نکاح و طلاق

جواب: بیوہ عورت کے لیے اپنے اسی گھر میں عدت گزارنا واجب ہے جس گھر میں رہائش رکھے ہوئے اسے خاوند کی وفات کی اطلاع ملی تھی، کیونکہ رسول کریمؐ نے یہی حکم دیا ہے۔ کتب ِ سنن میں نبی کریمؐ کی درج ذیل حدیث مروی ہے کہ آپؐ نے فریعۃ بنت مالکؓ کو فرمایا تھا:

‘‘تم اسی گھر میں رہو جس گھر میں تمہیں خاوند فوت ہونے کی اطلاع ملی تھی، حتیٰ کہ عدت ختم ہوجائے۔ فریعۃؓ کہتی ہیں: چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت بسر کی تھی’’۔

اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اکثر اہلِ علم کا بھی یہی مسلک ہے، لیکن اُنھوں نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر کسی عورت کو اپنی جان کا خطرہ ہو یا پھر اس کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی دوسرا شخص نہ ہو اور وہ خود بھی اپنی ضروریات پوری نہ کرسکتی ہو تو کہیں اور عدت گزار سکتی ہے۔

علامہ ابن قدامہؒ کہتے ہیں:

‘‘بیوہ کے لیے اپنے گھر میں ہی عدت گزارنے کو ضروری قرار دینے والوں میں عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم شامل ہیں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے، اور امام مالک، امام ثوری، امام اوزاعی، امام ابوحنیفہ،امام شافعی اور امام اسحاقؒ کا بھی یہی قول ہے’’۔

ابن عبدالبرؒ کہتے ہیں:

‘‘حجاز، شام اور عراق کے فقہائے کرام کی جماعت کا بھی یہی قول ہے’’۔

اس کے بعد لکھتے ہیں:

‘‘چنانچہ اگر بیوہ کو گھر منہدم ہونے یا غرق ہونے یا دشمن وغیرہ کا خطرہ ہو تو اس کے لیے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہونا جائز ہے، کیونکہ یہ عذر کی حالت ہے اور اسے وہاں سے منتقل ہوکر کہیں بھی رہنے کا حق حاصل ہے’’۔ (مختصراً)

سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کونسل کے علمائے کرام سے درج ذیل سوال کیا گیا کہ ایک عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہے اور جس علاقے میں اس کا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت کی ضرورت پوری کرنے والا کوئی نہیں، کیا وہ دوسرے شہرجاکر عدت گزار سکتی ہے؟

کونسل کے علمائے کرام کا جواب تھا:

‘‘اگر واقعتا ایسا ہے کہ جس شہر اور علاقے میں خاوند فوت ہوا ہے، وہاں اس بیوہ کی ضروریات پوری کرنے والا کوئی نہیں، اور وہ خود بھی اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتی تو اس کے لیے وہاں سے کسی دوسرے علاقے میں جہاں وہ محفوظ ہو اور اس کی ضروریات پوری کرنے والا ہو، منتقل ہونا شرعاً جائز ہے’’۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، ۴۷۳/۲۰)

اور اُن فتاویٰ جات میں ساتھ ہی یہ بھی درج ہے:

‘‘اگر آپ کی بیوہ بہن کو دورانِ عدت اپنے خاوند کے گھر سے کسی دوسرے گھر میں ضرورت کی بنا پر منتقل ہونا پڑے، مثلاً وہاں اسے اکیلے رہنے میں جان کا خطرہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، وہ دوسرے گھر میں منتقل ہوکر عدت پوری کرلے’’۔

اس بنا پر اگر یہ عورت اکیلے رہنے سے ڈرتی ہے، یا پھر گھر کا کرایہ نہیں اداکرسکتی تو اپنے میکے جاکر اُسے عدت گزارنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم!

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب: اوّل: اگر خاوند تباہی والے کام مثلاً شراب نوشی یا نشہ کرنے پر اصرار کرے تو بیوی کے لیے خاوند سے طلاق طلب کرنا جائز ہے، اور اگر خاوند طلاق دینے سے انکار کردے تو پھر شرعی عدالت میں قاضی کے سامنے معاملہ پیش کیا جائے تاکہ وہ خاوندپر طلاق لازم کرے، یا پھر خاوند کے طلاق دینے سے انکار کرنے کی صورت میں شرعی قاضی نکاح فسخ کردے۔

اور اگر شرعی عدالت اور شرعی قاضی نہ ہو تو پھر اس معاملہ کو اپنے علاقے میں موجود اسلامی مرکز یا اسلامک سینٹر میں اُٹھانا چاہیے تاکہ وہ خاوند کو طلاق دینے پر راضی کریں، یا پھر اُسے خلع کی دعوت دیں، اور اس شرعی طلاق کے بعد ضرورت کی بنا پر اسے غیرشرعی عدالت سے تصدیق کرانا جائز ہے۔

دوم: جب آپ نے غیرشرعی عدالت کا سہارا لیا اور عدالت نے خاوند کو طلاق دینے کا کہا تو خاوند نے طلاق کے الفاظ بولے یا پھر طلاق کی نیت سے طلاق کے الفاظ لکھ دیے تو طلاق واقع ہوگئی ہے۔

اور اگر خاوند نے نہ تو طلاق کے الفاظ بولے اور نہ ہی طلاق کی نیت سے طلاق کے الفاظ لکھ کر دیے، بلکہ عدالت نے طلاق کا فیصلہ کردیا تو کافر جج کی طلاق واقع نہیں ہوتی، کیونکہ فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ قاضی کو مسلمان ہونا چاہیے جومسلمانوں کے فیصلے کرے۔ بایں وجہ کہ قضا ایک قسم کی ولایت ہے اور کافر شخص کسی مسلمان شخص کا ولی نہیں بن سکتا۔

فقہائے شریعت کونسل امریکہ کی دوسری کانفرنس جو کوپن ہیگن، ڈنمارک میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت ۴ تا ۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۵ھ بمطابق ۲۲ تا ۲۵ جون ۲۰۰۴ء میں منعقد ہوئی، اس کا اختتامی بیان یہ تھا:

‘‘جب کسی ایسے ملک میں جہاں اسلامی قوانین اور شرعی عدالتیں نہ ہوں اور کسی حق کو حاصل کرنا متعین ہوجائے یا پھر اپنے سے ظلم روکنا مقصود ہو تو غیرشرعی عدالت سے رجوع کرنے کی اجازت ہے’’۔

لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ شرعی علمائے کرام سے اس سلسلہ میں رجوع ضرور کیا جائے تاکہ اس موضوع کے بارے میں واجب کردہ شرعی حکم کو نافذ کیا جاسکے، اور دوسری عدالتوں سے صرف تنقیذ کی سعی کی جائے’’۔

اور اسی اختتامی بیان کے ساتویں بند میں اسلامی ممالک سے باہر دوسرے ممالک کی سول کورٹس میں جاری ہونے والی طلاق کے متعلق درج ہے:

‘‘جب مرد اپنی بیوی کو شرعی طلاق دے دے تو اس کے لیے ان غیرشرعی عدالتوں سے طلاق توثیق کرانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جب خاوند اور بیوی کا طلاق کے متعلق آپس میں جھگڑا اور تنازع ہو تو پھر شرعی عدالت نہ ہونے کی صورت میں قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اسلامی مراکز شرعی عدالت کے قائم مقام ہوں گے’’۔

اور شادی کو ختم کرنے کے لیے صرف یہ قانونی کارروائی مکمل کرنے سے ہی شرعی طور پر شادی ختم نہیں ہوگی۔ اس لیے جب عورت سول کورٹ سے طلاق حاصل کرلے تو وہ اسلامی مراکز جاکر اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کرنے والے اہلِ علم سے رجوع کرے تاکہ شرعی طور پر اس معاملہ کو پورا کیا جاسکے۔ مختلف جگہوں پر اسلامی مراکز ہونے کی وجہ سے اور ان سے رجوع کرنے میں سہولت ہونے کی بنا پر اس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔

اس بنا پر آپ کو اپنے علاقے کے اسلامی مرکز یعنی اسلامک سنٹر سے رابطہ کرنا چاہیے، وہ آپ کے اس معاملہ کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

سوم: جب عورت کو اپنے خاوند سے پہلی یا دوسری طلاق ہوجائے اور اس کی عدت گزر جائے تو اس کے لیے اسی خاوند سے نئے مہر کے ساتھ ولی اور گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرنا جائز ہے۔ لیکن اگر اسے تیسری طلاق ہوچکی ہو تو خاوند کے لیے اپنی مطلقہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں حتیٰ کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے بہ رغبت نکاح کرے اور یہ نکاحِ حلالہ نہ ہو، پھر وہ شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو پہلے خاوند کے لیے اس سے نکاح کرنا جائز ہوجائے گا۔ واللہ اعلم!

(شیخ محمد صالح المنجد)


جواب: اسی طرح کی غلط بیانی اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے بعض لوگ اسلامی شریعت کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اسلامی شریعت پر اعتراض کرنے سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ اسلامی شریعت سے خاطر خواہ واقفیت حاصل کریں۔ اگر انھیں اس کی واقفیت نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تاکہ اسلامی شریعت کا صحیح صحیح علم ہو سکے۔ مصیبت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ قرآن و حدیث کا مطالعہ کم کرتے ہیں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے یا کسی مسلمان کے غلط رویے کو دیکھ کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہی اسلامی شریعت ہے اور پھر اسلامی شریعت پرسیدھے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں 
اس اعتراض سے پہلے انھیں چاہیے تھا کہ شادی اور طلاق سے متعلق قرآن و حدیث کے احکام کا مطالعہ کر لیتے اور جان لیتے کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا موقف ہے۔
اسلام کی نظر میں شادی ایک مضبوط اور مستحکم بندھن ہے اور اس بندھن کی بنیاد باہمی الفت و محبت پر ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے تعان سے پرسکون زندگی گزاریں۔یہ وہ مضبوط رشتہ ہے جو دو خاندانوں کی مستقل دوڑ بھاگ گفت و شنید شادی کی تقریبات مہر کی ادائی اور نہ جانے کن کن مرحلوں کے بعد وجود میں آتا ہے ظاہر ہے اس قدر مضبوط رشتے کو توڑ دینا کوئی قابل تعریف بات ہے اور نہ کوئی  آسان بات کہ جب جی چاہا اسے ختم کر دیا  نہ تو شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بنیاد پر اس رشتہ کو ختم کردے اور نہ بیوی ہی کو اس کا حق دیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردےبالکل غلط بات ہے -یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔ اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضا رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے:فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝ (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے  کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ۝  (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ      ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے۔اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ انصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسا اوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی  پوراحق  دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور مردوں  کو حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھرولواں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھر بھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں- اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے‘ مہر کی ذمے داری ہے‘بیوی بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہےاور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن ختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 یہ کہنا کہ اسلامی شریعت نے طلاق کے معاملے میں مردوں کو پوری آزادی عطا کر رکھی ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے طلاق کا وار کردے۔بالکل غلط بات ہے یہ بات وہی کہہ سکتا ہے۔ جسے اسلامی شریعت کا علم نہیں ہے۔اسلامی شریعت نے مرد کو طلاق کا حق ضرور دیا ہے لیکن اس کے استعمال کی پوری آزادی نہیں دی ہے۔اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے چند شرائط کا پورا کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:
(1) طلاق دینے سے پہلے اس رشتہ کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اختیار کیا جائے جب تمام تدبیریں ناکام ہو جائیں اور تمام راستے بند ہو جائیں تب طلاق کے بارے میں سوچا جائے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے شوہر کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود آدمی اپنی بیوی کو طلاق نہ دے بلکہ اس پر راضی بہ رضائے رب رہنے کی کوشش کرے۔اللہ فرماتا ہے: 
فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝ (النساء: 19)
”اگر تم انھیں ناپسند کرو توعین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں تمھارے لیے بہت بھلائی رکھ دے۔“
 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ بیوی کی برائیوں پر نہیں اس کی اچھائیوں پر نظر رہے۔لا يَفْرَكْ مؤمن مؤمنة، إِن كَرِه منها خُلُقاً، رضي منها آخَرَ ”مومن مرد کو اپنی بیوی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اپنی بیوی کی کوئی بات ناگوارگزرتی ہوتواس کے اندر دوسری عادتیں ہیں جو اسے اچھی لگتی ہوں۔“
(3) طلاق دینے کے لیے طلاق کا مصمم ارادہ کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے نہایت غصے کی حالت میں دی ہوئی طلاق یا کسی کے دباؤ میں آکر دی گئی طلاق ،طلاق شمار نہیں ہوگی ۔کیوں کہ ایسی حالت میں طلاق کا بامقصد ارادہ نہیں ہوتا ہے۔
(4) مصمم ارادے کے باوجود طلاق صرف اسی حالت میں جائز ہے جب عورت حیض کی حالت میں نہ بلکہ ایسی پاکی کی حالت میں ہو جس میں ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم نہ ہوئے ہوں۔
(5) طلاق کی اجازت صرف شدید ضرورت کے وقت دی گئی ہے جسے ہم مجبوری کی حالت سے تعبیر کرتے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ(اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے) ایک دوسری جگہ فرمایا لاتُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلا عَنْ رِيبَةٍ (بلا وجہ عورتوں کو طلاق نہ دو) اسی لیے اسلامی شریعت کی نظر میں بغیر کسی سبب کے دی ہوئی طلاق مکروہ اور حرام ہے۔ کیوں کہ بلاوجہ بسے بسائے گھر کو اجاڑدینا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے مال و دولت کو بلا وجہ برباد کرنا۔ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ طلاق دے سکتا ہے طلاق دینے کے بعد اسلام نے مرد کو اس کا پابند بنادیا ہے کہ اگر اس نے مہر کی رقم ادا نہیں کی ہے تو فوراً اس کی ادائی کرے۔ عدت کی مدت میں اپنی مطلقہ بیوی کا سارا خرچ برداشت کرےاور اگر بچے ہیں تو اس وقت تک ان کی مالی کفالت کرے جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں بعض علماء کرام مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام زہری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک مرد پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی کو طلاق کے عوض کچھ مال و دولت عطا کرے   کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ حَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ۝  (البقرۃ: 241)
”اور اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔“
مومن مردوں پر واجب ہے کہ اپنی بیویوں کو کچھ مال و دولت عطا کریں۔ اور اس مال و دولت کی مقدار شوہر کی مالی حیثیت کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ      ۚ (البقرۃ: 236)
”مال دار پر اس کی مال داری کے مطابق فرض ہے اور تنگ دست پر اس کی تنگ دستی کے مطابق۔“
اس تفصیل اور توضیح کے بعد یہ کہنا سرا سر غلط ہو گا کہ اسلام نے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور مردوں کو مکمل آزادی دی ہے کہ وہ جب اورجیسے چاہیں اس حق کا استعمال کر سکتے ہیں۔اسلام نے مردوں کو طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات میں دی ہے اگر مردوں کو طلاق کے حق سے بالکل محروم کردیا جاتا تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی کیوں کہ شادی شدہ زندگی میں بسااوقات ایسے لمحے آتے ہیں جب بیوی سے نباہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو اس بات کا حق دیا ہے کہ اپنی زندگی کو تباہ برباد کرنے سے بچالیں اور خوب صورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام نے یہ حق صرف مردوں کو عطا کیا اور عورتوں کو اس حق سے محروم کردیا ہو۔ ہر گزایسا نہیں ہے ذرا غور کریں کہ جس شریعت نے عورتوں کو اس بات کا مکمل حق دیا ہے کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر نہ ہو۔ وہ شریعت عورتوں کو اس بات پر کیسے مجبور کر سکتی ہے کہ وہ ایسے مرد کے ساتھ زندگی گزارتی چلی جائیں جسے وہ سخت ناپسند کرتی ہوں اور جس کے ساتھ نباہ نا ممکن ہو گیا ہو۔ بلا شبہ جس شریعت نے عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا پورا حق دیا ہے اسی نے انھیں اس بات کا بھی پوراحق دیا ہے کہ اپنی غیر مطمئن شادی شدہ زندگی سے اپنی مرضی کے مطابق نکل سکیں۔ اس حق کو شریعت کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں البتہ جس طرح شریعت نے مردوں کو طلاق کا حق صرف ناگزیر حالات میں عطا کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل خوب غور کر لیں جلد بازی میں فیصلہ نہ کریں اسی طرح عورتوں کو بھی صرف ناگزیر حالات میں خلع کی اجازت ہے اور انھیں بھی حکم ہے کہ خلع کے مطالبہ سے قبل اس پر خو ب غور کر لیں اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔ ابو داؤد کی روایت ہےأَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة (ابو داؤد) ”جو عورت اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ بغیر کسی شدید حاجت کے کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔“
خلع کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اور مہر کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار ہو۔اگر شوہر طلاق دینے پر رضا مندی نہ ظاہر کرے تو عورت اپنا معاملہ اپنے اور اپنے شوہر کے گھروالوں کے سامنے پیش کرے تاکہ وہ سب مل کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کریں اگر شوہر پھربھی تیار نہ ہو تو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے تاکہ عدالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے جسے قانون کی زبان میں ”فسخ“ کہتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ مجھے اپنے شوہر کےدین واخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے۔البتہ مجھے اپنا شوہر ہی ناپسندہے اور میں علیحدگی چاہتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم مہر میں لیاہوا باغ واپس لوٹانے کو راضی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ بالکل راضی ہوں۔ انھوں نے باغ واپس کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی۔
عورت کو اس سے زیادہ انصاف اور کیا چاہیے کہ مرد طلاق دیتا ہے تو اسے مہر کی رقم واپس نہیں ملتی ہے بلکہ مزید کچھ روپے پیسے عورت کو دیتا ہے۔ لیکن عورت جب خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو اسے اپنی جیب سے کچھ نہیں دینا ہوتا ہے بلکہ مرد سے وصول کی ہوئی مہر کی رقم مرد کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ وہ حضرات جو طلاق کے معاملے میں اسلامی شریعت پر اعتراض کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس مسئلے پر انصاف کے ساتھ غور کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک کو انصاف دلانے کے چکرمیں دوسرے کی حق تلفی ہو رہی ہو۔ عام طور پر یہ لوگ عورتوں کے لیے کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور عورتوں کو حق دلانے کے معاملے میں اتنے جوشیلے ہو جاتے ہیں کہ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مردوں کے ساتھ حق تلفی کر رہے ہیں اسلام کا قانون ایسانہیں ہےکہ ایک کے ساتھ انصاف ہو اور دوسرے کے ساتھ ظلم، اگر انھیں اس بات پر اعتراض ہے کہ طلاق کے معاملے میں مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں تو انھیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں پرکچھ زیادہ ذمے داریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مردوں پر نان و نفقہ کی ذمے داری ہے مہر کی ذمے داری ہے۔ بیوی اور بچوں کی کفالت کی ذمے داری ہے۔ اور طلاق کی صورت میں مزید رقم ادا کرنے کی ذمے داری ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ مردوں پر ذمے داریاں تو زیادہ ہوں لیکن اختیارات کم ہوں۔اور عورتوں پر ذمے داریاں تو کم ہوں لیکن اختیارات زیادہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا قانون بالکل حق اور انصاف پر مبنی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اس معاملہ پر غور و خوض کیا جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)