ختم نبوت

مصنف : محمد رفیع مفتی

سلسلہ : علمی مضامین

شمارہ : ستمبر 2004

نبوت و رسالت کا معاملہ ایسا نہیں کہ اس کے بارے میں ’کسی درجے کی بھی بے اعتنائی اختیار کی جا سکے۔

انسان کی اُخروی نجا ت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ خدا کے پیغمبروں کے بارے میں کیا رویہ اختیار کر تا ہے۔ اگر وہ ان کی تصدیق کرتا اور ان کے ساتھ مطابقت و ہم آہنگی کا رویہ اختیار کرتا ہے’ تو اُخروی کامیابی ’ اپنی کا مل شکل میں’ اُس کی منتظر ہو تی ہے’ اور اگر وہ انکی تکذیب کر تا اور ان کے ساتھ سرکشی و نافرمانی کا رویہ اختیار کر تا ہے’ تو پھر اُ خروی عذاب اس کا مقدر ہو تا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں بہت اہتمام فر مایا ہے۔

نبی ’ کسی عام مصلح کی طرح ’محض اپنی شخصیت اور اپنے علم کے بل بوتے پر’ میدان دعوت میں قدم نہیں رکھ دیتا’ بلکہ وہ پہلے سے ایک متعارف شخصیت ہوتا ہے۔ کائنات کے ما لک کی طرف سے’ اس کا پروانہَ تقرر’ اس کی آمد سے پہلے’ دنیا میں بھیج دیا جا تا ہے۔ یہ اللہ تعا لی کا قا نون ہے کہ ہر نبی’ اپنے سے پہلے آنے والے نبی یا بعض اوقات انبیا کی پیش گوئیوں کا مصداق بن کر آ تا ہے۔قرآن مجید اور پرانے صحیفوں کے مطا لعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی’ اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دیتا رہا ہے۔اس بات کی شہادت تورات’ انا جیل اربعہ اور قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہے۔ ان پیش گوئیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انبیا ورُسل کا معا ملہ جس قدر اہمیت کا حامل تھا’ اللہ تعالی نے اُ سی قدر اس میں اہتمام بھی فرمایا ہے۔حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں’ تورات میں ہے:

 ‘‘ دیکھو’میں اپنا رسول بھیجوں گا’اور وہ میرے آگے راہ’راست کرے گااور خداوند’ جس کے تم طالب ہو ’ناگہاں’ اپنی ہیکل میں آمو جود ہو گا۔ہاں’ عہد کا رسول’ جس کے آ رزو مند ہو ’آئے گا۔ربُ الافواج فرما تا ہے: پر اس کے آ نے کے دن کی کس میں تاب ہے۔ اور جب اس کا ظہور ہو گا ’تو کون کھڑا رہ سکے گا ؟کیونکہ وہ سنار کی آگ اور دھوبی کے صابون کی مانند ہے۔اور وہ چا ندی کو تانے اور پاک صاف کرنے والے کی طرح بیٹھے گا اور بنی لاوی کو سونے اور چاندی کی مانند پاک صاف کرے گا ’تا کہ وہ راست بازی سے خداوند کے حضور ہدیے گزارنیں۔ تب یہودہ اور یروشلم کا ہدیہ خداوند کو پسند آئے گا’ جیسا ایامِ قدیم اورپرانے زمانے ہیں۔’’ (ملاکی:باب۳ آیت۱۔۴)

حضرت یحییٰؑ کے بارے میں تواناجیل ہمیں بتاتی ہیں کہ ان کی بعثت کا مقصد ہی اپنے بعد آنے والے نبی کے لیے راہ صاف کرنا تھا۔ انجیل میں ہے:‘‘اور یوحنا اونٹ کے با لوں کا لباس پہنے اور چمڑے کا پٹکا اپنی کمر سے باندھے رہتا ’اور ٹڈیا ں اور جنگلی شہد کھاتا تھا ’ اور یہ منادی کرتا کہ میرے بعد وہ شخص آنے والا ہے’ جو مجھ سے زور آور ہے۔’’(مرقس’ باب۱’آیت۶۔۷)

نبیوں اور رسولوں کے اس پورے سلسلے کے آخر میں’نبی ِ اُمیّﷺ کی بعثت ہوئی ۔آپ کی بعثت کی خبر سب نبیوں اور رسولوں نے دی ہے۔حضرت موسیٰؑ نے واضح طور پر بنی اسرائیل کو یہ بتا دیا تھا کہ آنے والا نبی ’بنی اسمٰعیل میں مبعوث ہو گا ۔انھوں نے اسے جن الفاظ میں بیا ن کیا ہے’ان کا واضح مطلب یہی ہے کہ آخری نبی کی بعثت بنی اسما عیل ہی میں ہو گی۔

استشنا ہی میں ہے:‘‘خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکار ہوا’ وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا۔دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیااور اسکے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت’ان کے لئے تھی۔’’ (باب۱۸’ آ ٓیت۱۵۔۱۹)

نبیﷺ کے بارے میں پیش گوئیاں’ انا جیل میں ان الفاظ میں مذکور ہیں:‘‘یسوع نے ان سے کہا کہ کیا تم نے کتابِ مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا’وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا ۔یہ خداوند کی طرف سے ہوا’اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔اس لیے میں تم سے کہتا ہوں:خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو’جو اس کا پھل لائے’دے دی جائے گی ۔اور جو اس پتھر پر گرے گا’ اسکے ٹکڑے ہو جائیں گے’مگرجس پر وہ گرے گا’ اُ سے پیس ڈالے گا۔’’ (متی:باب۲۱’آیت۴۲۔۴۴)

‘‘اسکے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا’کیونکہ’ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔’’ (یوحنا:باب۱۴’آیت۳۰)

قرآنِ مجید میں باقاعدہ ان پیش گوئیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔سورۂ اعراف میں ہے:‘‘جو پیروی کریں گے اس نبیِ اُمی رسول کی’ جس کا ذکر’ وہ اپنے ہاں’ تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔’’(۷:۱۵۷)

حضرت مسیحؑ کی بعثت کا ایک مقصد حضرت محمد ﷺ کی بشارت بھی دینا تھا۔سورۂ صف میں ہے:

‘‘اور جب عیسیٰ ابنِ مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل’میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہو کر آیا ہوں’ان پیش گوئیوں کا مصداق’ جو مجھ سے پہلے تورات میں موجود ہیں اور ایک رسول کی بشارت دیتا ہوا آیا ہوں’جو میرے بعد آئے گا’اس کا نام احمد ہو گا۔’’(۶۱:۶)

یہ سب پیش گوئیاں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ نبی کوئی مبہم شخصیت نہیں ہو تا۔ وہ اپنی نبوت منوانے کیلئے کوئی بحث ومبا حثہ نہیں کرتا’نہ وہ پہلے سے واضح باتوں کے نئے نئے مطالب بیا ن کرتا ہے اور نہ کچھ نادر نکتے تراشنے کے بعد’ اپنی نبوت کے لیے’کچھ ایسے دلائلِ لا طائل قوم کے سامنے لا تا ہے ’ جنھیں اگر کوئی عامی سنے ’تو سمجھنے سے قا صر ہو’اور عارف سنے’تو یہ دلائل ِ نبوت ’ دعوئ نبوت کا ابطال کرتے نظر آئیں۔ نبی کی شخصیت ایسے واضح ہوتی ہے جس میں کوئی ابہام نہیں ہوتا اور اس کی دلیل نبوت ایسی قاطع ہوتی ہے ’جس سے انکار ممکن نہیں ہوتا ۔وہ خدا کی راہ ڈھونڈنے والوں کی مراد اور طا لبانِ حق کی طلب بن کر آتا ہے۔ وہ اپنا تعارف ہی یہ بات کہہ کر پیش کرتا ہے کہ میں کوئی اجنبی نہیں ہوں’ میں تو ان پیش گوئیوں کا مصداق ہوں جو پہلے سے تمہارے ہاں پائی جاتی ہیں۔اگر وہ کوئی کتابِ موعود لے کر آتا ہے’ تو اس کے بارے میں بھی یہی بات پیش کی جاتی ہے کہ یہ کتاب ان پیش گوئیوں کی مصداق ہے’ جو پہلے سے تمہارے ہاں موجود ہیں۔ قرآنِ مجید چونکہ کتابِ موعود تھی ’لہٰذا جب یہ نازل ہوئی’ تو اس کے حق میں بھی یہ دلیل دی گئی۔ سورۂ بقرہ میں ہے:

 ‘‘(اے یہود)ایمان لاؤ اس چیز (قرآن)پر جو میں نے اُ تاری ہے۔ تصدیق کرتی ہوئی ’ اس چیز کی جو تمھارے پاس ہے’ اور تم اس کے پہلے انکار کرنے والے نہ ہو۔’’(۲:۴۱)

‘‘اور اب’ جو ایک کتاب’ اللہ کی طرف سے’ان(یہود) کے پاس آئی ’ تصدیق کرتی ہوئی (مصداق بن کر) ’ اس چیز (پیش گوئیوں )کی’ جو اُن کے پاس پہلے سے موجود ہے اور یہ خود پہلے سے’ کفار (انکار کرنے والوں) کے خلاف ’ فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے ’ تو جب اُن کے پاس آئی وہ چیز’ جس کو جانے پہچانے ہوئے تھے ’ تو اُنہوں نے اس کا انکار کر دیا۔’’ (۲:۸۹)

یہ ہے وہ اہتمام’ جسکے بعد اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس بات کا مکلف ٹھہراتا ہے کہ وہ اس کے بھیجے ہوئے نبی پر ایمان لائیں۔ جس شخص کو ماننے اور نہ ماننے میں اتنا بڑا فرق ہو’جتنا ابدی جنت اور ابدی جہنم میں فرق ہے’ اس شخص کے معاملے میں کسی نوعیت کا کوئی ابہام’ کسی صورت میں بھی’انسان کی عقل وفطرت گوارا نہیں کر سکتی اور نہ خدائے رحمٰن کے بارے میں یہ بدگمانی کی جا سکتی ہے کہ اس نے کسی شخص کی نبوت کو مبہم اور مجمل رکھاہو۔

 اب ہم اس سارے مقدمے کی روشنی میں’ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا قرآنِ مجید میں نبیﷺ کے بعد آنے والے کسی نبی کے بارے میں کوئی پیش گوئی موجو د ہے؟

اس سوال کا جواب ’واضح طور پر نفی میں ہے۔ قرآنِ مجید میں نہ کسی آیندہ آنے والے نبی کا کوئی ذکر موجود ہے’ نہ اس پر ایمان لانے کی کوئی دعوت اس میں پائی جاتی ہے’نہ اس کی نصرت کا کوئی حکم اس میں موجود ہے’ اور نہ اس کے احوال کے بارے میں’ کسی نوعیت کی ’کوئی خبر موجود ہے۔اگر ایسی بات ہوتی تو ساری اُمّت اس بات کو جانتی اور مانتی۔پھر سبھی کہتے کہ اس نبی کو نہ ماننا دراصل’ قرآن کو نہ ماننا ہو گا ’ اور اس کا انکار ’ قرآنِ مجید کا انکار قرار پائے گا ۔ لیکن نہ صرف یہ کہ یہ سب کچھ اس میں نہیں ہے’ بلکہ قرآنِ مجید اس کے بالکل برعکس’ بہت واضح طور پر’ ختم ِ نبوّت کا اعلان کر رہا ہے۔ ارشادِ باری ہے:

 ‘‘بلکہ(محمد) اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔’’(الاحزاب ۳۳:۴۰)

یہ آیت ’ واضح طور پر’ ختمِ نبوت کا اعلان کر رہی ہے۔ اگر یہ آیت نہ ہوتی’ تو ہم قرآنِ مجید کے بارے میں یہ نہ کہہ سکتے کہ اس میں ختمِ نبوّت کا اعلان موجود ہے۔سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت کو دیکھیے’ اس میں نبیﷺ کیلئے خاتم النبیین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں’ جس کے معنی نبیوں کی مُہر’ کے ہیں۔ نبیﷺ کیلئے قرآنِ مجید نے مُہر کے الفاظ استعمال کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ آپ وہ نبی ہیں’ جس نے نبیوں کیلئے مُہر کا کردار ادا کیا ہے۔ مُہر ’جدید و قدیم ہر زمانے میں’ دو ہی کاموں کیلئے استعمال کی گئی ہے۔ ایک’ مُہر بند کرنے کیلئے اور دوسرے’ تصدیق کرنے کے لیے۔ اگر خاتم ’ کو پہلے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبیﷺ نبوت کے اس سلسلے کو مُہر بند کرنے والے ہیں ’ جس کی ابتدا آدم ؑ سے ہوئی تھی۔ معاملہ اگر یہی ہے’ تو ختمِ نبوت کے عقیدے پر بحث تمام ہو جاتی ہے اور یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آیندہ کسی نبی کے آنے کا کوئی امکا ن نہیں۔ اگر مُہر کو دوسرے معنی میں لیا جائے’ یعنی وہ چیز جس سے تصدیق کا کا م لیا جاتا ہے’ تو پھر ضروری ہے کہ آیندہ آنے والے نبی کی نبوت بھی اسی طرح نبیﷺ کی تصدیق سے ثابت ہو’ جس طرح آپ سے پہلے آنے والے نبیوں کی نبوت’ہمارے لیے’آپ ﷺ ہی کی تصدیق سے ثابت ہوئی ہے۔ ہم آدم و نوح’ہود اور صالح’ ابراہیم و لوط’ موسیٰ و ہارون ’ داؤد و سلیمان اور یحییٰ و عیسیٰ ’ علیہم السلام’ سب کی نبوت پر اس لیے ایمان رکھتے ہیں کہ ان کی نبوت کی تصدیق نبیﷺ نے کی ہے۔آپ کی یہ تصدیق اس آسمانی کتاب میں آج بھی موجود ہے’ جو قرآنِ مجید کی شکل میں اس اُمت کے پا س ہے۔ جس کی حفاظت کا ذمہ’ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ’ جو ہمارے پاس حق و باطل کے مابین’ فیصلہ کرنے والی ’ واحد کسوٹی ہے اور جسے فرُقان کہا گیا ہے۔ یہ انسان کی ہدایت کے لیے ’ ہر اعتبار سے مُکمّل ہے۔ اس کی رہنمائی یقینی ہے ۔ یقینی اور مستند ترین ہونے کے اعتبار سے’ اس کے مقابلے میں’ کوئی چیز بھی’نہ اُمتِ مسلمہ کے پاس موجود ہے اور نہ پوری مذہبی دنیا ہی میں پا ئی جا تی ہے۔اس کتاب میں نبیﷺ سے پہلے اور آپ کے بعد کی ان سب چیزوں کا ذکر ہے’ جن پر ایمان لانا لازمی ہے۔ اس میں توحید کا ذکر ’ پوری وضاحت کے ساتھ ہے۔اس میں رسالت کا ذکر’ پوری تفصیل کے ساتھ ہے ۔ اس میں محمدﷺ کی نبوت و رسالت کا ذکر’ پورے شرح و بسط کے ساتھ ہے۔ آخرت ’ حشر نشر’ حساب کتاب ’ جنت اورجہنم’ سب چیزوں کا ذکر’پوری وضاحت اور بے مثل استدلال کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ نبیﷺ کے بعد اگر واقعی کوئی نبی آنا تھا’ جسے ماننا اور نہ ماننا برابر نہیں تھا’ اور جسکے انکار سے آخرت میں کسی معمولی درجے کے نقصان کا بھی اندیشہ تھا’ تو پھر لازم تھا کہ خدائے رحمٰن اسکی نبوت کی اطلاع بھی ’ اپنے اسی کلام میں’ محمدﷺ پر نازل کرتا’ جس میں اس نے ابراہیم و موسیٰ اور دیگر انبیا ؑ کی تصدیق نازل کی ہے۔ جس طرح موسیٰؑ و عیسیٰؑ کی کتابوں میں’ نبیﷺ کے بارے میں ایسی پیش گوئیاں مو جود تھیں’ جن کی بنیاد پر’ آپ ایک متعارف نبی کی حیثیت سے’مکتوبا عندھم فی التوراتِ والانجیل’تھے اور جن کے نتیجے میں’ ان اہل کتاب کا معاملہ یہ ہو چکا تھا کہ وہ محمدﷺکو’ ایسے پہچانتے تھے’ جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے’ اُسی طرح یہ ضروری تھا کہ جسے آیندہ نبی کے طور پر آنا ہوتا’ وہ بھی اپنے مقامِ بعثت ’ وقت اور اپنی صفات کے تعین کے ساتھ‘مکتوباعندنافی القرآن’ہوتا۔

 لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم خدائے علیم و خبیر کے اس کلام میں محمدﷺکے بعد آنے والے’ کسی نوعیت کے’ کسی نبی کا’ کہیں بھی کوئی ذکر نہیں پاتے’ بلکہ اس کے بر عکس’ اس میں ختمِ نبوّ ت کا اعلان’ پوری شان کے ساتھ موجود ہے ۔

 آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ یقینًا اس لیے ہے کہ نبیﷺ کے بعد واقعتا’ کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور اس طرح اب آیندہ آنے والے نبی کی نبوت کا اقرار’ اُمّتِ مسلمہ کے لیے ’ نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔