قرآن

جواب:اس میں شبہ نہیں کہ کاغذ بہت پہلے ایجاد ہو چکا تھا اور عربوں میں اس کے استعمال کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ لیکن بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب میں بآسانی دستیاب نہیں تھا۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ عربوں لکھنا جاننے والے لوگ بہت کم تھے۔چنانچہ جو لوگ لکھنا چاہتے تھے وہ اپنے ماحول میں دستیاب اشیاء ہی پر لکھنے پر مجبور تھے۔ خلافت راشدہ میں پورا قرآن مجید کاغذ پر لکھنے کا کام بھی کر دیا گیا تھا۔

(مولانا طالب محسن)

ج: قرآن مجید نے جہاں جہاں تورات اور انجیل کا حوالہ دیا ہے، وہاں ظاہر ہے کہ تورات اور انجیل کے وہ مقامات سامنے لائے جائیں گے۔ سورۂ بقرہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ اُس میں یہود کی پوری تاریخ سنائی گئی ہے اور اس میں قرآن مجید نے اُن واقعات کی طرف اشارات دیے ہیں، یعنی اجمال کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ اُن کی تفصیل آپ اگر تورات یا انجیل سے بیان کریں تو یہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ اللہ کی کتابیں ہیں۔ او رجب قرآن کی تائید ان کو حاصل ہو جائے تو پھر ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ڈاکٹر حمید اللہ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ پیرس میں ہر روز آٹھ سے نو لوگ مسلمان ہوتے ہیں ۔ سبب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ معلوم نہیں۔اصل میں یہ کتاب اپنا راستہ بناتی رہتی ہے ، بدترین حالات میں بھی بناتی رہتی ہے ۔لیکن اگر اس کتاب کا پیغام پہنچانے والے اس پر عامل بھی ہوں اور مسلمانوں کی عملی زندگی اس کتاب کا عملی نمونہ ہو تو مسلمان ہونے کی شرح بہت تیز ہو جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ ایک پیغمبر کے انذار کی روداد ہے جو انہوں نے ایک قوم کو پہنچائی اور اس پر اللہ کی حجت پوری کی۔ قرآن اپنے مخاطب کے لحاظ سے ہی تمثیلیں ، واقعات اورتاریخ بیان کرتا ہے جنہیں وہ سمجھ سکیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن کاپہلا باب سورہ فاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور مائدہ پر ختم ہوتا ہے ۔ یہ اصل میں ایک طرف یہود و نصاری پر اتمام حجت کا باب ہے اور دوسری طرف یہ صحابہ کرامؓ کی ایک نئی جماعت کے نئے مقام پر کھڑا ہونے کا باب ہے۔ اسی میں شریعت دی گئی ہے جس کی ہم کو اتباع کرنی ہے اور اسی میں دین کے بنیاد حقائق واضح کیے گئے ہیں۔اسی میں ہم سے میثاق لیا گیا ہے ۔اب ظاہر ہے کہ جب بھی اس امت کو قرآن پڑھنا ہے تو اس کے لیے مقدم یہی ہے کہ اس کو خدا کی شریعت اور اس میثاق کو جاننا چاہیے کہ جو اس نے خدا سے کیا ہے۔اور اس کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ پہلی امتوں کے ساتھ کیا ہوا اور اب اس امت کو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے کیا کرنا ہے۔ اس لیے قریش کے انذار کی جو چیز ہے وہ پس منظر میں رکھی گئی ہے اور یہ چیز سامنے لائی گئی ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ عمارت میں سب سے پہلے بنیادیں رکھی جاتی ہیں لیکن عمارت بننے کے بعد وہ سب سے نیچے چلی جاتی ہیں ۔قرآن نے یہ ترتیب اس لیے الٹی ہے تا کہ اس امت کو اپنی ذمہ داریوں کی تبلیغ اور ادراک ہو جائے۔ قرآن اگر غیر مسلموں کے سامنے پیش کرنا ہو تب بھی اس کا بہترین باب یہی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود و نصاری کا دین ،ان کے مقدمات سب اسی میں زیر بحث لائے گئے ہیں۔مسلمانوں کے لیے بھی سارا دین اس میں بیان ہوا ہے اور ان سے جومیثاق لیا گیا ہے وہ بھی اسی میں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی شریعت سے ناواقف لوگ (جو یہود و نصاری نہیں) ان تک دعوت پہنچانی ہو تو تب آخری باب زیادہ موثر ہے چونکہ امت نے اس کو زیادہ سمجھنا ہے اور زیادہ پڑھنا ہے اس لیے ان دونوں گروہوں پر خدا کی حجت پوری کرنی کے لیے اس باب کو پہلے رکھا گیا اور اس کے اندر بالکل واضح حکمت محسوس ہوتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر تو یہ کسی خیر کے موقع پر ہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر اس سے قرآن کا مدعا بالکل الٹ جاتا ہے تو اس سے احترازکرنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ چیز قرآن کا براہ راست موضوع نہیں کہ وہ اس پر گفتگو کرے البتہ قرآن کے اشارات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تخلیق کے دو ادوار رہے ہیں۔ایک دور وہ ہے جس میں تمام جانداروں کی تخلیق کا عمل براہ راست زمین کے پیٹ میں ہوتا تھااور تناسل کا سلسلہ اللہ تعالی نے جاری نہیں کیا تھا۔ اس مرحلے میں بڑی بڑی مخلوقات پیداہوئی ہیں اور انسان سے ملتی جلتی مخلوقات بھی۔ ایک حیوانی وجود جس طرح ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ہے اسی طرح زمین کے پیٹ میں مختلف مراحل سے گزرتا تھا اور پھر زمین کے پیٹ کو شق کر کے باہر آجاتا تھا ۔ ایک لمبے عرصے تک تخلیق کا یہ طریقہ رہا ہے ۔ اصل میں اسی کے مطالعے نے ڈارون کو بعض ایسے مقامات میں سرگرداں کیا اور موجودہ زمانے کا علم بھی سرگرداں ہے کہ جس میں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسری مخلوق زمین کے اندر سے پھوٹ رہی ہے ۔دوسرا دور وہ ہے جس میں تناسل کا سلسلہ کر دیا گیا ۔یعنی جو پراسس زمین میں ہوتا تھا اس کو condense کر کے انسان کے ا پنے وجود میں رکھ دیا گیا ۔ پہلے مرحلے میں جو مخلوقات وجود پذیر ہوئی ہیں وہ ایک تدریجی ارتقا کے ساتھ وجود پذیر ہوئی ہیں۔ تناسل کے بعد معاملے کی نوعیت اس سے ذرا مختلف لیکن دوسرے طریقے کے ارتقا پر آگئی کہ جس میں ایک قطر ہ آب مختلف مراحل سے گزر کر ایک جیتا جاگتا انسان بن جاتا ہے ۔ میرے نزدیک یہ مراحل قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتے ہیں اور اگر اس بات کو صحیح طرح سمجھ لیا جائے تو علم جدید کی بہت سی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین میں سب سے بڑا درجہ سابقون کا ہے ، سابقون کا مطلب ہے سبقت کرنے والا۔یعنی انسان کے سامنے دین کا کوئی معاملہ آیا اور اس نے اس معاملے میں سب سے آگے بڑھ کر اس کو پورا کرنے کی سعی کی ۔ جس کو ہم شہید کہتے ہیں وہ بھی یہی کرتا ہے ۔ خدا کی راہ میں جان دینے کی نوبت آگئی تو اس نے دریغ نہیں کیا ، وہ بڑھا اور اس نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ یہ بھی سبقت کا ظہور ہے ۔ شہادت اور سبقت کوئی الگ درجے نہیں ۔ سبقت ایک جامع بات ہے اور شہید بھی اصل میں السابقون ہی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ قیامت تک کے مسلمان وہ اس درجے تک پہنچ سکتے ہیں ۔قرآن کا اپنا ارشاد ہے کہ سنت من الاولین وقلیل من الآخرین ، اگرچہ تعداد میں کم ہونگے لیکن آخری زمانے میں بھی ہونگے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج۔ بہتر ہے کہ قرآن کا ترجمہ عربی متن کے ساتھ ہی شائع کیا اور پڑھا پڑھایا جائے۔ ہمارے نزدیک قرآن ترجمے کا نہیں بلکہ اس عربی متن کا نام ہے جو خدا نے نازل کیا تھا۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: بسم اللہ سب سورتوں کے شروع میں فصل کے لئے لکھی گئی ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا بیان ہے کہ یہ قرآن میرے نام سے پڑھ کر لوگوں کو سنایا جائے ۔یہ سورہ فاتحہ کی بھی آیت نہیں ہے۔کسی دوسری سورہ کی بھی آیت نہیں ہے ۔ سوائے ایک سورہ کے جس کے اندر آئی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ لوگوں کے فہم میں تبدیلی آتی ہے۔ فہم،انسانی فہم ہے اوراس میں اختلافات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ان اختلافات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔کوئی آدمی کہتا ہے ایک واقعہ ایسے ہواتھا دوسرا تحقیق کر کے کہتا ہے نہیں ایسے ہوا تھا، اس سے آپ کے ایمان اور اخلاق میں کیا فرق پڑے گا۔تاریخی واقعات کے بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں اس میں گھبرانا نہیں چاہیے۔ دین بالکل واضح ہے یعنی اللہ ایک ہے ،محمد ﷺ اس کے رسول ہیں، قیامت میں اعمال کی بنیاد پرجوابدہی ہونی ہے ، خیر و شر کا شعور انسان کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے۔اسی طرح نماز ، روزہ، حج، زکوۃ بالکل واضح ہیں۔ہر ایک آدمی ان سے واقف ہے ۔یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جن کے بارے میں آدمی کو حساس ہونا چاہیے۔ باقی جو بھی واقعات بیان ہوں گے ان کے سمجھنے میں انسانوں کے مابین اختلافات ہونگے۔ آپ کوجو بات زیادہ معقول لگتی ہے اس کو قبول کر لیجیے ، جس بات کو آپ سمجھتے ہیں کہ معقول نہیں ہے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کیجیے ،اور اگر آپ محقق ہیں تو اپنی رائے کا اظہا ر کر دیجیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب سے نماز اور قرآن یہاں آئے ہیں یہی رواج رہا ہے ۔یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ا س کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جن لوگوں نے اسلام پھیلایا ان کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ بھی قرآن کے احکام ہیں وہ فقہ کی صورت میں نکال لیے گئے ہیں باقی ثواب کمانے کی کتاب رہ گئی ہے نہ بھی سمجھا توکیا فرق پڑتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید کسی موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف مراحل میں نازل ہونے والے خدائی خطبات ہیں۔ ان میں دعوت کے مختلف مراحل پر ضروری تعلیمات کا نزول ، انذار تبشیراصلاح عقیدہ وعمل غرض کئی حوالوں سے گفتگو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان خطبات میں کئی باتیں بار بار کہی گئی ہے۔ یہ اسلوب دعوتی اور اصلاحی کام کے لیے انتہائی موثر ہے۔ اس اسلوب میں تکرار نہیں اصرار ہوتا ہے۔ مخاطب کو بار بار جھنجوڑا جاتا ہے۔ اس پر بات کئی گوشوں اور پہلوؤں سے واضح کی جاتی ہے۔ یہی اس اسلوب کی حکمت ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج: پہلے تو چیلنج کی نوعیت سمجھ لیجیے کہ کیا ہے ۔ مسئلہ اصل میں یہاں سے پید ا ہوا کہ قریش میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کا ایک شخص ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ خود ہی گھڑ کر یہ کلام پیش کر دیتے ہیں۔ تو قرآن مجید نے کہا کہ نہ ہی یہ شاعر ہے اور نہ ہی ادیب ۔ کہیں مشق سخن نہیں کی ، ایک عام انسان کی مانند زندگی بسرکی۔ اگر یہ بغیر کسی تیاری اور بغیر کسی پس منظر اوربغیر کسی استاد کی اصلاح کے ایسا اعلی کلام پیش کرسکتے ہیں توتم بھی اٹھو ،پیش کر دو۔ اگر اتنا ہی آسان کا م ہے توکرو لیکن تم نہیں کر سکو گے۔جس چیز کو قرآن نے اپنے لیے بڑی عظمت کی چیز قرار دیا ہے وہ قرآن مجید کی شان کلام ہے ۔ قرآن اپنے اسلوب ،اپنے ادب اور اپنی بات کے لحاظ سے ایک شاہانہ کلام ہے ۔اس لحاظ سے یہ بے مثل اور بے نظیر ہے۔ قرآن صدیوں سے دنیا میں موجود ہے اور جرمن، فرنچ، انگریزی اور عربی لکھنے والے بھی موجود ہیں۔ لیکن کوئی کلام پیش نہیں کیا جا سکا اگر کسی میں ہمت ہے تو کر دے ۔ جولوگ عام طور پر اس طرح کا دعوی کرتے ہیں وہ قرآن کی نقل کی کوشش کرتے ھیں نہ کہ قرآن کی مثل لانے کی۔اور جب نقل کی توگویا مان لیا کہ قرآن اصل ہے ۔نقل تیار کرنا اس کا مثل پیش کرنا نہیں ہوتا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے سرنڈر کر دیا اس کے سامنے یعنی آپ کے نزدیک بھی برتر اور اعلی ترین چیز یہی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں اولاد پر سختی کرنے کا کوئی حکم نہیں آیا ۔ قرآن اس سے خالی ہے ۔ اولاد پر سختی کرنے کا معاملہ ایک بالکل عقلی معاملہ ہے۔ ہم اپنی اولاد کی تربیت کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ محبت سے سمجھاتے ہیں ، عقلی دلائل دیتے ہیں ، اس کے شعور کو اپیل کرتے ہیں او ر کسی موقع پر سختی بھی کرتے ہیں ۔ یہ سارے ہی اخلاقی معاملات ہیں۔ کسی بچے کا سکول جانے کو جی نہیں چاہ رہاتو سختی کرنا پڑتی ہے ، بچہ اگر گالی دیتاہے تو سختی کرنی پڑتی ہے ۔تو یہ موقع محل اور حکمت عملی کی بات ہے کہ کس موقع پر انسان تربیت کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتاہے ۔سختی کرنا بھی تربیت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن دراصل محمد ﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔ یہ اجمال کچھ تفصیل طلب ہے۔ آپ دیکھیے !مذہب کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات آزمایش کے لیے بنائی ہے ، وہ اِس میں لوگوں کو پیدا کرتا ہے۔اُنہیں مختلف حالات میں رکھ کر آزماتا ہے۔پھر ایک دن وہ اِس دنیا کو ختم کردے گا،قیامت لائے گا اورتخت عدالت پر جلوہ افروز ہو گا۔ اُس دن وہ پروردگار عالم اِس دنیا میں آزمائے گئے لوگوں کے اعمال کا نتیجہ سنائے گا۔ یہ بات جب لوگوں کے سامنے پیش کی گئی ،تو انہوں نے اِس کا مختلف انداز سے انکار کیا ، کسی نے کوئی بہانہ تراشا اور کسی نے کوئی۔ تب پروردگار عالم نے گاہے گاہے اپنے رسولوں کے ذریعے سے، اِس دنیا پر اپنی حجت تمام کی اور اُن کے انکار کی بنا پر ، اُس قیامتِ کبریٰ سے پہلے نشانی کے طور پر ایک قیامتِ صغریٰ برپا کر دی تا کہ یہ دوسرے لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہو۔ ‘‘لنجعلہالکم تذکرۃ و تعیہا اذن واعیۃ’’(تا کہ ہم اِس واقعہ کو تمہارے لیے درسِ موعظت بنا دیں اور اُسے (سن کر )یاد رکھنے والے کان یاد رکھیں )۔ (الحاقۃ ۶۹: ۱۲) اور آخری بار یہ قیامت صغری محمد ﷺ کے زمانے میں برپا کی گئی۔

             مذہب جس قیامت کا مدعی ہے، اُسے وہ جزیرہ نمائے عرب میں برپا کر کے دکھا چکا ہے اور قرآن، اُس جزا وسزا کی سرگذشت ہے، جو محمد ﷺ نے برپا کی تھی ۔اِسے اِس زاویے سے دیکھیے اور اِس پہلو سے پڑھیے ، تو اِن شاء اللہ کوئی اشکال باقی نہ رہے گا اور اِس سے ہٹ کر دیکھیے، تو سوالات ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: نظم قرآن کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں تمام سورتیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ رکھی گئی ہیں ۔ ہر سورہ اپنا ایک خاص موضوع رکھتی ہے اور اس موضوع کے مطالب ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیان ہوتے ہیں ۔ ہر سورۃ کی ایک تمہید ہوتی ہے اور ایک خاتمہ ہوتا ہے ۔ اس طرح ہر آیت اپنا ایک سیاق وسباق رکھتی ہے ۔ اس وجہ سے قرآن مجید ایک منظم ، مرتب اور مربوط کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے ۔ اس کی نوعیت اقوال کے کسی ایسے مجموعے کی نہیں ہے جس کے قول کے مختلف مطالب اخذ کیے جا سکتے ہوں بلکہ اس کی نوعیت ایک ایسی منظم کتاب کی ہے جس کا ہر جملہ اپنا ایک متعین مفہوم اور طے شدہ پیغام رکھتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)


جواب: قرآن مجید اللہ رب العالمین کا کلام ہے جو خاتم الانبیاء جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے نازل ہوا۔ جو مصاحف میں مکتوب ہے اور تواتر کے ساتھ ہمارے پاس چلا آ رہا ہے۔ جس کی تلاوت کرنا عبادت ہے اور جس کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے اور اختتام سورۃ الناس پر ہوتا ہے۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب: قرآن کریم کو متعدد ناموں سے موسوم کیا گیا ہے:

(1) الکتاب (2) الفرقان (3) التنزیل (4) الذکر (5) النور (6) الھدی (7) الرحمتہ (8) احسن الحدیث (9) الوحی (10) الروح (11) المبین (12) المجید (13) الحق۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مخلوق نہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب: قرآن مجید میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ یہ مقدس کتاب اسی حالت میں ہے جس حالت میں نبی آخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ 
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب: جی ہاں ! جو شخص قرآن مجید میں کمی زیادتی کا عقیدہ رکھے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ 
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب: قرآن میں تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ (دیکھئے سورۃالحجر، آیت 9)
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب: قرآن کریم میں ایک سو چودہ (114) سورتیں ہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

10- سلف صالحین کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآن ختم کر لیا کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہا جاتا ہے۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:قرآن کریم میں 6236 آیات ہیں۔بعض کے خیال میں 6666 ہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:قرآن کریم میں چودہ اور بعض کے نزدیک پندرہ سجدے ہیں۔ (دیکھیے ۔سنن ابی داؤد کتاب سجوداللقران)
 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:قرآن کریم کی جو آیتیں یا سورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت سے پہلے اتریں ہیں وہ مکی ہیں اور جو سورتیں یا آیتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت کے بعد اتریں ہیں وہ مدنی ہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب:مدنی سورتوں کی تعداد [28]ہیں جن کے اسماء یہ ہیں: ۱۔البقرۃ ۲۔آل عمران ۳۔النساء ۴۔المائدہ ۵۔الانفال ۶۔ التوبہ۷۔الرعد۸۔الحج۹۔النور۱۰۔ الاحزاب ۱۱۔ محمد۱۲۔ الفتح ۱۳۔الحجرات ۱۴۔الرحمٰن۱۵۔الحدید۱۶۔سورۃالمجادلہ ۱۷ الحشر۱۸۔الممتحنۃ ۱۹۔ الصف ۲۰۔ الجمعہ ۲۱۔ المنافقون ۲۲۔ التغابن ۲۳۔ الطلاق ۲۴۔ التحریم ۲۵۔ الانسان ۲۶۔ البینہ۲۷۔ الزلزال۲۸۔ النصر

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:مکی سورتوں کی تعدادچھیاسی [86] ہیں اوپر ذکر کی گئی مدنی سورتوں کے علاوہ ساری سورتیں مکی ہیں۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب:(1)ہر وہ سورت جس میں لفظ [کلا] آیا ہو۔
(2)ہر وہ سورت جس میں سجدہ آیا ہو۔
(3) ہر وہ سورت جس کے شروع میں حروف مقطعات آئے ہوں سوائے سورۃ البقرہ اور أل عمران کے۔
(4) ہر وہ سورت جس میں آدم علیہ السلام اور ابلیس کاواقعہ مذکور ہو، سوائے سورۃ البقرہ کے۔
(5)ہر وہ سورت جس میں نبیوں اور امم ماضیہ کے حالات واقعات مزکور ہوں سوائے سورۃالبقرہ کے۔

 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب:(1)جس سورت میں حدود و فرائض کا ذکر ہو۔
(2)جس سورت میں جہاد کی اجازت اور جہاد کے احکامات بیان کئے گئے ہوں۔
(3)جس سورت میں منافقین کا ذکر آیا ہو سوائے سورہ عنکبوت کے۔

 

(محمد عبداللہ بخاری)


جواب: قرآن کریم کی سورتوں کی چار قسمیں ہیں:
(1)طوال(2)مؤن(3) مثانی (4) مفصل
(1)طوال:سات لمبی سورتوں کو کہتے ہیں جیسے البقرہ، ال عمران،النساء ،المائدہ ،الاعراف اور ساتویں میں اختلاف ہے کہ آیا وہ الانفال یا براء ت (التوبہ) ہے جس کے درمیان بسم اللہ لا کر فصل نہیں کیا گیا ہے۔
(2) مؤن: وہ سورتیں جن کی آیات کی تعداد سو سے زیادہ یا سو کے لگ بھگ ہو۔
(3)مثانی:وہ سورتیں جن کی آیات کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہو۔
(4) مفصل)سورۃ الحجرات یا سورۃق سے لے کر آخر قرآن تک کی سب سورتوں کو مفصل کہتے ہیں۔

 

(محمد عبداللہ بخاری)

جواب:مفصل سورتوں کا مطلب ہے جن سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے ذریعہ فصل کیا گیا ہو۔
 

(محمد عبداللہ بخاری)

آپ کا مطلب غالباً یہ ہے کہ ہر قوم صرف اسی دعوت پر ایمان لانے کی مکلف ہونی چاہئے جو اس کی اپنی زبان میں دی گئی ہو۔ دوسری کسی زبان میں آئی ہوئی دعوت، اگرچہ وہ حق ہو، اگر چہ وہ من جانب اللہ ہو، اگرچہ وہ ترجموں، تفسیروں، تشریحوں اور عملی نمونوں کے ذریعہ سے آپ تک پہنچ جائے پھر بھی وہ واجب الاتباع نہ ہونی چاہئے کیونکہ وہ آپ کی زبان میں نہیں بھیجی گئی ہے۔ اگر یہی آپ کا مطلب ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو مذکورہ بالا آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوگئی ہے۔ آیت کا مقصد دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب کسی قوم میں کوئی رسول بھیجا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ رسول خاص اسی قوم کے لیے ہو یا تمام دنیا کے لیے، بہر حال اس نے اپنے اولین مخاطب لوگوں کو ان کی اپنی زبان ہی میں خطاب کیا ہے تاکہ وہ اس کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور ان کو یہ حجت پیش کرنے کا موقع نہ ملے کہ ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر قوم کے لیے لازماً الگ ایک مستقل نبی ہی آنا چاہئے جو اس کو اس کی اپنی زبان ہی میں خطاب کرے۔اور نہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایک قوم کو دوسری قوم کے اہل ایمان اس کی اپنی زبان میں قابل فہم طریقہ سے خدائی تعلیم پہنچادیں، تب بھی وہ محض اس بنا پر اسے رد کردینے میں حق بجانب ہو کہ نبی خود براہ راست خدا کی کتاب اس کی زبان میں لے کر نہیں آیا ہے۔ یہ بات نہ اس آیت میں کہی گئی ہے اور نہ اس کے الفاظ میں ایسی کوئی گنجائش ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے۔آخر کون سی معقول وجہ اس بات کے لیے پیش کی جاسکتی ہے کہ جس شخص کو قرآن کی تعلیم کا لب لباب اس کی مادری زبان میں واضح طور پر پہنچ گیا ہو وہ اس پر ایمان لانے میں حق بجانب ہو؟
عربی قرآن تو صرف عربوں کے لیے ہونا  چاہیے

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

آپ کے جن سکھ دوست نے یہ اعتراض کیا ہے وہ اگر اپنے تخیل کو تھوڑی حرکت اور دیتے تو اس سے بڑھ کر وہ یہ سوال بھی کرسکتے تھے کہ قرآن کا ایک ایک نسخہ براہ راست ایک ایک انسان کے پاس خدا نے کیوں نہ بھیجا؟ کیونکہ جب وہ قادر مطلق ہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔دراصل یہ لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں فرمایا ہے جس سے دنیا کے اس انتظام کو بدلنے کی ضرورت پیش آئے جو اپنی فطری رفتار پر چل رہا ہے۔ انسانوں میں زبا ن کا اختلاف اور اس بناپر نوع انسانی میں چھوٹے اور بڑے حلقے بن جانا ایک فطری چیز ہے۔ جو خوداللہ تعالیٰ ہی کی مشیت کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرنا چاہتا وہ اگر قادر مطلق ہے تو اس ساتھ وہ حکیم بھی ہے،اس کی سلطنت کا نظا م اٹل قوانین پر چل رہا ہےانہیں قوانین کے تحت قوموں کی زبانوں اور ان کی روایات میں تنوع نمودار ہوتا ہے اگر اس پرانٹو کی قسم کی کوئی زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی جاتی تب بھی وہ نہ تو قوموں کی مادری زبان بن سکتی تھی نہ اس کے ادب سے قلو ب متاثر ہو سکتے تھے، اور نہ لوگ اس کی ادبی نزاکتوں کو محسوس (Appreciate) کر سکتے تھے، الا یہ کہ قوموں کی مادری زبانوں کو اللہ تعالیٰ فوق الفطری سے مٹادیتا ہے  اور فوق الفطرت طریقے ہی سے اس اسپرانٹو کو زبردستی تمام قوموں کی زبان بنادیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک کام اس کے دوسرے کام کو مٹانے کے لیے نہیں ہوتا،اس وجہ سے انسانی زبان کے سابق فطری نظام کو برقرار رکھتے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا کام انجام دیا ہے۔
یہ اعتراض کہ عربی میں قرآن شریف صرف عربوں کے لیے مفید ہوسکتا تھاہے، اسی صورت میں صحیح ہوسکتا ہےجب کہ اللہ نے صرف اپنی کتاب نازل کی ہوتی۔لیکن امر واقعہ یہ کہ اللہ نے اپنی کتاب کے ساتھ رہنما بھی پیدا کیا۔ اس رہنما نے پہلے انسانوں کی ایک قوم کو جس کی زبان میں کتاب نازل ہوئی تھی، خطاب فرمایا اور اس قوم کو تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس نظام کے سانچے میں ڈھال دیا جو کتاب کے منشاء کے مطابق تھا۔ پھر اس قوم کے سپرد یہ خدمت کی کہ وہ دنیا کی دوسری قوموں کو نبی کی قائم مقام بن کر اسی طرح خطاب کرے اور اسی طرح تعلیم، تزکیہ، عملی تربیت اور کامل اجتماعی انقلاب کے ذریعہ سے اس سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے جس میں پہلے وہ خود ڈھالی گئی تھی۔ پھر جو جو قومیں اس طر یقے سے اس اثر کو قبول کرتی جائیں وہ دوسری قوموں کے لیے یہی خدمت انجام دیں۔ یہ اس تعلیم کو عام کرنے کی فطری راہ تھی اور دنیا میں جس تحریک نے بھی عالمگیر دعوت کا کام انجام دیا ہے، خواہ وہ خدا پرستانہ ہو یا کسی دوسری نوعیت کی، بہر حال اس نے فطرتاً یہی راہ اختیار کی ہے۔اگر یہ اصول تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی کتاب صرف اسی قوم کے لیے مفید ہے جس کی زبان میں یہ لکھی گئی ہو تو پھر دنیا کی علمی تاریخ کو غلط تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر تو انسانی تصنیفات کو بھی زبانوں کے لحاظ سے قوموں کے لیے مخصوص کردینا ہوگا اور ترجمہ اور بین الاقوامی تبلیغ کے تمام دوسرے ذرائع کے فائدے سے انکار کردینا ہوگا۔ حالانکہ یہی چیزیں ہیں جن کے بل پر بڑی بڑی تحریکوں کی دعوت اور بڑی بڑی انقلابی شخصیتوں کے پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلتے رہے ہیں۔ پھر محمدﷺ کی پیش کردہ کتاب ہی نے کیا قصور کیا ہے کہ محض عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اسے عرب قوم کے لیے مخصوص اور محدود کردیا جائے۔اگر کوئی شخص اس چیز سے مطمئن نہ ہو اور برابر اپنے اس اصرار پر قائم رہے کہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اسی طرح اللہ کو کام کرنا چاہئے تھا تو اسے اپنی رائے پر جمے رہنے کا اختیار حاصل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسے ایسے سوالات کو سدراہ بنا کر اگر ایک شخص ایک کتاب یا ایک پیغام سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا تو نقصان کس کا ہے؟ یہ رویہ طالبان حق و صداقت کا نہیں ہوتا۔ وہ تو جگہ جگہ ٹوہ لگاتے پھرتے ہیں کہ سچائی کی روشنی کہاں ہے اور کہاں سے ملتی ہے۔ اگر آدمی دنیا کی ہر کتاب، ہر پیغام اور ہر تعلیم کے مقابلہ میں دل و دماغ پر کسی نہ کسی قسم کا قفل چڑھالے تو پھر وہ ایک قدم بھی زندگی کی سیدھی راہ پر نہیں چل سکتا۔(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال۶۴ھ، جولائی، اکتوبر۴۴ء 

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)