غزل


مضامین

  جب کوئی کلی صحن گلستان میں کھلی ہے شبنم میری آنکھوں میں وہیں تیر گئی ہے   جس کی سر افلاک بڑی دھوم مچی ہے آشفتہ سری ہے ، مری آشفتہ سری ہے   اپنی تو اجالوں کو ترستی ہیں نگاہیں سورج کہاں نکلا ہے ، کہا ں صبح ہو ئی ہے   ...


  چوب صحرا بھی وہاں، رشک ثمر کہلائے ہم خزاں بخت شجر ہو کے حجر کہلائے    ہم تہ خاک کیے ،جاں کاعرق، ان کے لیے  اور پس راہ وفا، گرد سفر ، کہلائے   ان کی پوروں میں ستارے بھی ہیں، انگارے بھی وہ صدف جسم ہوئے ، آتش تر، کہلائے  ...


  چراغ زندگی ہو گا فروزاں، ہم نہیں ہو ں گے  چمن میں آئے گی فصل بہاراں، ہم نہیں ہو ں گے    جیئں گے جو، وہ دیکھیں گے بہاریں زلف جاناں کی سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراں، ہم نہیں ہوں گے    جوانو اب تمہارے ہاتھ میں تقدیر عالم ہے ت...


  دل میں کیسی یہ بے کلی اتری جسم و جاں میں فسردگی اتری   قتل سورج کا ہو گیا شاید ! صبح دم کیوں یہ تیرگی اتری   حوصلہ ہے نہ ولولہ باقی کس خرابے میں زندگی اتری   رات تو انتظار میں کاٹی دن ہوا پر نہ روشنی اتری   ...


  قوم کے جب نظریات بدل جاتے ہیں دیکھتے دیکھتے حالات بدل جاتے ہیں   بزدلی شکوہ حالات سکھا دیتی ہے  دل میں ہمت ہو تو حالات بدل جاتے ہیں   کون کہتا ہے انہیں عہد ِوفا یاد نہیں ذکر چھڑتاہے توکیوں بات بدل جاتے ہیں   مجھ کوپ...


  یہ اضطراب کا ماحول چار سُو کیا ہے کوئی بتائے کہ کِس کِس کی آرزو کیا ہے   سُلگ رہی ہے مرے گھر کے گوشے گوشے میں یہ آگ کیا ہے، بپا شور ہاؤ ہو کیا ہے   گلی گلی میں جنوں پوچھتا ہے لوگوں سے خرد کے جسم سے بہتا ہوا لہو کیا ہے ...


  تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا  ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے   دیکھ کر پرندوں کو ، باندھنا نشانوں کا  ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے   تم ابھی نئے ہو ناں ، اس لیے پریشاں ہو آسماں کی جانب اس طرح سے مت دیکھو ...


  آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑ کے پھل تھے’ پسِ دیوار گرے   ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی  آنکھ جھپکی بھی نہیں’ ہاتھ سے پتوار گرے   مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں جس طرح سایہ دیوار پہ دیو...


  تجھ کو پانے کی تمنا نے سمجھائے رستے جب بھی الجھے ہیں مرے ذوقِ سفر سے رستے   منزلیں عزمِ مصمّم پہ فدا ہوتی ہیں میں بھٹکتا تو مجھے راہ دکھاتے رستے   سادگی دیکھ کے منزل کے تمنّائی کی  قریہ قریہ لیے پھرتے رہے اندھے رستے   ...


  پیاس بخشی ہے تو پھر اجر بھی کھل کر دینا ابر مانگے مری دھرتی تو سمندر دینا اپنی اوقات سے بڑھنا مجھے گم کر دے گا مجھ کو سایہ بھی مرے قد کے برابر دینا یہ سخاوت مرے شجرے میں لکھی ہے پہلے اپنے دشمن کو دعائیں تہِ خنجر دینا...! دیک...


  ہم نے مانا کہ بڑے ہیں کام کے یہ مشورے کس طرح مانیں مگر دیوانگی میں مشورے   میری حالت دیکھ کے اکثر تو آگے بڑھ گئے  رک گئے کچھ دیر وہ ، جو دیتے رہے مشورے   دم نکلنے میں ابھی کچھ دیر تھی، لیکن اُدھر وارثوں میں ہو رہے تھے باہ...


  بزمِ حبیباں میں سستی سے جانامشکل ہو جاتاہے جا پہنچوں توسچ کہتاہوں آنا مشکل ہو جاتاہے   الجھی الجھی اور پیچیدہ سی باتوں کاذکر ہی کیا سادہ سادہ باتوں کا پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے   کیسی کیسی خیال کی لہریں دل دریامیں اٹھتی ہیں ...