرف یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان میں افضل کو ن سا ہے ۔کچھ لوگوں نے کہا کہ ہاتھ چھوڑ کر پڑھنا افضل ہے کچھ نے کہا ہاتھ باندھ کر پڑھنا افضل ہے ۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ سب سنت کا حصہ ہے اس لیے اس میں کسی تشویش کی کوئی بات نہیں مسلمان چودہ سو بر س سے نماز اسی طر ح پڑھ رہے ہیں آئندہ بھی پڑھیں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں آپ کا جی چاہے تو سورہ فاتحہ میں آمین اونچی آواز میں پڑھئے اور جی چاہے تو آہستہ پڑھئے۔ جی چاہے تو رفع یدین کریں اور جی چاہے تو نہ کریں سب سورتیں جائز ہیں سب سنت ہیں اور سب کا تعلق سنت سے ہے جس میں کوئی شک نہیں 
نہ یہ چیزیں مسلمانوں میں افتراق کا موجب ہیں نہ ان سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ حرم شریف میں جاکر دیکھیں لاکھوں افراد کئی کئی طریقوں سے نماز پڑھتے نظر آتے ہیں کوئی زور سے آمین کہتاہے کوئی آہستہ سے کہتا ہے سب ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور کوئی لڑتا نہیں۔ ہمارے ہاں ان امور کو اختلاف کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لڑنے کے اسباب اور ہیں ان کا آمین زور سے یا آہستہ کہنے سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی اس کا رفع یدین سے کوئی تعلق ہے ۔نماز کے اندر رفع یدین کرنے سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا ہاں نماز سے باہر رفع یدین کرنے پر جھگڑا ہوتاہے۔ جب جاہل اور متعصب لوگ ایک دوسرے پر رفع یدین کرتے ہیں اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب:نمازِ پنجگانہ کے اوقات مقرر ہیں۔ جب نماز کا وقت شروع ہو جائے تو نماز ادا کرسکتے ہیں، نماز کی ادائیگی کے لیے اذان سننا شرط نہیں۔ مگر اسے عادت نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اذان باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے دی جاتی ہے اور بلاوجہ باجماعت نماز ترک کرنا گناہ ہے۔(مفتی: محمد شبیر قادری)

(منہاج القرآن)

ج: حرام رزق کے ساتھ جو نماز پڑھی جاتی ہے، وہ اللہ کے ہاں مقبولیت نہیں پاتی، لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ انسان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے جس عمل کے ساتھ بھی دل کی گہرائی کے ساتھ چپکا ہوتا ہے، وہی عمل بالآخر دوسرے اعمال پر غلبہ پا لیتا ہے۔یہ بات تو ظاہر ہے کہ اس وقت اس شخص کی نماز سچے عابد کی نماز نہیں ہے، کیونکہ خدا کا سچا بندہ اپنے دل سے خدا کا فرماں بردار بھی ہوتا ہے، لیکن اگر یہ شخص اپنے جرائم کو آج یا آیندہ کسی وقت دل سے ناگوار جانتا، خود کو غلط قرار دیتا اور اللہ کے سامنے شرمندہ ہوتا رہتا ہے، گو یہ ابھی ان سے باز نہیں بھی آ رہا تو یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کی نماز اس کی بد اعمالیوں پر غلبہ پا لے، یہ توبہ کر لے اور اپنے اچھے انجام کو پہنچے۔ البتہ، اگر معاملہ برعکس ہوا تو پھر توقع بھی برعکس ہی کی ہے،کیونکہ ارشاد باری ہے:''البتہ جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیاتو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔'' (بقرہ2: 81)
یعنی انسان خواہ کیسا ہی نمازی یا روزے رکھنے اور حج کرنے والا کیوں نہ ہو، اگر اس نے کسی ایک برائی کو سچے دل کے ساتھ اس طرح سے چمٹ کر اختیار کر لیا کہ وہ برائی اس پر چھا گئی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیا تو اب اس کی سب نیکیاں برباد ہو جائیں گی اور وہ جہنم میں جائے گا۔

(محمد رفیع مفتی)

ج- حدیث کے جو الفاظ آپ نے نقل کئے ہیں، وہ تو مجھے نہیں ملے، البتہ اس مضمون کی متعدّد احادیث مروی ہیں، ایک حدیث میں ہے:
ترجمہ:- ‘‘جس شخص نے تین جمعے محض سستی کی وجہ سے، ان کو ہلکی چیز سمجھتے ہوئے چھوڑ دئیے، اللہ تعالیٰ اس کے دِل پر مہر لگادیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘لوگوں کو جمعوں کے چھوڑنے سے باز آجانا چاہئے، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دِلوں پر مہر کردیں گے، پھر وہ غافل لوگوں میں سے ہوجائیں گے۔’’
ایک اور حدیث میں ہے:‘‘جس شخص نے بغیر ضرورت اور عذر کے جمعہ چھوڑ دیا اس کو منافق لکھ دیا جاتا ہے، ایسی کتاب میں جو نہ مٹائی جاتی ہے، نہ تبدیل کی جاتی ہے۔’’
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:‘‘جس شخص نے تین جمعے پے درپے چھوڑ دئیے، اس نے اسلام کو پسِ پشت پھینک دیا۔’’
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا ترک کردینا بدترین گناہِ کبیرہ ہے، جس کی وجہ سے دِل پر مہر لگ جاتی ہے، قلب ماؤف ہوجاتا ہے اور اس میں خیر کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہتی، ایسے شخص کا شمار اللہ تعالیٰ کے دفتر میں منافقوں میں ہوتا ہے، کہ ظاہر میں تو مسلمان ہے، مگر قلب ایمان کی حلاوت اور شیرینی سے محروم ہے، ایسے شخص کو اس گناہِ کبیرہ سے توبہ کرنی چاہئے اور حق تعالیٰ شانہ سے صدقِ دِل سے معافی مانگنی چاہئے۔
اوور ٹائم کی خاطر جمعہ کی نماز چھوڑنا 

()

ج- وہاں جمعہ اگر نہیں ہوتا تو کسی اور جامع مسجد میں چلے جایا کیجئے، جمعہ چھوڑنا تو بہت بڑا گناہ ہے، تین جمعے چھوڑ دینے سے دِل پر منافقت کی مہر لگ جاتی ہے۔ محض معمولی لالچ کی خاطر اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرنا ضعفِ ایمان کی علامت اور بے عقلی کی بات ہے۔ کمپنی کے اربابِ حل و عقد کو چاہئے کہ جمعہ کی نماز کے لئے چھٹی کردیا کریں۔
بڑے گاؤں میں جمعہ فرض ہے، پولیس تھانہ ہو یا نہ ہو

 

()

س- ہمارا ایک قریہ ہے جس نام کربلا ہے، جس کی آبادی تقریباً دس ہزار پر مشتمل ہے، جس میں نو مسجدیں بھی ہیں، چار مسجدیں تو اتنی بڑی ہیں کہ ایک وقت پر تقریباً ڈیڑھ سو افراد ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، اور اس قریہ میں ضروریاتِ زندگی کا سامان ہر وقت مل سکتا ہے۔ ہائی اسکول، پرائمری اسکول، ڈاک خانہ، اسپتال، ٹیلیفون، بجلی، غرض یہ سب چیزیں موجود ہیں، مدرسہ بھی ہے، جس میں تقریباً بڑے چھوٹے تقریباً۳۰۰ طلبہ پڑھ رہے ہیں، لیکن یہاں پر جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، ہمارے یہاں سے تقریباً آٹھ میل کی مسافت پر ضلع پشین میں جمعہ کی نماز باقاعدہ ہوتی ہے۔ علمائے دین نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ یہاں پر جمعہ پڑھنا واجب ہے۔ فتویٰ جن علماء نے دیا ہے ان کے نام یہ ہیں: مفتی عبدالحق صاحب اکوڑہ خٹک، مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم کورنگی، مفتی زین العابدین فیصل آباد، مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کراچی۔ مقامی علمائے دین فتویٰ کو نہیں مانتے۔ ہمارے علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہاں پر پولیس تھانہ نہیں ہے، اور اس طرح جمعہ آس پاس گاؤں والوں پر واجب ہوجائے گا، اور اگر آپ لوگ کوئی بھی یہاں جمعہ پڑھوگے تو آس پاس کے گاؤں والے جھگڑا کریں گے۔ اب بتائیں کہ کیا اس قریہ میں جمعہ پڑھنا ضروری ہے؟

ج- اگر آپ کے مقامی علماء ، اتنے بڑے بڑے علماء کے فتویٰ کو نہیں مانتے تو مجھ طالبِ علم کی بات کب مانیں گے؟ تاہم ان سے گزارش ہے کہ اس قصبے میں جمعہ فرض ہے، اور وہ ایک اہم فرض کے تارک ہو رہے ہیں، اگر تھانہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کو جھگڑے کا شبہ ہے تو اس کا حل تو بہت آسان ہے، اس سلسلے میں گورنمنٹ سے استدعا کی جاسکتی ہے کہ یہاں ایک پولیس چوکی بٹھادی جائے، بہرحال تھانے کا وہاں موجود ہونا صحتِ جمعہ کے لئے شرطِ لازم نہیں۔
 

()

ج-8 جمعہ کی نماز تو صحیح ہے، لیکن اگر امام پنج گانہ نمازیں نہ پڑھائے تو اہلِ محلہ کا فرض ہے کہ ایسے امام کو برطرف کردیں، اور کوئی ایسا امام تجویز کریں جو پانچ وقت کی نماز پڑھایا کرے، مسجد میں پانچ وقت کی اذان و جماعت مسجد کا حق ہے، اور اس حق کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے تمام اہلِ محلہ گناہگار ہیں

()

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف ایک تھی، یعنی اذانِ خطبہ، دْوسری اذان جو جمعہ کا وقت ہونے پر دی جاتی ہے، اس کا اضافہ سیّدنا عثمان بن عفان خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، قرآنِ کریم میں جمعہ کی اذان پر کاروبار چھوڑ دینے اور جمعہ کے لئے جانے کا حکم فرمایا، صحیح تر قول کے مطابق یہ حکم پہلی اذان سے متعلق ہے، لہٰذا پہلی اذان پر جمعہ کے لئے سعی واجب ہے، اور جمعہ کی تیاری کے سوا کسی اور کام میں مشغول ہونا ناجائز اور حرام ہے۔

()

ج- جمعہ کے دن مردوں کے لئے جمعہ کی نماز ظہر کے قائم مقام ہے، اس لئے وہ صرف جمعہ پڑھیں گے، ظہر نہیں پڑھیں گے۔ عورتوں پر جمعہ کی نماز فرض نہیں، ان کو حکم ہے کہ وہ اپنے گھر پر صرف ظہر کی نماز پڑھیں، اور اگر کوئی عورت مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کی یہ نمازِ جمعہ بھی ظہر کے قائم مقام ہوگئی۔ خلاصہ یہ کہ جمعہ اور ظہر دونوں کو ادا کرنے کا حکم نہیں، بلکہ جس نے جمعہ پڑھ لیا، اس کی ظہر ساقط ہوگئی۔

()

ہماری قدیم کتبِ فقہ میں لکھا تھا: مکہ الگ مقام ہے، منیٰ و عرفات و مزدلفہ الگ مقامات ہیں، لہٰذا جب حجاجِ کرام ۸ ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے مِنیٰ کی طرف جائیں گے تو اگر کوئی حاجی اس سے پہلے مکہ میں پندرہ دن کے لیے مقیم نہیں تھا، تو وہ مسافر ہوگا اور ان مقامات پر قصر نماز پڑھے گا۔ لیکن اب چونکہ بلدیہ مکۃ المکرمہ کی حدود وسیع ہو چکی ہیں اور منیٰ و عرفات و مزدلفہ حدودِ بلدیہ میں آچکے ہیں، لہٰذا اب یہ مکہ مکرمہ میں شامل ہیں اور الگ مقامات نہیں ہیں۔ مکہ مکرمہ میں رہنے والے علمائے کرام نے اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا، لہٰذا ہم نے یہ فتویٰ دیا: ‘‘اگر حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام، ایامِ حج میں منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں قیام اور بعدالحج مکہ مکرمہ میں قیام کی مجموعی مدت کم از کم پندرہ دن یا اس سے زیادہ بنتی ہو تو ان تمام دنوں میں وہ پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ اس پر سفرکا نہیں، بلکہ اِقامت کا حکم عائد ہوگا۔ پاک و ہند کے کئی علماء نے اس رائے کو اختیار کیا ہے۔
ہمارے مفتیانِ کرام میں سے علامہ مفتی محمد رفیق حسنی صاحب نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا ہے اور انہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے استفسار کے جواب میں سابق امامِ حرم شیخ عبداللہ بن سبیل کے مندرجہ ذیل مکتوب کاحوالہ دیا ہے: ‘‘ہمارے لیے جو ظاہر ہے وہ یہ کہ آج جب کہ مکہ مکرمہ کی عمارات نے منیٰ کی حدود کا احاطہ کر لیا ہے اور وہ عرفات تک پھیل گئی ہیں، اس بنا پر منیٰ عرفات وغیرہ مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے، سو مکہ سے منیٰ جانے والے کو مسافر شمار نہیں کیا جاتا، اس بنا پر حاجی کے لیے جائز نہیں ہے کہ منیٰ میں قصر کرے اور نہ اس کے لیے عرفات میں نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے، یہ مسئلہ اُن علماء کی رائے کے مطابق ہے جو یہ کہتے ہیں کہ منیٰ میں قصر کی علّت مسافر ہونا ہے، کیونکہ منیٰ جانے والا حدودِ مکہ سے خارج نہیں ہوا۔ البتہ جن علماء کا کہنا یہ ہے کہ منیٰ وغیرہ میں قصر ایک مستقل عبادت ہے، جیسا کہ مالکیہ کا مذہب ہے، سو آپ پر مخفی نہیں کہ حکم ثابت ہے۔ رہا آپ کا یہ سوال کہ آیا سعودی عرب کی حکومت ان دونوں مقامات کے ساتھ ایک شہر جیسا معاملہ کرتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ منیٰ مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے، صرف اتنی بات ہے کہ حکومت کا منیٰ میں عمارتیں بنانے سے منع کرنا مصلحتِ عامہ کی بنا پر ہے، کیونکہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ کا مالک ہو اور منیٰ و دیگر مَشاعر (مزدلفہ وعرفات) میں سے کوئی شے اس کے ساتھ خاص ہو، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: منیٰ ہر اس شخص کے لیے جائے قرار ہے جو پہلے وہاں پہنچے’’۔ علامہ علی القاری نے لکھا ہے: ‘‘مالکیوں کا مذہب یہ نہیں ہے کہ قصر فی نفسہٖ عبادت ہے، بلکہ اُن کا مذہب یہ ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا نُسُک ہے اور یہ سفر کے ساتھ خاص نہیں ہے، غیرِ مسافر بھی عرفہ میں نمازیں جمع کر سکتا ہے’’۔
مفتی محمد شریف الحق امجدی لکھتے ہیں: ‘‘جو لوگ مکہ معظمہ میں حج کی نیت سے حاضر ہوں اور بشمول منیٰ و عرفات مکہ معظمہ میں بلکہ حج کے بعد کے ایام بھی ملا کر پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتے ہوں، تو وہ مکہ معظمہ میں بھی قصر پڑھیں گے اور منیٰ وغیرہ میں بھی اور جو حضرات ان تمام ایام یعنی ایامِ حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام، ایامِ حج اور حج کے بعد مکہ مکرمہ میں قیام کے ایام کو ملا کر مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کا ارادہ رکھتے ہوں، وہ مکہ معظمہ میں بھی پوری نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ہر جگہ پوری پڑھیں گے۔ (نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج:2،ص: 650،بتصرف)’’۔

(مفتی منیب الرحمان)

ج۔ میاں بیوی جب انفرادی نماز پڑھ رہے ہوں تو اس کے لیے کوئی خاص شرائط نہیں ہیں، نہ شوہر کا آگے ہوکر کھڑا ہونا ضروری ہے اور نہ ہی قریب ہوکر نماز پڑھنے سے نماز فاسد ہوتی ہے، خواہ جسم بھی آپس میں مس کررہے ہوں یا نہ ہوں، معمول کے مطابق نماز پڑھی جائے گی۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ فرض نماز کی اس طرح سے ادائیگی درست نہیں۔ گاڑی کو کسی جگہ روک کر رکوع سجدہ کا اہتمام کرتے ہوئے نماز پڑھنے سے نماز کا ذمہ ادا ہوگا۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے لیے پوری زمین کو مثل مسجد نماز پڑھنے کی جگہ بنادیا ہے، کسی بھی پاک جگہ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

ج۔ سائل کا جب اپنی جائے اقامت سے 78 کلو میٹر یا اس سے زائد سفر کا ارادہ ہو تو حدود شہر سے نکلنے کے بعد دوران سفر:

  1. چار رکعت والی فرض نماز قصر کرکے دو رکعت پڑھنی ہوں گی۔
  2. فجر کے علاوہ بقیہ نمازوں کی سنتیں پڑھنے کے بارے میں اختیار ہے، پڑھیں تو ثواب اور نہ پڑھیں تو کوئی گناہ نہیں ہے
  3. وتر بہرحال پڑھنا واجب ہے۔
  4. فجر کی سنتیں بھی بہرصورت ادا کرنے کا حکم ہے۔
  5. روزہ کے بارے میں اختیار ہے کہ چاہے دوران سفر رکھیں اور چاہے تو سفر کے بعد دوران سفر رہ جانے والے روزوں کی قضاکرلیں، البتہ دوران سفر رکھنا افضل ہے۔

یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت نہ ہو۔ اگر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کی نیت کرلی تو پھر تمام نمازیں مکمل پڑھی جائیں گی اور روزہ رکھنا بھی ضروری ہوگا۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

جواب :اصل میں احناف کا نقطہ نظر جس بنا پر قائم ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نمازنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے اور روزانہ پانچ مرتبہ پڑھی ہے اور جو عمل سب کے سامنے ہوا ہو اس کے بارے میں خبر واحد سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح پانچ نمازوں کے معاملے میں خبر واحد کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسی طرح نماز کے ظاہری اعمال میں بھی اس کی حیثیت نہیں ہے۔ احناف عین صحابہ کے متصل زمانے میں کام کر رہے تھے اور اگر رفع یدین نماز کا معمول بہ حصہ ہوتا تو احناف اتنی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ کہ اس زمانے میں احناف سے اس معاملے میں اختلاف کرنے والے بھی عمل متواتر اور جاری نماز کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ اخبار آحاد پیش کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہی نتیجہ نکلتا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : فقہا کے نزدیک بحث کا انحصار ستر کے تعین پر ہے۔ نماز میں نمازی کے لیے ستر ڈھانپنا واجب ہے۔ عورت اور مرد کے ستر میں فرق ہے۔ عام فقہا کے نزدیک عورت کا ستر ہاتھ اور چہرا چھوڑ کر باقی سارا جسم ہے۔وہ قرآن مجید کی آیت ‘ولا یبدین زینتہن الا ما ظہر’(عورتیں اپنی زینتیں ظاہر نہ کریں سوائے ان کے جو آپ سے آپ ظاہر ہوں)سے استدلال کرتے ہیں ۔‘الا ما ظہر’ کا اطلاق ان کے نزدیک ہاتھوں اور چہرے پر ہوتا ہے۔عورتوں کے ضمن میں آپ ؐنے فرمایا:

عن عائشۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال:لا یقبل اللہ صلوٰۃ حائض الا بخمار۰(ابوداؤد، رقم۵۱۶)

 ‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی دوپٹے کے بغیر بالغ عورت کی نماز قبول نہیں کرتے۔’’اسی طرح آپؐ کا ارشاد ہے:

عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا انہا سألت النبی صلی اللہ علیہ وسلم أتصلی المرأۃ فی درع وخمار لیس علیہا أزار؟ قال: إذا کان الدرع سابغا یغطی ظہور قدمیہا۰(ابوداؤد، رقم۶۴۰)

 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت قمیص اور دوپٹے کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا: صرف اس صورت میں جب لمبی قمیص نے پاؤں کی پشت کو ڈھانپا ہوا ہو۔’’ان روایات سے وہ کم از کم اہتمام معلوم ہوتا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔غرض یہ کہ عورت شایستہ اور مناسب لباس پہن کر نماز پڑھے۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ آپ کی اہلیہ کی نماز کے ادا ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے فقہا کا رجحان یہ ہے کہ جس لباس اور جس اخفائے زینت کا تقاضا اللہ تعالی نے مردوں کے سامنے آنے پر کیا ہے وہی اہتمام نماز میں بھی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ۔یہ بات لازم تو نہیں کی جا سکتی لیکن اگر اس کا اہتمام کیا جائے تو یقینا پسندیدہ ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :نماز کی اصل ہیئت کے جس قدر قریب ہوں اتنا ہی اچھا ہے۔ بیماری اور تکلیف میں رخصت کا مطلب صرف یہ ہے کہ نماز کے وقت پر ہر حال میں نماز پڑھی جائے اور کسی مجبوری کو اس راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔ ہیئت میں رخصت کتنی ہے یہ بات طے نہیں کی گئی۔ نمازی کی معذوری، حالات اور مزاج کے فرق کی وجہ سے یہ اسی پر چھوڑنا بہتر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ آپ والی مثال لے لیں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا کہاں ہے: گھر میں ہے؟ مسجد میں ہے؟ سفر میں ہے؟ کسی کا ہاں مہمان ہے؟ کتنا جھک سکتا ہے؟ کرسی کون سی دستیاب ہے؟ مراد یہ ہے کہ ہر ہیئت اور حالات میں نماز کی اصل ہیئت سے قربت کی صورت بدل جائے گی۔ چنانچہ نمازی ، اس کی بیماری اور دستیاب حالات تینوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ ہو گا کہ نماز ادا کرنے کی بہتر صورت کیا ہوگی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :باجماعت نماز اور مسجد کی حاضری نماز کے اجر کو بڑھانے والی چیز ہیں۔ اس میں کوتاہی نماز کے اجر کو کم کرنے والی چیز ہے۔ جس طرح کی مصروفیات آپ کو نماز باجماعت سے محروم کر دیتی ہیں انھی سے پیچھا چھڑا کر جماعت میں شریک ہونا وہ مجاہدہ ہے جو ازدیاد اجر کا باعث ہے۔ اس لیے کوشش یہی کرنی چاہیے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انفرادی نماز قبول نہیں ہوتی۔ البتہ آدمی اجر کے ایک بڑے حصے سے محروم ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز سے غفلت جو وبال کا باعث بنے گی یا نماز کی عدم قبولیت کی وجہ بن سکتی ہے وہ نماز کو بے وقت پڑھنا۔ نماز میں اہتمام اور خوبی کے پہلو کا نہ ہونا اور ان اخلاق کی عدم موجودگی ہے جو ایک نمازی میں ہونے چاہئیں۔سورہ ماعون میں یہی غفلت مراد ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی آنکھ ہی اس وقت کھلی ہے جب سورج طلوع ہو چکا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ یہ نماز ‘‘ادا نماز’’ قرار پائے گی ۔ دوسری یہ کہ نماز سستی اور غفلت کی وجہ سے رہ گئی ۔ اس صورت میں یہ نماز قضا ہوگی۔ مکمل نماز سے غالباًآپ کی مراددو سنت اوردوفرض یعنی چار رکعت پڑھنا ہے۔ دو سنت اصل میں نفل نماز ہے اور احناف اسے سنت اس لیے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مداومت کے ساتھ پڑھے ہیں۔ بہرحال ان کا پڑھنا دونوں صورتوں میں لازم نہیں ہے ۔ لیکن ان کی ادائی کا اجر بہت زیادہ ہے اس لیے دونوں صورتوں ہی میں اسے پڑھنا افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی یہی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس معاملے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قضا نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ دوسری یہ کہ اس کوتاہی پر خدا سے توبہ کرنی چاہیے۔آئندہ نمازوں میں پابندی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا فورا ازالہ کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ایک اندازہ قائم کرکے قضا نمازیں پڑھ لینی چاہئیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مشورہ یہ ہے کہ سنن کی جگہ اگر یہ نمازیں پڑھ لی جائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالی دونوں کا اجر ادا کر دیں گے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: میں نے ریاض السنہ کا متعلقہ حصہ دیکھا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصر اور فجر کی نماز کی طرف خصوصی توجہ دلانا مقصود ہے۔ اگر روایات کو اسی معنی میں سمجھا جائے تو یہ بات درست ہے اس لیے کہ یہ دونوں نمازیں زیادہ غفلت کا شکار ہو تی ہیں۔ آپ نے روایات سے جو معنی اخذ کیے ہیں الفاظ کی حد تک ان کی نفی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن پانچ نمازیں جس قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں اور ان کی فرضیت جس طرح ہر شک وشبے سے بالا ہے ’روایت کے یہ معنی قطعی طور پر ناقابل قبول ہیں۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم راوی کو قصور وار ٹھہرائیں کہ اس نے بات صحیح طریقے سے بیان نہیں کی۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اصل میں احناف کا نقطہ نظر جس بنا پر قائم ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نمازنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے اور روزانہ پانچ مرتبہ پڑھی ہے اور جو عمل سب کے سامنے ہوا ہو اس کے بارے میں خبر واحد سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح پانچ نمازوں کے معاملے میں خبر واحد کی کوئی حیثیت نہیں ہیپر اسی طرح نماز کے ظاہری اعمال میں بھی اس کی حیثیت نہیں ہے۔ احناف عین صحابہ سے متصل زمانے میں عمل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر رفع یدین نماز کا معمول بہ حصہ ہوتا تو احناف اتنی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آج بھی احناف سے اس معاملے میں اختلاف کرنے والے عمل متواتر اور جاری نماز کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ اخبار آحاد پیش کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہی نتیجہ نکلتا ہے جو آپ نے غامدی صاحب کے حوالے سے بیان کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج- سنتِ غیرموکدہ اور نفل قریب قریب ہیں، ان میں کوئی زیادہ فرق نہیں، البتہ یہ فرق ہے کہ سننِ غیرموکدہ منقول ہیں، اس لئے ان کا درجہ بطورِ خاص مستحب ہے، اور دْوسرے نوافل منقول نہیں، اس لئے ان کا درجہ عام نفلی عبادت کا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- رات کی سنتوں اور نفلوں میں اختیار ہے کہ خواہ آہستہ پڑھے یا جہراً پڑھے، اس لئے رات کی سنتوں اور نفلوں میں جہراً پڑھنے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، دن کی سنتوں اور نفلوں میں جہراً پڑھنا دْرست نہیں، بلکہ آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اور اگر بھول کر تین آیتیں یا اس سے زیادہ پڑھ لیں تو سجدہ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ سجدہ سہو واجب ہونا چاہئے اور یہی احتیاط کا مقتضا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- آپ کی خالہ اور نانی غلط کہتی ہیں، یہ لوگوں کی اپنی ایجاد ہے کہ تمام نمازوں میں وہ پوری نماز کھڑے ہوکر پڑھتے ہیں، مگر نفل بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ نفل بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے سے ثواب آدھا ملتا ہے، اس لئے نفل کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- یہ حدیث جس کا آپ کے بھائی جان نے حوالہ دیا ہے، صحیح ہے، اور اس حدیث شریف کی بنا پر سنن و نوافل کا گھر پر ادا کرنا افضل ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ گھر کا ماحول پْرسکون ہو اور آدمی گھر پر اطمینان کے ساتھ سنن و نوافل ادا کرسکے، لیکن گھر کا ماحول پْرسکون نہ ہو، جیسا کہ عام طور پر آج کل ہمارے گھروں میں مشاہدہ کیا جاتا ہے، تو سنن و نوافل کا مسجد میں ادا کرلینا ہی بہتر ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- صبحِ صادق کے بعد سنتِ فجر کے علاوہ نوافل مکروہ ہیں، سنتوں سے پہلے بھی اور بعد بھی، اور جن صاحب نے یہ کہا کہ: ’’تہجد کے بعد اور فجر کی سنتوں سے قبل سجدہ ہی حرام ہے‘‘ یہ مسئلہ قطعاً غلط ہے، سنتِ فجر سے پہلے سجدہ تلاوت کرسکتے ہیں اور قضا نمازیں بھی پڑھ سکتے ہیں، ہاں! صبحِ صادق کے بعد سنتِ فجر کے علاوہ اور نوافل جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- بہت سی احادیث میں فجر اور عصر کے بعد نوافل کی ممانعت آئی ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان احادیث کی بنا پر حرم شریف میں بھی فجر و عصر کے بعد نوافل جائز نہیں، جو شخص ان اوقات میں طواف کرے، اسے دوگانہ طواف سورج کے طلوع اور غروب کے بعد ادا کرنا چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج-آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہجد کی نماز فرض تھی یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں، اور اختلاف کا منشاء یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب پنج گانہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی، اس وقت تہجد کی نماز سب پر فرض تھی، بعد میں اْمت کے حق میں فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی فرضیت منسوخ ہوگئی یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہوا۔ امام قرطبی اور علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اس کو ترجیح دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی فرضیت باقی نہیں رہی، اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی پابندی فرماتے تھے، سفر و حضر میں تہجد فوت نہیں ہوتی تھی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- تہجد پڑھنے کے لئے کسی عمر کی تخصیص نہیں، اللہ تعالیٰ توفیق دے ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئے، اپنی طرف سے تو اہتمام یہی ہونا چاہئے کہ تہجد کبھی چھوٹنے نہ پائے، لیکن اگر کبھی نہ پڑھ سکے تب بھی کوئی گناہ نہیں، ہاں! جان بوجھ کر بے ہمتی سے نہ چھوڑے اس سے بے برکتی ہوتی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- سوکر اْٹھنے کے بعد رات کو جو نماز پڑھی جائے وہ تہجد کہلاتی ہے، رکعتیں خواہ زیادہ ہوں یا کم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سے بارہ تک رکعتیں منقول ہیں، اور اگر آدمی رات بھر نہ سوئے، ساری رات عبادت میں مشغول رہے تو کوئی حرج نہیں، اس کو قیامِ لیل اور تہجد کا ثواب ملے گا، مگر یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں، اس لئے جن اکابر سے رات بھر جاگنے اور ذکر اور عبادت میں مشغول رہنے کا معمول منقول ہے، ان پر اعتراض تو نہ کیا جائے، اور خود اپنا معمول، اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق رکھا جائے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- تہجد کی نماز میں چار سے لے کر بارہ رکعتیں ہوتی ہیں، ان کے ادا کرنے کا کوئی الگ طریقہ نہیں، عام نفل کی طرح ادا کی جاتی ہیں۔ ہر رکعت میں تین بار سورہ اِخلاص پڑھنا جائز ہے، مگر لازم نہیں۔ جن لوگوں کے ذمہ قضا نمازیں ہوں، میں ان کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ تہجد کے وقت بھی نفل کے بجائے اپنی قضا نمازیں پڑھا کریں، ان کو انشاءاللہ تہجد کا ثواب بھی ملے گا اور سر سے فرض بھی اْترے گا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جو شخص آخرِ شب میں نہ اْٹھ سکتا ہو، وہ وتر سے پہلے کم از کم چار رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لیا کرے، انشاءاللہ اس کو ثواب مل جائے گا، تاہم آخرِ شب میں اْٹھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے، اس کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد دو رکعتیں، اور مغرب و عشاء کے بعد دو دو رکعتیں تو سنتِ موکدہ ہیں، ان کو نہیں چھوڑنا چاہئے، اور عشاء کے بعد وتر کی رکعتیں واجب ہیں، ان کو بھی ترک کرنے کی اجازت نہیں۔ باقی رکعتیں نوافل ہیں، اگر کوئی پڑھے تو بڑا ثواب ہے، اور نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں، ان کو ضروری سمجھنا صحیح نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- چونکہ مغرب کی نماز جلدی پڑھنے کا حکم ہے، اس لئے حنفیہ کے نزدیک مغرب سے پہلے نفل پڑھنا مناسب نہیں، گو جائز ہے، اس لئے خود تو نہ پڑھیں، مگر جو حضرات پڑھتے ہیں انہیں منع نہ کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- عشاء کی ضروری رکعتیں تو اتنی ہیں جتنی آپ نے لکھی ہیں، یعنی ۴ فرض، ۲ سنت اور تین وتر واجب، کل ۹ رکعتیں۔ عشاء سے پہلے سنتیں اگر پڑھ لے تو بڑا ثواب ہے، نہ پڑھے تو کچھ حرج نہیں، اور وتر سے پہلے دو، چار رکعت تہجد کی نیت سے بھی پڑھ لے تو اچھا ہے، لیکن نوافل کو ایسا ضروری سمجھنا کہ ان کی وجہ سے فرائض و واجبات بھی ترک کردئیے جائیں، بہت غلط بات ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- اگر جاگنے کا بھروسا ہو تو وتر، تہجد کی نماز کے بعد پڑھنا افضل ہے، اس لئے اگر صبحِ صادق سے پہلے وقت میں اتنی گنجائش نہ ہو کہ نوافل کے بعد وتر پڑھ سکے گا تو پہلے تہجد کے نفل پڑھے، اس کے بعد وتر پڑھے، اور اگر کسی دن آنکھ دیر سے کھلے اور یہ اندیشہ ہو کہ اگر نوافل میں مشغول ہوا تو کہیں وتر قضا نہ ہوجائیں تو ایسی صورت میں پہلے وتر کی تین رکعتیں پڑھ لے، پھر اگر صبحِ صادق میں کچھ وقت باقی ہو تو نفل بھی پڑھ لے، تہجد کی نماز کا ایک معمول تو مقرّر کرلینا چاہئے کہ اتنی رکعتیں پڑھا کریں گے، پھر اگر وقت کی وجہ سے کمی بیشی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ الحاجت کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ آدمی خوب اچھی طرح وضو کرے اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھے، نماز سے فارغ ہوکر حق تعالیٰ شانہ کی حمد و ثنا کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دْرود شریف پڑھے، مسلمانوں کے لئے دْعائے مغفرت کرے اور خوب توبہ، اِستغفار کے بعد یہ دْعا پڑھے:

لا الٰہ الا اللہ الحلیم الکریم سبحان اللہ رب العرش العظیم الحمد للہ رب العالمین، اسلک موجبات رحمتک ومنجیات امرک وعزائم مغفرتک والغنیمۃ من کل بر والسلامۃ من کل اثم لا تدع لی ذنبًا الا غفرتہ ولا ھمًّا الا فرجتہ ولا حاجۃ ھی لک رضًا الا قضیتھا یا ارحم الراحمین۔

اس کے بعد اپنی حاجت کے لئے خوب گڑگڑاکر دْعا مانگے، اگر صحیح شرائط کے ساتھ دْعا کی تو انشاء اللہ ضرور قبول ہوگی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- نہ وقت مقرّر ہے، نہ تعداد، البتہ مکروہ وقت نہیں ہونا چاہئے، اور تعداد دو رکعت سے کم نہیں ہونی چاہئے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- یہ نمازیں ظہر اور عصر سے پہلے پڑھنے میں تو کوئی اِشکال نہیں، البتہ فجر سے پہلے اور صبحِ صادق کے بعد سوائے فجر کی دو سنتوں کے اور نوافل پڑھنا دْرست نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- کوئی کام درپیش ہو، اس کی آسانی کی دْعا کرنے کے لئے شریعت نے ’’صلوٰۃ الحاجۃ‘‘ بتائی ہے، اور کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے توبہ کرنے کے لئے ’’صلوٰۃ التوبہ‘‘ فرمائی ہے، اور یہ نفلی نمازیں ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ظہر، عصر اور عشاسے پہلے پڑھ سکتی ہے، صبحِ صادق کے بعد سے نمازِ فجر تک صرف فجر کی سنتیں پڑھی جاتی ہیں، دْوسرے نوافل دْرست نہیں، سنتوں میں تحیۃ الوضو کی نیت کرلینے سے وہ بھی ادا ہوجائے گا، اور مغرب سے پہلے پڑھنا اچھا نہیں، کیونکہ اس سے نمازِ مغرب میں تاخیر ہوجائے گی، اس لئے نمازِ مغرب سے پہلے بھی تحیۃ الوضو کی نماز نہ پڑھی جائے، بہرحال اس مسئلے میں مرد و عورت کا ایک ہی حکم ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- اگر کوئی شخص مسجد میں جاتا ہے اور جماعت ہونے میں دو تین منٹ باقی ہیں، کیا وہ نفل تحیۃ الوضو پڑھے یا تحیۃ المسجد پڑھے؟

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- امام ابوحنیفہ کے نزدیک سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی فرض نماز ادا کرنے سے قبل نوافل پڑھنا اس وجہ سے مکروہ ہے کہ اس سے مغرب کی نماز میں تاخیر ہوتی ہے، ورنہ بذاتِ خود وقت میں کوئی کراہت نہیں، آپ کے یہاں چونکہ مغرب سے پہلے نوافل کا معمول ہے اور جماعت میں تاخیر کی جاتی ہے، اس لئے تحیۃ المسجد پڑھ لینے میں مضائقہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- شبِ برات میں اجتماعی نوافل ادا کرنا بدعت ہے، امام صاحب نے مشکوٰۃ شریف کا جو حوالہ دیا ہے، وہ ان کی غلط فہمی ہے، مشکوٰۃ شریف میں ایسی کوئی روایت نہیں جس میں شبِ برات میں نوافل باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب:نماز پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ساتر اور موزوں لباس پہنا ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ چیز معاشرے کے معروف پر مبنی ہیں۔ سر کا ڈھانکنا شرائط نماز میں شامل نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معاشرے کے معمول کا لباس پہنتے تھے۔ اگر کسی چیز کو اسوہ قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ بھی یہی ہے کہ معاشرے کے معروف کے مطابق رہن سہن اور طعام ولباس اختیار کیا جائے الا یہ کہ وہ دین کے کسی حکم کے منافی ہو۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کی آنکھ ہی اس وقت کھلی ہے جب سورج طلوع ہو چکا ہے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ یہ نماز ‘‘ادا نماز’’ قرار پائے گی ۔ دوسری یہ کہ نماز سستی اور غفلت کی وجہ سے رہ گئی ۔ اس صورت میں یہ نماز قضا ہوگی۔ مکمل نماز سے غالباًآپ کی مراد،دو سنت اوردوفرض یعنی چار رکعت پڑھنا ہے۔ دو سنت اصل میں نفل نماز ہے اور احناف اسے سنت اس لیے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مداومت کے ساتھ پڑھے ہیں۔ بہرحال ان کا پڑھنا دونوں صورتوں میں لازم نہیں ہے ۔ لیکن ان کی ادائی کا اجر بہت زیادہ ہے ۔ اس لیے دونوں صورتوں ہی میں اسے پڑھنا افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بھی یہی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اس معاملے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قضا نمازیں ادا کرنی چاہئیں۔ دوسری یہ کہ اس کوتاہی پر خدا سے توبہ کرنی چاہیے۔آئندہ نمازوں میں پابندی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا فوراً ازالہ کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ایک اندازہ قائم کرکے قضا نمازیں پڑھ لینی چاہئیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مشورہ یہ ہے کہ سنن کی جگہ اگر یہ نمازیں پڑھ لی جائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالی دونوں کا اجر ادا کر دیں گے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اِس حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ اکثر حجاج تردد کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِس مسئلے میں صحیح رائے یہ ہے کہ ایّامِ منٰی میں مقامی اور آفاقی،تمام حجاج نمازوں کو قصر کر کے پڑھیں۔ دورانِ حج اِن مقامات پر پوری نمازیں پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْسوہ کے خلاف ہے۔ ابلیس کے خلاف جنگ کی تمثیل کے تقاضے سے اِن ایّام میں نمازوں کو قصر کرکے پڑھنا ہی آپ کا اْسوہ ہے۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اِن ایّام میں آپ نے نمازیں قصر کر کے پڑھی ہیں۔ (بخاری،رقم:1656,1655) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اْس حج میں مکہ کے مسلمان بھی اِن نمازوں میں آپ کے ساتھ شریک تھے اور اْنہوں نے بھی آپ کے پیچھے نمازوں کو قصر کیا۔ آپ نے اْنہیں پوری نماز پڑھنے کی تاکید نہیں کی ؛جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں اْن کو کی تھی۔(المعجم الکبیر،طبرانی،رقم:517)اِس تفصیل سے واضح ہوا کہ ایام منٰی میں نمازوں کو قصر کر کے پڑھنے کا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ یہ مناسکِ حج کے ساتھ خاص ہے۔ منٰی کی قدیم ترین مسجد، مسجدِ خَیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اْسوہ کے مطابق آج بھی تمام نمازیں قصر ہی پڑھائی جاتی ہیں۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب: نمازی کی سجدے تک کی جگہ سے گزرنا گناہ ہے۔ اگر اس نے اپنے آگے کوئی نشان قائم کر رکھا ہے تو اس کے پرے سے گزرا جا سکتا ہے ، خواہ وہ نشان ایک چھڑی کھڑی کر کے ہی قائم کیا گیا ہو۔ اگر ایسا کوئی نشان قائم نہ کیا گیا ہو تو سجدے کی جگہ چھوڑ کر گزرا جا سکتا ہے۔ اگر اتنا فاصلہ رکھا جائے جس سے نمازی کو کوئی الجھن پیش نہ آئے تو زیادہ بہتر ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :شدید مصروفیت کا لفظ درست نہیں ہے۔ سفر جس طرح قصر نماز کی رخصت کا باعث ہے اسی طرح سفرجیسی صورت حال جس میں آپ کے پاس بعض اوقات نماز پڑھنے کا موقع نہیں ہوتا دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔ لیکن گھر اور دفتر کی شدید مصروفیت نمازیں جمع کرنے کا سبب نہیں ہو سکتی۔ظہر اور عصر کی نمازیں جمع ہو سکتی ہیں اور مغرب اور عشا بھی جمع ہو سکتی ہیں۔ جمع کرنے میں ظہر کے وقت ظہر کے معاً بعد عصر یا عصر کے وقت عصر سے معاً قبل ظہر کو ملایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مغرب کے ساتھ عشا کو اور عشا کے ساتھ مغرب کو بھی ملایا جا سکتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :میری تحقیق کے مطابق علمی طور پر نہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ امام مالک نماز میں ہاتھ چھوڑ کر قیام کرنے کے قائل تھے ، اور نہ ہی اِس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کی کوئی روایت موجود ہے۔

 نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کے عمل کو اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو صحیح نقطہ نظر تک پہنچنے کے لیے میرے نزدیک مندرجہ ذیل نکات کو جاننا نہایت ضروری ہے :

ایک یہ کہ نماز کے اعمال میں ہاتھ باندھنے یا دوسرے لفظوں میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنے کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اْمت کے علمی اتفاق اور عملی تسلسل سے سنت کی حیثیت سے ثابت ہے۔ اور اِسی سنت کا بیان آپ سے مروی متعدد قولی وفعلی 'صحیح' احادیث میں موجود ہے۔ اِس باب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کے سوا کوئی دوسری چیز کسی صحیح یا ضعیف روایت میں بھی کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔ یہی بات امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب 'التمھہد' میں بیان فرمائی ہے۔ (20/74)

دوسرے یہ کہ حالتِ قیام میں دونوں ہاتھ باندھنے کا یہ عمل اپنے درجہ حکم کے اعتبار سے ایک مطلوب اور پسندیدہ سنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بہرحال نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ تمام صحابہ کرام ، فقہا ومحدثین اور سلف وخلف اِس عمل کے سنت ہونے کے بارے میں متفق ہیں ، سوائے اْمت کے ایک اقلِّ قلیل کے کہ جس کی نسبت سے اِس باب میں کچھ مختلف عمل یا نقطہ نظر نقل ہوا ہے۔ جس کی تفصیل اور تحقیقی تجزیہ درج ذیل ہے :

ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا

علم کی دنیا میں یہ بات بالکل متعین ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا سنت ہونا تو در کنار ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کسی صحیح یا ضعیف خبر واحد میں بھی اِس کا کہیں کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ البتہ بعض افرادِ اْمت سے نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کی سنت سے مختلف عمل یعنی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا روایت ہوا ہے۔ اْن میں صحابہ کرام میں سے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ،تابعین اور اْن کے بعد کے فقہا میں سے سعید بن مسیب،حسن بصری،ابراہیم نخعی،لیث بن سعد اور ابن جریج کے نام بتائے جاتے ہیں۔ اِن حضرات کے بارے میں بعض لوگوں نے اپنا یہ مشاہدہ بیان کیا ہے کہ اْنہوں نے اِن کو حالتِ قیام میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے ہوئے دیکھا ہے۔اِس طرح کی غیر مرفوع روایات کے بارے ایک بات تو یہ واضح رہے کہ اِن اصحاب علم کی طرف اِس طرح کے مشاہدات کی یہ نسبت کسی یقینی ذریعے سے تو ثابت نہیں ہے۔ اِن کے بارے میں یہ معلومات محض ایک یا دو افراد کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں۔ لہذا کوئی شخص بھی اِن روایات کے ثبوت کی قطعیت کا دعوی نہیں کرسکتا۔ دوسرے یہ کہ اِن روایات کی صحت سند پر اگر کوئی شخص مطمئن بھی ہوجائے ، تب بھی اس بات پر تنبہ رہے کہ نماز کے قیام میں ہاتھ چھوڑنا اِن میں بعض حضرات کے ذاتی عمل ہی کے طور پر بیان ہوا ہے۔ یہ مرفوع احادیث کا درجہ رکھتی ہیں ، نہ حدیث وسنت میں اِس عمل کی کہیں کوئی بنیاد موجود ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اپنے ظاہر کے اعتبار سے متفق علیہ سنت کے خلاف ہونے کی بنا پر اِس طرح کی کوئی روایت قبول نہیں کی جاسکتی۔ الّا یہ کہ شریعت ہی کی روشنی میں اْس کی کوئی معقول تاویل کرلی جائے۔ مثال کے طور پر امام ابن عبد البر نے اِس کی تاویل میں بجا فرمایا ہے کہ اہل علم کا نماز میں اِس مقصد سے ہاتھ چھوڑنا کہ وہ لوگوں پر یہ بات واضح کریں کہ ہاتھ باندھنے کا عمل نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے تو اْس صورت میں اِن کے اِس طرح کے عمل کو خلاف سنت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یعنی اِس کا تعلق تو محض لوگوں کو اِس عمل کی دینی حیثیت کی تعلیم دینے سے ہے۔غرضیکہ تاویل یہ ہوئی کہ اْمت کے جن اصحاب علم کو بعض لوگوں نے اگر ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تو اِس کی وجہ در اصل یہ نہیں ہوگی کہ وہ اِسے سنت سمجھتے ہیں ، کیونکہ علمِ دین کی روشنی میں یہ بات محال ہے ، بلکہ اْن کا مقصود یہی ہوگا کہ ہاتھ باندھنا چونکہ نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے ، اس لیے ضرورت کے بعض مواقع پر یا حالات کے تقاضے کے تحت لوگوں کو اِسی بات کی تعلیم دینے کے لیے اْنہوں نے ایسا کیا ہوگا۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اِس باب میں ایک قولی روایت بھی نقل ہوئی ہے جو اْن کے ہاتھ چھوڑنے کے روایت کردہ عمل کے بالکل برعکس اور عین سنت کے مطابق ہے،اور وہ یہ ہے :‘‘نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا سنت ہے’’۔ بلا شبہ اِس روایت کی صحت کا بھی پورے وثوق سے دعوی نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہ بھی اْن سے خبر واحد ہی کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے۔ تاہم بالبداہت واضح ہے کہ اْن کا یہ قول عین سنت ثابتہ کے مطابق ہے۔ روایت کے طریقے پر اگر یہ حضرت عبد اللہ سے صحت کے ساتھ ثابت نہ بھی ہو تو اِس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ کیونکہ قیام میں ہاتھ باندھنے کا یہ عمل،جیساکہ اوپر بیان ہوا،دین کے ماخذ میں پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔

کیا حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے؟

 ائمہ اربعہ میں سے اِس مسئلے کے بارے میں اگرچہ امام مالک کے حوالے سے،جیسا کہ سائل کے سوال سے بھی واضح ہے ؛ بالعموم عوام الناس میں اِس بات کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے کہ حالتِ قیام میں اْن کی رائے کے مطابق دونوں ہاتھوں کو چھوڑ کر رکھنا ہی سنت ہے۔ تاہم تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو میرے نزدیک خود امام مالک کی طرف اِس قول کی نسبت کچھ بہت قطعی نہیں ہے۔ اِس لیے کہ اِس باب میں خود اْن کے اپنے شاگردوں نے اْن سے جوکچھ روایت کیا ہے،اْس میں بہت کچھ اختلاف ہے؛جس کی تفصیل یہ ہے :

۱۔ ابن القاسم کی ایک روایت کے مطابق امام مالک کے نزدیک حالت قیام میں ہاتھوں کو باندھنا مطلقاً مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے۔ اور دوسری روایت کے مطابق وہ فرض نمازوں میں ہاتھ باندھنے کو مکروہ اور نوافل میں مباح یعنی جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک کی یہ رائے ابن القاسم کے سوا اْن کے کسی دوسرے شاگرد نے اْن سے نقل نہیں کی ہے۔ تاہم متاخرین مالکیہ کی بالعموم رائے اور اْن کا فتوی اِسی پر ہے۔

۲۔ اشہب بن عبدالعزیز کی روایت ہے کہ فرض نماز ہو یا نفل ، امام مالک کی رائے میں حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔یہی بات امام مالک سے اْن کے وہ شاگرد بھی روایت کرتے ہیں جو اہل مدینہ میں سے ہیں۔

۳۔ مطرف،ابن الماجشون اور ابن المنذر وغیرہ کا کہنا ہے کہ امام مالک نے نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کو مستحسن اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ علمائے مالکیہ میں سے ابن عبد البر،ابن رشد،قاضی عیاض،ابن عبد السلام،لخمی اور ابن العربی نے اِسی رائے کو اختیار کیا ہے ۔دیکھیے امام مالک سے خود اْن کے اپنے شاگردوں نے اِس مسئلے میں ایک نہیں ، بلکہ تین مختلف اقوال نقل کردیے ہیں۔ اِن کا اگر تحقیقی جائزہ لیا جائے تو علمِ دین کی روشنی میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ پہلے دونوں اقوال کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے حدیث وسنت میں کہیں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اور اِس طرح کے معاملات میں ظاہر ہے کہ آپ کی نسبت کے بغیر کسی بھی دینی نقطہ نظر کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ پھر مزید یہ کہ امام مالک سے منقول اِن دونوں اقوال میں سے دوسرے کو تو شاید کسی تاویل کے تحت لاکر قبول کیا جاسکتا ہے ، ورنہ دوسری صورت میں یہ دونوں ہی آرا اِس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالاجماع ثابت شدہ سنت کے خلاف ہونے کی بنا پر کسی طرح قبول نہیں کی جا سکتیں۔

امام ابن عبد البر نے بھی نماز میں ہاتھ باندھنے کی کراہت کے قول سے نہ صرف یہ کہ شدید اختلاف کیا ہے،بلکہ اِس معاملے میں فرض اور نفل کی تفریق کو بھی بالکل بے معنی قرار دیا ہے۔کیونکہ معاملہ فرض نماز کا ہو خواہ نفل کا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے ہاتھ باندھنے کوئی دوسری چیز کسی بھی ذریعے سے نقل نہیں ہوئی ہے۔ پھر جس چیز پر آپ کا عمومی عمل ثابت شدہ ہے ، اْسے مکروہ قرار دینا زیادہ جسارت کی بات ہے۔نماز میں ہاتھ باندھنے کا عمل اگر مکروہ ہے تو یہ کراہت محض رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے قول وفعل ہی سے ثابت ہوسکتی ہے۔ اِس کے سوا دین میں اِس کے ثبوت کے کسی ماخذ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

 جہاں تک امام مالک سے منقول اْن کے تیسرے قول کا تعلق ہے تو مندجہ ذیل وجوہات کی بنا پر روایت ودرایت کے اعتبار سے میرے نزدیک وہی اْن کا راجح اور واحد قابل قبول قول ہے :

1۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری شدہ سنت اور اِس معاملے میں اْمت کے علمی اتفاق اور اْس کے عملِ مسلسل کے موافق ہے۔

2۔ متعدد مرفوع اور صحیح احادیث سے بھی اِس کی مطابقت ہے۔

3۔ امام مالک کی اپنی موطا سے بھی اْن کے اِسی قول کا معتمد ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور موطا اْن کی وہ کتاب ہے ، جسے اْنہوں خود تالیف کیا،برسوں پڑھایا،وہ عمر بھر اْن کے سامنے پڑھی گئی اور اْن کے بے شمار شاگردوں نے اْسے اْن سے روایت کیا ہے۔ اْس میں امام مالک نے نماز میں ہاتھ باندھنے پر باقاعدہ باب باندھ کر اِس سے متعلق دو روایات بھی نقل کی ہیں۔ جس سے اِسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ بعد کے مالکی فقہا کی رائے سے قطع نظر،اْن کی اپنی رائے بہرحال ہاتھ باندھنے ہی کی تھی۔

4۔ جیساکہ اوپر بیان ہوا ؛ اْن کا کوئی ایک نہیں ، بلکہ متعدد شاگرد اْن سے اِس قول کو روایت کرتے ہیں۔ بر خلاف ابن القاسم کے جو اپنی روایت میں منفرد اور تنہا ہیں۔

5۔ محققین مالکیہ نے بھی،جیساکہ اوپر بیان ہوا، اْن کے اِسی قول کو اختیار ہے۔

چنانچہ ہمارے نزدیک لوگوں کا یہ کہنا کہ امام مالک کی رائے میں نماز کے قیام میں ہاتھ چھوڑ کر رکھنا سنت ہے،اْن سے مروی ایک مرجوح روایت کی بنا پر کہا جاتا ہے ، جسے علمی طور پر اْن سے ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔

کیا ہاتھ باندھنے پر امت کا اجماع نہیں ہے ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دیکھا جائے تو اِس عمل کو اْمت اپنے علم وعمل سے بالاتفاق سنت قرار دیتی ہے۔ آپ کی نسبت سے اِس معاملے میں کوئی دوسری بات کہیں پائی ہی نہیں گئی۔ چنانچہ آخر میں یہ بات بھی بالخصوص جان لینی چاہیے کہ اِس مسئلے میں اْمت کے ایک اقلِّ قلیل گروہ میں سنت سے مختلف ایسے نقطہ نظر کا وجود جس کا دین میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے ، اْمت کے اْس اجماع اور عملی تواتر کو توڑنے کی قطعاً صلاحیت نہیں رکھتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِس معاملے میں آج تک چلا آرہا ہے۔ اور جس کی بنیاد ہی پر اْمت نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتی ہے۔اِس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہی کی نسبت سے قرآن مجید کی ایک قراء تِ عامہ پر اْمت کا علمی اتفاق اور قولی تسلسل ہے ، جسے اْسے بعد میں وجود پذیر ہونے والی دیگر قرآنی قرا ء تیں کسی طرح نہیں توڑسکیں۔ یہ چیز تو تبھی ہو سکتی تھی کہ جب ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی اِس رائے کے حق میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے قول وفعل سے کوئی دلیل فراہم کی جاتی،جیساکہ رفع یدین اور عدم رفع یدین کے باب میں ہوا ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب: اہل حدیث حضرات کا نقطہ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ماخوذ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے فہم پر مبنی ہے۔ بعض روایات میں اوتر بواحدۃ (ایک سے طاق کر لو)کے الفاظ آئے ہیں۔اگر اس کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ایک رکعت پڑھ لوجیسا کہ اہل حدیث حضرات نے سمجھا ہے تو ایک وتر پڑھنا حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس جملے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز کو طاق پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ کسی نماز کو طاق کرنے کا کم از کم مطلب یہ ہے کہ دو کو تین کیا جائے۔ امام مالک نے یہی رائے دی ہے کہ یہ نماز کم از کم تین رکعت ہے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس کا اصل وقت طلوع فجر سے پہلے ہے۔ عام مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت دینے کی وجہ سے اسے عشا کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ہمارے نزدیک ایک رکعت پڑھنا درست نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاوہ نہیں ہے جسے بعض لوگ نے اس جملے سے اخذ کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:باجماعت نماز اور مسجد کی حاضری نماز کے اجر کو بڑھانے والی چیز ہیں۔ اس میں کوتاہی نماز کے اجر کو کم کرنے والی چیز ہے۔ جس طرح کی مصروفیات آپ کو نماز باجماعت سے محروم کر دیتی ہیں انھی سے پیچھا چھڑا کر جماعت میں شریک ہونا وہ مجاہدہ ہے جو زیاہ اجر کا باعث ہے۔ اس لیے کوشش یہی کرنی چاہیے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انفرادی نماز قبول نہیں ہوتی۔ البتہ آدمی اجر کے ایک بڑے حصے سے محروم ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز سے غفلت جو وبال کا باعث بنے گی یا نماز کی عدم قبولیت کی وجہ بن سکتی ہے وہ نماز کو بے وقت پڑھنا،نماز میں اہتمام اور خوبی کے پہلو کا نہ ہونا اور ان اخلاق کی عدم موجودگی ہے جو ایک نمازی میں ہونے چاہئیں۔سورہ ماعون میں یہی غفلت مراد ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:اس سوال میں غلطی یہ ہے کہ اس میں صرف قرآن کو دین کا ماخذ قرار دے کر نماز کے اوقات اور اس کی تعداد کو قرآن سے متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ہمارے نزدیک نماز سرتاسر سنت سے ماخوذ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر بطور یاددہانی ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں نماز کے طریقے اور اوقات کے بارے میں وضو کی طرح کا کوئی جامع بیان موجود نہیں ہے ۔وضو کی مثال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ نماز کی تیاری کے طریقے میں تو تصریح کی ضرورت تھی لیکن نماز کا طریقہ اور اوقات اس طرح واضح تھے کہ قرآن مجید میں اس کی تصریح کی ضر ورت پیش نہیں آئی۔ باقی رہا دلوک شمس تو اس کا اطلاق ظہر عصر اور مغرب تینوں اوقات کے لیے ممکن ہے۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے دلوک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘دلوک کے معنی زوال کے ہیں۔ سورج کے زوال کے تین درجے ہیں۔ ایک وہ جب وہ سمت راس سے ڈھلتا ہے۔ دوسرا جب وہ مر أی العین سے ڈھلتا ہے اور تیسرا جب وہ افق سے غائب ہو جاتا ہے۔ یہ تینوں اوقات ظہر، عصر اور مغرب کی نمازوں کے ہیں۔’’(تدبر قرآن،ج ۴، ص۵۲۹)دلوک کے بعد غسق کا لفظ آیا ہے۔ غسق کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا اصلاحی مرحوم نے لکھا ہے:‘‘غسق اللیل اول شب کی تاریکی جبکہ وہ گاڑھی ہوجائے۔ یہ عشا کا وقت ہے۔’’(تدبر قرآن،ج ۴، ص۵۲۹)اس کے بعد اس آیت میں قرآن الفجر کے الفاظ آئے ہیں۔ اصلاحی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے اس سے فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت ہے۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی تصریحات سے واضح ہے کہ یہ نمازپڑھنے کا حکم ضرور ہے لیکن اس میں اوقات کا ذکر تعین کے لیے نہیں ہے بلکہ نمازوں کے اوقات کے صبح وشام کے اوقات میں پھیلے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان الفاظ سے نہ نمازوں کی تعداد معین ہو سکتی ہے اور نہ اوقات ہی معین صورت میں سامنے آتے ہیں۔ البتہ جو نماز سنت سے معلوم ومعروف ہے اس کے حوالے سے ان الفاظ کو دیکھیں تو یہ اس کا ایک اجمالی بیان ضرور ہیں۔یہی معاملہ سورہ ہود کے طرفی النہار اور انائے لیل کے الفاظ کا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب:رکعتوں کی تعداد کا ماخذ سنت ہے۔ یہ تعداد ہر شک وشبہ سے بالا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت ہر زمانے میں رکعتوں کی اس تعداد پر متفق ہے اور اس بات میں شک کوئی شائبہ بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس نماز کی کتنی رکعتیں مقرر کی تھیں۔جب کسی دینی عمل کی کوئی شکل مقرر کر دی گئی ہو تو اس میں تبدیلی نافرمانی قرار پائے گی اور یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ لہذا خواہ رکعت کم کی جائے یا زیادہ نافرمانی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

محترم ڈاکٹر حامدی صاحب!                السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سوال: اللہ کی پکار کی میں نے ایجنسی لے رکھی ہے۔ہر شمارہ بغور پڑھتا ہوں ، اس کے افادی پہلوؤں کو بنظر اتفاق دیکھتا ہوں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک معاملے میں تنقید کی جرأت کررہاہوں آپ نے ایک شمارے میں لکھا ہے کہ فرض نمازوں کے علاوہ جتنی نمازیں ہیں، سب نوافل کا درجہ فرائض اور واجب کے برابر نہیں ہے، یہ چھوٹ جائیں تو ان کی قضا بھی نہیں ہے اور ان پر مواخذہ بھی نہیں ہے۔ یہ تحریر آنے پر میں نے دل میں اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس سے غیر فرض نمازوں سے بے رغبتی پیدا ہوگی،وہ خواہ مخواہ نیکیوں سے محروم ہوں گے۔ ویسے بھی آج کا انسان بہت مصروف ہے۔ وہ سنتوں اور خصوصاً ان سنتوں کو چھوڑے گا ، جنہیں فقہا نے سنتِ مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ کی دوقسموں میں باٹنا ہے۔ یعنی ان سنتوں کی ادائیگی ایک فاضل چیز سمجھ لی جائے گی۔ میرا یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔ ایک صاحب آپ کا رسالہ پڑھ کرسختی سے اصرار کرتے ہیں کہ نمازیں یا فرض ہیں یا نفل ، سنت کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اسی دوران وہ گزشتہ سال حج بھی آکرئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش کے سوا وہاں عرب اور عجم ساری دنیا کے مسلمان فرض نمازوں پر اکتفا کرتے ہیں اور سنت نہیں پڑھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا منشا وہ نہیں ہوگاجو وہ سمجھ رہے ہیں۔ آپ نے ایک خالص علمی نکتہ بیان کیا ہے، یعنی فرائض کے بعد دیگر نمازیں اصطلاحاً نفل یا تطوع کہلاتی ہیں۔فقہائے کرام ان نمازوں کو سنت کے لفظ سے موسوم کرتے ہیں، جن پر عمل مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں بانٹا جاتا ہے۔ مؤکدہ کو بالالتزام پڑھا جائے اور غیر مؤکدہ کو یہ سمجھ کر پڑھا جائے کہ ان میں ثواب ہے ، جیسا حدیثِ قدسی میں ہے۔ان عبدی یتقرب الی بالنوافل۔

میرا خیال ہے کہ ایسی علمی موشگافی عوام الناس پر غلط اثرات ڈالتی ہے ، اس لیے اس سے احتراز بہتر ہے۔ کس نماز کوکیا کہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے، اور عبادات میں استخفاف اور ان کی پابندی میں کمی آجانا دوسری بات ۔ میرا خیال ہے آپ کے دوسرے قارئین نے بھی وہ کھٹک محسوس کی ہو گی جو مجھے ہوئی ہے۔ مناسب سمجھیں تو اس بارے وضاحت فرمائیں۔

تاج الدین اشعررام نگری

جواب: ہمارے بزرگ مراسلہ نگار نے اپنے مراسلے میں وہ سب کچھ تحریر کردیا ہے، جو عام طور سے لوگوں میں غلط مشہور ہے، جس کی تردید میں اور صحیح بات کی وضاحت میں نے قرآن و احادیث ہی سے نہیں ، بلکہ فقہ حنفی کی سب سے اولین مشہور کتاب ‘‘ القدوری’’ سے بھی حوالے کے ساتھ اللہ کی پکار جنوری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں کی ہے۔ اس پوری عبارت کو معمولی فرق سے یہاں دوبارہ نقل کیا جارہاہے۔ تاکہ مراسلے میں اٹھائی ہوئی بہت سی باتیں واضح ہو جائیں:

‘‘ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں نماز وں کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں۔

۱۔ فرض جن کا ادا کرنا لازمی ہے اور جن کا ادا نہ کرنا شدید گناہ ہے۔ یہ فرض نمازیں دیگر فرائض اُمور کی طرح اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں۔

۲۔ وہ نمازیں جو فرض کے علاوہ ہیں ، جن کو ادا کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ وہ نماز پڑھنے والے کی مرضی پر ہے۔ وہ ان کو چاہے تو ادا کرے اور چاہے تو نہ ادا کرے۔ ادا کرے گا تو ثواب کا مستحق ہوگا اور ادا نہ کرے گا تو ثواب سے محروم رہے گا۔انہیں نفل ، جمع نوافل (زائد) اور تطوع(راضی ، خوشی اپنی مرضی ) والی نماز کہا گیا ہے۔ ان کی ادائیگی کی طرف اس لیے ترغیب دلائی گئی ہے کہ بندہ اگر اللہ سے مزید قریب ہونا چاہتا ہے ، تو وہ نوافل (فرض نمازوں سے زائد نمازوں ) کو ادا کرے۔ ان کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قیامت میں جب دیگر فرائض میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب ہو گا ، تو ان فرض نمازوں میں جو کمی ہوگی ، تو وہ کمی اللہ کے حکم سے نوافل نمازوں سے پوری کی جائے گی۔ لیکن غیر فرض نمازیں آدمی کی مرضی پر ہیں، ان کو ادا نہ کرنے پر گناہ نہیں ہے، اس سلسلے میں یہاں ایک ایسی حدیث کو نقل کررہا ہوں ، جس کا ذکر تقریباً تمام محدثین نے اپنی کتبِ حدیث میں کیا ہے۔ یہاں میں اس حدیث کو صحیح البخاری سے نقل کررہاہوں:‘‘ طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ ایک بدّو جس کے بال بکھرے ہوئے تھے ، اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا ۔ اس نے آپ سے دریافت کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے بتائیں کہ اللہ نے نمازوں میں سے مجھ پر کیا فرض (لازمی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : پانچ فرض نمازیں، اس کے علاوہ جو تم چاہو ، خوشی خوشی(بطورنفل) پڑھو۔ (اس کے بعد) اس نے کہا، رمضان کے مہینے کے روزے ، اس کے علاوہ جو تم چاہو، خوشی خوشی (بطورنفل)رکھو۔ (اس کے بعد)اس نے کہا، آپ مجھے بتائیں کہ اللہ نے مجھ پر زکوٰۃ میں سے کیا فرض ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے اسلام کے تعلق سے (اس سلسلے میں)اس پر عائد ہونے والے اُمور بتائے (اس کے بعد) اس بدّو نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت وتکریم سے نوازا ہے ! میں اپنی خوشی سے کچھ بھی مزید (یعنی نفل) نہیں ادا کروں گا اور نہ ہی اللہ کی طرف سے عائد کیے گئے فرائض میں کچھ کم کروں گا۔ (اس پر) اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : اگر اُس نے ایسا صحیح کہا ہے تو وہ فلاح یاب ہوگیا اور اگر اس نے صحیح کہا ہے تو جنت میں داخل کیا جائے گا۔’’

نماز کی مذکورہ بالا دونوں قسموں کو واضح کرنے والی ایک حدیث جو کہ جامع الترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ میں آئی ہے،کا ترجمہ دیا جارہاہے، جو شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلویؒ نے کیا ہے:‘‘بنی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب کیا جائے گا۔ اگر نماز اچھی نکلی تو وہ شخص کا م یاب ہوگا، اور بامراد اگر نماز بے کار ثابت ہوئی تو وہ نامراد و خسارے میں ہوگا۔اور اگر نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں، جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے۔ اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائے گی، اس کے بعد اسی طرح باقی اعمال روزے ، زکوٰۃ وغیرہ کا حساب ہوگا۔’’(فضائلِ اعمال ، حصہ اوّل ، فضائلِ نماز، ص۲۵۰، نومبر ۱۹۸۶ء ، نئی دہلی)

فرض نمازوں کے بعد نفل نمازوں میں سب سے اہم نماز تہجد کی نماز/وتر/تراویح ہے ، جسے صلوۃاللیل /قیام باللیل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس نفل نماز کا ذکر قرآن میں کہیں تفصیلاً ، کہیں اجمالاً اور کہیں اشارۃً آیا ہے۔(القرآن، بنی اسرائیل ۱۷:۷۸۔السجدۃ۳۲:۱۶، الذّاریات ۵۱:۱۷، المزمل ۷۳:۲۔۴،۶،۲۰،الفرقان ۲۵:۶۴،ھود۱۱:۱۱۴،۲:۱۸۵)

اس نماز کو احادیث میں بھی فرض نمازوں کے بعد سب سے اہم نمازقرار دیا گیا ہے۔(صحیح البخاری، صحیح مسلم) اس نماز کا اللہ کے رسول ﷺ اور السابقون الأولون صحابہ دونوں نہایت اہتمام فرماتے تھے ۔ شروع میں جب کہ صرف دو وقت کی نمازیں تھیں، اس زمانے میں تہجد فرض تھی،لیکن بعد میں پانچ نمازیں فرض ہونے پر اُمت پر سے اس کی فرضیت ختم کردی گئی، البتہ اللہ کے رسولﷺ اس کی نہایت پابندی کرتے تھے، اور مفسرین و محدثین کے نزدیک تہجد کی نماز اللہ کے رسولﷺ کے لیے ضروری تھی۔

اس کے بعد غیر فرض/نفل نمازوں میں جو نماز سب سے زیادہ اہم ہے ، وہ فجر کی دو رکعت فرض سے پہلے کی دو رکعت نفل نماز ہے۔اس کے بارے میں آیا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اس کی ادئیگی کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، چنانچہ‘‘ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نفلوں میں کسی نماز کا اتنا اہتمام نہیں کرتے تھے ، جتنا اہتمام فجر کی دو رکعت کا کرتے تھے۔’’ (ترجمہ حدیث صحیح البخاری و صحیح مسلم)

سنتِ مؤکدہ، سنتِ غیر مؤکدہ کا مطلب ہے وہ نفل نمازیں ، جو اللہ کے رسولﷺ نے پابندی سے پڑھی ہیں۔ آج کل جن نمازوں کو سنتِ مؤکدہ قرار دے کر ضروری بتایا جاتا ہے، ان کو فقہ حنفی کی اولین کتاب‘‘ القدوری’’ میں نوافل قرار دیتے ہوئے باب النوافل کے تحت دیگر سنتِ غیر مؤکدہ کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ پھر حاشیے میں اس کی اس طرح تشریح کی گئی ہے:جمع نافلۃ وھی فی الغۃ الزیادۃ و فی الشرع عبارۃ عن فعل لیس نفرض ولا واجب الا مسنون و کل سنۃ نافلۃولیس کل نافلۃ سنۃ فلھذا القبہ بالنوافل۔

نوافل نافلۃ کی جمع ہے۔لغت میں اس کے معنیٰ زیادہ (یا مزید) کے ہیں اور شریعت میں یہ ایک ایسا فعل ہے ، جو نہ فرض ہے ،نہ واجب اورنہ مسنون۔ ہر سنت نفل ہوتی ہے، لیکن ہر نفل سنت نہیں ہوتی، اس لیے اس کو نوافل کہا گیاہے۔(ترجمہ عبارتِ مذکورہ)

افسوس تو اس بات کا ہے کہ کچھ علماء نے غلط طور سے سنتِ مؤکدہ کو قرآن و احادیث کے علی الرغم ضروری قرار دیتے ہوئے اس کو ادا نہ کرنے والے کے لیے گناہ لازم کردیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ دین میں اضافہ ہے، جس کو نہ اللہ نے نہ اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج کے علماء عام مسلمان کو وہ بات بتاتے ہیں جو کہ شریعت کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔سوائے ان علماء کے جن پر اللہ کا خصوصی کرم ہوتا ہے۔‘‘واضح رہے کہ مسنون نفل نمازیں جن کو آج کل کی اصطلاح میں سنتِ مؤکدہ کہا جاتا ہے، اس کا اجرو ثواب احادیث میں بہت زیادہ بتایا گیاہے۔’’(اللہ کی پکار جنوری ۲۰۱۰ء، سوالات-جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں، ص85-88)

اوپر مذکورہ عبارت ایک مستفسر کے جواب میں ‘‘فقہ القرآن والسنۃ’’کالم کے تحت تحریر کی گئی ہے۔اللہ کی پکار میں اول روز سے اس بات کی پابندی کی گئی ہے کہ دین کے تعلق سے جو بات بھی پوچھی جائے، اسے حالات یا لوگوں کو معمول سے متاثر ہوئے بغیر قرآن و سنت کی روشنی میں بتایا جائے۔ایک عالمِ دین سے اس بات ہی کی توقع رکھی جانی چاہیے۔اس کے علاوہ اگر اس نے دین کو قرآن وسنت سے ہٹ کر بیان کیا تو نہ صرف یہ کہ دین و شریعت کی غلط ترجمانی ہوگی۔بلکہ آخرت میں باعثِ مؤخذاہ بھی، پھر میں نے اس بات کو نہایت وضاحت سے بتایا ہے کہ نماز سنتِ مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ کی تفصیل بہت بعد کی پیداوار ہے اور اب جو اس کی تشریح کی جاتی ہے کہ سنت مؤکدہ وہ ہے ، جس کو نہ پڑھنے سے گناہ ہوگا، وہ قرآن و سنت اور خودفقہائے احناف امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ اور پانچویں صدی ہجری میں تحریر کی گئی فقہ حنفی کی اولین کتاب ‘‘القدوری’’ جو کہ قرآن و سنت کے بہت حدتک قریب تھی،اس میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ہے، بلکہ فجر کے فرض سے پہلے کی دو رکعتوں ، فرض ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں ، فرض ظہر کے بعد کی دورکعتوں ، فرض عصر سے پہلے کی چار یا دورکعتوں،اور فرض عشاء سے پہلے چار اور فرض عشاء کے بعد چار یا دو رکعتوں، سب کو بغیر سنتِ مؤکدہ اور غیر مؤکدہ کی تخصیص کے بغیر‘‘ باب النوافل’’ ہی کے تحت بیان کیا ہے۔(القدوری، ص۳۱)

حاشیہ لکھا ہے ، اس میں بھی ‘‘نوافل ’’ کی اس طرح صراحت کی ہے:‘‘نوافل شریعت میں ایک ایسا فعل ہے، جو نہ تو فرض ہے، نہ واجب اور نہ مسنون۔ ہر سنت نفل ہوتی ہے، لیکن ہرنفل سنت نہیں ہوتی ، اس لیے اس کو ‘‘نوافل ’’ کہا گیا ہے۔’’ (ترجمہ حاشیہ کتاب القددری، ص ۱۳)

اس طرح مذکورہ عبارت سے بھی یہ بات واضح ہے کہ سنت نماز (چاہے وہ مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ) کا تعلق نفل ہی سے ہوتا ہے ، یعنی وہ نفل نماز، جس کو رسولﷺ نے پڑھا ہو، سنت کہلاتی ہے۔ لیکن ہر نفل نماز کا سنت ہونا ضروری نہیں ہے۔

گویا میری بات قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کے بھی مطابق ہے۔ اب یہ بات مراسلہ نگار بتائیں کہ وہ جید فقہا، جن کا بتایا ہوا مسئلہ قرآن کے مطابق ہے، اسے مانا جائے گا یااسے جو کہ قرآن و سنت کے مطابق تو نہ ہو ، لیکن کسی بھی وجہ سے وہ لوگوں کے ذہن و دماغ میں بیٹھ گیا ہو۔

اس سب میں دل چسپ بات یہ ہے کہ سنتِ مؤکدہ کی تعریف یہ بتائی جاتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ان نمازوں کو بالالتزام ادا کیا ہے، اس لیے ان کا ادا کرنا ضروری ہے، جب کہ دوسری طرف ان احادیث کو نظرانداز کردیا جاتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ سنت نفل نمازیں ہیں، اس کے باوجود اگر لوگوں پر لازم کرنے اور کسی چیز کو ضروری قرار دینے کی یہی بنیاد ہے تو اللہ کے رسول ﷺنے تو نفلی روزے کے سلسلے میں بھی التزام کیا ہے، تو انہیں سنتِ مؤکدہ روزے کہہ کر لوگوں کے لیے کیوں ضروری نہیں قرار دیا جاتا، مثلاً:

‘‘حفصہؓ سے روایت ہے کہ چار چیزیں وہ ہیں ، جن کو رسولﷺ کبھی نہیں چھوڑتے تھے:

۱۔ عاشورہ کا روزہ ۲۔ عشرۂ ذی الحجہ(یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ نویں ذی الحجہ تک) کے روزے ۳۔ ہر مہینے کے تین روزے ۴۔ اور فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں۔’’ (ترجمہ حدیث سنن النسائی)

‘‘قتادہ بن طلحان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ ہم لوگوں کو امر فرماتے تھے کہ ہم ایام بیض یعنی مہینے کی تیرہویں ، چودھویں، پندرہویں کو روزہ رکھا کریں اور فرماتے تھے کہ مہینے کے ان تین دنوں کو روزے رکھنا اجر و ثواب کے لحاظ سے ہمشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔’’(ترجمہ حدیث سنن ابی داؤد ، سنن النسائی)

ان دونوں احادیث میں اللہ کے رسول ﷺ کی سنتِ مؤکدہ کے تحت مخصوص دنوں کے روزے اور فجر کی نماز سے قبل کی دورکعتیں شامل ہیں ، لیکن کچھ لوگوں نے فجر کی دورکعتیں لے لیں اور انہیں سنتِ مؤکدہ کہہ کر لوگوں کے لیے لازم کردیا اور ان احادیث میں بیان کردہ روزوں کو فراموش کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ احادیث میں بیان کردہ (نماز اور روزے) یہ دونوں نفل ہیں، جو کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اگرچہ بالالتزام انجام دیے ہیں، مگر یہ بات واضح کردی ہے کہ ان کے کرنے پر اجر ہے، اور نہ کرنے پر اجروثواب بھی نہیں ہے، اور گناہ بھی نہیں ہے۔مراسلہ نگار نے جو حدیث کا ٹکڑا نقل کیا ہے، اس سے پہلے والا ٹکڑا جب تک نہ کیاجائے ، بات پوری نہیں ہوتی ہے۔

۔۔۔وما تقرب الی عبدی بشیء احب الی مما افترضت الیہ وما یزال ال عبدی یتقرب الی بالنفوافل حتی احببتۃ۔۔۔۔

‘‘ ۔۔۔اور میرا بندہ جن اعمال کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے، اس میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ اعمال ہیں ، جو میں نے اس پر فرض کیے ہیں ، پھر نوافل کے ذریعے مجھ سے برابر قریب سے قریب تر ہوتا رہتاہے۔۔۔۔’’(ترجمہ حدیثِ مذکورہ)

اس حدیث میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ، نماز سمیت تمام عبادات کے لیے فرض اور نفل ہی کا تذکرہ ہے، کسی اور کا نہیں۔

 نوافل کی اہمیت کا کوئی منکر نہیں ہے۔ احادیث میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہیں۔لیکن جس اللہ کے رسولﷺ نے ان کی فضیلتیں بتائی ہیں، اس نے ان کی حیثیت و مقام اور درجہ بھی بتایا ہے۔ جہاں تک استخفاف کا معاملہ ہے تو یہ الزام تو اس وقت عائد کیا جاسکتاتھا، جب کہ نمازوں کے سلسلے میں قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی بات کہی جارہی ہو۔ پھر اگر اس کے باوجود استخفاف پر زور دیا جاتا ہے تو اس میں مجھ سے پہلے تو فقہائے کرام، محدثینِ عظام، تابعین، صحابۂ ہی نہیں بلکہ معاذاللہ، اللہ کے رسول خودآتے ہیں کہ وہ اس بدّو کو جنت کی خوش خبری سناتے ہیں کہ جو کہ اللہ کو رسولﷺ کے سامنے یہ عہد کرکے جاتا ہے کہ وہ فرضوں میں کسی قسم کی کمی نہیں کرے گا، لیکن زائد یعنی غیر فرض/نوافل میں سے کچھ بھی ادا نہ کرے گا۔ (صحیح البخاری)

اس حدیث سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فرض و لازم و ضروری کون سی نماز ہے۔ ان سے غیر فرض یعنی نفل نمازوں اور ان کے اجر و ثواب کی نفی نہیں ہوتی، البتہ ان کے مقام و حیثیت کا پتا چلتا ہے۔ تہجد سمیت تمام نفل نمازوں کے بارے میں احادیث میں بے انتہا اجروثواب کو بیان کیا گیا ہے اور اہلِ ایمان کو ان کی ترغیب دلائی گئی ہے۔

فرض و نفل کے فرق کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ کسی بے نمازی کو جب نماز کی تر غیب دی جاتی ہے تو فرض کے ساتھ اس پر غیر فرض یعنی سنت نفل (سنتِ مؤکدہ ، سنتِ غیر مؤکدہ ) نمازوں کی بھی پابندی کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر و پیش تر افراد فرض سمیت تمام نمازوں سے ہی غافل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہی حکمت ہے کہ اُسے پہلے فرض نمازوں کی پابندی پر زور دیا جائے اور اس کے پابند ہونے پر اجر و ثواب بتاکر نوافل کی ترغیب دی جائے۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات بتانی اور ضروری ہے ۔وہ افراد جو کہ سروس پیشہ ہیں، سروس کے اوقات کے دوران میں فرض نماز اور اس میں لگنے والا وقت تو اللہ کا ہے، لیکن غیرفرض نماز میں سروس والا وقت لگانا سروس و خدمات کے سلسلے میں خیانت ہے، الَّا یہ کہ مالک/باس نے خود خوش دلی کے ساتھ اس کی اجازت دی ہو۔واللہ اعلم بالصواب واللہ ھو الموفق و ھو الھادی الی سبیل الرشاد۔

(بشکریہ ، ماہنامہ اللہ کی پکار دہلی مئی ۲۰۱۰)

(پروفیسر خالد حامدی)

جواب: ہر مسلمان شخص تمام عبادتوں کا مکلف ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھوٹ جائے تو اللہ کے نزدیک جواب دہ ہے۔ ایک عبادت ادا نہ کرنے سے دوسری عبادتیں قبول ہوں گی یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے:

۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک عبادت بھی ترک کر دی تو وہ کافر ہو گیا اور اس کی کوئی دوسری عبادت مقبول نہ ہو گی۔

۲۔ بعض کے نزدیک صرف نماز اور زکوٰۃ ترک کرنے والا کافر ہے۔

۳۔ بعض کے نزدیک صرف نماز ترک کرنے والا کافر ہے کیونکہ حضوؐر کا ارشاد ہے: بین العبدوبین الکفر ترک الصلاۃ.(مسلم)

‘‘بندے اور کفر کے درمیان نماز کاترک کرنا ہے۔’’

ان فقہاء کے نزدیک نماز ترک کرنے والے کا روزہ بھی مقبول نہ ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے اور کافر کی عبادت مقبول نہیں ہو گی۔

۴۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان و یقین کامل رکھتا ہے کسی ایک عبادت کے ترک کردینے سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا بشرطیکہ اس عبادت کا نہ وہ مذاق اڑاتا ہو اور نہ منکر ہو۔ اس لیے ایک عبادت ترک کرنے کی وجہ سے اس کی دوسری عبادتیں ہرگز برباد نہیں جائیں گی۔

میرے نزدیک یہی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ جو شخص صرف سستی اور کاہلی کی بنا پر کوئی ایک عبادت ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری تمام عبادتیں ادا کرتا ہے، تو دوسری عبادتیں ان شاء اللہ مقبول ہوں گی۔ البتہ وہ ناقص اور ضعیف الایمان کہلائے گا اور جس عبادت میں اس نے کوتاہی کی ہے اس میں وہ گنہ گارہو گا اور اللہ کے نزدیک سزا کا مستحق ہو گا۔ بہرحال کسی ایک نیکی کے ضائع ہونے سے اس کی دوسری نیکیاں برباد نہیں ہوتیں۔ اس نے جو نیکی کی ہو گی اس کا اچھا بدلہ پائے گا اور جو برائی کی ہو گی اس کا برا بدلہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ. وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ. (الزلزال:۷۔۸)

‘‘پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

ج: دونوں ہی ضروری ہیں۔کوئی دوسرے کامتبادل نہیں ہے ۔آخرت میں یہ معاملہ اس طرح ہو گا کہ حقوق العباد کو پورا کرنے کے لیے جو نیکیاں ہیں وہ بھی میزان میں رکھی ہوں گی اور نماز کو چھوڑنے کے جو گناہ ہیں وہ بھی میزان میں رکھے ہوں گے ۔ اب میزان بتائے گی کہ کون سا پلڑا بھاری ہے ۔ نماز میں کوتاہی بہت بڑا گنا ہ ہے اور حقوق العباد کو پورا کرنا ایک بڑی نیکی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر مسجد آپ کی معاشی ذمہ داریوں کی جگہوں مثلاً دفاتر، مارکیٹوں یا بازار وغیرسے دور ہے یا وہاں سے جانا زحمت کا باعث بنتا ہے تو آپ نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر سکتے ہیں۔ یہ ایک عارضی مسجد ہوتی ہے، اُس کو مسجد الدار کہتے ہیں۔ یہاں نماز پڑھنے کا اجر وہی ہو گا جو مسجد میں باجماعت نماز کا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آدمی خود اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں اس وقت کیسی کیفیت میں ہوں کہ جو ایک مسافر کو لاحق ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی دی ہوئی رخصت ہے۔ اگر کوئی محسوس کرتا ہے کہ اس کے اوپر مسافرت کی کیفیت ہے تو نماز قصر کر لے۔اگر محسوس کرے کہ بہت آرام سے ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پوری پڑھ لے، اللہ اجر دے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ دیکھ رہے ہیں کہ امام کی قراء ت آپ تک نہیں پہنچ رہی یا وہ سری نماز پڑھا رہا ہے تو آپ ضرور سورۂ فاتحہ پڑھیے۔ یہی عقلِ عام کا تقاضا ہے۔ اس معاملے میں چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی متعین حکم نہیں دیا، بلکہ لوگوں نے آپ کی بعض باتوں سے قیاس کیا ہے تو ان سب کو عقل عام کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے اور اس میں وہی رائے اختیار کرنی چاہیے جو معقولیت پر مبنی ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے ہی مقرر فرمائی ہے۔ تمام انبیا علیہم السلام کے ہاں نماز ایسے ہی رہی تھی۔ صرف اس کے اذکار میں تھوڑی بہت تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نماز اسی طرح تھی۔ یہود کے ہاں بھی نماز تھی، نصاریٰ کے ہاں بھی نماز تھی۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پیرو بھی نماز پڑھتے تھے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اپنے والد کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔ انھوں نے اگر کوئی نماز جان بوجھ کر قضا کی ہے تو اس کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کی جائے ۔ اگر ان کی کوئی نماز کسی غلطی فہمی یا کسی معذوری کی وجہ سے چھوٹ گئی ہے تو اُس پر اللہ مواخذہ نہیں کریں گے۔ آپ کو اِس معاملے میں متردد نہیں ہونا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: احناف یہ کہتے ہیں کہ جب تک سایہ آدمی کے قد کے دگنے (دومثل )کے برابر نہیں ہوجاتا ، نماز کا وقت شروع نہیں ہوتا۔ اہلحدیث کہتے ہیں کہ جب سایہ ایک آدمی کے قد کے برابر ہو جائے یعنی ایک مثل ہو جائے تو وقت شروع ہو جاتا ہے اس طرح کے معاملات میں جہاں اجتہاد کااختلاف ہوتا ہے ، اللہ تعالی انسان کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کسی کی رائے صحیح ہو لیکن میرا رحجان یہ ہے کہ جس وقت سورج غروب کی طرف مائل ہونا شروع ہو جائے ، عصر کا وقت شروع ہوتا ہے ۔ یعنی اہل حدیث حضرات سے ذرا بعد میں اور احناف سے ذرا پہلے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب تک شفق غائب نہیں ہو جاتی۔یہ وقت اندازاً ایک گھنٹے کے قریب ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسی کوئی بات حضورﷺ نے نہیں فرمائی ۔ نماز کا معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ معذور ہیں تو جتنا کچھ کر سکتے ہیں کیجیے ، آخری حد یہ ہے کہ اشارے کے ساتھ پڑھتے رہیے ، اس سے بھی آدمی معذور ہو گیا ہے تو پھر اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز میں جو لازمی اذکار ہیں وہ اللہ کے پیغمبر نے واضح کر دیے ہیں ، باقی معاملات کو انسانوں کی عقل پر چھوڑ دیا ہے اور عقل عام وہی کہتی ہے جو امام مالک کا مذہب ہے کہ امام پڑھے گا تو سنیں گے ، خاموش ہو گا تو پڑھیں گے۔ نبیﷺ نے اس کو متعین نہیں کیا اور جن لوگوں نے اس کو حدیثوں سے متعین کرنا چاہا ہے انہوں نے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا کیے ہیں ، اس معاملے میں آزاد چھوڑا گیا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں۔ نماز روزے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔روزے سال میں ایک بار آتے ہیں اور نماز پڑھنے میں پانچ دس منٹ لگتے ہیں ۔ باقی سارا وقت معاشی جدوجہد کے لیے ہے۔معاش کی جدوجہد فطرت کا تقاضا ہے اور اس کے لیے اللہ نے انسان کو پوری صلاحیت دی ہے ، اسے اپنے رب سے مایوس ہونے کے بجائے اس پربھروسہ رکھنا چاہیے اور نئے نئے راستے نکالنے چاہیےں ۔ نماز روزہ اسے اللہ سے جوڑتا ہے اور اللہ سے جڑنا معاشی جدوجہد میں بھی معاون و مددگار ہوتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی عذر ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن عذر کے بغیر اس کو اپنا معمول نہیں بنایا جا سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی لازم نہیں نماز پڑھنے کے لیے ۔نماز الگ حکم ہے اور یہ الگ حکم ہے تو ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز جمعہ کی کوئی قضا نہیں ہوتی ، بس آپ ظہر کی نماز پڑھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بڑی غلط تعبیر ہے جو ہمارے بعض آئمہ کرتے ہیں ۔ دو صورتیں ہیں ، ایک صورت یہ کہ آپ نے کوئی وقت commit نہیں کیا یعنی یہ نہیں بتایا ہوا کہ ڈیڑھ بجے جمعہ ہو گا تو امام صاحب کی مرضی ہے کہ جب چاہیں پڑھا دیں ۔ لیکن اگر اس نے پہلے سے کوئی commitment کی ہوئی ہے کہ ڈیڑھ بجے جمعہ ہو گا تو پھر ایک سیکنڈ کی خلاف ورزی بھی حرام ہے ۔ مسلمان کی زندگی کے اندر جو بنیادی نیکیاں ہیں ان میں اللہ تعالی نے والموفون بعھدھمکو بھی شامل کیا ہے ۔ وقت کی پابندی دوسری قوموں کے لیے بہتر عمل ہو گا مگر ہمارے لیے دینی فریضہ ہے ۔ اگر وقت طے کیا گیا ہے تو کسی امام کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ایک منٹ کی بھی تاخیر کرے اور اگر غلطی ہو جائے تو سامعین سے معافی مانگے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر صلوۃ سے مراد نماز ہی ہے ۔ بعض جگہوں پر دعا اوررحمت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔ لیکن جہاں الصلوۃ آیا ہے وہاں بالعموم نماز ہی کے لیے آیا ہے ۔ نماز میں اگر آپ نے فرض رکعات پڑھ لیں تو آپ کی نماز ہو گئی ۔ آپ مواخذے سے بچ گئے لیکن یہ کم سے کم عبادت ہے جو آپ نے کی ۔ اس سے آگے جو نفل پڑھتے ہیں وہ بڑے اجر کا باعث ہیں لیکن اگر آپ کسی وجہ سے نہیں پڑھتے تو اس پر مواخذہ نہیں ہو گا ۔ جو نفل حضورﷺ بالعموم پڑھا کرتے تھے ان کو سنت کہہ دیا جاتا ہے ۔ نماز بالکل ایسے ہی فرض کی گئی رکعات کی تعداد کے ساتھ۔ ساری امتوں میں ہمیشہ ایسے ہی رہی ہے ،رکعات اور اوقات کے ساتھ حدیثوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں مسجد کی دو صورتیں ہیں ، ایک وہ مسجد ہے جو کسی محلے میں باقاعدہ قائم کر دی جاتی ہے اور ایک مسجد وہ ہے جس کو مسجدالدار کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جو مسجد بنائی گئی ہے اس سے آپ فاصلے پر ہیں اس لیے آپ نے محلے میں کہیں کوئی جگہ باقاعدہ نماز کے لیے مقرر کر دی ہے کہ یہاں نماز ہوا کرے گی ، یہ مسجد الدار ہے ۔ ایسے ہی کاروباری لوگ ہیں جن کے لیے دکانیں بند کر کے دور جانا مشکل ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بڑے بڑے پلازوں میں ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی ہے تو جب آپ نے باقاعدہ نماز کے لیے ایک جگہ مقرر کر دی ہے اور اس میں نماز کا وقت مقرر کر دیا ہے اور اس وقت کے لحاظ سے وہاں جماعت کھڑی ہوتی ہے تو یہ مسجد الدار ہے ۔ اس میں اور محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا ایک ہی جیسا ہے ۔ اس میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن یہ بات کہ آپ اپنے دفتر میں یا کاروبار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دوچار لوگ مل کر جماعت کرالیتے ہیں تو یہ اس کے قائم مقام نہیں ہے۔ جب آپ نے نماز کی جگہ مقرر کر دی ، نماز کا وقت مقرر کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ یہاں اب باقاعدگی کے ساتھ نماز ہوا کرے گی تو یہ چیز مسجدالدار بنا دیتی ہے ، یہ آپ کر سکتے ہیں ، اس میں اور مسجد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بائبل تو اس کے ذکر سے بھری پڑی ہے ۔ نماز عبادت ہے، دعا ہے۔ الفاظ تبدیل ہو جاتے ہیں ، ایساتو نہیں ہے کہ بائبل میں نماز ہی کا لفظ لکھا ہو ۔ نماز تو فارسی زبان کا لفظ ہے ، لیکن دعا ، عبادت تو تمام انبیا کے پاس اسی طریقے سے موجود رہی ہے ۔ قرآن مجید نے اس کوبڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں بتایا ہے کہ انہوں نے نماز ہی کی تلقین کی ۔حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں بتایا ہے کہ جب انہوں نے کعبہ کو آباد کیا تو اسی مقصد کے لیے قائم کیا کہ یہاں نماز کی روایت قائم کی جائے حضرت موسیؑ کے بارے میں قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جیسے ہی ان کی قوم نے ان کو مانا تو گھروں کو قبلہ بنا کر ان کے ہاں باقاعدہ باجماعت نماز کا اہتمام کر دیا گیا ۔نماز کوئی رسول اللہﷺ سے شروع نہیں ہوئی ، تمام انبیا کی امت میں رہی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہماری طر ح اس زمانے میں گھڑیاں نہیں تھیں اورنہ نماز کے وقت کے بارے میں مسجد میں لکھا ہوتا تھا کہ اتنے بج کر اتنے منٹ پر کھڑی ہو جائے گی ۔ایک عام قیاس تھا کہ وقت ہو گیا ہے ۔ امام باہر نکل آیا تو نماز ہو جاتی تھی تو کبھی ذرا جلدی ہو گئی کبھی ذرا بعد میں ہو گئی تو ایسے ہی ہوتا تھا ۔ جس آدمی نے جو دیکھا اس نے اسی کو بیان کر دیا۔ دونوں چیزیں رہی ہیں ، تاخیر سے بھی ہوتی رہی ہے اور جلدی بھی ۔ جیسے عشا کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ عام طریقہ کیا تھا ، کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپﷺ نے کم و بیش نصف رات کے قریب نماز پڑھائی ، ایسا بھی ہوا کہ کم و بیش ثلث لیل کے قریب نماز پڑھائی ۔نمازکے لیے ایک شروع کا وقت ہے ، ایک خاتمے کا وقت ہے ۔ اس دوران میں جب آپ چاہیں پڑھ سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:ضروری نہیں ہے لیکن نبی ﷺ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ عام طور پر اس کا اہتمام کرتے تھے ۔ اس لیے ایسا کیا جائے تو بہتر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رفع یدین کے مسئلے پر صحابہ کااجماع نہیں ہوسکا اس لیے یہ ضروری نہیں لیکن چونکہ بعض روایتوں میں اس کا ذکر ہوا ہے اس لیے اگر کوئی کرتا ہے تو اس کوبدعت ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: فجر کی جماعت کھڑی ہونے کی صورت میں صبح کی نماز کے بعد سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ سنن ترمذی میں باب ہے: ماجاء فیمن تفوتہ الرکعتان قبل افجر یصلیہما بعد صلاۃ الصبح اور سورج طلوع ہونے کے بعد بھی پڑھنا درست ہے جیساکہ سنن ترمذی میں عنوان ہے: ماجاء فی اعادتہما بعد طلوع الشمس۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب۔ صاف جوتے پہن کر نماز پڑھی جا سکتی ہے،اصولاً اِس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ البتہ ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے اسے آداب اور شائستگی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نماز عملاً کیا ہے ، خدا کے حضور میں دل کی گہرائی سے، پورے عجز کے ساتھ کھڑے ہونا، رکوع کرنا ،سجدہ کرنا اور قعدے میں بیٹھناہے ۔ ہاں اِن سب مواقع پر ہم کچھ کلمات بھی زبان سے ادا کرتے ہیں۔ کوئی شخص اگر اِن کلمات کا مفہوم نہیں سمجھ رہا، توایسا نہیں ہے کہ اس کی نماز قبول نہیں ہورہی۔ اسے اصل اجر اس نیت اور عجز کا ملنا ہے جو اس نے پورے شعور کے ساتھ خدا کی بندگی کے لیے اختیار کیا ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اُسے چاہیے کہ وہ کوشش کر کے اِن کے ترجمے سے بھی واقفیت حاصل کرے تا کہ نمازکی برکات میں اضافہ ہو۔سمجھنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے ۔ یاد رہے کہ جو اس امر سے بالکل لا پروا ہو کہ اسے نماز کے کلمات کو سمجھنا بھی ہے اس کے لیے بھی یہ امر خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ نماز خالصتاً اللہ تعالٰی ہی کی طرف متوجہ ہونے کا عمل ہے، اِس میں محمد ﷺ کا ذکر ان کی طرف متوجہ ہونے کے لیے نہیں بلکہ اِن کے لیے دعا مانگنے کی خاطر آتا ہے ۔اِس میں رخ خالصتاً خدا ہی کی طرف ہوتا ہے کیونکہ ہم خدا ہی سے ان کے لیے رحمت کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں اس میں حضور کی طرف متوجہ ہونے کا کوئی پہلو موجود نہیں۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ مسجدِ نبوی میں نمازیں پڑھنا اور روضہ أقدس کی زیارت کرنا اصلاً حج کے مناسک کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ جب انسان سفر کرے تو محبت رسول کا تقاضا ہے کہ اسے مدینہ بھی جانا چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ضروری نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے لہذا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہر نماز کے بعد ہاتھ اـٹھا کر دعا کرنا ضروری ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ہر نماز کے بعد لازماً ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا اور اسے نماز کے باقی ارکان کی طرح ضروری سمجھنا ، یہ بات درست نہیں ہاں البتہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بجائے خود درست ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب۔ تہجدکا اصل وقت آدھی رات کے بعد ہے یعنی نیند سے بیدار ہو کریہ نماز پڑھی جائے ۔البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو تہجد کے وقت اٹھ کر طاق رکعتیں نہیں پڑھ سکتے عشاکے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ آپ کی یہ اجازت اصل میں اسی نماز کے افضل وقت کے معاملے میں ایک رخصت ہے۔یعنی تہجد کی طاق نماز اگر اپنے اصل وقت پر پڑھنا ممکن نہ ہو تو نیند سے پہلے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔۔ تہجد کی نماز کی رکعتیں چونکہ یہ ایک طاق نماز ہے اس لیے تین سے کم نہیں ہوسکتیں۔ لیکن ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد کیا ہو،اس کا کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شک زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعتیں ہی پڑھی ہیں۔ لیکن آپ کا یہ عمل کسی تحدید کا ماخذ نہیں بن سکتا۔ جیسے اگر یہ متعین کر لیا جائے کہ آپ سال میں کتنے نفلی روزے رکھتے تھے اس بات کا ماخذ نہیں کہ سال میں اس تعداد سے زیادہ نفلی روزے نہیں رکھے جا سکتے۔ کیا آپ اس اصول کو متعین کرنا چاہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خیرات سے بڑھ کر خیرات بھی نہیں کی جا سکتی وغیرہ۔ نفلی عبادات میں عدم تعین ہی اصل اصول ہے اور اسی پر ساری امت کا عمل ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: قضا نمازیں ادا کرنے کا یہ طریقہ کہ رمضان میں جمعۃ الوداع کے دن تمام نمازیں رہ جانے والی نمازوں کی قضا کے لیے پڑھ لی جائیں سرتاسر خود ساختہ ہے۔ اصل طریقہ یہ ہے کہ رہ جانے والی نمازوں کا اندازہ کرکے ہر نماز کے ساتھ پڑھ کر ان کی تعداد پوری کر دی جائے۔ اس عرصے میں اگر چاہیں تو سنتیں(یعنی نوافل) نہ پڑھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اس نماز کے بارے میں صحیح روایات سے کوئی بات ثابت نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب: اگرچہ یہ بات معمول بنانا پسندیدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ مسجد کی حاضری سے گریزکسی سبب ہی سے ہونا چاہیے۔ لیکن اگر گھر میں نماز پڑھی جارہی ہو تو جماعت کرائی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں اگر دوہی افراد ہیں تو بیوی کو کچھ پیچھے ہٹ کر دائیں طرف کھڑا ہونا چاہیے ۔ واضح رہے کہ یہ جواب کسی نص سے ماخوذ نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ یعنی آدمی نیکی کا جو بھی کام کرنا چاہے ، اس کے دل میں یہ ارادہ ہو کہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ کام کر رہا ہوں ۔ نیت زبان سے کچھ کہنے کا نام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یہ جورواج ہو گیا ہے کہ نماز پڑھتے وقت یہ ضرورکہنا چاہیے کہ دو رکعت نماز فرض واسطے اللہ تعالی کے منہ طرف قبلہ شریف وغیرہ، یہ کوئی چیز نہیں ۔ دل میں ارادہ کیجیے اور بس اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دیجیے۔ زبان سے اس طرح کے کلمات کہنا نہ نماز میں کوئی چیز ہے نہ روزے میں ۔ رمضان میں روزہ رکھنے کی جو نیت بتائی جاتی ہے، وہ بھی لوگوں کے بنائے ہوئے الفاظ ہیں ۔ہرعبادت اور ہر نیکی کے کام میں آپ دل کا ارادہ کریں ، یہی کافی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارا دین کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ یہ وہی دین ہے جو سب انبیا نے پیش کیا۔اور نماز سب انبیا کے دین میں ویسے ہی موجود تھی جیسے ہمارے ہا ں ہے ،انہی اوقات کے ساتھ اور اسی اہتمام کے ساتھ ۔اسی طرح زکوۃ بھی تھی۔ حج اور عمرے کے بارے میں تو ہر شخص جانتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ایسے ہی تھا ۔ قربانی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان تمام عبادات اورمعاملات میں جہاں کوئی بدعت داخل ہو چکی تھی ، قرآن مجید نے اس کی اصلاح کر دی ، کوئی انحراف ہو گیا تھا تواس کو درست کر دیا ، کوئی چیز ضائع کر دی گئی تھی تو اس کو جاری کر دیا گیا ۔اسلام ہمیشہ سے موجودتھا۔ سیدنا ابو ذر غفاریؓ کے اسلام لانے کی جو روایت بیان ہوئی ہے اس میں انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ میں نے ابھی نبیﷺ کی بعثت کے بار ے میں سنا بھی نہیں تھا کہ میں عشا اور فجر کی نماز کا پابند ہو گیا تھا ۔ عرب بھی نماز پڑھتے تھے ، یہود بھی نماز پڑھتے تھے۔ یہود کے ہاں بالکل ایسے ہی پانچ نمازیں تھیں جیسے ہمارے ہیں البتہ انہوں نے دونمازوں کو جمع کر کے تین بنا رکھا تھا۔اصل میں پانچ ہی نمازیں تھیں ، اسی لیے قرآن نے نماز کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی صرف یہ کہا کہ نماز پڑھو ،کیونکہ نماز سے لوگ پہلے سے واقف تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فجر یا عصر کے بعد کوئی نفل نہیں پڑھے جا سکتے ،یہ اصل میں سد ذریعہ کا حکم ہے کیونکہ اس میں وہ وقت آرہا ہوتا ہے جس میں سورج نکلنے یا غروب ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے حضورﷺ نے کہا کہ احتیاط کرو کیونکہ سورج طلوع اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے تک سورج دیوتا کی پرستش انہی اوقات میں ہوتی رہی ہے۔ آپ کو اگر پورا اطمینان ہو کہ سورج غروب نہیں ہو رہا یا طلوع نہیں ہو رہا اور آپ کوئی نفل پڑھنا چاہیں تو اس کی ممانعت نہیں ۔ خود رسول اللہﷺ کے بارے میں معلوم ہے کہ کچھ نفل ظہر کے رہ گئے تھے تو آپﷺ نے عصر کے بعد پڑھے اور ایک موقع پرجب ام المومنین غالباً ام سلمہؓ نے پوچھا تو آپ نے اس کی وضاحت کی یہ کچھ نوافل تھے جو میں پڑھ رہا تھا ۔آج کل ہمارے ہاتھ میں گھڑی ہوتی ہے اور ہم کافی اطمینان سے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سورج غروب ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا ، اس زمانے میں یہ صورت نہیں تھی اور اس کا اندیشہ ہوتا تھا کہ عبادت کرنے والے لوگ ان اوقات میں عبادت نہ کرنے لگ جائیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج : نماز میں دوطرح کے اذکار ہیں بعض متعین اوربعض غیر متعین مثلاًعربی زبان میں جو اذکار متعین اورضروری ہیں وہ اللہ اکبر ، سمع اللہ لمن حمدہ ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، سورہ فاتحہ ا ور قرآن کا کچھ حصہ ملانا ہے، باقی تمام اذکار میں آزادی ہے۔ البتہ یہ یاد رکھیں کہ یہ اذکار تسبیح یا تحمید کی قسم کے ہونے چاہیں۔( تسبیح سے مراد سبحان اللہ یا اس طرح کے کلمات ہیں اسی طرح تحمید سے مراد اللہ کا شکر اللہ کی حمد الحمد للہ جیسے کلمات ہیں)اسی طرح دعاؤں میں بھی آزادی ہے جو دعائیں بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں ۔ برصغیر میں علما نے عوام کی سہولت کے لیے رب اجعلنی کی دعا سکھا دی ہے لیکن یہ کوئی متعین نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔ رکوع میں رسول اللہﷺ صرف سبحان ربی العظیم ہی نہیں پڑھتے تھے بلکہ بہت سی اور تسبیحات بھی کرتے تھے۔یہی صورت سجدے کی تھی۔ لیکن بہر حال وہ تسبیح ، تحمید یا دعا و مناجات ہوتی تھی۔ بعض چیزوں کے بارے میں حضور نے متنبہ بھی فرمایا ہے کہ یہ نہیں پڑھنی چاہییں۔مثلاً کہ رکوع اور سجدہ میں قرآن نہیں پڑھناچاہیے البتہ دعا کی جا سکتی ہے اور قرآن کی جو دعائیں ہیں وہ بھی ان مواقع پرکی جاسکتی ہیں۔ سبحان ربی ا لاعلی کے بجائے آپ کوئی اور ذکر کر لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح آپ سبحان ربی العظیم کی جگہ کوئی اور چیز پڑھ لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ وہ تسبیح یا تحمید کی نوعیت کی چیز ہو۔خود رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک صاحب نماز میں آکر ملے اور انہوں نے ربنا لک الحمد کے بعد کہا حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے کلمات کہے۔ حضورﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد پوچھا یہ کون تھے تو وہ گھبرائے کہ شاید کوئی غلطی ہو گئی ہو لیکن جب آپ ﷺنے بار بار پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے یہ جسارت کی تھی ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیس فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کو پانے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے ۔ اس طرح گویا آپﷺ نے بتایا کہ نماز اور کس چیز کا نام ہے ، آپ اس میں دعائیں کیجیے ، حمد کیجیے تسبیح کیجیے ۔ حضور ﷺنماز میں جودعائیں مانگتے تھے وہ حدیث کی کتب میں محفوظ ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک موقع کے لیے وہ بہت سی دعائیں اور اذکار ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج : کئی وجوہ ہو سکتی ہیں ، خاص طور پر خواتین چونکہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں تو بعض اوقات اس طرح ڈر سا محسوس ہوتا ہے ۔بعض مردوں کے ساتھ بھی یہی صورت ہو جاتی ہے۔ اس کا سبب عام طور پر نفسیاتی ہوتا ہے ایمان کی کمزوری کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ایسی صورت میں بالکل گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ کچھ دیر تک جب آپ اٹھتی رہیں گی تو خودبخود ہی مانوس ہو جائیں گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز کے دو حصے ہیں ۔ ایک حصہ وہ ہے جس کو امت کے لیے جاری کر دیا گیا ہے،یعنی لازمی ہے۔ اس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ کیاجاسکتا ہے۔ اس حصہ میں کچھ اعمال ہیں اورکچھ اذکار ہیں ۔ اعمال یہ ہیں کہ آپ رفع یدین کر کے نماز شروع کریں گے ، قیام کریں گے، رکوع میں جائیں گے ، قومے کے لیے اٹھیں گے ، دو سجدے کریں گے ، دو رکعتوں کے بعد اور آخری رکعت میں قعدے میں بیٹھیں گے ، منہ پھیر کر نماز ختم کر دیں گے ۔ یہ اعمال ہیں جو جاری کیے گئے ہیں۔ اورلازمی اذکار یہ ہیں۔ خفض و رفع پہ اللہ اکبر کہیں گے ، رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہیں گے اور نماز ختم کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہیں گے ، سورہ فاتحہ پڑھیں گے اس کے بعد قر آن ملائیں گے ۔ یہ اذکار ہیں جو جاری کر دیے گئے ہیں ۔ یہ نماز وہ نماز ہے جس میں پوری امت میں نہ کبھی اختلاف ہوا ہے اور نہ اب ہے۔ اس نماز کو جو آدمی پڑھتا ہے وہ نماز کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد نماز کا اختیاری حصہ ہے جس میں بہت سی دعائیں ، تسبیح و تحمید کی جا سکتی ہے۔ ان میں کوئی پابندی نہیں حضور نے ان مواقع پر ایک سے زیادہ دعائیں اور اذکار کیے ہیں۔ تسبیح اور تحمید جہاں چاہے کر سکتے ہیں ، اسی طرح قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن ملانے کے بعد دعا کر سکتے ہیں ، آپ قومے میں دعا کر سکتے ہیں ، آپ دو سجدوں کے درمیان دعا کر سکتے ہیں ، یہ اختیاری حصہ ہے ، اس اختیاری حصہ میں رسول اللہﷺ سے جو چیزیں ثابت ہیں وہ سب احادیث کی کتب میں محفو ظ ہیں۔نماز کے لازمی اعمال و اذکار ہر حال میں ادا کرنے ہیں۔ ہمارے ہاں نماز کے بارے میں جو سر پھٹول ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کے لازمی اور اختیاری حصہ میں فرق نہیں سمجھا گیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی کی ذات کا کوئی تصور کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ انسانی علم کا اگر تجزیہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہم صرف وہی باتیں جان سکتے ہیں جو ہمارے حواس کی گرفت میں آ جائیں ۔اللہ کی ذات کا توکوئی تصور قائم کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے البتہ اللہ کی صفات کا ایک تصور ہم قائم کرسکتے ہیں۔ لیکن اس طرح بھی جو تصور قائم کرنے کی کوشش کریں گے وہ ہمارا اپنا تخیلاتی ہیولا ہو گا ، اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہو گی ۔ گویا کہ ہر آدمی کا پروردگار اس کی ذہنی ساخت کے مطابق بن جائے گا ۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اس طرح کے کسی تصور کو خدا نہیں سمجھ لینا چاہیے ۔ہمارے سامنے اللہ کی صفات کا ایک بڑا ہی تفصیلی بیان قرآن میں ہے ، بس ان صفات سے جو ہیولہ ہمارے ذہن میں بنتا ہے وہ صفاتی ہو گا ، اسی کو سامنے رکھ کر آپ یہ خیال کریں کہ آپ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں ۔ حضورﷺ نے اس مشکل کو حل کیا ہے ، جہاں یہ بات کہی ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ تم اللہ کی بندگی کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو ، نہیں دیکھ رہے، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے ، وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ پروردگار ہمیں دیکھ رہا ہے اس کا تصور قائم کرلینا چاہیے ، یہ کافی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے ہاں قضائے عمری کا جوتصور رائج ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر کسی آدمی کی بہت سی نمازیں قضا ہو گئی ہیں اور اب اللہ نے اس کو شعور دیا ہے تو وہ نماز کیسے پڑھے ۔ اس میں اہل علم کے تین موقف ہیں ، تین موقف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ ا ور اس کے پیغمبر نے کوئی بات نہیں کہی ، جس کی بنا پر اجتہاد کیا گیا ہے اور اجتہاد کرنے والوں کی تین آرا ہو گئی ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ آپ باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وہ نمازیں پڑھیں گے یعنی آپ یہ نیت کر کے پڑھیں گے کہ میں آج فلاں دن کی نماز پڑھ رہا ہوں ۔ دوسرا نقطہ نظر جو امام ابن تیمیہؒ کاہے وہ یہ ہے کہ آپ جو نوافل پڑھتے ہیں ان کی جگہ آپ فرض نماز کی نیت کر لیں ، اللہ وہ بھی قبول کرے گا اور نوافل کا اجر بھی دے دے گا ، وہ اجر دینے میں بہت فراخ واقع ہوا ہے ۔ تیسرا نقطہ نظر امام ابن حزمؒ کا ہے ، وہ یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ اس میں اللہ تعالی اور اس کے پیغمبر نے کوئی قانون سازی نہیں کی تو ہمارے لیے یہی راستہ ہے کہ اللہ سے معافی مانگیں اور تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے ، آپ کو جو بات معقول لگے اس کو اختیار کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا ہو جاتا ہے ، بعض اوقات انسان بہت کوشش کرتا ہے مگر پھر بھی دل نہیں لگتا۔اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں ، گناہ ہو جائے ، نظر کاغلط استعمال ہو جائے یا معاملات میں کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو عام طور پر عبادت میں حلاوت نہیں رہتی۔ بحیثیت مجموعی اپنے ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔پھر بھی یہ کیفیت طاری رہے تو یہ شیطان کا دھوکہ ہوتا ہے کہ بند ہ نماز چھوڑ بیٹھے۔بس محتاط رہیے کہ کہیں نماز نہ چھوڑ بیٹھیں ۔ اڑے ہوئے دل کے ساتھ بھی نماز پڑھے ، اللہ یہ کیفیت آہستہ آہستہ دور کر دیتے ہیں۔ ایسا ہوتا رہتا ہے جیسے ہم باقی معاملات میں یکساں نہیں ہوتے کسی دن بہت اطمینان سے کام پر جاتے ہیں ، کسی دن تھکے ہوتے ہیں ایسی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں تو یہ چیزیں عبادات میں بھی ہو جاتی ہیں

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز میں قیام کرنا سنت ہے ، ہاتھ باندھے جائیں یا نہیں ، اس کا تعلق روایات سے ہے اور حضورﷺ کے بارے میں یہ روایت معلوم ہے کہ آپﷺ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے تھے ۔ اگر کسی آدمی کے نزدیک وہ روایت ثابت نہیں ہے تو وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ نماز کا لازمی جزو بس قیام ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: چاروں آئمہ میں سے کسی کی یہ رائے نہیں ہے کہ اگر فجر کی دو رکعات نہیں پڑھیں جن کو سنت کہا جاتا ہے تو نماز نہیں ہو گی ۔ یہ کسی عامی نے آپ کوبتاد یا ہو گا،کوئی عالم یہ نہیں کہہ سکتا۔ میرے نزدیک فجر کی لازمی نماز دو رکعت ہے ، اس سے پہلے جو دورکعت آپ پڑھتے ہیں وہ نفل ہیں ۔ پڑھیں گے تو بڑا اجر ملے گا ۔ اگر نہیں پڑھیں گے تو ایسا نہیں کہ نماز ہی نہیں ہو گی ۔نماز تو ہو جائے گی البتہ ایک بڑے اجر سے محرومی ہو گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس بارے میں کوئی بات بھی مسلمانوں پر لازم نہیں کی گئی ۔آپ نماز جنازہ میں جو دعا چاہیں کر لیں ۔سورہ فاتحہ بھی ایک دعا ہے ،پڑھنا چاہتے ہیں تو پڑھ لیں ، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ یہ جوعام طور پر نماز جنازہ کے طریقے میں فرق موجود ہے یہ فقہا کی تحقیق کے نتائج میں فرق کی بنا پر ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز کامقصد خود قرآن نے بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نماز اس لیے لازم کی گئی ہے تاکہ خدا یاد رہے ۔ اقم الصلوۃ لذکریخدا کی یاد کو قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نمازہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ادا کی جا سکتی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو عشا کے بعد پڑھنے کی اجازت دے دی ہے ، اگر کوئی آدمی نہیں اٹھ سکتا تو عشا کے بعد پڑھ لے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ادا کی جا سکتی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو عشا کے بعد پڑھنے کی اجازت دے دی ہے ، اگر کوئی آدمی نہیں اٹھ سکتا تو عشا کے بعد پڑھ لے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سلام نماز کے ختم کرنے کا سنت طریقہ ہے ۔ نماز شروع کرنے کی علامت رفع یدین ہے اور ختم کرنے کی علامت سلام پھیرنا ہے ۔ شہادت کی انگلی توحید کی گواہی دینے کے لیے اٹھاتے ہیں۔ حضورﷺ نے اسی طریقے سے اٹھائی ہے ۔ یہ سنت اجماع کے ساتھ منتقل ہوئی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز اصل میں رکوع ، سجود ، قعدے ، قیام کا نام ہے ۔اس وقت ان قوموں کے ہاں اللہ کی جو کتاب تھی وہ پڑھی جاتی تھی ۔ جب قرآن نازل ہوا توسورہ فاتحہ آگئی ۔ باقی نمازکے اعمال ویسے کے ویسے ہی رہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بات یوں نہیں ہے کہ حرمین میں زوال کا وقت نہیں ہوتابلکہ بات یوں ہے کہ چونکہ زوال کے وقت یا طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت اس لیے کی گئی تھی کہ اس موقع پر آفتاب کو پوجنے والے اس کی عبادت کیاکرتے تھے۔ حرمین چونکہ توحید کا مرکز ہیں اور ان مراکز میں اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ لوگ اس بات کو گڈ مڈ کر دیں گے اس لیے بعض علماکے نزدیک اس بات کی اجازت ہے ۔ خیال رہے کہ سارے علما کا یہ موقف نہیں ہے ، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہاں بھی ان اوقات کالحاظ کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دروداللہ کے حضور میں ایک دعا ہے جو ہم حضورﷺ کے لیے کرتے ہیں ۔ کیونکہ نماز میں اللہ تعالی نے ہمیں بہت سی دعائیں کرنے کی اجازت دی ہے ، اس لیے ہم حضور ﷺ کے لیے بھی کرتے ہیں۔صحابہ کرامؓ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ ہم آپ کے لیے بھی دعا کرنا چاہتے ہیں تو کیا طریقہ اختیار کریں ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ آپ خاموش رہے ، بار بار پوچھنے پر آپﷺ نے کہا کہ میرے لیے اس طرح دعا کیا کرو ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک رفع یدین تو وہ ہے جس سے نماز شروع ہوتی ہے ، وہ لازمی ہے ۔ اس کے بعد باقی مواقع پر آپ چاہیں تو کر لیں چاہیں تو نہ کریں ، نبی ﷺ نے کبھی کبھی کیاہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے کسی موقع پر اگر پانچوں نمازیں رہ گئی ہیں تو آپ پانچوں نمازیں اکٹھی قضا پڑ ھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اسے معمول بنا لیں اور یہ طے کر لیں کہ میں پانچوں نمازیں اکٹھی ہی ادا کرلیا کروں گا تو اس کی اجازت نہیں ہے اورنہ کوئی گنجائش ہے بلکہ گنجائش تو تین کی بھی نہیں ہے ۔پانچ نمازیں پانچوں اوقات ہی میں پڑھی جائیں گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہمارے ہاں جیسے لوگ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں ،یہ طریقہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں نہیں تھا ۔ لوگ انفرادی دعا کر لیتے تھے ۔ جس نے جاناہوتا تھا چلاجاتاتھا۔ اصل میں نماز کے اندر دعا کو باقاعدہ رکھا گیا ہے ۔یعنی قعدہ اصل میں دعا کی جگہ ہے ۔ نماز کے بعد جیسے ہمارے ہاں لوگ ایک معمول کے طور پردعا کرتے ہیں یا دعا کراتے ہیں یہ طریقہ حضور ﷺکے زمانے میں نہیں تھا۔ البتہ اگر متقدیوں میں سے کسی نے کہہ دیا تو آپﷺ دعا کر دیتے تھے ۔اور ایسے ہی اگر کوئی غیرمعمولی صورتحال ہوتی جس میں حضورﷺ پسند فرماتے کہ سب کو شریک کیا جائے تو سب کو شریک کر لیتے تھے لیکن عام طریقہ یہی تھا کہ نماز پڑھیے ، اپنی دعا کیجیے اور گھر جائیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ ایک بڑا پاکیزہ ذکر ہے ، حضورﷺ نے بھی اس کی بڑی تحسین فرمائی ہے ، اگر آپ کریں گے تو امید ہے کہ اللہ کے ہاں آپ کو بڑی نعمت حاصل ہو گی ۔اس کو سمجھ کر کیجیے یہ بہت پاکیزہ ذکر ہے یعنی اس میں اللہ کی توحید کی گواہی دی جاتی ہے ،اس کا شکر ادا کیا جاتا ہے اوراس کی کبریائی کا اعتراف کیا جاتا ہے اگر یہ صحیح شعور کے ساتھ ہو تو یہ ہمارے ایمان کا بہترین اظہار ہے اور اللہ سے تعلق کی بھی بہترین علامت ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز والی جگہ کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہیے کہ جوآپ کی توجہ کواپنی جانب مبذول کرلے اگر تصویر سے توجہ بٹتی ہے تو اسے ہٹا دیں اگر توجہ مرکوز رہتی ہے تو تصویر سے کچھ نہیں ہوتا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اقامت صلوۃ کا مطلب ہے نماز کا اہتمام کرنا یعنی نماز کو اللہ کے دین کا ایک بڑا حکم سمجھ کر بڑے اہتمام سے ادا کرنا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جمعہ کی نماز دو رکعت فرض ہے ،یہ اگر پڑھ لی تو آپ مواخذہ سے بچ گئے۔ جمعہ سے پہلے کوئی نفل نماز حضورﷺ نے نہیں پڑھی سوائے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے ۔ جمعہ کے بعد آپﷺ کبھی دو رکعت پڑھتے تھے اور کبھی چار ۔ دو اور چار یا چار اور دو نہیں پڑھیں ۔کبھی دو اور کبھی چار ۔ یہ بات روایات میں بیان ہو گئی ہے ، بعد کے لوگوں نے کہا کہ کیونکہ کبھی چار اور کبھی دو پڑھتے تھے تو ہم دو بھی پڑھ لیتے ہیں اور چار بھی پڑھ لیتے ہیں تو انہوں نے چھ بنا دیں ۔نفل نماز ہے کوئی پڑھنا چاہے تو اچھی بات ہے لیکن حضورﷺ سے ثابت اتنا ہی ہے ۔ یہ بات کہ حکومت کے بغیر جمعہ نہیں ہوتا ،اصولاً ٹھیک ہے۔ لیکن مسلمان اب صدیوں سے حکومت کے بغیر ہی جمعہ پڑھ رہے ہیں تو اسے جاری رہنا چاہیے ۔کیونکہ جب کوئی عمل خواہ تیمم کے طریقے پر ہی کیاجاتا ہے توپھر اس میں احتیاطاً کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی آپ نے تیمم کیا اور آپ کو اطمینان تھا کہ اس وقت پانی نہیں ہے تو تیمم کر کے آپ نے نماز پڑھ لی ، اب پانی موجود ہو گیا تو احتیاطاً نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے احتیاطی ظہرکوئی چیز نہیں ہے ۔ آپ جمعہ پڑھ لیجیے بس آپ ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے ۔ یہ کام حکمرانوں کا ہے جب اللہ ان کو توفیق دے گا وہ مسجد میں آ جائیں گے ، آئیں گے تو جمعہ پڑھا دیں گے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نمازمکروہ نہیں قضا ہو جائے گی کیونکہ آدھی رات تک ہی عشا کاوقت ہوتا ہے۔ البتہ اگر آپ اس وجہ سے سو گئے کہ بہت تھکے ہوئے تھے، تھوڑے آرام کے لیے لیٹے لیکن لیٹتے ہی اچانک آنکھ لگ گئی تو اس میں البتہ جب آپ کی آنکھ کھلے فوراًنماز پڑھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا شخص ایک کام اچھا کر رہا ہے اور ایک بہت برا ۔ جس طرح بندوں کے بارے میں جو جرائم ہیں ان سے بچنا ضروری ہے اسی طرح اللہ کے مقابلے میں بھی انسان کو سرکش نہیں ہونا چاہیے ۔نماز اللہ کے حضور حاضری ہے ، اس کا بندوں سے اچھا یا برا ہونے سے کیا تعلق ہے ؟ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی کہے کہ میں لوگوں کے ساتھ بہت اچھا معاملہ کرتا ہوں ان کی ہر ضرورت پوری کرتا ہوں لیکن ماں باپ کو گالیاں دیتا ہوں اورکہے کہ ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے ، میں ان لوگوں سے تو اچھا ہی ہوں جو ماں باپ کو گالیاں نہیں دیتے اوران کی خدمت کرتے ہیں لیکن باقی بندوں کا حق ادا نہیں کرتے …… خدا کا ایک حق ہے وہ بھی ہمارے ذمہ ہے اور بندوں کے حقوق ہیں وہ بھی ہمارے ذمہ ہیں۔ اس میں تفریق کر کے ایک دوسرے پر برتری جتانے کی کیا وجہ ہے ،دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں۔ آدمی کو عاجزبن کر ہی رہنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں جس کا ذکر ہے وہ تو عصر کی نماز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عصر کی نماز بالخصوص جنگ کے موقع پرایسی صورت پیدا کر دیتی تھی کہ اس کے ضائع ہونے کا بڑاامکان ہوتا تھا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر وہ نماز جوتمدن کی تبدیلی کے ساتھ ایسے موقع پر آجائے کہ جس میں آدمی بہت مشغول ہو اور نماز کے لیے اٹھنا مشکل ہو جائے تو خاص طور پر تاکید فرمائی ہے کہ اس نماز کو ضائع ہونے سے بچایاجائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر کوئی ایسا معاملہ ہو رہا ہے جس میں فوراً روکنا ضروری ہے تو آپ سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں ۔ ہاتھ سے اشارہ کر سکتے ہیں اور اگر کوئی خطرناک صورتحال ہے تو آپ نماز توڑ دیجیے اور بچے کو متنبہ کر کے نماز پوری کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ سوال ہمارے قومی مزاج کی صحیح عکاسی ہے۔ ہمارے لیے دین سیکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، قرآن سیکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ کسی معاملے میں اگر تسلی نہیں ہوئی تو ہم ساری چیزوں سے محروم ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے آدمی کو اپنے اس رویے کی اصلاح کرنی چاہیے اور اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ وہ سب چیزوں کو شیطان اور ملائکہ کے خانے میں نہ ڈالے ، اختلافات کے باوجود خیر سے فائدہ اٹھائے اور اگر کسی چیز پر اطمینان نہ ہو تو اس پر گفتگو جاری رکھے ۔ فرقہ بازی اسی رویے سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے اس رویے کی اصلاح ہونی چاہیے ۔یہی رویہ بحیثیت امت ہماری بدقسمتی بن گیا ہے ۔

            نماز کے بعد اجتماعی دعا نبیﷺ سے ثابت ہی نہیں تو مانگنے کا کیا سوال ۔ یہ صرف ہندستان میں ایک روایت بن گئی ہے ۔ آج بھی ہندستان کے باہر عالم اسلام کے علما بالعموم اس طرح دعا نہیں مانگتے ۔ حضورﷺ نے کبھی محسوس کیا کہ اجتماعی دعا کی ضرورت ہے ، یا لوگوں میں سے کسی نے درخواست کر دی کہ بارش یا کسی اور کام لیے دعا کردیں ، تب آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ انفرادی دعا کیجیے ، اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اجتماعی دعا نبیﷺ کی سرے سے سنت ہے ہی نہیں ۔ یہ ہماری ہندستانی روایت ہے ، اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ دین کے معاملے میں ہمارے علم کا حال یہ ہو گیا ہوا ہے کہ جو چیزیں روایت پکڑ جاتی ہیں ان کے بارے میں کوئی جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتا کہ اصل دین کیا ہے

(جاوید احمد غامدی)

ج: لازمی ہے ، اللہ تعالی نے خود اس کو لازم کیا ہے اور اسی کے ذریعے سے ہماری نمازیں پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ کے رخ پر ہو جاتی ہیں ، یہ ضروری ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایک رفع یدین وہ ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے کیا جاتا ہے ۔ یہ حضور ﷺ سے باقاعدہ ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اتفاق ہے۔ یہ نماز کا لازمی حصہ ہے ۔ ایک رفع یدین رکوع میں جاتے یا اٹھتے وقت کیا جاتا ہے ۔ اس پر صحابہ کا بھی اتفاق نہیں ہو سکا اورامت کا بھی نہیں۔ اس لیے اس کے بغیر نماز بلاشبہ ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی سمجھتا ہو کہ یہ کرنا چاہیے تو یہ کوئی بدعت نہیں ، وہ کر سکتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: سادہ طریقہ ہے کہ جب آپ کو شعور ہوا ہے آپ فوراً نما ز پڑھ لیں ۔ زندگی انسان کی محدود ہے ۔ کچھ پتہ نہیں کہ کب بلاوا آجائے ۔اگرآپ کی نماز رہ گئی کسی وجہ سے تو جیسے ہی آپ اس صورتحال سے نکلیں آپ فوراً نماز پڑھ لیں ۔اِلّا یہ کہ کوئی ممنوع وقت ہو اور ممنوع اوقات جو ہیں وہ دو ہی ہیں ۔یا طلوعِ آفتاب کا وقت ہے یاغروب آفتاب کا وقت۔بس اس کو نکال لیجئے اور پھر پڑھ لیجئے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہاں جس مدد کا ذکر ہے وہ مافوق الاسباب مدد ہے ۔یہ مددہم اللہ ہی سے مانگ سکتے ہیں کسی اور سے نہیں مانگ سکتے۔دنیامیں تو ہم ایک دوسر ے سے مدد چاہتے ہی ہیں ۔اگر مجھے آپ کے ساتھ کوئی کاروبار کرنا ہے یا کوئی معاملہ کرنا ہے تومیں آپ سے مدد مانگوں گا ۔مجھے پانی پینا ہے تو میں کہوں گا کسی سے بھئی مجھے پانی لا دو ۔عالم ِ اسباب میں ہم یہ مدد مانگتے ہیں ایک دوسرے سے یہ اصولی بات ہے ۔ اب رہ گئی سفارش تو سفارش اگر آپ نے کسی جائز مقصد کے لئے توجہ دلانے کے لئے کی ہے تو نیکی کا کام کیاہے ۔اگر کسی کا حق مارنے کے لئے کی ہے تو ناجائز کا م کیا ہے ۔یہ دیکھ لینا چاہئے کہ آپ کیا کرنے جارہے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ اچھی بات ہے ۔آپ جماعت کراتے ہیں۔بیگم ساتھ شریک ہو جاتی ہے تو یہ باعثِ اجر ہوگا۔لیکن جس نماز کا ثواب ستائیس گنا بیا ن ہوا ہے۔وہ جماعت کی نماز ہے۔یعنی جو مسلمانوں کے ساتھ آپ جاکر پڑھتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: نبیﷺ کے زمانے میں تو عورتیں عموماساری نمازوں میں مسجد میں حاضر ہوتی تھیں ۔اس لئے اس کا اہتمام کیا جائے تو یہ بالکل ٹھیک ہوگا اس میں کوئی خرابی کی بات نہیں ہے ۔اور حضور ﷺ کے زمانے میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں خاص طور پر آتی تھیں۔عیدین کی نمازوں میں تو حضور نے ان خواتین کوبھی پابند کیا کہ جو ایام سے تھیں کہ وہ صرف خطبہ سننے کے لئے آجا ئیں۔لیکن آئیں ضرور۔نبی ﷺ کے زمانے میں تو طریقہ یہ تھا ۔اب ہمارے ہاں تو ظاہر ہے کہ اس کا اہتمام نہیں ہوتا ۔تاہم عام پانچ نمازوں میں حضورؐ نے یہ بات کہہ دی ہے کہ عورتیں اگر نہیں آئیں گی مسجد میں تب بھی ان کو اجر مل جائے گا ۔یعنی چونکہ ان کے اوپر لازم نہیں ہے۔ تو اس وجہ سے وہ آجائیں تواچھی بات ہے نہ آئیں گھر میں پڑھیں تب بھی ان کو مسجد کی نماز کا اجر مل جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: نمازیں آپ بالکل نہیں ملا سکتے’ بالکل بھی ۔البتہ اگر کسی موقع کے اوپر آپ محسوس کریں کہ کسی دوسری جگہ پہنچنا ہے ۔راستے میں موقع نہیں ملے گا ۔یااور مسائل ہو جائیں گے ۔تو آپ ظہر کے ساتھ ہی عصر کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔اسی طرح مغر ب کے ساتھ ہی عشا کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ایسے ہی موخر کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔یعنی ظہر کی نماز کو عصر کے ساتھ ملا کے اور مغرب کی نماز کو عشا کے ساتھ ملا کے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہہ کر اصل میں ہم نماز سے فارغ ہوتے ہیں اور یہ بڑا پاکیزہ طریقہ ہے کہ اللہ کے حضور میں ہم گئے تھے تو اس سے واپسی کی کوئی علامت ہونی چاہیے ۔جب ہم اللہ کے حضور سے واپس آتے ہیں ’ نماز پڑھنے کے بعد ’ تو اپنے دائیں بائیں اللہ کی مخلوق کے لیے سلامتی کی دعاکرتے ہیں اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا ۔

 شہادت کی انگلی اصل میں توحید کی علامت کے طور پر اٹھائی جاتی ہے۔ نماز اور اسی طرح حج بھی اصل میں علامتیں ہیں ۔ایک علامتی اظہار ہے اللہ کے ساتھ تعلق کا ۔عبادات میں اسی طرح کی علامتیں اختیار کی جاتی ہیں یہ علامتی اظہار بہت اہم ہوتا ہے۔اس کو اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ کچھ چیزوں کی حقیقت ذہن میں قائم رہے۔لوگ اپنے ملک کے جھنڈے کو سلام کرتے ہیں ’ ترانہ پڑھتے ہیں تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی جذبات کا علامتی اظہار ہے ایک symbolic expression ہے تعظیم کا ’ اورآپ کے جذبات کا ۔ نماز میں بھی ایسے ہی کیا جاتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز اصل میں رکوع و سجود ’ قعدے اورقیام کا نام ہے۔ سورہ فاتحہ یا قرآن تو اصل میں وہ اذکار ہیں جوان ارکان میں پڑھے جاتے ہیں۔ پہلے وقتوں میں جو اللہ کی کتاب ہوتی تھی ،ان ارکان میں وہ پڑھی جاتی تھی۔ یہود کے ہاں نماز میں جو دعا پڑھی جاتی تھی وہ میں نے نماز کے ذکر میں لکھ دی ہے اور نصاری کے ہاں جو دعا پڑھی جاتی تھی وہ بھی لکھ دی ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو سورہ فاتحہ آگئی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کی جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نیچے اتر کر نماز پڑھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں یعنی میدان جنگ میں اجازت نہیں ہے۔ ایسی صورت پیش آگئی ہے کہ جس میں اترنا ممکن نہیں ہے تو کیا کرے ۔اس صورت میں اجازت ہے کہ آپ چاہیں تو چلتے چلتے نماز پڑھ لیں اور چاہیں تو سواری ہی پر نماز پڑھ لیں ۔ اگر اس طرح کی صورت آپ کی کار اور موٹر سائیکل پر پیش آگئی ہے، کوئی ایمرجنسی کی صورتحال ہے ، کہیں آپ پھنس گئے ہیں ، اترنا ممکن نہیں ہے تو پھر پڑھ لیں لیکن یہ کہ جہاں موٹر سائیکل روکنے میں کوئی دقت نہیں ہے تو وہاں آپ اتر کر پڑھ لیں ، رسول اللہ ؐ سفر کے دوران میں بھی فرض نمازیں سواری کو روک کر جماعت کروا کر پڑھتے تھے۔ لیکن اگر میدان جنگ ہے ،کوئی اور ایسی صورتحال ہے تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے جیسے گاڑی چھوٹ رہی ہے ، کہیں سے نکلنے میں مشکل ہو رہی ہے کہیں ٹریفک جام ہو گئی ہے یا اس طرح کی صورت ہے توآپ پڑھ سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز استخارہ نہیں بلکہ استخارہ کی دعا کہیے ، رسول اللہ ﷺ نے جس طرح اور بہت سی دعائیں سکھائی ہیں اسی طرح استخارے کی بھی دعا سکھائی ہے ۔استخارہ کیا ہوتا ہے ، کسی معاملے میں اللہ تعالی سے خیر کا پہلو طلب کرنا ۔دعا کی جاتی ہے کہ پروردگار میں اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا آپ اس معاملے میں میرے لیے جو خیر کا پہلو ہے اس کو نمایاں کر دیجیے ، یہ دعا ہے ۔جس طرح باقی دعائیں ہیں اس طرح کی یہ دعا ہے اور جس طرح باقی دعائیں آپ مانگتے ہیں ویسے ہی یہ مانگنی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ جب سو کر اٹھیں تو تہجد کی نماز کاوقت شروع ہو گیا یہ کب تک رہے گا ، فجر تک رہے گا فجر جب ہو جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی تہجد کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور یہ سارا بہترین وقت ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں جس وقت چاہیں پڑھ لیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ کے نزدیک جو دین ہے اس کا نمونہ بن کر رہیے۔ زیادہ توقع تو یہ ہی ہے کہ اسطرح کچھ کہے بغیر ہی ان پر اثر ہو گا لیکن اگر کسی کا یہ خیال ہو کہ مجھے تو نماز نہیں پڑھنی ، مجھے تو جھوٹ بولنا ہے ، مجھے تو بددیانتی کرنی ہے لیکن اولادنیک ہو جائے تو پھرمحض اللہ کے کرم سے ہوجائے توہوجائے اس میں آپ کاکوئی حصہ نہیں ہوگا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کوئی اجر نہیں ملے گا۔ آپ اپنی اولاد کو جو بنانا چاہتے ہیں اسی طرح کے انسان بن کر ان کے درمیان رہیے۔ بیوی بچوں کے معاملے میں انسان کی دورخی پالیسی نہیں چل سکتی ،وہاں تو اصل میں انسان ننگا ہوتا ہے، اصل امتحان یہیں ہوتاہے ۔ میرے خیال میں والدین یا اولاد کی حد تک بہت زیادہ تبلیغ کی ضرورت نہیں ہوتی ، آپ کا وجودہی تبلیغ ہوتا ہے ، آپ کے شب وروز تبلیغ ہوتے ہیں ۔البتہ جب کبھی مناسب موقع ملے نصیحت کرنے کا تو اچھے طریقے سے نصیحت بھی کر نی چاہیے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک غیر معمولی تہذیبی یلغار کے نیچے جی رہے ہیں ۔یہ عام زمانہ نہیں ہے اس میں مغربی تہذیب کی غیر معمولی یلغار ہے اور مغربی تہذیب اپنے تہذیبی پس منظر کے لحاظ سے ہم سے مختلف تہذیب ہے۔ وہ ساری کی ساری بری نہیں البتہ ہم سے مختلف ضرورہے۔ اس کی اقدار مختلف ہیں ، اس کے تقاضے مختلف ہیں ، پھر یہ کہ میڈیا نے اس کو ہمارے گھروں تک پہنچا دیا ہے ، دنیا ایک گاؤں بنتی جا رہی ہے تو اس میں تشدد کا طریقہ کارگرنہیں ہوتا۔ نہ تو یہ طریقہ اختیار کریں کہ ہر موقع پر واعظ اور مبلغ بن کر رہیں اور نہ ہی بالکل خاموش تماشائی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہماری رائے میں آپ کو لوگوں کے تبصروں اور ان کے فتووں سے بے نیاز ہو کر نماز بہرحال باجماعت ہی پڑھنی چاہیے۔جن لوگوں کو ہم مسلمان کہتے ہیں ، وہ خواہ کیسی ہی علمی غلطیوں میں مبتلا ہوں ،ان سے ہم اپنی نماز کیسے الگ کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ جب تک خدا کو الہِ واحد ،محمد ﷺ کو اس کا آخری رسول ، قرآن کو اس کی کتاب ، فرشتوں کو اس کی ایک مخلوق اور آخرت کو برحق مانتے ہیں ، اس وقت تک وہ مسلمان ہیں ۔ جب تک وہ مسلمان ہیں ، ان سے علیحدہ ہو کر نماز کیسے پڑھی جا سکتی ہے۔ رہا ان کے ہاں پائی جانے والی غلطیوں کا معاملہ، تو وہ ہمارے نزدیک بنیادی طور پر علمی غلطیاں ہیں ، خواہ وہ کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔ آپ دیکھیں ! کیا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی آرا اوراپنے تصورات ہی پر قائم رہیں گے ، خواہ وہ قرآن و سنت کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ ظاہر ہے ایسا کوئی بھی نہیں کہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر پیدا ہونے والا کوئی فرقہ اپنے خمیر یا کم از کم اپنے خارج کی وجہ سے ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ باطن کا معاملہ خدا کے حوالے ہے ۔ پس جن لوگوں کا آپ نے ذکر کیا ،نماز میں ان سے علیحدگی درست معلوم نہیں ہوتی۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: میرا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ قصر نماز سفر کی حالت سے مشروط ہے۔ اگر آپا دھاپی کی کیفیت ہو توقصر پڑھنی چاہیے اگر آپ اطمینان سے ٹھہرے ہوئے ہیں او رکوئی مسئلہ نہیں ہے توپوری نماز پڑھیں۔ لیکن احناف کی عمومی رائے یہی ہے کہ مجرد سفر قصر کا باعث بن جاتا ہے ۔اگر آپ اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں تو اس کے لیے 15 دن کی مدت مقرر کر رکھی ہے آپ قصر کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا ایک اجتہادی مسلہ ہے یعنی یہ فیصلہ ہم کو کرنا ہے ، معقول فیصلہ یہ ہے کہ امام پڑھ رہا ہو بلند آواز سے تو سنیے اگر خاموش ہو تو پڑھیے ، جو کام ہم کو کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز کے دو حصے ہیں ، ایک حصہ وہ ہے جس کو امت کے لیے جاری کر دیا گیا ہے جس میں نہ کوئی اختلاف کیا جاسکتا ہے اور نہ ہے ۔ اس میں کچھ اعمال ہیں اور کچھ اذکار ہیں ۔اعمال یہ ہیں کہ آپ رفع یدین کے ساتھ نماز شروع کریں گے۔ قیام کریں گے ، رکوع میں جائیں گے ، قومے کے لیے اٹھیں گے ، دو سجدے کریں گے ، دو رکعتوں کے بعد اور آخری رکعت میں قعدے میں بیٹھیں گے ۔سلام پھیر کر نماز ختم کر دیں گے ۔یہ اعمال ہیں جو جاری کیے گئے ہیں ۔اور اذکار جوجاری کیے گئے ہیں و ہ یہ ہیں کہ خفض و رفع پر اللہ اکبر کہیں گے ۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ کہیں گے اوراٹھنے پر سمع اللہ ہ لمن حمدہ کہیں گے اور نماز ختم کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہیں گے ۔ سورہ فاتحہ پڑھیں گے اس کے بعد قرآن ملائیں گے یہ اذکار ہیں جو جاری کر دیے گئے ہیں ۔ یہ نماز وہ نماز ہے جس میں کبھی پوری امت میں اختلاف نہ ہوا ہے ، نہ ہے ۔اور اس نماز کو جو آدمی پڑھتا ہے وہ نماز کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد نماز کا اختیاری حصہ ہے جس میں حضور نے ہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ اس عبادت کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے بہت سے کا م کیے جا سکتے ہیں ۔آپ دعائیں کر سکتے ہیں ۔ جو دعائیں بھی اللہ آپ کو توفیق دے ۔ آپ رکوع اور سجدے میں تسبیحات کر سکتے ہیں اوردعائیں بھی کر سکتے ہیں۔ آپ انہیں دونوں مقامات پر اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر جو کہنا چاہتے ہیں کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ قعدے میں دعائیں کر سکتے ہیں ۔جو جی چاہے آپ دعا کر سکتے ہیں ، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔تسبیح اور تحمید جس موقع پر چاہیں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن ملانے کے بعد دعا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔ آپ قومے میں دعا کر سکتے ہیں ، دو سجدوں کے درمیان دعا کر سکتے ہیں ۔یہ اختیاری حصہ ہے ۔لیکن جو نماز آپ کے لیے لازم ہے اس کے جو اعمال و اذکار ہر حال میں ادا کرنے ہیں وہ میں نے آپ کو بتا دیے ہیں ۔ ہمارے ہاں نماز کے بارے میں جو بحثیں ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اختیاری اور لازمی حصے میں فرق نہیں سمجھا گیا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ نماز قضا ہو گی ۔ آدھی رات تک نمازِ عشا کا وقت ہے۔البتہ اگر آپ اس طرح سو گئے کہ بعض اوقات آدمی تھکا ہوا ہوتا ہے اور لیٹتے ہی اچانک نیند آجاتی ہے تواس میں گنجائش ہے کہ جب آپ اٹھیں وہی نماز کا وقت ہو گا ۔یعنی اس خاص صورت میں نماز قضا شمار نہ ہو گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ایسا شخص، ایک کام اچھا کر رہاہے اورایک برا۔ اللہ کے مقابلے میں انسان کو سرکش نہیں ہونا چاہیے ۔ نماز کیا چیز ہے ، اللہ کے حضور میں حاضری ہے ۔مذکورہ صورت میں اس شخص کا رویہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی آدمی آپ کو کہے کہ میں لوگوں کی خوب خدمت کرتا ہوں البتہ ماں باپ کو روز گالیاں دیتا ہوں اورجناب میں ان لوگوں سے تو اچھا ہی ہوں جو ماں باپ کی بہت خدمت کرتے ہیں۔میں مخلوق کا تو حق نہیں مارتا، کیا فائدہ ماں باپ کی ایسی خدمت کا کہ باقی مخلوق کا تم حق مارتے رہو۔واضح بات ہے کہ ایک حق خدا کا ہے اور ایک حق بندوں کا۔ہمیں دونوں ہی ادا کرنے ہیں۔ایک کو نہ اداکر نا، اس میں برتری جتانے کا کون سا پہلو ہے ؟ انسان کو بڑا عاجز ہونا چاہیے اور یہ کہناچاہیے کہ میں اللہ کے سامنے بھی سر جھکاؤں گا اور بندوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو ں گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں جس کا ذکر ہے وہ تو عصر کی نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عصر کی نماز کے وقت ہی عام طور پرایسی صورت پیدا ہوتی تھی، خاص طور پر جنگ کے موقع پر،کہ جب نماز ضائع ہونے کا بڑا امکان ہوتا تھا۔تو اس پس منظر میں یہ تاکید کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر وہ نماز جو تمدن کی تبدیلی کے ساتھ ایسے موقع پر آجائے کہ جس میں آدمی بہت مشغول ہو اور اسے نماز کے لیے اٹھنا بہت مشکل ہو تو اس کے لیے وہی نماز وسطی ہے اور خاص طور پر اس نمازکے لیے تاکید فرمائی گئی ہے کہ اس نماز کو ضائع ہونے سے بچاؤ ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ عربی زبان ہے اردو نہیں ۔ اقامت صلوۃ کا مطلب ہے نماز کا اہتمام کرنا یعنی نماز کو اللہ کے دین کا ایک بڑا رکن سمجھ کر پورے اہتمام سے ادا کرنا۔یہ اردو والا قائم کرنا نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: رفع یدین عملی تواتر یعنی سنت سے ثابت نہیں ہے، اگر یہ عملی تواتر سے ثابت ہوتا تو آج اِس پر کوئی بحث نہ ہوتی۔یہ مسئلہ اُس وقت سے اٹھا ہے، جب سے تواتر کے بجائے حدیث کو نماز کا اصل مبنٰی بنایا گیا ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: ان نمازیوں سے مراد وہ مشرکین مکہ ہیں جو اپنا مذہبی بھرم قائم رکھنے کے لیے ریاکاری کی نماز پڑھتے تھے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: امت نے نماز بخاری و مسلم کی احادیث سے نہیں سیکھی، بلکہ یہ دین کے اُس عملی تواتر سے سیکھی ہے، جس پر اصل دین یعنی قرآن و سنت کھڑے ہیں۔اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ جیسے امام بخاریؒ کو میسر آنے والی کوئی صحیح حدیث قرآن کی آیت میں تبدیلی نہیں کر سکتی، اِسی طرح کوئی صحیح حدیث نماز کی اُس شکل میں اضافہ یا کمی بھی نہیں کر سکتی ، جو شکل ہمیں نبی ﷺ کی جاری کردہ سنت سے ملی ہے۔ اگر نماز اپنی اصل میں راویوں کے ذریعے سے ملنے والی احادیث پر کھڑی ہوتی، تو پھر ہماری یہ بات ٹھیک نہ تھی۔ پھر جونہی کسی راوی سے ہمیں کوئی حدیث ملتی ہم نماز کی شکل اُس حدیث کے مطابق کر لیتے۔ حدیث اور سنت کے فرق کے حوالے سے آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حدیث ہمیں راوی سے ملتی ہے اور سنت ہمیں امت (کے عملی تواتر )سے ملتی ہے، اِس لحاظ سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے باقاعدہ عملاً اس امت میں رائج کیا ہے اور صحابہ کو عملًا سکھایا ہے اور صحابہ نے مابعد نسلوں کو سکھایا ہے اور قرآن کی طرح نسلاً بعد نسلاً تواتر سے امت کو منتقل ہوئی ہے ۔ نماز کا طریقہ بھی عملاً اسی سنت سے منتقل ہوا ہے نہ کہ احادیث سے البتہ احادیث میں بھی اس طریقے کا ذکر موجود ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: قضائے عمری کوئی چیز نہیں ہے البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر کسی آدمی کی بہت زیادہ نمازیں قضا ہو گئی ہوں اور اب اسے شعور آیا ہو تو اسے نمازیں قضاکرنی چاہیے۔ اب وہ نمازیں قضا کیسے کرے اس کے بارے میں اہل علم کے تین موقف ہیں ۔تین موقف کیوں ہیں اس لیے کہ اس میں اللہ اور اس کے پیغمبر نے کوئی بات نہیں کہی ۔ نہیں کہی تو ظاہر ہے کہ اجتہاد کیا جائے گا ۔ اجتہاد کیا تو اجتہاد کرنے والوں کی تین آرا ہو گئیں۔ ایک یہ ہے کہ آپ باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وہ نمازیں پڑھیں گے یعنی یہ نیت کر کے پڑھیں گے کہ میں آج 19 جنوری 1901 کی نماز پڑھ رہا ہوں ۔ دوسرا نقطہ نظر جو امام ابن تیمیہ کا ہے وہ یہ ہے کہ آپ جو نوافل پڑھتے ہیں ان کی جگہ آپ فرض نماز کی نیت کرلیاکریں۔اللہ تعالی وہ بھی قبول کرے گااور نفل کا اجر بھی دے دے گا ۔ تیسرا نقطہ نظر امام ابن حزم کا ہے وہ یہ کہتے ہیں چونکہ اس میں کوئی قانون سازی اللہ اور اس کے رسول نے نہیں کی تو ہمارے لیے اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اللہ تعالی سے معافی مانگیں ۔ تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ آپ کو جو بات معقول لگے اس کو اختیار کر لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فرض نماز تو جمعہ کے دن دورکعت ہی ہے وہ آپ نے پڑھ لی تو آپ مواخذہ سے بچ گئے اور ذمہ داری اد ا ہو گئی۔ اس کے بعد نفل نمازہے جمعہ سے پہلے حضورﷺ نے کوئی نفل نہیں پڑھے سوائے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے۔ جمعے کے بعد کبھی آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کبھی چار رکعت۔اب بعد کے لوگوں نے کہاکہ کبھی دو بھی پڑھ لیتے تھے اور کبھی چار بھی تو دو بھی پڑھ لیتے ہیں اور چار بھی تو انہوں نے چھ بنا دیں۔ نفل نماز ہے کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو بڑی اچھی بات ہے پڑھ لے لیکن حضور سے اتنا ہی ثابت ہے ۔ یہ بات کہ جمعہ حکومت کے بغیر نہیں ہوتا اصول میں بالکل ٹھیک ہے ۔ جب کوئی عمل آپ خواہ تیمم کے طریقے پر ہی کر لیں تو پھر اس میں احتیاطاً کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔یعنی آپ نے تیمم کیا اور آپ کو اطمینان تھا کہ اس وقت پانی نہیں ہے تو تیمم کر کے آپ نے نماز پڑھ لی اور پھر پانی میسر ہو گیا تو احتیاطا ًنماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے احتیاطی ظہر جس کو کہاجاتا ہے یہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ لوگوں کو خواہ مخواہ مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔جب امت اس بات پر متفق ہو گئی ہے کہ حکمران جب تک اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے ہم جمعہ پڑھتے رہتے ہیں تو یہ جمعہ ہی ہے ۔جمعہ ہی پڑھیے آپ کی ذمہ داری پوری ہو گئی ۔باقی کام حکمرانوں کاہے جب اللہ ان کو توفیق دے گا وہ مسجدوں میں جمعہ پڑھائیں گے تو اس وقت دیکھا جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضور ﷺ نے جو نماز مسلمانوں کو سکھائی ، اس میں دو طرح کے امور ہیں ۔ ایک وہ امور ہیں جنہیں آپ نے سنت(لازم) کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔ یہ نماز کے لازمی اجزا ہیں اور ان میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر نمازوں کی تعداد ، ان کے اوقات ، اذان کے الفاظ، نمازوں کی رکعتیں ، قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت ، رکوع کا طریقہ ، سجدے کا طریقہ اور تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا وغیرہ ۔ دوسرے امور وہ ہیں جنہیں آپ نے سنت کی حیثیت سے جاری نہیں فرمایا، بلکہ کچھ اصولی ہدایات دے کر انہیں لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے ۔ مثال کے طور پر ثنا ، قعدے میں پڑھی جانے والی دعائیں ، درود ، قیام کی صورت میں ہاتھ باندھنا ، سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعدآمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند یا پست رکھنا اور تکبیریں کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانا وغیرہ ۔ پہلی نوعیت کے امور میں امت میں ہمیشہ اتفاق رہا ہے اور یہی وہ معاملات ہیں جن پر اصرار کرنا چاہیے ۔ جہاں تک دوسری نوعیت کے امور کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں ہم اپنے ذوق کے مطابق کوئی چیز اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جن میں علما کی آرا مختلف رہی ہیں ۔ ان اختلافات سے نماز کی اصل ہیئت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ۔ ان معاملات کو لوگوں کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے ۔ چونکہ خود پیغمبرﷺ نے ان میں سے کسی چیز پر اصرار نہیں کیا ، اس لیے ہمیں بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:شریعتِ اسلامی نہایت سادہ اور آسان ہے، اس میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں۔ اسلام نے ہر عبادت میں حالات و ظروف کا خیال رکھا ہے، جیسے باجماعت نماز کی ادائیگی کا حکم ہے لیکن بارش یا قدرتی آفت وغیرہ کی صورت میں جماعت کی لزومیت ساقط ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وضو نماز کے لیے شرط ہے لیکن پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم اس کے قائم مقام ہے۔ اسی طرح تمام عبادات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے سہولت و گنجائش رکھی ہے اور یہی دین اسلام کا طرہ امتیاز بھی ہے۔ شریعت مطہرہ میں بحالت نماز چہرہ ڈھکنے کی ممانعت آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ وسَلَّمَ نَہَی عَنِ السَّدْلِ فِی الصَّلَاۃِ وَأَنْ یُغَطِّیَ الرَّجُلُ فَاہُ.بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل (کپڑا زمین تک لٹکانے) سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی کہ آدمی اپنا منہ ڈھانپے۔ابو داؤد، السنن، 1: 174، رقم:634
فقہاء نے اس ممانعت کو کراہت پر محمول کیا ہے اور اس ممانعت کی علت یہ بتائی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کفار اپنے چہرے کو ڈھانپا کرتے تھے، نیز مجوس بھی آگ کی عبادت کے وقت اپنے چہرہ کو ڈھانپ لیا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے دورانِ نماز چہرہ ڈھانپنے سے منع فرمایا۔ تاہم بوقت ضرورت نماز میں چہرے کا ڈھا نپنا جائز ہے۔ چنانچہ حدیث مذکور کی شرح میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:
چہرہ ڈھانپنے کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ بلاضرورت چہرہ چھپائے رہنا، اگر کوئی ضرورت پیش آجائے تو چہرہ ڈھانپنا جائز ہے۔ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 2: 636
موجودہ صورت حال میں کہ جب منہ کے ذریعہ کرونا کی بیماری پھیلنے کا خدشہ اہل فن کے ہاں متحقق و ثابت شدہ ہے، تو ایسے میں منہ پہ ماسک لگانا بالکل ویسے ہی جائز و درست ہے جیسا کہ قیام سے عاجز کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور بیٹھنے کی سکت نہ رکھنے والے کے لیے پہلو کے بل لیٹ کر اشاروں سے نماز ادا کرنا جائز ہے۔ یہ رخصت بوقت ضرورت بقدر ضرورت ہی رہے گی، یعنی عام حالات میں بلا عذر ناک اور منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، عذر کی صورت میں جیسے سانس کے لیے ذریعے بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہو’ تو ماسک لگا کر نماز کی ادائیگی میں مضائقہ نہیں۔نماز کی حالت میں ماسک پہننے کو بالکلیہ ممنوع قرار دینا اس سے بیماری اور ہلاکت کے خدشات کو بڑھاتا ہے اور شرعاً بیماری اور ہلاکت سے بچنا مطلوب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ.خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔البقرۃ، 2: 195نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا.اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
النساء، 4: 29اور ماسک کا نہ پہننا قتل نفس کا سبب ہو سکتا ہے۔معلوم یہ ہوا کہ ضرورت کے سبب نماز میں چہرہ ڈھانپا جا سکتا ہے، خاص کر جب صحت اور جان کے ضرر کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں ماسک کا استعمال اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔آج کل ہم جو ماسک لگاتے ہیں وہ ‘کورونا’ جیسے متعدی اور مہلک مرض سے بچنے کے لیے، جو ڈاکٹروں کے مطابق صحت وجان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، اور اکراہ کی صورت میں جان کی حفاظت کے لیے تو کفر وشرک تک کا ارتکاب شریعت نے روا رکھا ہے تو پھر اس وبا میں جان کی حفاظت کے لیے مکروہ کا ارتکاب کیوں کر جائز نہیں ہو سکتا؟ نیز یہ کہ نماز میں قبلہ کا استقبال ایک اہم شرط ہے، قبلہ رخ کیے بغیر نماز نہیں ہوگی، لیکن جب حالت جنگ ہو تو اس میں جان کی حفاظت کو مطمح نظر رکھتے ہوئے قبلہ کی شرط ساقط ہوجاتی ہے اور آدمی جس طرف بھی رخ کرکے چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح وبائی متعدی مرض ‘کورونا’ میں بھی ماسک نہ پہننا صحت اور نفس کے لیے مہلک ہو سکتا ہے، اس لیے اس کا پہننا شرعاً مطلوب ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب ۔

 

(منہاج القرآن)


جواب:نمازِ وتر میں دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے، اور قاعدہ یہ ہے کہ واجب کے رہ جانے پر سجدہ سہو ادا کرنا لازم ہے، سجدہ سہو سے نماز ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگرکوئی شخص وتر میں سورہ فاتحہ اور تلاوت کے بعد دعائے قنوت پڑھنا بھول گیا اور رکوع میں چلاگیا تو قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر سجدہ سہو کر لے، وتر کی ادائیگی درست ہوگی۔ دعائے قنوت بھول جانے کی صورت میں سجدہ سہو کرنے کے بعد وتر لوٹانے کی ضرروت نہیں ہے۔ رکوع سے قیام کی طرف لوٹنے کی بھی حاجت نہیں۔ سجدہ سہو سے وتر کی ادائیگی ہو جائے گی۔
 

(منہاج القرآن)


جواب:نماز کے لیے ستر ڈھانپنا بنیادی شرط ہے، اگر تہبند سے ستر چھپ جائے تو اس کے ساتھ زیرجامہ وغیرہ پہنے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ مطلوب ستر چھپانا ہے، جس لباس سے بھی ستر چھپ جائے اس سے شرط پوری ہو جاتی ہے اور نماز بھی ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے تہبند سے ستر چھپا لینے کے بعد اس کے نیچے زیرجامہ پہننا لازم نہیں ہے، زیرجامہ کے بغیر بھی نماز ہو جائے گی۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری

 

(منہاج القرآن)


جواب:دورانِ اذان بیت الخلاء استعمال کرنے کی شرعاً ممانعت نہیں ہے، اس لیے جب اذان ہو رہی ہو تو طہارت یا قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء استعمال کیا جاسکتا ہے، ایسا کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ اگر قضائے شدیدہ نہیں ہے تو اذان کے وقت بیت الخلاء میں نہ جایا جائے اور خاموشی سے اذان سن کر اس کا جواب دیا جائے، اس طرح سنتِ نبوی پر عمل کرنے کا ثواب مل جائے گا۔ لیکن شرعاً اذان کے دوران بیت الخلاء جانا ممنوع نہیں ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔مفتی: محمد شبیر قادری
 

(منہاج القرآن)


جواب:اگر وہ شخص واقعی عشر، زکوٰۃ یا صدقہ خیرات لینے کا حقدار ہے تو کوئی حرج نہیں، لے سکتا ہے اور امامت بھی کروا سکتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔ امامت کے لیے صحیح العقیدہ اور بنیادی دینی مسائل کا جاننے والا ہونا ضروری ہے، نہ کہ دولت مند، اَن پڑھ جاہل ہونا۔باقی رہا حجام تو اس میں بھی کوئی شرعی ممانعت نہیں جو امامت کے مانع ہو۔ جو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، یہ ان کی جہالت ہے۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 

(منہاج القرآن)

جواب: بخاری و مسلم کی حدیث ہے:

            من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔

            ’’جس نے رمضان میں قیام لیل کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔‘‘

            اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں، جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی نماز کے ارکان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے اس شخص کو، جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی، فرمایا:

            ارجع فصل فانک لم تصل۔

            ’’واپس جائو پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔‘‘

            اس کے بعد آپ نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نمازا دا کی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:

             قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ۔(المومنون:۱،۲)

            ’’کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔‘‘

            معلوم ہوا کہ وہ نماز کامیابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران میں ہم کسی ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب۔

            خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا، کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا، بار بار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنا یہ سب احترام و آداب کے خلاف ہے۔

            تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں۔ ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچا دینا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں۔ قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع و خضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا:

            تعرج الی السماء وھی سوداء مظلمۃ تقول لصاحبھا ضیعک اللہ کما ضیعتنی۔

            ’’یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔‘‘

            بغیر خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: سادہ طریقہ ہے کہ جب آپ کو شعور ہوا ہے آپ فوراً نماز پڑھ لیں ۔ زندگی انسان کی محدود ہے ۔ کچھ پتہ نہیں کہ کب بلاوا آجائے۔ اگرآپ کی نماز رہ گئی کسی وجہ سے تو جیسے ہی آپ اس صورتحال سے نکلیں آپ فوراً نماز پڑھ لیں۔ اِلّا یہ کہ کوئی ممنوع وقت ہو اور ممنوع اوقات جو ہیں وہ دو ہی ہیں۔ یا طلوعِ آفتاب کا وقت ہے یاغروب آفتاب کا وقت۔ بس اس کو نکال لیجئے اور پھر پڑھ لیجئے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ اچھی بات ہے ۔آپ جماعت کراتے ہیں۔بیگم ساتھ شریک ہو جاتی ہے تو یہ باعثِ اجر ہوگا۔لیکن جس نماز کا ثواب ستائیس گنا بیا ن ہوا ہے۔وہ جماعت کی نماز ہے۔یعنی جو مسلمانوں کے ساتھ آپ جاکر پڑھتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:تسمیہ پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، نیز سورت کے آغاز سے تلاوت کرے تو تب بھی بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، لہذا سورت فاتحہ کے آغاز میں نمازی تسمیہ پڑھے گا، جبکہ فاتحہ کے بعد والی قرائت اگر سورت توبہ کے علاوہ کسی اور سورت کے آغاز سے ہو تو تسمیہ پڑھے گا، وگرنہ نہیں پڑھے گا، چنانچہ اگر آغاز تلاوت درمیان سورت سے ہو تو بسم اللہ پڑھنا مستحب نہیں ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)