سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، محمد عبداللہ بخاری)

مصنف : مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوریؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اپریل 2005

سوال :۱۔ کیا شگون بد کوئی چیز ہے؟ کسی معین تاریخ یا دن یا مہینے کو منحوس جاننا یا کسی پرندے مثلاً کوا، الو، وغیرہ کے مکان کی چھت پر یا مکان کے اندر یا باہر قریب کے درخت پر بیٹھ کر بولنے کو منحوس خیال کرنا اور اس سے شگون بد لینا شرعاً کیسا ہے؟ بعض لوگ، بعض گھروں میں سکونت اختیار کرنے کو منحوس خیال کرتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلاں رنگ،فلاں نشان والا گھوڑا پالنے سے گھر میں بے برکتی و تنزلی ہوتی ہے اور فلاں فلاں رنگ والے گھوڑے ’گائے’بیل باعث ِ برکت ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ گھر یا دکان کی دہلیز کا فلاں فلاں رخ رہنا باعث تنزل اور فلاں فلاں رخ رہنا باعث برکت ہے۔ بعض لوگ فلاں تاریخ، فلاں دن،فلاں ماہ میں سفر کرنے کو نا مبارک خیال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے کہ مکان،گھوڑے اورعورت میں نحوست ہوتی ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ مہربانی سے ہر ایک پر خصوصاً مکان،گھوڑے اور عورت پر مفصل روشنی ڈالیں۔

۲۔ کیا فال نیک و بد سچ ثابت ہوتی ہے اور اسلام کے نزدیک فال دیکھنا جائز ہے؟

۳۔ کیا بچے کی پیدائش پر کسی ستارہ کا اثر اس کی تقدیر و حیات پر پڑتا ہے؟ اور کیا بچے کا زائچہ لکھوانا جائز ہے؟

جواب: ۱۔ شرعاً شگون بد کوئی چیز نہیں ہے۔ یعنی بد شگونی درست اور جائز نہیں ہے ۔ پس بعض تاریخوں یا بعض مہینوں کو منحوس خیال کرنا یا بعض پرندوں کے گھر پر بیٹھ کر بولنے کو منحوس حیال کرنا یا بعض جانوروں کی سکونت کو منحوس جاننا یا کسی خاص تاریخ یا معین دن یا مہینے میں سفر کرنے کو نا مبارک سمجھنا یا گھریا دکان کی دہلیز کے فلاں رخ رہنے کو باعث تنزل اور فلاں رخ کی طرف رہنے کو باعث ترقی و برکت سمجھنا درست نہیں ہے۔ بہت سی حدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ کسی چیز میں نحوست نہیں ہے،نہ مرد میں ، نہ عورت میں ، نہ گھوڑے میں اور نہ کسی اور چیز میں اور بعض حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ عورت،مکان اور گھوڑے میں نحوست ہے۔امام مالک اور ایک گروہ کا قول انہی بعض حدیثوں کے موافق ہے ۔ یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی قضا سے یہ تینوں چیزیں ضرر و نقصان یا ہلاکت کا ظاہری سبب ہوتی ہیں۔ یعنی یہ تینوں چیزیں بذاتھا و طبعھا موثر نہیں ہیں، اور ان میں ذاتی و خلقی ، طبعی نحوست نہیں ہے،ورنہ لازم آئے گا کہ کوئی عورت یا کوئی گھوڑا یا کوئی مکان باعث خیرو برکت نہ ہو۔ بلکہ موثر حقیقی و بالذات اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ گاہے گاہے بعض عورتوں اور بعض مکانوں اور گھوڑوں کو ضرر یا ہلاکت کا سبب بنا دیتا ہے۔ یہ گروہ ان بہت سی حدیثوں کو جن سے مطلقاً نحوست کی نفی ثابت ہوتی ہے۔تاثیر بالذات اور شوم ذاتی، نحوست طبعی و خلقی کی نفی پر محمول کرتا ہے اور جن بعض حدیثوں سے نحوست کا ان تینوں چیزوں میں ہونا مذکور ہے۔ ان کو نحوست سببی عادی پر محمول کرتا ہے۔اس گروہ کے سوا باقی تمام علما کا قول ان بہت سی حدیثوں کے موافق ہے جن سے مطلقاًنفی ثابت ہوتی ہے۔ یعنی ان کا قول یہ ہے کہ کسی چیز میں شوم و نحوست نہیں ہے نہ ذاتی نہ سببی، نہ عورت میں نہ مکان میں نہ اور کسی چیز میں۔اور جن احادیث میں ان تینوں چیزوں کے اندر نحوست کا ہونا مذکور ہے۔ یہ لوگ ان کو ظاہری معنی پر محمول نہیں کرتے، بلکہ ان کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہتے ہیں کہ عورت کی نحوست یہ ہے کہ بدخلق و تند مزاج و نافرمان ہو یا اس کے بچے نہ پیدا ہوتے ہوں یا شوہر کے مزاج کے موافق نہ ہو۔ اورگھر میں نحوست ہونے سے مراد یہ ہے کہ تنگ ہو، پڑوسی اچھے نہ ہوں۔ اس جگہ کی آب و ہوا اچھی نہ ہو یا مسجد سے بہت دور واقع ہو اور گھوڑے کی نحوست یہ ہے کہ سرکش ہو، قابو میں نہ آئے۔ بہت گراں ہو، مقصد و غرض اس سے پورا نہ ہوتا ہو۔ پس کسی چیز کو اس معنی سے منحوس جاننا کہ وہ بذاتہ نفع و ضرر پہنچانے والی یا ہلاک کرنے والی ہے، قطعاً ناجائز اور حرام ہے کیوں کہ یہ شرک ہے۔ ضار حقیقی اور نافع حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے اور امام مالک ؒ وغیرہ نے جس اعتبار سے عورت،گھر،گھوڑے میں نحوست مانی ہے وہ بھی اگرچہ شرک نہیں ہے ۔ اس لیے کہ وہ بھی مؤثرحقیقی اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں۔ صرف نحوست کے قائل ہیں۔ لیکن اس بارے میں راجح مسلک جمہور علما کا ہے جو کسی چیز میں نحوست مطلقاً نہیں مانتے اورنحوست ماننے والی حدیثوں کو ظاہر پر محمول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی تاویل کرتے ہیں۔

۲۔ قصداً فال دیکھنا جیسا کہ عوام و جہلا میں مروج ہے کہ دیوان حافظ یا قرآن سے فال نکالتے اور دیکھتے ہیں، نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے نہ سلف صالحین، صحابہ و تابعین وغیرھم سے۔ پس بلا شبہ اس طرح فال دیکھنا بدعت و ممنوع ہے۔ اور بد فالی سے تو صراحتاً حدیث میں منع کیا گیا ہے۔

            البتہ نیک فال لینا شرعاً درست ہے اور حدیث سے ثابت ہے اور تفاؤل مشروع و مباح وہ ہے جو قصداً و ارادۃً نہ ہو بلکہ ابتداء ً کوئی آواز سنی اور اس کو نیک فال پر محمول کر دیا۔ جیسے گھر سے کسی کام کے لیے نکلے اور کان میں کسی کی آواز آئی۔‘‘فائز’’ یا ‘‘مفلح’’ یا ‘‘رباح’’یا ‘‘افلح’’ یا ‘‘یسار’’ یا‘‘برکت’’ یہ آواز سن کر خیال کر لیا کہ ان شا ء اللہ کام پورا ہو جائے گا یا تجارت میں نفع ہوگا، وغیرہ وغیرہ تو یہ تفاول مباح ہے، جب کہ قصداًو ارادۃً فال نکالنا اور دیکھنا غیر مباح و غیر جائز ہے۔

۳۔ کسی آیت ِقرآنی اور حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ کسی بچے کی پیدائش پر’ اس کی تقدیر و حیات پر کسی ستارہ کا اثر پڑتا ہے، یہ عقیدہ رکھنا گمراہی ہے۔ بچہ کا زائچہ لکھوانا جائز نہیں۔ ایسے شخص کو جوقرآن وسنت پر ایمان رکھتا ہو، ان لغویات و مکروہات وبدعات کا ذہن میں تصور بھی نہیں لانا چاہیے۔

(مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوریؒ)