فيفا ورلڈ كپ

مصنف : عزير احمد

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : دسمبر 2022

فیفا کا بگل بجا، میزبان نے اعلان کیا کہ کچھ ایسا نہیں کیا جا سکتا جو ہماری تہذیب اور ہمارے کلچر کے خلاف ہو، فرنگی پگلا گئے، ایسے کون کرتا ہے بھائی، یہی تو کچھ مواقع ہوتے ہیں جب ہم اپنی ذہنی افلاس کا مظاہرہ کرتے ہیں، LBGTQ کے پرچم بلند کرتے ہیں، حقوق انسان کے چمپئن بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
قطر کا LBGTQ کے مظاہر پر پابندی لگانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، جس طرح سے وہ لوگ سوشل میڈیا سائٹس پر ری ایکٹ کر رہے ہیں، اس سے لگ رہا ہے کہ زخم گہرا لگا ہے۔ مغرب کو زعم ہے کہ اس کے افکار ہی اس قابل ہیں کہ وہ دنیا کے اقدار بن سکتے ہیں، ایسے میں ان کے سامنے کوئی کھڑا ہو کر یہ کہہ دے کہ نہیں، نہیں، تمہارے اقدار تمہارے، ہمارے اقدار ہمارے، ہم اٹھائیس دن کے کھیل کے لئے ہم اس کی تبدیلی کی اجازت نہیں دے سکتے تو مرچیں تو لگ ہی جانی ہیں۔
فیفا ورلڈ کپ سے پوری دنیا جڑی ہوئی ہے، قطر نے اپنے لمٹیڈ ایڈیشن میں جتنے بھی اقدامات کئے وہ نہایت ہی سراہنیے ہیں، اور وہ سراہنیے اس وجہ سے بھی ہیں کہ مغرب ان اقدامات کی وجہ سے چیں بہ جبیں ہے، اس کے افراد بائیکاٹ قطر کا ٹرینڈ چلا رہے ہیں، شروعات ہونے سے پہلے بہت کوشش کی گئی کہ کچھ ایسا کردیا جائے کہ یہ ورلڈ کپ تنازعہ کا شکار ہوجائے۔
دنیا بھر کی قومیتیں، تہذیبیں اس ورلڈ کپ میں اپنے کلچر کے ساتھ آتی ہیں، اور کوشش کرتی ہیں کہ اس موقع کو اپنے ''مقصد'' کے حق میں بھنا سکیں، کیونکہ پوری دنیا کیمرے اسی طرف ہیں، میں ابھی کل دیکھ رہا ہے، ایرانی کھلاڑیوں نے قومی ترانہ گانے سے انکار کردیا، اور ایرانی افراد نے قطری سڑکوں پر ''خامنہ ای مردہ باد'' کے نعرے لگائے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ موقع ایسا ہے کہ ہر شخص اسے اپنے حق میں کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے، ایسی صورتحال میں غیر اسلامی چیزوں کے بیجا اظہار پر پابندی کے لئے قطر یقینی طور پر مبارکباد کا مستحق ہے۔
فرنگی سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر قطر میں LGBTQ کو ریپریزنٹ کرنے والے ٹی شرٹس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، تو پھر یہ لوگ کس طرح یوروپین ممالک میں حجاب کے مسئلے کو ''حقوق انسانی'' سے جوڑ کر حجاب پہننے کی آزادی کی مانگ کرتے ہیں، سوال جائز ہے، مگر جواب دینے والے آپس میں کسی اور بات پر بھڑے ہوئے ہیں، ان کو پہلے یہ جاننا ہے کہ قطر اخوانی ہے کہ سلفی، حالانکہ یہ لوگ بھول گئے کہ ورلڈ کپ کو کامیاب کرانے کے لئے پورا مڈل ایسٹ لگا ہوا ہے، اس کے لئے سعودی کیا، اماراتی کیا، یہاں تک کہ پہلی مرتبہ سیسی اور اردگان نے بھی اسی ورلڈ کپ کے چلتے مصافحہ کیا۔
ہماری ترجیحات کلئیر نہیں ہیں، ہماری پوری انرجی اسی پر صرف ہورہی ہے کہ یہ ثابت کردیا جائے کہ فیفا ورلڈ کپ کا اسلامی کرن کردیا گیا ہے، یا پھر قطر کو فحاشی اور برائی کا اڈہ ثابت کردیا جائے، اور اس بیچ میں جو اسلام کے مبادیات اور اصول و ضوابط کو لے کر سوال اٹھایا جارہا ہے، اس پر بحیثیت مسلمان ہماری نظر ہی نہیں جارہی۔
سوشل میڈیا پر جو کلپس دیکھنے کو مل رہے ہیں اس اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کچھ اہم مسئلے بڑے غیر محسوسانہ انداز سے ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جیسے فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ، قطر نے ایک فلسطینی کو ایمبیسڈر بنایا، وہیں دوسری طرف اسرائیل کے شہریوں کو قطر آنے کی اجازت دی، اسرائیل کے یہ شہری اسرائیلی پاسپورٹ پر آئے ہیں، ایک کلپ میں ایک شہری ویلاگ بنارہا ہے، جیسے ہی وہ کہتا ہے کہ ''میں اسرائیل سے ہوں''، اس کے ساتھ ہنسنے والے چہرے ایک دم سے خاموش ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ باتیں بند کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، ایک آ کر کہتا ہے ''صرف فلسطین''، ''اسرائیل موجود ہی نہیں ہے''۔ 
''تہذیبی، سیاسی, اور معاشرتی تصادم'' اس پورے ورلڈ کپ میں بار بار دیکھنے کو ملے گا، اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم کس کی سائیڈ کھڑے ہوتے ہیں، خود ہندوستانی میڈیا نے کیا ڈاکٹر ذاکر صاحب کے آمنترن کی نیوز پر کیا ننگا ناچ کیا تھا، اور قطر کے خلاف کیا کیا ہفوات بازی کی تھی، جو کہ ابھی بھی جاری ہی ہے، ایسی صورتحال میں ساتھ دینے کے بجائے سب آپس میں ہی بھڑجائیں، یہ مناسب نہیں ہے۔
اصل یہی ہے کہ جب ہم کسی سے اپنی محبت و عقیدت وابستہ کرلیتے ہیں تو اسے مجسم خیر مان لیتے ہیں، اور اگر کسی سے نفرت کر بیٹھتے ہیں تو اسے مجسم شر قرار دے دیتے ہیں، اور بیچ میں جو اسلامی اصول ہے ''وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاَانُ قَوْمٍ عَلَیٰٓ أَلَّا تَعْدِلُواْ'' کا، اسے پتہ نہیں کہاں دفن کر آتے ہیں۔

حالات حاضرہ 
قطر اور فیفا کپ
عزیر احمد