اختلاف کے حدودو آداب

مصنف : حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ

سلسلہ : انتخاب

شمارہ : مارچ 2006

اولیں چیز جس پر ملک کے تمام مختلف الخیال گروہوں اور اشخاص کو اتفاق کرنا چاہیے ، وہ صداقت اور باہمی انصاف ہے ۔ اختلاف اگر ایمانداری کے ساتھ ہو ، دلائل کے ساتھ ہو اور اسی حد تک رہے ، جس حد تک فی الواقع اختلاف ہے تو اکثر حالات میں یہ مفید ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس طرح مختلف نقطہ نظر اپنی صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے آجاتے ہیں اور لوگ انہیں دیکھ کر خود رائے قائم کر سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے کس کو قبول کریں، تاہم اگر وہ مفید نہ ہو تو کم سے کم بات یہ ہے کہ مضر نہیں ہو سکتا ، لیکن کسی معاشرے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی نقصان دہ چیز نہیں ہوسکتی کہ اس میں جب بھی کسی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ جنگ میں سب کچھ حلال ہے کا ابلیسی اصول اختیار کرے ، اس پر ہر طرح کے جھوٹے الزامات لگائے ، اس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے ۔ اس کے نقطہ نظر کو قصدا ًغلط صورت میں پیش کرے ۔ سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمن وطن ٹھہرائے ، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کر ڈالے اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑ جائے کہ گویا اب مقصد زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے ، اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے گناہ ہے بلکہ عملًا بھی اس سے بیشمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔اس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں ۔ اس سے عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوتے ہیں او راختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتے۔ اس میں کسی شخص یا گروہ کے لیے عارضی منفعت کا کوئی پہلو ہو، تو ہو ، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کا نقصان ہے ۔ جس سے بالآخر خود وہ لوگ بھی نہیں بچ سکتے، جو اختلاف کے اس بیہودہ طریقے کو مفید سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیسا ہی اختلاف ہو ، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں ، جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں ۔

دوسری چیز جو اتنی ہی ضروری ہے وہ اختلافات میں رواداری ، ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش اور دوسروں کے حق رائے کو تسلیم کرنا ہے ، کسی کا اپنی رائے کو حق سمجھنا اور عزیز رکھنا تو ایک فطری بات ہے ، لیکن رائے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی لیے محفوظ کرلینا انفرادیت کا وہ مبالغہ ہے ، جو اجتماعی زندگی میں کبھی نہیں نبھ سکتا پھر اسی پر مزید خرابی اس مفروضے سے پیدا ہوتی ہے کہ ہماری رائے سے مختلف کوئی رائے ایمانداری کے ساتھ قائم نہیں کی جا سکتی ، لہذا جو بھی کوئی دوسری رائے رکھتا ہے وہ لازماً بے ایمان اور بدنیت ہے ۔ یہ چیز معاشرے میں ایک عام بدگمانی کی فضا پیدا کر دیتی ہے اور اختلاف کو مخالفتوں میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ معاشرے کے مختلف عناصر ترکیبی آپس کی کشمکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس وقت تک کوئی تعمیری کام نہیں ہو سکتا ، جب تک کوئی ایک عنصر باقی سب کو ختم نہ کر دے یا پھر سب لڑ لڑ کر ختم نہ ہوجائیں اور خدا کسی دوسری قوم کو تعمیر کی خدمت سونپ دے ۔ بدقسمتی سے نارواداری اور بدگمانی اور خودپسندی کا یہ مرض ہمارے ملک میں ایک وبائے عام کی صورت اختیار کر چکا ہے ، جس سے بہت ہی کم لوگ بچے ہوئے ہیں ۔ حکومت اور اس کے ارباب اقتدار اس میں مبتلا ہیں ۔ سیاسی پارٹیاں اس میں مبتلا ہیں ، مذہبی گروہ اس میں مبتلا ہیں ، اخبار نویس اس میں مبتلا ہیں حتی کہ بستیوں اور محلوں اور دیہات کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں تک میں اس کے زہریلے اثرات اتر گئے ہیں ۔ اس کا مداوا صرف اس طرح ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں اثر رکھتے ہیں ، اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور خود اپنے طرز عمل سے لوگوں کو تحمل ، برداشت اور وسعت ظرفی کا سبق دیں ۔