سوال ، جواب

مصنف : مولانا عامر گزدر

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جون 2011

 جواب :مسلمانوں میں تعمیرمساجد کی سنت کا مقصد اصلاً اللہ کی عبادت ہے۔ ذرا دقت نظر سے دیکھا جائے تو مساجد اصلاً پانچ وقت کی لازمی نمازوں کی جماعت،نمازِ جمعہ وعیدین اور اعتکاف کی عبادت کے لیے قائم کی جاتی ہیں،تاہم ثانوی طور پر اِن میں تطوع نمازوں کا ادا کرنا، قرآن مجید کی تلاوت کرنا،دین کی تعلیم وتعلم کا اہتمام کرنا،غرضیکہ اللہ کی بندگی کی طرف لے جانے والے ہر عملِ خیر کا مسجد میں ہونا پسندیدہ اْمور میں سے ہے۔ جہاں تک مساجد میں لوگوں کی باہمی بات چیت اور گفتگو کرنے کا تعلق ہے تو اِس کا حکم مندرجہ ذیل نکات سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے :

1۔ مسجد کی حیثیت چونکہ ایک اجتماعی معبد کی ہے۔ اس لیے اِس میں کسی بھی قسم کی باہمی گفتگو ایسے انداز،آواز اور لب لہجے میں کرنا جو حاضرینِ مسجد کی عبادت میں خلل پیدا کرے یا اْن کے خشوع وخضوع کو مجروح کرے یا اْن کے لیے تشویش کا باعث بن جائے؛ قطعاً مناسب نہیں ہے۔اِس طرح کی بات چیت سے بہرحال اجتناب کرنا چاہیے۔

2۔ ہر وہ گفتگو جو مسجد کی حدود سے باہر ناجائز ہے ،وہ مسجد میں بطریق اْولٰی ممنوع ہے۔

3۔ ملاقات کے موقع پر دعا وسلام کرنا ، ایک دوسرے کے احوال پوچھنا اور دینی یا دنیوی امور پر کچھ گفتگوکر لینا جس طرح باہر مباح ہے،مسجد کے اندر بھی مباح ہیں۔ اِن کی حرمت یا کراہت پر قرآن وحدیث میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ تاہم مسجد چونکہ اللہ کی عبادت کا گھر ہے ، اِس لیے اْس میں گفتگو کرتے ہوئے دو اْمور کی رعایت اور اْن پر تنبہ ضروری ہے :

ایک یہ کہ گفتگو ایسی ہو کہ آواز اور لب ولہجہ سے حاضرینِ مسجد کے لیے کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ مباح اْمور پر کلام کرتے ہوئے بھی مسجد کی حیثیت ،مقصد اور اس کی روح کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے کثرت کلام سے اجتناب کیا جائے۔

4۔ مسجد میں خرید وفروخت اور کاروباری نوعیت کی بات چیت کرنا،کھیل اور تفریح پر گفتگو کرنا ، باہر کوئی چیز کھو گئی ہو تو مسجد کے اندر آکر حاضرین کے سامنے اْس کا اعلان کرنا،شعر وشاعری کی مجلس لگانا؛یہ تمام اقسامِ کلام مَعابد کی روح کے صریح منافی ہونے کی بنا پرمسجد کے احاطے میں قطعاً مناسب نہیں ہیں۔ چنانچہ اِن سے بہرصورت احتراز کیا جائے۔

بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید وفروخت کرنے،کھوئی ہوئی چیز کا اعلان کرنے اور شعر وشاعری کرنے سے منع فرمایا ہے۔

جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اْس حدیث کا تعلق ہے جس کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے کہ "مسجد میں بات چیت کرنا آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح چوپائے گھاس کو یا آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے "؛ یہ ناقابل التفات روایت ہے۔ علمِ روایت کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اس حدیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ جب اِس کا استناد ہی آپ سے ثابت نہیں ہے تو علم کی دنیا میں اِس سے اخذ کیے جانے والے حکم کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس روایت کے بارے میں یہی رائے امام ناصر الدین البانی نے پیش کی ہے۔ملا علی قاری نے بھی اِسے "موضوعات" یعنی من گھڑت روایات میں شمار کیا ہے۔یہ روایت اپنے متن کے لحاظ سے بھی کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ اِس کے بالکل برعکس صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سَمْرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مستند روایت میں نقل ہوا ہے کہ فجر کی نماز پڑھانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طلوع آفتاب تک اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے۔ پھر سورج کے طلوع ہوجانے کے بعد جب آپ اْٹھتے تو اپنے صحابہ کو دور جاہلیت کی باتوں میں محو ِگفتگو اور ہنستے ہوئے پاتے تو اْس موقع پر آپ بھی مسکراتے۔ (مسلم ، رقم : 670)

(مولانا عامر گزدر)

جوا ب :پہلی بات تو بجا طور پر درست ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ : وَمِن کْلِّ شَیء خَلَقنَا زَوجَینِ لَعَلَّکْم تَذَکَّرْونَ۔ ''اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم (اِس حقیقت کی )یاد دہانی حاصل کرو (کہ اِس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے)(الذاریات 51:49)۔ مخلوقاتِ دنیا کی تخلیق میں یہ اللہ تعا لیٰ کے عمومی اْصول کا بیان ہے۔تاہم،جیساکہ آگے واضح ہوگا، ہمارے نزدیک اِس بات کا سائل کے اصل سوال سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

جہاں تک خواجہ سراؤں کے بارے میں اصل سوال کا تعلق ہے تو پہلی بات تو یہ واضح رہے کہ اْنہیں کسی ' قوم' کا عنوان دیا جاسکتا ہے،نہ اْنہیں کوئی الگ 'مخلوق' ہی شمار کیا جاسکتا ہے؛ جیساکہ خود سائل کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ دونوں ہی عنوانات خواجہ سراؤں کے لیے مناسب نہیں ہیں۔نہ وہ کوئی الگ' مخلوق' ہیں اور نہ ہی کوئی ' قوم'۔وہ انسان ہی ہیں۔خلقی اوصاف کے اعتبار سے اْن میں سے بعض کامل مردانہ اوصاف سے محروم ہوتے ہیں اور بعض زنانہ اوصاف سے۔یہ اْن کی تخلیق کا وہ نقص ہے جو اْن کے خالق اور پروردگار نے اْن میں ایسے ہی رکھا ہے جیسا کہ بعض انسانوں کو ہم خلقی اعتبار سے بعض دوسرے اعضا سے پیدایشی طور پر معذور پاتے ہیں۔اْن کے اور اِن کے مابین فرق محض ناقص اعضا کے اختلاف کاہے۔

یہ خوا جہ سراآج کی دنیا ہی میں پیدا نہیں ہوئے ہیں،بلکہ ماضی میں بھی ایسے خوا جہ سرا انسانوں کے مابین پیدا ہوتے رہے ہیں۔ بعض روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی ایسے بعض ناقص مردوں اور عورتوں کے وجود کا تذکرہ ملتا ہے۔قرآن مجید میں خوا جہ سراؤں کا براہ راست کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اور یہ تذکرہ نہ ہونا قرآن اور اْس کی دعوت میں کوئی نقص واقع نہیں کرتا۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن میں پیدایشی نابینا انسانوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛سماعت سے معذور افراد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے؛ ہاتھوں سے معذور پیدا ہونیوالے انسانوں کا بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے۔۔۔۔وغیرہ۔ اِس طرح کے انسانوں کی یہ معذوری ہی ہے جس کی وجہ سے اِنسانی معاشرہ بالعموم انہیں دوسرے درجے کا انسان سمجھتا ہے۔ دنیا اور اْس کی مخلوقات میں اِس طرح کے بعض نقائص جو اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں، یہ ظاہر ہے کہ آزمائش کے اْصول پر رکھے ہیں۔ایسے اِنسان جو کسی اعتبار سے معذور پیدا کئے گئے ہیں،وہ اگر خود کامل عقل وشعور رکھتے ہیں تو اْن کا امتحان ، اِس دنیا میں صبر کا امتحان ہے؛ دوسرے اِنسانوں کے لیے یہاں اْن کو دیکھ کر اپنے پروردگار کی شکرگزاری بجالانے کا امتحان ہے ،اور تمام اِنسانیت کے لیے ایک عمومی درس اِس طرح کے نقائص کے وجود میں یہ ہے کہ یہ دنیا اپنی تمام تر خوبیوں ، خصائص اور نعمتوں کے باوجود بہر حال دار النقائص ہے،دار الکمال نہیں ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب :میری تحقیق کے مطابق علمی طور پر نہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ امام مالک نماز میں ہاتھ چھوڑ کر قیام کرنے کے قائل تھے ، اور نہ ہی اِس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کی کوئی روایت موجود ہے۔

 نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کے عمل کو اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو صحیح نقطہ نظر تک پہنچنے کے لیے میرے نزدیک مندرجہ ذیل نکات کو جاننا نہایت ضروری ہے :

ایک یہ کہ نماز کے اعمال میں ہاتھ باندھنے یا دوسرے لفظوں میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنے کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اْمت کے علمی اتفاق اور عملی تسلسل سے سنت کی حیثیت سے ثابت ہے۔ اور اِسی سنت کا بیان آپ سے مروی متعدد قولی وفعلی 'صحیح' احادیث میں موجود ہے۔ اِس باب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کے سوا کوئی دوسری چیز کسی صحیح یا ضعیف روایت میں بھی کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔ یہی بات امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب 'التمھہد' میں بیان فرمائی ہے۔ (20/74)

دوسرے یہ کہ حالتِ قیام میں دونوں ہاتھ باندھنے کا یہ عمل اپنے درجہ حکم کے اعتبار سے ایک مطلوب اور پسندیدہ سنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بہرحال نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ تمام صحابہ کرام ، فقہا ومحدثین اور سلف وخلف اِس عمل کے سنت ہونے کے بارے میں متفق ہیں ، سوائے اْمت کے ایک اقلِّ قلیل کے کہ جس کی نسبت سے اِس باب میں کچھ مختلف عمل یا نقطہ نظر نقل ہوا ہے۔ جس کی تفصیل اور تحقیقی تجزیہ درج ذیل ہے :

ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا

علم کی دنیا میں یہ بات بالکل متعین ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا سنت ہونا تو در کنار ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کسی صحیح یا ضعیف خبر واحد میں بھی اِس کا کہیں کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ البتہ بعض افرادِ اْمت سے نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کی سنت سے مختلف عمل یعنی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا روایت ہوا ہے۔ اْن میں صحابہ کرام میں سے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ،تابعین اور اْن کے بعد کے فقہا میں سے سعید بن مسیب،حسن بصری،ابراہیم نخعی،لیث بن سعد اور ابن جریج کے نام بتائے جاتے ہیں۔ اِن حضرات کے بارے میں بعض لوگوں نے اپنا یہ مشاہدہ بیان کیا ہے کہ اْنہوں نے اِن کو حالتِ قیام میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے ہوئے دیکھا ہے۔اِس طرح کی غیر مرفوع روایات کے بارے ایک بات تو یہ واضح رہے کہ اِن اصحاب علم کی طرف اِس طرح کے مشاہدات کی یہ نسبت کسی یقینی ذریعے سے تو ثابت نہیں ہے۔ اِن کے بارے میں یہ معلومات محض ایک یا دو افراد کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں۔ لہذا کوئی شخص بھی اِن روایات کے ثبوت کی قطعیت کا دعوی نہیں کرسکتا۔ دوسرے یہ کہ اِن روایات کی صحت سند پر اگر کوئی شخص مطمئن بھی ہوجائے ، تب بھی اس بات پر تنبہ رہے کہ نماز کے قیام میں ہاتھ چھوڑنا اِن میں بعض حضرات کے ذاتی عمل ہی کے طور پر بیان ہوا ہے۔ یہ مرفوع احادیث کا درجہ رکھتی ہیں ، نہ حدیث وسنت میں اِس عمل کی کہیں کوئی بنیاد موجود ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اپنے ظاہر کے اعتبار سے متفق علیہ سنت کے خلاف ہونے کی بنا پر اِس طرح کی کوئی روایت قبول نہیں کی جاسکتی۔ الّا یہ کہ شریعت ہی کی روشنی میں اْس کی کوئی معقول تاویل کرلی جائے۔ مثال کے طور پر امام ابن عبد البر نے اِس کی تاویل میں بجا فرمایا ہے کہ اہل علم کا نماز میں اِس مقصد سے ہاتھ چھوڑنا کہ وہ لوگوں پر یہ بات واضح کریں کہ ہاتھ باندھنے کا عمل نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے تو اْس صورت میں اِن کے اِس طرح کے عمل کو خلاف سنت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یعنی اِس کا تعلق تو محض لوگوں کو اِس عمل کی دینی حیثیت کی تعلیم دینے سے ہے۔غرضیکہ تاویل یہ ہوئی کہ اْمت کے جن اصحاب علم کو بعض لوگوں نے اگر ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تو اِس کی وجہ در اصل یہ نہیں ہوگی کہ وہ اِسے سنت سمجھتے ہیں ، کیونکہ علمِ دین کی روشنی میں یہ بات محال ہے ، بلکہ اْن کا مقصود یہی ہوگا کہ ہاتھ باندھنا چونکہ نماز کے لازمی اعمال میں سے نہیں ہے ، اس لیے ضرورت کے بعض مواقع پر یا حالات کے تقاضے کے تحت لوگوں کو اِسی بات کی تعلیم دینے کے لیے اْنہوں نے ایسا کیا ہوگا۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اِس باب میں ایک قولی روایت بھی نقل ہوئی ہے جو اْن کے ہاتھ چھوڑنے کے روایت کردہ عمل کے بالکل برعکس اور عین سنت کے مطابق ہے،اور وہ یہ ہے :‘‘نماز میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنا سنت ہے’’۔ بلا شبہ اِس روایت کی صحت کا بھی پورے وثوق سے دعوی نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہ بھی اْن سے خبر واحد ہی کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے۔ تاہم بالبداہت واضح ہے کہ اْن کا یہ قول عین سنت ثابتہ کے مطابق ہے۔ روایت کے طریقے پر اگر یہ حضرت عبد اللہ سے صحت کے ساتھ ثابت نہ بھی ہو تو اِس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ کیونکہ قیام میں ہاتھ باندھنے کا یہ عمل،جیساکہ اوپر بیان ہوا،دین کے ماخذ میں پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔

کیا حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے؟

 ائمہ اربعہ میں سے اِس مسئلے کے بارے میں اگرچہ امام مالک کے حوالے سے،جیسا کہ سائل کے سوال سے بھی واضح ہے ؛ بالعموم عوام الناس میں اِس بات کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ہے کہ حالتِ قیام میں اْن کی رائے کے مطابق دونوں ہاتھوں کو چھوڑ کر رکھنا ہی سنت ہے۔ تاہم تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو میرے نزدیک خود امام مالک کی طرف اِس قول کی نسبت کچھ بہت قطعی نہیں ہے۔ اِس لیے کہ اِس باب میں خود اْن کے اپنے شاگردوں نے اْن سے جوکچھ روایت کیا ہے،اْس میں بہت کچھ اختلاف ہے؛جس کی تفصیل یہ ہے :

۱۔ ابن القاسم کی ایک روایت کے مطابق امام مالک کے نزدیک حالت قیام میں ہاتھوں کو باندھنا مطلقاً مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے۔ اور دوسری روایت کے مطابق وہ فرض نمازوں میں ہاتھ باندھنے کو مکروہ اور نوافل میں مباح یعنی جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک کی یہ رائے ابن القاسم کے سوا اْن کے کسی دوسرے شاگرد نے اْن سے نقل نہیں کی ہے۔ تاہم متاخرین مالکیہ کی بالعموم رائے اور اْن کا فتوی اِسی پر ہے۔

۲۔ اشہب بن عبدالعزیز کی روایت ہے کہ فرض نماز ہو یا نفل ، امام مالک کی رائے میں حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔یہی بات امام مالک سے اْن کے وہ شاگرد بھی روایت کرتے ہیں جو اہل مدینہ میں سے ہیں۔

۳۔ مطرف،ابن الماجشون اور ابن المنذر وغیرہ کا کہنا ہے کہ امام مالک نے نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کو مستحسن اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ علمائے مالکیہ میں سے ابن عبد البر،ابن رشد،قاضی عیاض،ابن عبد السلام،لخمی اور ابن العربی نے اِسی رائے کو اختیار کیا ہے ۔دیکھیے امام مالک سے خود اْن کے اپنے شاگردوں نے اِس مسئلے میں ایک نہیں ، بلکہ تین مختلف اقوال نقل کردیے ہیں۔ اِن کا اگر تحقیقی جائزہ لیا جائے تو علمِ دین کی روشنی میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ پہلے دونوں اقوال کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے حدیث وسنت میں کہیں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اور اِس طرح کے معاملات میں ظاہر ہے کہ آپ کی نسبت کے بغیر کسی بھی دینی نقطہ نظر کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ پھر مزید یہ کہ امام مالک سے منقول اِن دونوں اقوال میں سے دوسرے کو تو شاید کسی تاویل کے تحت لاکر قبول کیا جاسکتا ہے ، ورنہ دوسری صورت میں یہ دونوں ہی آرا اِس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالاجماع ثابت شدہ سنت کے خلاف ہونے کی بنا پر کسی طرح قبول نہیں کی جا سکتیں۔

امام ابن عبد البر نے بھی نماز میں ہاتھ باندھنے کی کراہت کے قول سے نہ صرف یہ کہ شدید اختلاف کیا ہے،بلکہ اِس معاملے میں فرض اور نفل کی تفریق کو بھی بالکل بے معنی قرار دیا ہے۔کیونکہ معاملہ فرض نماز کا ہو خواہ نفل کا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے ہاتھ باندھنے کوئی دوسری چیز کسی بھی ذریعے سے نقل نہیں ہوئی ہے۔ پھر جس چیز پر آپ کا عمومی عمل ثابت شدہ ہے ، اْسے مکروہ قرار دینا زیادہ جسارت کی بات ہے۔نماز میں ہاتھ باندھنے کا عمل اگر مکروہ ہے تو یہ کراہت محض رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے قول وفعل ہی سے ثابت ہوسکتی ہے۔ اِس کے سوا دین میں اِس کے ثبوت کے کسی ماخذ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

 جہاں تک امام مالک سے منقول اْن کے تیسرے قول کا تعلق ہے تو مندجہ ذیل وجوہات کی بنا پر روایت ودرایت کے اعتبار سے میرے نزدیک وہی اْن کا راجح اور واحد قابل قبول قول ہے :

1۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری شدہ سنت اور اِس معاملے میں اْمت کے علمی اتفاق اور اْس کے عملِ مسلسل کے موافق ہے۔

2۔ متعدد مرفوع اور صحیح احادیث سے بھی اِس کی مطابقت ہے۔

3۔ امام مالک کی اپنی موطا سے بھی اْن کے اِسی قول کا معتمد ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور موطا اْن کی وہ کتاب ہے ، جسے اْنہوں خود تالیف کیا،برسوں پڑھایا،وہ عمر بھر اْن کے سامنے پڑھی گئی اور اْن کے بے شمار شاگردوں نے اْسے اْن سے روایت کیا ہے۔ اْس میں امام مالک نے نماز میں ہاتھ باندھنے پر باقاعدہ باب باندھ کر اِس سے متعلق دو روایات بھی نقل کی ہیں۔ جس سے اِسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ بعد کے مالکی فقہا کی رائے سے قطع نظر،اْن کی اپنی رائے بہرحال ہاتھ باندھنے ہی کی تھی۔

4۔ جیساکہ اوپر بیان ہوا ؛ اْن کا کوئی ایک نہیں ، بلکہ متعدد شاگرد اْن سے اِس قول کو روایت کرتے ہیں۔ بر خلاف ابن القاسم کے جو اپنی روایت میں منفرد اور تنہا ہیں۔

5۔ محققین مالکیہ نے بھی،جیساکہ اوپر بیان ہوا، اْن کے اِسی قول کو اختیار ہے۔

چنانچہ ہمارے نزدیک لوگوں کا یہ کہنا کہ امام مالک کی رائے میں نماز کے قیام میں ہاتھ چھوڑ کر رکھنا سنت ہے،اْن سے مروی ایک مرجوح روایت کی بنا پر کہا جاتا ہے ، جسے علمی طور پر اْن سے ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔

کیا ہاتھ باندھنے پر امت کا اجماع نہیں ہے ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دیکھا جائے تو اِس عمل کو اْمت اپنے علم وعمل سے بالاتفاق سنت قرار دیتی ہے۔ آپ کی نسبت سے اِس معاملے میں کوئی دوسری بات کہیں پائی ہی نہیں گئی۔ چنانچہ آخر میں یہ بات بھی بالخصوص جان لینی چاہیے کہ اِس مسئلے میں اْمت کے ایک اقلِّ قلیل گروہ میں سنت سے مختلف ایسے نقطہ نظر کا وجود جس کا دین میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے ، اْمت کے اْس اجماع اور عملی تواتر کو توڑنے کی قطعاً صلاحیت نہیں رکھتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِس معاملے میں آج تک چلا آرہا ہے۔ اور جس کی بنیاد ہی پر اْمت نماز کے قیام میں ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتی ہے۔اِس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہی کی نسبت سے قرآن مجید کی ایک قراء تِ عامہ پر اْمت کا علمی اتفاق اور قولی تسلسل ہے ، جسے اْسے بعد میں وجود پذیر ہونے والی دیگر قرآنی قرا ء تیں کسی طرح نہیں توڑسکیں۔ یہ چیز تو تبھی ہو سکتی تھی کہ جب ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کی اِس رائے کے حق میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے قول وفعل سے کوئی دلیل فراہم کی جاتی،جیساکہ رفع یدین اور عدم رفع یدین کے باب میں ہوا ہے۔

(مولانا عامر گزدر)