لوح ایام

مصنف : مختار مسعود

سلسلہ : درس عبرت

شمارہ : مئی 2008

            انڈین سول سروس کے کل ہند مقا بلے کے امتحان میں مقامی باشندوں کو حصہ لینے کی اجازت ملنے کے وقت سے لے کر قیام پاکستان تک صرف دو مسلما ن امیدوار اول آئے تھے ایک حافظ عبد المجید اور دوسرے بی اے قریشی ۔

            قریشی صاحب کہنے لگے ہم نے آزادی کے فوراً بعد بڑا کٹھن وقت گزارا ہے عام آدمی نے بڑی قربانی دی ،رہنمابا اصول اور ثابت قدم رہے ،افسر اور عملہ قومی دولت کی حفا ظت کرتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ و ہ لوگ جو یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ پاکستان چند دن بھی نہ چل سکے گا انہیں بڑا تعجب اور بڑی مایوسی ہوئی ۔تحریک پاکستان کے وہ مخالف جو اعداد و شمار کی بناء پر پاکستان کو بے اساس معاشی اکائی سمجھتے تھے انہیں اس جذبے اور ولولے کا اندازہ ہی نہ تھا جو اس ملک کے حصول اور پہلے چند سالوں کے تمام مسائل اور مشکلات پر حاوی ہونے کا باعث بنا۔

            یہ ۱۹۵۵ ء کی بات ہے ۔ چودھری محمد علی وزیراعظم تھے ۔کراچی میں ایک میٹنگ ہوئی میں بھی اس میں شامل ہوا ۔میٹنگ کے بعد وزیراعظم نے چار پانچ افسروں سے کہا کہ وہ رات کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں ۔ہم پرائم منسٹر ہاؤس پہنچ گئے ڈرائینگ روم میں عام سے صوفہ قالین اور چند چھوٹی میزوں کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی ۔دیواروں پر کوئی تصویر نہ تھی ۔میزوں پر آرائش کا کوئی سامان نہ تھا ۔شیشے کا ایک شو کیس کو نے میں رکھا ہوا تھا مگر بالکل خالی ۔سجاوٹ کی خاطر نہ کوئی چیز وہاں موجود تھی نہ کسی کو اس کا خیال یا فکر تھی ۔ وزیر اعظم ان باتوں سے بے خبر اور بے نیاز تھے ۔اس زمانہ کی ترجیحات ہی کچھ اور تھیں دیر تک ملکی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی ۔کھانے میں تاخیر ہوگئی وزیراعظم گفتگو کے دوران دو ایک بار اٹھ کر اندر گئے مگر دیر تھی کہ ہوتی چلی گئی ۔ایک بار وہ باورچی خانہ کا چکر لگا کر آئے اور کہنے لگے یوں لگتا ہے جیسے آپ کو کھانے کے لئے کچھ اور انتظار کرنا پڑے گا ۔رضیہ بیگم کا خیال ہے کہ وہ ایک ماہر کک ہیں ۔میری دانست میں وہ اتنی ماہر بھی نہیں جتنا ان کا خیال ہے ۔ ایک سرکاری باورچی ہے مگر وہ اس پر بالکل بھروسا نہیں کرتیں ۔سارا کام خود کرنا چاہتی ہیں ۔اتنے میں بیگم محمد علی شاہ کمرہ میں داخل ہوئیں ۔ الجھے ہوئے بالوں کو پلو سے ڈھکتے ہوئے اور اٹے ہوئے ہاتھوں کو صاف کرتے ہوئے کہا،آؤ بھراؤ ،کھانا تیار ہے ۔شوق اور محنت سے بنا یا ہوا گھر یلو کھانا تھا ۔

            اس واقعے کو کوئی پندرہ سولہ سال ہوئے ہوں گے کہ ایک متمول دوست نے کھانے کے لئے بلایا ،کھانا چنا گیا ۔اس نے کہا ،قریشی صاحب ،پلاؤ کے سلسلہ میں آپ کی خصوصی توجہ چاہتا ہوں بتائیے کیسا ہے ۔میں نے پلاؤ پکانے کے لئے پرائم منسٹر ہاؤس کے ماہر باورچی کو بلایا ہے ۔بھلا میں کونسا ایسا ذائقہ شناس تھا کہ کوئی ماہرانہ رائے دیتا ۔میزبان کا دل رکھنے کو کہہ دیا کہ واقعی بہت اچھا ہے ۔دعوت کے بعد اس باورچی کو داد تحسین وصول کرنے کے لئے مہمانوں سے متعارف کرایا گیا ۔باتوں باتوں میں وزیراعظم ہاؤس کے کچن کا ذکر آیا ۔اس نے کہا ،چار ہیڈ کک ہیں ، میں ان میں سے ایک ہوں ۔ہم سب کی اپنی اپنی تخصیص ہے ۔میں مغلئی کھانوں کا ماہر ہوں ۔ہمارے ساتھ کچن میں بتیس افراد کا عملہ ہے ۔اس کے علاوہ چار ڈاکٹر ہیں ۔چو بیس گھنٹے کوئی نہ کوئی ڈاکٹر ڈیوٹی پر رہتا ہے ۔نہ جانے صاحب رات کے کون سے پہر کھانے کے لئے کچھ مانگ لیں ۔ڈاکٹر پہلے چکھتا ہے پھر کھانا صاحب کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔ صاحب جن برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں انہیں اچھی طرح دھونے اور جراثیم سے پاک کرنے کے بعد سیلو فین کے مہر بند لفافوں میں رکھا جاتا ہے ۔ایک آدمی اس کام پر مامور ہے کہ وہ صاحب پر کھانا کھاتے ہوئے نظر رکھے اور یہ بتائے کہ انہیں کونسا کھانا مرغوب یانا مرغوب ہے جو ڈش صاحب دوسری بار منگالیں اس کا اندراج ریکارڈ میں ہو جاتا ہے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریکارڈ کے مطابق ہمارے ایک لاکھ جنگی قیدیوں کو وطن واپس آئے ہوئے چار چھ ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا ۔

            بی اے قریشی نے لمبا سانس لیا اور کہنے لگے ۔وقت دیکھتے ہی دیکھتے کتنا بدل گیا ہے جو نا خوب تھا وہ خوب ٹھہرا ۔خوب متروک ہوگیا ۔احتیاط اور دوراندیشی کو دیس نکالا ملا بصیرت اور درد مندی نے ہجرت کرنے میں عافیت سمجھی ۔رشوت نے ہنر کا درجہ حاصل کرلیا ہنروروں میں بڑے بڑوں کے نام آتے ہیں اب ایسے زمانے میں کون کس کو یا د لائے کہ کبھی وزیراعظم کے یہاں صرف ایک سر کاری باورچی ہوتا تھا اور خا تون اول مہمانوں کے لئے خود روٹیاں پکاتی تھیں ۔آج کل ان دو بڑے گھروں میں جو اسلام آباد میں پہاڑی پر بنے ہوئے ہیں کم وبیش چار سو خدمت گار ان کی نازبرداری میں لگے ہوئے ہیں جو اپنے آپ کو ملک ،قوم اور عوام کا خادم کہتے ہیں ۔

            بازرگانی کھانے اور بی اے قریشی کے مشا ہدات کا ذکر سن کر مجید مفتی نے کہا ،ایک کھانا اور اس کے انتظامات مجھے بھی یاد ہیں ہمارے وزیر اعظم نے واشنگٹن میں ہنری کسنجر کو کھانے پر بلایا ۔ان کی خواہش تھی کہ فہرست خوراک میں کم از کم ایک لاجواب اور عجیب وغریب کھانا شامل ہونا چائیے ۔ایک ایسی ڈش جو نادر،طرفہ ،کمیاب ،بیگانہ اور لذیذ ہو ۔مہمان بھی کیا یاد کرے کس میزبان سے پالا پڑا تھا ۔ بازار سے پتا چلا کہ مرغ زریں مل سکتا ہے لیکن بہت مہنگا ۔میزبان نے اسے قابل التفات نہ سمجھا اور فیصلہ صادر کیا کہ مینو میں بھنا ہوا کالا تیتر شامل کیا جائے ۔پاکستان سے کالے تیتر منگانے کے لئے حکم نامہ جاری ہوا ۔پھر یہ سوال اٹھا کہ اگر تیتر پاکستان سے آرہے ہیں تو کیوں نہ پکانے والا بھی وہاں سے منگایا جائے ۔اس سوال کا جواب وہی تھا جو ہونا چاہیے تھا ۔کالے تیتر اور مہارت خصوصی کا باورچی دونوں ہوائی جہاز سے سات سمندر پار اس شہر میں پہنچے جو دنیا کے سب سے طاقتور ،ترقی یافتہ اور دولتمند ملک کا دارالسلطنت ہے ۔ایک ایسا ملک جس کے باشندے طاقت ،ترقی اور دولت کے باوجود کمال لاپروائی سے جین اور جوگر پہنتے اور بڑے شوق سے فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں پاکستانی سفیر کے گھر دعوت ہوئی ۔عینی گواہ کا بیان ہے کہ ہنری کسنجر نے اس بات پر قطعاًکوئی توجہ نہ دی کہ فہرست خوراک میں کیا رقم ہے ۔دسترخوان پر سلسلہ وار کون سی ڈش آئی اورکون سی سمیٹی گئی کالے تیتر کی باری ترتیب کے مطابق آئی اور گزر گئی ۔مہمان خصوصی کی بے توجہی اور بے تعلقی میں کوئی فرق نہ آیا ۔اس کی ساری توجہ گفتگو پر رہی وہ اس دعوے کی صداقت کا اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو اہل پاکستان گھاس کھا کر گزارا کر لیں گے مگر ایٹم بم بنانے کی کوشش جا ری رکھیں گے ۔

            غفور مرزا نے جب کالے تیتر پکانے والے پاکستانی باورچی کی امریکہ یاترا کا حال سنا تو کہنے لگے ،باورچی کا ایک قصہ میں بھی سناتا ہوں ۔یہ میرے تجربے یا مشاہدے کی بات نہیں میں نے یہ واقعہ ان سرکاری کاغذات میں پڑھا ہے جو مجھے چھانٹی اور درجہ بندی کے لئے دئیے گئے تھے ۔میں اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے قائد اعظم کو نہیں دیکھا ۔وہ گئے اور ہم آئے جب میں نے باورچی والی فائل پڑھی تو اپنی محرومی کا احساس بہت بڑھ گیا ۔کاش کچھ پہلے اس دنیا میں آجاتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے کہ عظیم اور بااصول انسان کیسا ہوتاہے ۔ہم نے جو زمانہ دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں اس میں اتنے دیانت دار سربراہ حکومت اور ریاست کا تصور بالکل افسانوی لگتا ہے۔

            قائداعظم کھانا بہت کم کھاتے تھے دبلے پتلے بوڑھے اور بیمار تھے ۔مرض الموت میں جسمانی کمزوری بہت بڑھ گئی ۔زیارت میں قیام کے دنوں میں ڈاکٹر الٰہی بخش نے تشویش ظاہر کی کہ کم خوراکی کی وجہ سے ان کی حالت زیادہ تیزی سے خراب ہورہی ہے ۔ان کی رائے تھی کہ لاہور میں جو دو باورچی کپور تھلہ برادرز کے نام سے مشہور ہیں انہیں زیارت بھیجا جائے کیونکہ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا قائداعظم کو مرغوب ہے ۔کپور تھلہ کے باورچی بھائیوں کی تلاش ہوئی ۔وہ لاہور چھوڑ کر لائل پور چلے گئے تھے ۔لائل پور سے زیارت پہنچے ،کھانا پکایا ۔اس روزقائداعظم نے چند لقمے شوق سے کھائے ۔کھانے کے بعد اپنے پرائیوٹ سیکرٹری فرخ امین کو بلایا ۔کھانے میں فرق کی وجہ دریافت کی ،وجہ بتائی گئی ۔وہ ناخوش ہوئے ۔چیک بک منگائی ۔باورچیوں کے آنے جا نے کے خرچ کاحساب کیا ۔اس رقم کاچیک کاٹا رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی باورچی رخصت کئے اور کہا یہ حکومت یاریاست کا کام نہیں کہ وہ گورنر جنرل کو اس کی پسند کا کھانا (سرکاری خرچ پر)فراہم کرے ۔

            کہاں قائداعظم سے سچے ،کھرے، بااصول اور امانت دار ،کہاں جھوٹے ،منافق ،بے اصول اور خائن حکمرانوں کی کھیپ کی کھیپ ۔کہاں وہ باورچیوں کاسفر خرچ، اور کہاں حکومت کو رقم واپس کرنے ولا یہ شخص۔کہاں یہ کھاؤ اڑاؤ اشخاص یہ مسرف اورمتلف حکومتیں یہ فضول خرچیاں ،یہ ضیافتیں ،یہ خیانتیں ،یہ حرام کاریاں جیسے ملک کی دولت کو کھانا اور ویران کرنا حکمرانوں کے سر کاری فرائض میں شامل ہوا اور اس کا مینڈیٹ انہیں اس جعلی ڈیماکریسی سے ملا ہو جو مارشل لا کے درمیانی وقفوں میں عوام پر مسلط ہو جاتی ہے ۔یہ حکمران کیاکچھ نہیں کھاگئے ۔پلاٹ اور پر مٹ ،ادارے اوربنک ،انصاف اور اصول ،ڈیماکریسی اور مساوات،عہداور نظریہ ،روایات اور ماضی ۔اس رفتار سے یہ حکمران مملکت خداداد کو اور یہ حکومتیں ہمارے مستقبل کو کھا جائیں گی ۔نعوذبااللہ۔

(جنا ب مختار مسعود کی کتاب ‘ لوح ایام ’سے ایک انتخاب)