خلع

زید کی شادی ۲۷،۲۸ سال پہلے ہوئی تھی۔ زوجین نے پرمسرت ازدواجی زندگی گزاری۔ ان کے درمیان کسی طرح کی ناچاقی نہیں تھی۔ اس عرصے میں ان کی پانچ اولادیں ہوئیں، جو بحمد اللہ اب جوان ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹی کی شادی بھی ہوچکی ہے۔ زید کی بیوی نے گزشتہ دس سال سے اس کے کمرے میں سونا چھوڑدیا ہے۔ وہ اپنے جوان بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی ہے اور شوہر دوسرے کمرے میں اکیلاسوتاہے۔ زید اسے باربار  اس کا فرض یاد دلاتاہے اور اسے اپنے کمرے میں سُلانا چاہتا ہے۔مگر وہ کہہ دیتی ہے کہ بچے اب بڑے ہوگئے ہیں۔ وہ کیا سوچیں گے؟ زید عمر کے اس مرحلے میں پہنچ چکاہے، جہاں وہ چاہتاہے کہ اس کی بیوی زیادہ اوقات اس کے ساتھ رہے۔ شادی صرف جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تو نہیں کی جاتی۔ اس کی بیوی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے، لیکن عملاً وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے سے غفلت برتتی اور جوان اولاد کی دیکھ بھال کو ترجیح دیتی ہے۔ اب وہ صرف اپنے بچوں کی ماں بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں درج ذیل اُمورجواب طلب ہیں:
۱۔ کیا زید اور اس کی بیوی کے درمیان زن و شوہر کی حیثیت باقی ہے؟ یا ختم ہوگئی ہے؟
۲۔ بیوی کا رویّہ کہیں شوہر سے خلع حاصل کرنے کے زمرے میں تو نہیں آتا؟
۳۔ کیا دونوں ایک مکان میں رہ سکتے ہیںاور بلاکراہت ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں؟

بچوں کی عمر کے کس مرحلے میں ان کے ساتھ کیسامعاملہ کیاجائے؟ قرآن وحدیث میں اس کے اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انھیں الگ سلایاجائے (مسند احمد، ۲/۱۸۰)اس سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ ان کے بستر ماں باپ کے بستر سے بھی الگ ہونے چاہییں   سورۃ نورمیں، جہاں حجاب سے متعلق مختلف احکام دیے گئے ہیں، وہیں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ قریب البلوغ بچوں کو مخصوص اوقات میں ماں باپ کے کمروں میں بغیر اجازت لیے نہیں داخل ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمھارے لونڈی غلام اور تمھارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں، صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب کہ تم کپڑے اتارکر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں‘‘۔(النور ۵۸)
آگے بالغ بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کاحکم دیاگیا ہے:
’’اور جب تمھارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں‘‘۔(النور ۵۹)
ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ بچے جب بڑے ہوجائیں تو پردے کے احکام ان سے بھی اسی طرح متعلق ہوجاتے ہیں جس طرح بڑوں سے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف متعدد ایسی آیات اور احادیث ہیں، جن سے زوجین کے ایک کمرے میں رات گزارنے کااشارہ ملتاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کااندیشہ ہو انھیں سمجھائو، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو‘‘۔(النسا ۳۴)’’مضاجع‘‘کاترجمہ بستر بھی کیاگیا ہے اور خواب گاہ بھی۔ اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے:
وَلَاتَھْجُرْاِلّافِی الْبَیْتِ ابوداود: ۲۱۴۲’’اور بیوی سے مت علیحدگی اختیارکرو، مگر خواب گاہ میں‘‘۔
بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں اس کی تادیب و اصلاح کے لیے بستر میں، یاخواب گاہ میں اس سے علیحدہ رہنے کو کہاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں زوجین کا ساتھ رہنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔
اوپر کے خط میں سائل نے بیوی کے جس رویّے کی شکایت کی ہے، اس کا تعلق نام نہاد مشرقی تہذیب سے ہے۔ عموماً جب بچّے کچھ بڑے اور باشعور ہوجاتے ہیں تو عورتیں ان کی موجودگی میں اپنے شوہروں کے کمروں میں رہنے سے شرماتی اور اسے ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے بجائے بچوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ اس عمل کو اجنبی اور غیراخلاقی نہ سمجھیں۔ ویسے بھی ازدواجی تعلق صرف جنسی عمل کا نام نہیں ہے۔ بہت سے معاملات و مسائل روزمرّہ کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں، جن پر بچوں کی غیرموجودگی میں زوجین کا تنہائی میں گفتگو کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ بیوی کے فرائض میں سے ہے کہ وہ شوہر کو گھر میں سکون فراہم کرے اور جائز امور میں اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اللہ کے رسولﷺسے کسی نے دریافت کیاکہ سب سے اچھی عورت کون ہے؟ فرمایا:
’’وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہے، شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے‘‘۔
اس معاملے میں زوجین کو افراط و تفریط سے بچناچاہیے نہ انھیں اپنے باشعور بچوں کے سامنے کھلے عام ایسی ’حرکتیں‘ کرنی چاہییں، جن کا شمار بے حیائی میں ہوتا ہو اور نہ ایک دوسرے سے بے تعلق ہوجانا چاہیے کہ دوسرا فریق اسے اپنی حق تلفی شمار کرنے لگے۔ رہیں وہ باتیں، جن کاتذکرہ خط کے آخر میں کیاگیا ہے، وہ جاہلانہ باتیں ہیں۔ بیوی کے کچھ عرصہ شوہر سے الگ دوسرے کمرے میں رہنے سے نہ تو ازدواجی حیثیت ختم ہوجاتی ہے نہ یہ عمل خلع حاصل کرنے کے زمرے میں ٓتاہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے چاہییں اور ان کی ادائیگی کے لیے شرحِ صدر کے ساتھ خود کوآمادہ کرنا چاہیے۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

جواب: خلع کے وقت اگر شوہر نے ایک طلاق کی صراحت کی تھی تو دوبارہ ازدواجی رشتہ قائم ہونے کی گنجائش ہے، لیکن اگر اس وقت تین طلاق دینے کی صراحت کی گئی تھی تو اب دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں۔ خلع کے نتیجے میں ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔ یعنی نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ دونوں کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم ہوسکتا ہے۔
 

()

جواب: خلع یہ ہے کہ عورت کسی وجہ سے خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور وہ خاوند سے کہتی ہے کہ مجھے طلاق دے دو، جبکہ میں اتنا مال تمھیں دے دیتی ہوں۔ طلاق کے بدلے میں مالی عوض لینے کا جو جواز سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے مابین نباہ ممکن نہیں اور خاوند بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ نباہ نہیں ہو سکتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خاوند نے شادی بیاہ کے موقع پر یا اس کے بعد بہت سے تحفے تحائف بیوی کو دے رکھے ہیں اور وہ یہ سوچتا ہے کہ اب یہ سارے کا سارا اس کے ساتھ ہی چلا جائے گا۔ اصولی طور پر تو جو کچھ وہ دے چکا ہے، وہ عورت کا ہو چکا ہے۔ شوہر اسے واپس لینے کا حق نہیں رکھتا، لیکن اگر نباہ نہیں ہو رہا اور جدائی کے فیصلے میں رکاوٹ صرف یہ دیا ہوا مال ہے تو قرآن اس موقع پر یہ ہدایت کرتا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت نے جو کچھ لیا ہوا ہے، وہ واپس کر دے اور خاوند سے طلاق لے لے۔ فقہا اسی لیے یہ بات کہتے ہیں کہ خاوند کے لیے طلاق کے عوض کے طور پر اس سے زیادہ مال بیوی سے لینا پسندیدہ نہیں جتنا اس نے اس کو دے رکھا ہے۔خلع میں یہ ہوتا ہے کہ عورت طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر تو معاملہ آپس میں ہی طے ہو گیا اور خاوند نے طلاق دے دی تو بات ختم ہو گئی۔ نہیں تو عورت قاضی کے پاس چلی جائے گی کہ میں طلاق لینا چاہتی ہوں، جیسے ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ میں اپنے خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ طے کروا دیا کہ تم نے فلاں فلاں چیز جو خاوند سے لی ہے، وہ اس کو واپس کر دو اور خاوند سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

ADFASDFASDFASDF

()

خلع اور طلاق میں فرق
 سوال:میں نے اپنے خاوند کو حق مہر واپس کر دیا ہے اور اس سے خلع مانگا ہے، تو اس شخص نے حق مہر وصول کر کے مجھے شکریہ کہا، اور کہنے لگا کہ: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، اب آپ آزاد ہیں، آپ کہیں بھی جا سکتی ہیں، تو میں مکان سے چلی گئی اور اپنی بہن کے ساتھ رہنے لگی، وہاں میں تقریباً 2 ماہ رہی اور پھر بیمار ہونے کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئی، تو پڑوسیوں نے اللہ انہیں جزائے خیر دے، میرا اور میرے بچوں کا بہت خیال کیا۔ اسی دوران میں امید سے تھی اور زچگی کا وقت بھی قریب ہی تھا تو مجھے اس شخص کی کال آئی اور کہنے لگا کہ وہ میرا اور اپنے بچے کا حال دریافت کرنا چاہتا ہے، پھر بعد میں اس نے مجھے یہ بھی کہا کہ: ہم اب بھی نکاح کے بندھن میں ہیں؛ کیونکہ خلع طلاق نہیں ہوتا۔ ہم نے امام مسجد سے بھی بات کی تو امام مسجد نے کہا کہ: آپ طلاق یافتہ ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا آنے والے بچے کا عقیقہ کرنے کے لیے ہمارے لیے نئے سرے سے نکاح کرنا لازمی ہے؟ یا پھر ہم الگ الگ رہتے ہوئے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں؟

جواب:

خلع طلاق نہیں ہوتا، یہ فسخ نکاح ہے، نیز خلع کے بعد دوبارہ رجوع کے لیے نیا نکاح کرنا لازم ہے۔فسخ نکاح اور طلاق کے درمیان مزید فرق یہ ہے کہ: فسخ نکاح حق طلاق میں شمار نہیں ہوتا، چنانچہ اگر آپ اپنے خاوند کے پاس دوبارہ چلی جاتی ہیں تو پھر بھی ان کے پاس طلاق کے تین حق باقی ہیں۔چنانچہ اگر آپ کا خاوند کبھی آپ کو طلاق دے بھی دے، اور آپ کی عدت ختم ہو جائے اور خاوند نیا نکاح کر کے آپ کو اپنے عقد میں لے لے تو پھر اس کے پاس صرف دو طلاق کا حق ہو گا۔
ہر وہ لفظ جس میں بیوی کی طرف سے معاوضہ دے کر جدائی ہو تو وہ خلع شمار ہوتا ہے۔اور اگر خاوند طلاق خلع کے ساتھ دیتا ہے، مثلاً: وہ کہتا ہے کہ میں تمہیں اس شرط پر طلاق دیتا ہوں کہ تم مجھے میرا حق مہر لوٹا دو، تو راجح موقف کے مطابق فسخ نکاح ہو گا، یعنی خلع اور فسخ نکاح ہی شمار ہو گا چاہے خاوند اس کے ساتھ طلاق کا لفظ ہی کیوں نہ استعمال کرے۔
دوم:آپ دونوں بچے کی پیدائش پر خوشی منا سکتے ہیں اور جدا، جدا رہتے ہوئے بھی عقیقہ کر سکتے ہیں، تاہم اس خوشی کو منانے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا واجب نہیں ہے، لیکن واضح رہے کہ آپ کے اس بچے کا والد تمام احکامات میں آپ کے لیے ایک اجنبی شخص ہے۔ہم آپ کو آپ کے سابقہ خاوند کی طرف رجوع کرنے سے قبل مشورہ دیں گے کہ استخارہ کریں اور اچھی طرح غور و خوض کر لیں؛ چنانچہ اگر آپ رجوع کرنے کو مناسب سمجھیں تو تجدید نکاح کے لیے یہ بہت ہی مناسب وقت ہے۔

(شیخ محمد صالح المنجد)