نحوست اور بدشگونی

ذات باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے۔ کسی چیز، دن یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بْرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نفع و نقصان کا اختیار سو فیصد اللہ کی ذات کے پاس ہے۔ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔کوئی وَقت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ درحقیقت اصل نْحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔
صفر اسلامی تقویم کی ترتیب کا دوسرا مہینہ ہے، جس کا لفظی معنیٰ ’خالی ہونا‘ ہے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے ’صفر المکان‘ یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے، کیونکہ وہ تین پے در پے تین حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم) کے بعد اس مہینے میں گھروں کو خالی کر کے لڑائی اور قتل و قتال کے لیے میدانِ جنگ کی طرف نکل پڑتے تھے۔ جنگ و جدال اور قتل و قتال کی وجہ بیشمار انسان قتل ہوتے، گھر ویران ہوتے اور وادیاں برباد ہو جاتیں‘ عربوں نے اس بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ کی طرف توجہ دینے، جنگ و جدل سے کنارہ کشی کرنے کی بجائے اس مہینے کو ہی منحوس بلاؤں، مصیبتوں کا مہینہ قرار دے دیا۔ حقیقت میں نہ تو اس مہینے میں نحوست و مصیبت ہے اور نہ ہی یہ بدبختی اور بھوت پریت کا مہینہ ہے بلکہ انسان اپنے اعمال کی وجہ سے مصائب و آفات میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے دن، مہینے اور دیگر اسباب کو منحوس تصور کرنے لگتا ہے۔ 
ماہِ صفر میں بلائیں اور آفات اترنے اور جنات کے نزول کا عقیدہ من گھڑت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر و تاثیر میں زمانے کو کوئی دخل نہیں، اس لیے ماہِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے۔ اگر ایک شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہتا ہے، ذکر اذکار کرتا ہے، حلال و حرام کی تمیز رکھتا ہے، نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا ہے تو یقیناً یہ مہینہ اس کے لیے مبارک ہے، اور دوسرا شخص اس مہینے میں گناہ کرتا ہے، جائز و ناجائز اور حرام و حلال کی تمیز مٹاتا ہے، حدود اللہ کو پامال کرتا ہے تو اس کی بربادی کے لئے اس کے اپنے گناہوں کی نحوست ہی کافی ہے‘ اپنی شامتِ اعمال کو ماہِ صفر پر ڈالنا نری جہالت ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

سیاہ رنگ کے لباس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ آپ نے سیاہ رنگ کا لباس استعمال کیا ہو اور نہ ہی اس کی ممانعت پر کوئی روایت ہے اس لیے جائز ہے۔ البتہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاہ رنگ کا عمامہ استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لباس اور جوتوں کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

سوال :۱۔ کیا شگون بد کوئی چیز ہے؟ کسی معین تاریخ یا دن یا مہینے کو منحوس جاننا یا کسی پرندے مثلاً کوا، الو، وغیرہ کے مکان کی چھت پر یا مکان کے اندر یا باہر قریب کے درخت پر بیٹھ کر بولنے کو منحوس خیال کرنا اور اس سے شگون بد لینا شرعاً کیسا ہے؟ بعض لوگ، بعض گھروں میں سکونت اختیار کرنے کو منحوس خیال کرتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فلاں رنگ،فلاں نشان والا گھوڑا پالنے سے گھر میں بے برکتی و تنزلی ہوتی ہے اور فلاں فلاں رنگ والے گھوڑے ’گائے’بیل باعث ِ برکت ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ گھر یا دکان کی دہلیز کا فلاں فلاں رخ رہنا باعث تنزل اور فلاں فلاں رخ رہنا باعث برکت ہے۔ بعض لوگ فلاں تاریخ، فلاں دن،فلاں ماہ میں سفر کرنے کو نا مبارک خیال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے کہ مکان،گھوڑے اورعورت میں نحوست ہوتی ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ مہربانی سے ہر ایک پر خصوصاً مکان،گھوڑے اور عورت پر مفصل روشنی ڈالیں۔

۲۔ کیا فال نیک و بد سچ ثابت ہوتی ہے اور اسلام کے نزدیک فال دیکھنا جائز ہے؟

۳۔ کیا بچے کی پیدائش پر کسی ستارہ کا اثر اس کی تقدیر و حیات پر پڑتا ہے؟ اور کیا بچے کا زائچہ لکھوانا جائز ہے؟

جواب: ۱۔ شرعاً شگون بد کوئی چیز نہیں ہے۔ یعنی بد شگونی درست اور جائز نہیں ہے ۔ پس بعض تاریخوں یا بعض مہینوں کو منحوس خیال کرنا یا بعض پرندوں کے گھر پر بیٹھ کر بولنے کو منحوس حیال کرنا یا بعض جانوروں کی سکونت کو منحوس جاننا یا کسی خاص تاریخ یا معین دن یا مہینے میں سفر کرنے کو نا مبارک سمجھنا یا گھریا دکان کی دہلیز کے فلاں رخ رہنے کو باعث تنزل اور فلاں رخ کی طرف رہنے کو باعث ترقی و برکت سمجھنا درست نہیں ہے۔ بہت سی حدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ کسی چیز میں نحوست نہیں ہے،نہ مرد میں ، نہ عورت میں ، نہ گھوڑے میں اور نہ کسی اور چیز میں اور بعض حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ عورت،مکان اور گھوڑے میں نحوست ہے۔امام مالک اور ایک گروہ کا قول انہی بعض حدیثوں کے موافق ہے ۔ یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی قضا سے یہ تینوں چیزیں ضرر و نقصان یا ہلاکت کا ظاہری سبب ہوتی ہیں۔ یعنی یہ تینوں چیزیں بذاتھا و طبعھا موثر نہیں ہیں، اور ان میں ذاتی و خلقی ، طبعی نحوست نہیں ہے،ورنہ لازم آئے گا کہ کوئی عورت یا کوئی گھوڑا یا کوئی مکان باعث خیرو برکت نہ ہو۔ بلکہ موثر حقیقی و بالذات اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ گاہے گاہے بعض عورتوں اور بعض مکانوں اور گھوڑوں کو ضرر یا ہلاکت کا سبب بنا دیتا ہے۔ یہ گروہ ان بہت سی حدیثوں کو جن سے مطلقاً نحوست کی نفی ثابت ہوتی ہے۔تاثیر بالذات اور شوم ذاتی، نحوست طبعی و خلقی کی نفی پر محمول کرتا ہے اور جن بعض حدیثوں سے نحوست کا ان تینوں چیزوں میں ہونا مذکور ہے۔ ان کو نحوست سببی عادی پر محمول کرتا ہے۔اس گروہ کے سوا باقی تمام علما کا قول ان بہت سی حدیثوں کے موافق ہے جن سے مطلقاًنفی ثابت ہوتی ہے۔ یعنی ان کا قول یہ ہے کہ کسی چیز میں شوم و نحوست نہیں ہے نہ ذاتی نہ سببی، نہ عورت میں نہ مکان میں نہ اور کسی چیز میں۔اور جن احادیث میں ان تینوں چیزوں کے اندر نحوست کا ہونا مذکور ہے۔ یہ لوگ ان کو ظاہری معنی پر محمول نہیں کرتے، بلکہ ان کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہتے ہیں کہ عورت کی نحوست یہ ہے کہ بدخلق و تند مزاج و نافرمان ہو یا اس کے بچے نہ پیدا ہوتے ہوں یا شوہر کے مزاج کے موافق نہ ہو۔ اورگھر میں نحوست ہونے سے مراد یہ ہے کہ تنگ ہو، پڑوسی اچھے نہ ہوں۔ اس جگہ کی آب و ہوا اچھی نہ ہو یا مسجد سے بہت دور واقع ہو اور گھوڑے کی نحوست یہ ہے کہ سرکش ہو، قابو میں نہ آئے۔ بہت گراں ہو، مقصد و غرض اس سے پورا نہ ہوتا ہو۔ پس کسی چیز کو اس معنی سے منحوس جاننا کہ وہ بذاتہ نفع و ضرر پہنچانے والی یا ہلاک کرنے والی ہے، قطعاً ناجائز اور حرام ہے کیوں کہ یہ شرک ہے۔ ضار حقیقی اور نافع حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے اور امام مالک ؒ وغیرہ نے جس اعتبار سے عورت،گھر،گھوڑے میں نحوست مانی ہے وہ بھی اگرچہ شرک نہیں ہے ۔ اس لیے کہ وہ بھی مؤثرحقیقی اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں۔ صرف نحوست کے قائل ہیں۔ لیکن اس بارے میں راجح مسلک جمہور علما کا ہے جو کسی چیز میں نحوست مطلقاً نہیں مانتے اورنحوست ماننے والی حدیثوں کو ظاہر پر محمول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی تاویل کرتے ہیں۔

۲۔ قصداً فال دیکھنا جیسا کہ عوام و جہلا میں مروج ہے کہ دیوان حافظ یا قرآن سے فال نکالتے اور دیکھتے ہیں، نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے نہ سلف صالحین، صحابہ و تابعین وغیرھم سے۔ پس بلا شبہ اس طرح فال دیکھنا بدعت و ممنوع ہے۔ اور بد فالی سے تو صراحتاً حدیث میں منع کیا گیا ہے۔

            البتہ نیک فال لینا شرعاً درست ہے اور حدیث سے ثابت ہے اور تفاؤل مشروع و مباح وہ ہے جو قصداً و ارادۃً نہ ہو بلکہ ابتداء ً کوئی آواز سنی اور اس کو نیک فال پر محمول کر دیا۔ جیسے گھر سے کسی کام کے لیے نکلے اور کان میں کسی کی آواز آئی۔‘‘فائز’’ یا ‘‘مفلح’’ یا ‘‘رباح’’یا ‘‘افلح’’ یا ‘‘یسار’’ یا‘‘برکت’’ یہ آواز سن کر خیال کر لیا کہ ان شا ء اللہ کام پورا ہو جائے گا یا تجارت میں نفع ہوگا، وغیرہ وغیرہ تو یہ تفاول مباح ہے، جب کہ قصداًو ارادۃً فال نکالنا اور دیکھنا غیر مباح و غیر جائز ہے۔

۳۔ کسی آیت ِقرآنی اور حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ کسی بچے کی پیدائش پر’ اس کی تقدیر و حیات پر کسی ستارہ کا اثر پڑتا ہے، یہ عقیدہ رکھنا گمراہی ہے۔ بچہ کا زائچہ لکھوانا جائز نہیں۔ ایسے شخص کو جوقرآن وسنت پر ایمان رکھتا ہو، ان لغویات و مکروہات وبدعات کا ذہن میں تصور بھی نہیں لانا چاہیے۔

(مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوریؒ)

جواب: ذات باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے ۔کسی چیز، دن، یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بُرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی  نفع ونقصان کے اختیار کا سو فی صد یقین اللہ کی ذات سے ہونا چاہیے کہ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو ردّ کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔(سورہ يونس، 10: 107)سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہے:

’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔‘‘الشُّوْرٰی، 42: 30اور سورہ النساء میں فرمان ہے:

(اے انسان! اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابئ نفس کی طرف منسوب کر)۔النساء، 4: 79

درج بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی وَقْت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ اللہ کی معصیت اور گناہوں کی کثرت اللہ کو ناراض کرنے کاسبب ہے اور اس طرح گناہگار فی نفسہ منحوس ہوتا ہے، کیونکہ گناہ کے سبب وہ اللہ کی امان سے نکل جاتا ہے اور مصائب و مشاکل سے مامون و محفوظ نہیں رہتا۔ درحقیقت اصل نُحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

’’چھوت لگناکوئی چیزنہیں اور بدشگونی (کی کوئی حقیقت) نہیں ہے، البتہ نیک فال مجھے پسندہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نےعرض کیا: نیک فال کیا ہے؟ حضوراکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھی بات منہ سے نکالنا یا کسی سے اچھی بات سن لینا۔‘‘

اگر کوئی شخص گھر سے کہیں جانے کے لئے نکلا اور کالی بلی نے اس کا راستہ کاٹ لیا، جسے اس نے اپنے حق میں منحوس جانا اور واپس پَلَٹ گیا یا یہ ذہن بنا لیا کہ اب مجھے کوئی نہ کوئی نقصان پہنچ کر ہی رہے گا، تو یہ بدشگونی ہے جس کی اسلام میں مُمَانَعَت ہے۔ اگرگھر سے نکلتے ہی کسی نیک شخص سے ملاقات ہوگئی جسے اُس نے اپنے لئے باعث خیر سمجھا تو یہ نیک فالی کہلاتاہے اور یہ جائزہے۔آپ اپنی سہولت کے ساتھ جس دن چاہیں کپڑے کاٹ سکتے ہیں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)