عیدین کے مسائل

کج133 نمازِ عید کی نیت اس طرح کی جاتی ہے کہ میں دو رکعت نماز عیدالفطر یا عیدالاضحی واجب مع تکبیرات زائد کی نیت کرتا ہوں۔

()

ج133 بغیر عذر کے عید کی نماز مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے۔

()

جواب :اگر کوئی شخص نماز عید کی جماعت میں نہ پہنچ سکا تو اکیلے اس کی قضاء نہیں پڑھ سکتا، البتہ اگر گھر لوٹ کر چار رکعت نفل پڑھ لے تو بہتر ہے۔

()

ج۔۔عید کی نماز میں نہ اذان ہوتی ہے اور نہ اقامت۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
شَھِدتْ مَعَ رَسْولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصَّلَاۃَ یَومَ العِیدِ، فَبَدَاَ بِالصَّلَاۃِ قَبل الخْطبَۃ بِغَیرِ اَذَانٍ وَلَا اِقَامَۃٍ.
’’میں عید کے دن نماز میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حاضر تھا۔ پس آپ نے اذان اور تکبیر کے بغیر خطبہ سے قبل عید کی نماز پڑھی

()

ج133 اگر امام تکبیرات سے فارغ ہوچکا ہو، خواہ قرآت شروع کی ہو یا نہ کی ہو، بعد میں آنے والا مقتدی تکبیرِ تحریمہ کے بعد زائد تکبیریں بھی کہہ لے اور اگر امام رْکوع میں جاچکا ہے اور یہ گمان ہو کہ تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رْکوع میں شامل ہوجائے گا تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد کھڑے کھڑے تین تکبیریں کہہ کر رْکوع میں جائے، اور اگر یہ خیال ہو کہ اتنے عرصے میں امام رْکوع سے اْٹھ جائے گا تو تکبیرِ تحریمہ کہہ کر رْکوع میں چلا جائے، اور رْکوع میں رْکوع کی تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہہ لے، ہاتھ اْٹھائے بغیر، اور اگر اس کی تکبیریں پوری نہیں ہوئی تھیں کہ امام رْکوع سے اْٹھ گیا تو تکبیریں چھوڑ دے امام کی پیروی کرے، اور اگر رکعت نکل گئی تو جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رکعت پوری کرے گا تو پہلے قر?ت کرے، پھر تکبیریں کہے، اس کے بعد رْکوع کی تکبیر کہہ کر رْکوع میں جائے۔

()

ج133 اگر غلطی ایسی ہو کہ جس سے نماز فاسد نہیں ہوتی تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اور فقہاء نے لکھا ہے کہ عیدین میں اگر مجمع زیادہ ہو تو سجدہ سہو نہ کیا جائے کہ اس سے نماز میں گڑبڑ ہوگی۔

()

ج133 نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلیا جائے، بشرطیکہ پیچھے مقتدیوں کو معلوم ہوسکے کہ سجدہ سہو ہو رہا ہے، اور اگر مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے گڑبڑ کا اندیشہ ہو تو سجدہ سہو بھی چھوڑ دیا جائے۔

()

ج۔۔ نیت باندھ کر پہلے زائد تکبیرات کہہ لے۔ امام کو رکوع میں پایا تو اگر رکوع نکل جانے کا اندیشہ نہ ہو تو پہلے زائد تکبیرات کہے، پھر رکوع میں جائے اور اگر رکوع نکل جانے کا اندیشہ ہو تو تکبیرہ تحریم کہہ کر رکوع میں چلا جائے
اور ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع ہی میں تینوں تکبیرات کہہ لے اور رکوع کی تسبیح ’’سبحان ربی العظیم‘‘ بھی پڑھ لے، دونوں کا جمع کرنا ممکن نہ ہو تو صرف تکبیرات کہے، تسبیحات چھوڑ دے، تکبیرات واجب اور تسبیحات سنت ہیں، اگر تکبیرات پوری کہنے سے پہلے ہی امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا تو بقیہ تکبیرات چھوڑ کر امام کا اتباع کرے۔
اگر امام کو دوسری رکعت میں پایا تو بعینہ وہی تفصیل ہے جو اوپر درج کی گئی۔ البتہ امام کے سلام کے بعد جب فوت شدہ رکعت ادا کرے گا تو پہلے قراء ت کرے، پھر تکبیرات کہے۔ 
اگر کسی کی دونوں رکعتیں نکل گئیں، سلام سے پہلے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر حسب قاعدہ دونوں رکعتیں پڑھے اور تکبیرات اپنے اپنے مقام پر یعنی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد قراء ت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قراء ت کے بعد رکوع سے پہلے کہے۔ 
دوسری رکعت میں تکبیرات کو قراء ت سے موخر کرنا واجب نہیں: 
دوسری رکعت میں تکبیرات زائدہ کو قراء ت سے موخر کرنا اولی ہے، واجب نہیں۔

 

()

ج133 یہ سنت نہیں، محض لوگوں کی بنائی ہوئی ایک رسم ہے، اس کو دین کی بات سمجھنا، اور نہ کرنے والے کو لائقِ ملامت سمجھنا بدعت ہے۔
 

()

ج133 عید کا خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے، دْعا بعض حضرات نماز کے بعد کرتے ہیں اور بعض خطبہ کے بعد، دونوں کی گنجائش ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور فقہائے اْمت سے اس سلسلے میں کچھ منقول نہیں۔
 

()

ج133 ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر نماز فرض کے بعد ہر بالغ مرد اور عورت پر تکبیراتِ تشریق واجب ہیں، تکبیرِ تشریق یہ ہے کہ ہلکی بلند آواز سے یہ کلمات پڑھے: ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد۔‘

()

ج133 قرآن و حدیث یا اکابر کے ارشادات سے اس خیال کی کوئی سند نہیں ملتی، اس لئے یہ خیال محض غلط اور توہم پرستی ہے، جمعہ بجائے خود عید ہے، اور اگر جمعہ کے دن عید بھی ہو تو گویا ’’عید میں عید‘‘ ہوگئی، خدا نہ کرے کہ کبھی عید بھی مسلمانوں کے لئے بھاری ہونے لگے۔

()

اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، بلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے۔ مسلَّمہ فقہی قاعدہ ہے: ‘‘یقین شک سے زائل نہیں ہوتا’’، تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے، کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:‘‘اور جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو، وہ ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا، تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے’’۔ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ‘‘کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کا مسئلہ ہے)، کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتاہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے، اور ماں (مادہ) کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔ (فتح القدیر، ج: 9، ص: 532)’’۔

(مفتی منیب الرحمان)

ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے، وہ یکم ذو الحجہ سے عیدالاضحی کے دن تک یا جس دن قربانی کرے گا، اُس وقت تک ناخن اور بال نہ ترشوائے، اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں کہ یہ مستحب ہے واجب نہیں۔ احادیث مبارکہ میں طہارت و نظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے، بغل اور زیرِ ناف بال صاف کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا مکروہِ تحریمی ہے، حدیث میں ہے: ‘‘حضرت انس بیان کرتے ہیں: مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم:599)’’۔امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ‘‘اگرکسی شخص نے۱ ۳ دن کسی عذر کے سبب یا بلاعذر نہ ناخن تراشے ہوں، نہ خط بنوایا ہو کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتاہو، اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا، اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا مکروہِ تحریمی ہے، اور مستحب کی رعایت کرنے کے لیے واجب کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ردالمحتار میں ہے: ذوالحجہ کے دس دنوں میں ناخن کاٹنے اور سرمنڈانے کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ سنّت کو موخر نہ کیا جائے جبکہ اس کے متعلق حکم وارد ہے، تاہم تاخیر واجب نہیں ہے۔ تو یہ بالاجماع استحباب پر محمول ہے اور وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے، لہٰذا مستحب ہے۔ ہاں! اگر استحباب پر عمل اباحت کی مدت میں تاخیر کا باعث بنے جس کی انتہا چالیس روز ہے، تواستحباب پر عمل کو ترک کردے۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد20، ص:354،بتصرف)’’۔ بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، اُنہیں ذوالحجہ کے چاند سے ایک دو دن پہلے طہارت یعنی ناخن تراشنے، مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوالینے چاہییں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے۔
 

(مفتی منیب الرحمان)

حقیقی ذبیحہ تو دور کی بات ہے، محض شک کی بنیاد پر مسلمانوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں، اس لیے جہاں جان اور آبرو کا خطرہ ہو،مسلمانوں کو چاہیے کہ گائے کی قربانی سے احتراز کریں، اور بھینس، اونٹ یا بکرے دنبے کی قربانی کے ذریعے سنتِ ابراہیمی کو ادا کریں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب :ساری دنیا میں ایک ہی دن روزہ رکھنا اور عید منانا یا مملکت سعودی عرب کو بنیاد بناکر اس کے ساتھ روزہ یا عید منانا شرعاً ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ہر جگہ کی اپنی رؤیت ہوتی ہے جو اپنی مخصوص حدود تک لاگو ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ایک جگہ رمضان یا عید کا چاند نظر آجائے تو ساری دنیا کے مسلمانوں پر اس کی اتباع لازم ہوجائے، بلکہ ایک ملک میں بھی ایک جگہ چاند نظر آجائے تو ایک ماہ کی شرعی مسافت یعنی 480 میل کے فاصلہ پر مطلع بدل جانے کی وجہ سے اس مسافت کے بعد رہنے والوں کے لیے اس رؤیت کے مطابق روزہ یا عید منانا لازم نہیں ہوتا۔ لہٰذا نہ آسٹریلیا اور نہ امریکا والوں کا سعودی عرب کے ساتھ عید اور رمضان منانا ضروری ہے، نہ کسی اور کا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے زمانہ میں بھی اس کی نظیر ملتی ہے کہ شام والوں نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا، لیکن مدینہ والوں نے اس پر اکتفاء-04 نہیں کیا۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بعض حضرات شام گئے تھے وہاں رمضان کا چاند نظر آنے پر انھوں نے روزے رکھنا شروع کردیے، ماہ رمضان کے آخر میں ان کی مدینہ واپسی ہوئی تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے معلوم کیا کہ تم لوگوں نے ماہ رمضان کا چاند کب دیکھا تھا، انھوں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو لوگوں نے چاند دیکھا تھا ان کے ساتھ ہم نے بھی روزہ رکھا، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات کو چاند دیکھا تھا، لہٰذا ہم اپنے اعتبار سے تیس روزہ مکمل کریں گے یا اگر چاند نظر آگیا تو 29 روزے رکھیں گے، انھوں نے سوال کیا کہ کیا آپ وہاں شام والوں کی رؤیت پر اکتفاء نہیں کرتے؟ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نہیں، ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی حکم دیا تھا۔ دیکھیں، یہاں شام میں چاند نظر آیا، انھوں نے روزہ رکھ لیا اور مدینہ والوں نے اس کے ایک دن بعد چاند دیکھا تو انھوں نے اپنی رؤیت کا اعتبار کیا اور ایک دوسرے پر کوئی نکیر بھی نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ہر جگہ کی رؤیت اسی جگہ کے لیے معتبر ہوتی ہے، دوسروں پر اس کی اتباع لازم نہیں۔ لہٰذا اس مسئلہ کو اختلاف اور نزاع کا باعث نہیں بنانا چاہیے۔

(سید عمر فاران بخاری)

جواب :صحابہ کرام سے وارد ہے کہ وہ ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیا کرتے اور کہتے: تقبل اللہ منا و منکم. اللہ تعالی ہم اور تم سے قبول فرمائے. مبارک باد ، مصافحہ اور معانقہ میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسے دین کا حصہ نہ سمجھا جائے اور ایک معاشرتی رواج کے طور پر کیا جائے ۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

ج: پہلے ذبح نہیں کیا جاسکتا ۔ اس معاملے میں رسالت مآب ﷺ نے بہت سختی فرمائی ہے اور کہا ہے کہ جس نے ہماری نماز سے پہلی قربانی کر لی ، اس کی قربانی کوئی قربانی نہیں ہے ، وہ تو بس ایک جانور تھا جو اس نے ذبح کر لیا ۔

(جاوید احمد غامدی)