ذکر و اذکار

ج:اس میں کوئی شک نہیں کہ اِس طرح کی چیزیں انسان کی نفسیات پر اثر انداز ہوتی اور بہتری کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ ارتکازِ توجہ بجائے خود بہت سے امراض کا علاج ہے۔ اصول میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس میں چونکہ انھوں نے اللہ کے لفظ کو دیکھنے کے لیے کہا ہے اس وجہ سے اس کا بڑا اندیشہ ہے کہ یہ چیز ایک بدعت بن جائے اور بالکل اسی طرح صوفیانہ مراقبوں کی شکل میں رائج ہو جائے۔ دین کے معاملے میں ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:آدمی جب بار بار کسی کلمے کو دہراتا ہے تو اس پر توجہ ہوجاتی ہے اس وجہ سے اس کو اختیار کر لیا جاتا ہے ۔ایک روایت میں بھی یہ چیز آئی ہے اس لیے اس کو بدعت نہیں کہاجا سکت آپ چاہیں تو اس کو اختیار کر سکتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: گن کر اللہ کی یاد میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صرف ایک بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ ذکر ایک پوری بامعنی بات ہونی چاہیے۔کوئی اکیلا لفظ خواہ وہ قرآن مجید میں آیا ہوا اللہ کا نام ہی کیوں نہ ہو بار بار دہرانے کے لیے اختیار کرنا موزوں نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے تمام اذکار اپنی جگہ ایک مکمل بات ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج : نماز میں دوطرح کے اذکار ہیں بعض متعین اوربعض غیر متعین مثلاًعربی زبان میں جو اذکار متعین اورضروری ہیں وہ اللہ اکبر ، سمع اللہ لمن حمدہ ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، سورہ فاتحہ ا ور قرآن کا کچھ حصہ ملانا ہے، باقی تمام اذکار میں آزادی ہے۔ البتہ یہ یاد رکھیں کہ یہ اذکار تسبیح یا تحمید کی قسم کے ہونے چاہیں۔( تسبیح سے مراد سبحان اللہ یا اس طرح کے کلمات ہیں اسی طرح تحمید سے مراد اللہ کا شکر اللہ کی حمد الحمد للہ جیسے کلمات ہیں)اسی طرح دعاؤں میں بھی آزادی ہے جو دعائیں بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں ۔ برصغیر میں علما نے عوام کی سہولت کے لیے رب اجعلنی کی دعا سکھا دی ہے لیکن یہ کوئی متعین نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔ رکوع میں رسول اللہﷺ صرف سبحان ربی العظیم ہی نہیں پڑھتے تھے بلکہ بہت سی اور تسبیحات بھی کرتے تھے۔یہی صورت سجدے کی تھی۔ لیکن بہر حال وہ تسبیح ، تحمید یا دعا و مناجات ہوتی تھی۔ بعض چیزوں کے بارے میں حضور نے متنبہ بھی فرمایا ہے کہ یہ نہیں پڑھنی چاہییں۔مثلاً کہ رکوع اور سجدہ میں قرآن نہیں پڑھناچاہیے البتہ دعا کی جا سکتی ہے اور قرآن کی جو دعائیں ہیں وہ بھی ان مواقع پرکی جاسکتی ہیں۔ سبحان ربی ا لاعلی کے بجائے آپ کوئی اور ذکر کر لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح آپ سبحان ربی العظیم کی جگہ کوئی اور چیز پڑھ لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ وہ تسبیح یا تحمید کی نوعیت کی چیز ہو۔خود رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک صاحب نماز میں آکر ملے اور انہوں نے ربنا لک الحمد کے بعد کہا حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے کلمات کہے۔ حضورﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد پوچھا یہ کون تھے تو وہ گھبرائے کہ شاید کوئی غلطی ہو گئی ہو لیکن جب آپ ﷺنے بار بار پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے یہ جسارت کی تھی ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیس فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کو پانے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے ۔ اس طرح گویا آپﷺ نے بتایا کہ نماز اور کس چیز کا نام ہے ، آپ اس میں دعائیں کیجیے ، حمد کیجیے تسبیح کیجیے ۔ حضور ﷺنماز میں جودعائیں مانگتے تھے وہ حدیث کی کتب میں محفوظ ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک موقع کے لیے وہ بہت سی دعائیں اور اذکار ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔  جو ذکر و اذکار کرتا ہے، وہ اللہ تعالی کی پاکی بیان کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرتا ہے، اس کے ایمان کا اظہار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اجر اسے ملے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اذکار مسنونہ کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا صرف درست ہی نہیں ،بہت خوب ہے۔ اِن کے اصل اثرات وہ ہیں جو تقویٰ ، نیکی ، تفویض ، توکل ، صبر اور شکر وغیرہ کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔

(محمد رفیع مفتی)