بسنت

بسنت کوئی مذہبی تہوار نہیں ہے اس کو علاقائی موسمی یا کلچرل تہوار کہہ سکتے ہیں۔ ایسے موسم ورواج بنیادی طور پر ناجائز وحرام بھی نہیں ہوتے اور سنت و واجب یا فرض بھی نہیں ہوتے جو مناتے ہیں ان کو منانے دیں اور جس کا من پسند نہ کرے وہ نہ منائے لیکن منانے والوں کو الزام نہ دیں۔
برصغیر پاک وہند میں موسم بہار کی آمد کے موقع پر بسنت منایا جاتا ہے، یہ ایک اظہار خوشی ہوتا ہے، جو بہار کے استقبال پر کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پتنگ اڑائے جاتے ہیں یا اور بھی خوشی منانے کے طریقے اپنائے جاتے ہیں، ان میں اس وقت تک کوئی ممانعت نہیں جب تک وہ غلط رنگ نہ پکڑ جائیں۔ یعنی خوشی منانے کے جو جائز طریقے ہیں وہ اپنائے جائیں، جس میں فحاشی وعریانی یا پھر لوگوں کے جان ومال کا عدم تحفظ آ جائے اس طریقے کی مذمت کی جائے اور اس کو سرے سے ختم کیا جائے۔ مثلاً پتنگ اڑانا بنیادی طور پر حرام وناجائز نہیں ہے لیکن جب اس کو اڑانے کے لیے ایسے طریقے اپنائے جائیں جن سے لوگوں کے جان ومال محفوظ نہ ہوں پھر یہ جائز نہیں ہونگے۔ اسلام بھی اور دنیا بھر کے قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے، جیسا کہ پتنگ اڑانے کے لیے دھاتی تار استعمال کی جاتی ہے، جو لوگوں کی گردنیں کاٹ دیتی ہے، بجلی کا نقصان ہوتا ہے اور بہت سے لوگ کرنٹ لگنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اسی طرح بسنت کے موقع پر فائرنگ کرنا جو لوگوں کی موت کا سبب بنتا ہے، شراب پینا، گندی فلمیں دیکھنا اور مجرے وغیرہ سب برے کام ہیں، جن کی اجازت نہ بسنت کے موقع پر ہے نہ ہی اس کے علاوہ ایسی حرکات کی اجازت ہے۔ اس لیے ہم براہ راست بسنت کو برا بھلا کہنا شروع نہیں کر دیں گے بلکہ غور طلب بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر بسنت کیا ہے اور اس موقع پر ہونے والے پروگرام کیا رخ اختیار کر گئے ہیں؟ تبدیلی کی ضرورت کہاں ہے؟ کیا تہوار ہی چھوڑ دیا جائے یا اس کو منانے کے لیے جو غلط طریقے آ چکے ہیں ان کو تبدیل کیا جائے ؟ اس پر غور کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

ج: ہمارے قدیم اسلاف سب سمجھتے ہیں کہ سنت کیا چیز ہے یعنی سنت رسول اللہﷺ اور انبیا علیہم السلام اور دین ابراہیمی کا جاری کردہ طریقہ ہے ۔ قدیم اسلاف میں تو سب کا ایک ہی موقف ہے حتی کہ ہمارے ہندستان میں جو آخری بڑے عالم ہوئے ہیں شاہ ولی اللہ انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں دین ابراہیمی کی اس روایت کو اسی طریقے سے بیان کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے۔ سنت در حقیقت مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے دوسرے جم غفیر کو منتقل کی ہے ، اس وجہ سے یہ کسی حدیث کی ، کسی راوی کی اور اس کی تحقیق کی ہر گز محتاج نہیں ہوتی ۔اسی کو میں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ سنت ہمیں اجماع او رعملی تواتر سے ملی ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، بالکل متفق علیہ ہے۔ اس ساری بات کو میں نے ایک فہرست کی شکل میں بیان کر دیا ہے۔ میرا Contribution یہ ہے کہ میں نے اسے بالکل متعین کر کے بیان کر دیا ہے اور جن چیزوں کو غلطی سے خلط ملط کیا جا رہا تھا ان کے اخلاط کو دور کر دیا ہے ۔ اگر کوئی مفید کام ہوا ہے تو دعا کیجیے اللہ قبول کرے اور اگر غلطی ہوئی ہے تو اللہ اس کی اصلاح کرے ۔

(جاوید احمد غامدی)