چوب صحرا بھی وہاں، رشک ثمر کہلائے

مصنف : عطا شاد

سلسلہ : غزل

شمارہ : جون 2007

 

چوب صحرا بھی وہاں، رشک ثمر کہلائے
ہم خزاں بخت شجر ہو کے حجر کہلائے 
 
ہم تہ خاک کیے ،جاں کاعرق، ان کے لیے 
اور پس راہ وفا، گرد سفر ، کہلائے
 
ان کی پوروں میں ستارے بھی ہیں، انگارے بھی
وہ صدف جسم ہوئے ، آتش تر، کہلائے
 
اپنی راہوں کا گلستاں بھی لگے ویرانہ
ان کی دہلیز کی مٹی بھی گہر کہلائے
 
جن کی خیرات سے لمحوں کی لویں جاگتی ہیں
شب نژادوں میں وہی، دست نگر کہلائے 
 
شاد بے صرف گیا، عمر کا سرمایہ ء ، صرف
ہم کہ تھے ، ‘‘جان صدا’’گنگ ہنر کہلائے