حلال و حرام

جی ہندو کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ البتہ ہندو کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ اگر کسی ہندو نے کوئی حلال جانور بھی ذبح کیا تو جائز نہیں ہے، اور حرام ہے۔ چاہے اسے کوئی ہندو پکائے یا مسلمان۔ اگر جانور کو مسلمان نے ذبح کیا اور ہندو نے پکایا تو پھر کھانا جائز ہے۔ کیونکہ ہندو بتوں کے نام سے ذبح کرتے ہیں اور یہ حرام ہے۔ہندو کے پکانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اس کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ مثلاً سبزیاں، دالیں، چاول اور باقی سب کھانے ماسوائے ذبیحہ۔ باالفاظ دیگر ہندوؤں کے ذبیحہ کو چھوڑ کر ہندو کے ہاتھ سے بنی ہوئی ہر چیز شرعاً کھانا جائز اور حلال ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

مستند ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس کی ممانعت نہیں ہے۔ تاہم اس بات کا خیال رہے کہ دوائی انسانی صحت کے لیے نقصا ن دہ نہ ہو۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب :لپ اسٹک میں اگر ناپاک چیز شامل نہ ہو تو عورتوں کے لیے اس کا لگانا جائز ہے؛ البتہ اگر لپ اسٹک تہہ دار ہوجس کی وجہ سے ہونٹوں تک پانی نہ پہنچ سکے، تو اس کو صاف کیے بغیر وضو اور غسل صحیح نہیں ہوگا۔
ناخن کاٹنا

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب :بندہ نہ تو پورے طور پر خود مختار ہے، نہ ہی پورے طور پر مجبورِ محض ہے، بلکہ اللہ نے بندے کو کچھ اختیار دیا ہے اور کچھ مجبور بھی رکھا ہے، اسی کا نام تقدیر ہے، جس کا علم ہمیں بعد میں ہوتا ہے۔ اللہ نے ہمیں عقل سمجھ اور علم دیا، حلال و حرام، جائز و ناجائز کا بتایا۔ سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے نہ کرنے کا ہمیں موقع دیا۔ ان حالات میں کسی بھی ناجائز کام کا اقدام کرنا ہماری بہت بڑی غلطی ہے اسی لیے وہ حرام ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جنت کے عوض میں ہمارے جسم کو خرید لیا ہے۔ ہم اپنے جسم کے خود مالک نہ رہے کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں۔ اسی حالت میں اپنے جسم کو خود کشی کرکے ہلاک کرنا، یہ بیجا تصرف ہے جو بلاشبہ حرام ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

اندیشہ کی بنا پر قتل ناحق ؟
سوال:میں نے سورہ کہف پر آپ کا آرٹیکل پڑھا۔ بہت اچھا اور متاثر کن تھا۔ لیکن میرا ایک سوال ہے جو میں کافی دیر سے پوچھنا چاہ رہی تھی لیکن کبھی موقع نہ مل سکا اس لیے آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ سورہ کہف میں بیان کردہ واقعہ کے مطابق جب حضرت خضر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان باتوں کی وضاحت کر رہے تھے تو کشتی کو عیب زدہ کرنے اور گرتی ہوئی دیوار کو (بلا معاوضہ) سیدھا کر دینے کی بنیاد حقائق پر مبنی تھی۔ لیکن جب انہوں نے ایک چھوٹے بچے کو جان سے مار ڈالا تو یہ انہوں نے ’’ محض خوف‘‘ کے تحت کیا نہ کہ کسی حقیقی واقعہ کے تحت۔ جب ہم کسی چیز سے ڈرتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ہوجائے لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ وقوع پذیر ہی نہ ہو۔ خدا کا کوئی باغی بھی کسی بھی وقت توبہ کر کے خدا کی طرف لوٹ سکتا ہے اور ایک اچھا انسان اور خدا کا فرمانبردار بندہ بن سکتا ہے۔ یقینی طور پر اس مخصوص واقعہ میں ہم جانتے ہیں کہ حضرت خضر کو یہ حکم خدا کی طرف سے ہی دیا گیا تھا۔ لیکن جب بھی میں ان آیات پر پہنچتی ہوں تو یہ سوال میرے ذہن میں پھر پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے وجدان پر کس حد تک اعتبار کر سکتے ہیں؟ اور مجھے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حضرت خضر کے اس عمل کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی حقیقت کارفرما تھی جو کہ ان آیات میں کہیں مخفی ہے اور میری ابھی اس تک رسائی نہیں ہوئی۔

جواب:دیکھیے اس معاملہ میں ہمیں دو چیزیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔
۱۔ خضر ایک فرشتہ تھے اور انہوں نے جو بھی کیا اللہ تعالیٰ سے حکم ملنے کے بعد ہی کیا۔ لہٰذا ہم اپنے میں سے کسی کا بھی ان کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے۔
۲۔ دوسرے یہ کہ یہاں استعمال ہونے والے الفاظ مثلاً ’’خشینا‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعمال کیے گئے ہیں۔ ان کا مطلب ’’ممکن ہے ‘‘یا ’’شاید‘‘ کے نہیں ہے بلکہ یہ ’’یقینی امور‘‘ پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ ’’عسٰی‘‘ کا لفظ استعمال فرماتے ہیں۔ اس کا لغوی معنی ہے کہ ’’شائد‘‘ لیکن جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لیے استعمال فرماتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناًایسا کریں گے۔اصل میں یہ بادشاہوں کے کلام کرنے کا شاہانہ انداز ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب سے عظیم ہستی ہیں تو وہ ایسے اندازمیں کلام فرماتے ہیں۔
اس بات کو یاد رکھیے کہ یہاں پر خضر اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس سے بات واضح ہو گئی ہو گی۔
ہمیں کس کی پیروی کرنا چاہیے؟
سوال:سرمیں آپ کی کتاب ’’تیسری روشنی‘‘ پڑھ رہی تھی کہ کیسے آپ نے تمام مکاتب فکر کا مطالعہ کیا اور آپ ماشاء4 اللہ سب کا ہی احترام کرتے ہیں۔میں آپ کی رائے سے مکمل اتفاق کرتی ہوں کہ ہمیں دوسروں کے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں کہ دلوں کے حال صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں پھر ہمیں کس کی اتباع کرنی چاہیے؟ اور ہمیں کیسے پتہ چلے کہ کون اس راستے کے زیادہ قریب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔
جواب ۔ہمیں صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کرنی چاہیے۔ آپ کی ہستی ہی اب رہتی دنیا تک دین کا تنہا مآخذ ہے۔ علماء اور دیگر تمام لوگ دین کے حوالے سے اپنے فہم کو بیان کریں گے۔ اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کس کی دلیل مضبوط ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں علماء4 کے پیش کردہ دلائل کو دیکھنا ہے اور ان کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھنا ہے۔ اگر وہ دلائل قرآن اور سنت کے مطابق ہیں تو ہم انہیں قبول کر لیں گے وگرنہ ہم انہیں رد کر دیں گے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ نجات کے لیے جو امور ضروری ہیں وہ ہمارے دین میں انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ ہمیں ان پر عمل کرنے کے لیے کسی عالم کی ضرورت ہے اور نہ خود کو کسی فرقے سے جوڑنے کی حاجت ہے۔ مزید یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نجات کے لیے جو امور دینی تعلیم میں بیان ہوئے ہیں ان میں علماء کا کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔

 

(ابو یحییٰ)

جواب:آدمی اپنا مال ضرورت مندوں میں خود بھی تقسیم کرسکتاہے اور کسی دوسرے کو بھی یہ ذمہ داری دے سکتاہے۔ جو شخص یہ ذمہ داری قبول کرلے اسے پوری امانت و دیانت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہیے۔
جس شخص کو مذکورہ مال تقسیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ، اس کے پاس یہ مال امانت ہے۔ بغیر اس کے مالک کی اجازت کے اس میں ادنیٰ سا تصرف بھی اس کے لیے جائز نہیں ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ صاحبِ مال نے جن کاموں میں خرچ کرنے یا جن افراد کو دینے کی صراحت کی ہو، انہی میں مال خرچ کیاجائے۔ ذمہ داری لینے والے کو اپنے طورپر فیصلہ کرنے اور مدّات میں تبدیلی کرنے کاحق نہیں ہے۔اسی طرح اگر وہ ذمہ دار اس مال کومستحقین تک پہنچانے میں ٹال مٹول سے کام لے یا بلاوجہ تاخیر کرے تو یہ بھی خیانت ہے۔ وہ مال کا کچھ حصہ اپنے ذاتی کام میں استعمال کرلے، پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کے پاس مال آجائے تو اسے بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردے، اس صورت میں وہ مال میں خیانت کرنے کامرتکب تو نہ ہوگا، لیکن بغیر صاحبِ مال کی اجازت کے ، مستحقین تک اس کے پہنچانے میں تاخیر کرنے کا قصور وار ہوگا۔ اس لیے ایسا کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔اب اگر ایسی کوتاہی ہوگئی ہے تواستغفار اور آئندہ احتیاط کا عہد کرنا چاہیے۔
***

 

(ابو یحییٰ)

جواب:بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآءِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْتم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔(الاحزاب، 33: 5)
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اُن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
عَنْ اَبِی ذَرٍّ اَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ یَقُولُ: لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَی لِغَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُہُ إِلَّا

کَفَرَ وَمَنِ ادَّعَی قَوْمًا لَیْسَ لَہُ فِیہِمْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ.
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:
عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ یَقُولُ: مَنِ ادَّعَی إِلَی غَیْرِ اَبِیہِ وَہُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ غَیْرُ اَبِیہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ: مَنْ انْتَسَبَ إِلَی غَیْرِ اَبِیہِ اَوْ تَوَلَّی غَیْرَ مَوَالِیہِ، فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللہِ وَالْمَلَاءِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِینَ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشبندی،سلفی، دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اللہ مَثلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَت نوحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْط
اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت اور لوط (علیہ السلام) کی عورت کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 10
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اللہ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْن اور اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجہ فرعون کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:امْرَاَۃُ ابْنِ مَسْعُودٍ.
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
ہَذِہِ زَوْجَۃُ النَّبِیِّ.یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اُن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام

ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئے بغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
(مفتی: محمد شبیر قادری)

(منہاج القرآن)

جواب: دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور کیکڑا مچھلی میں داخل نہیں، لہٰذا کیکڑا حلال نہیں، جھینگے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ جن حضرات کے نزدیک اس کا مچھلی ہونا محقق ہے وہ جائز کہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک مچھلی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی وہ اسے ناجائز کہتے ہیں، بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کسی جانب تشدد اختیار کرنا ٹھیک نہیں، اورجھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب اور احوط ہے: جھینگے کی شرعی حیثیت کے عنوان سے ایک مفصل اور محقق مقالہ فقہی مقالات مولفہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب میں موجود ہے اس کا مطالعہ فرمالیں۔
 

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

ج- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف ایک تھی، یعنی اذانِ خطبہ، دْوسری اذان جو جمعہ کا وقت ہونے پر دی جاتی ہے، اس کا اضافہ سیّدنا عثمان بن عفان خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، قرآنِ کریم میں جمعہ کی اذان پر کاروبار چھوڑ دینے اور جمعہ کے لئے جانے کا حکم فرمایا، صحیح تر قول کے مطابق یہ حکم پہلی اذان سے متعلق ہے، لہٰذا پہلی اذان پر جمعہ کے لئے سعی واجب ہے، اور جمعہ کی تیاری کے سوا کسی اور کام میں مشغول ہونا ناجائز اور حرام ہے۔

()

اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، بلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے۔ مسلَّمہ فقہی قاعدہ ہے: ‘‘یقین شک سے زائل نہیں ہوتا’’، تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے، کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:‘‘اور جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو، وہ ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا، تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے’’۔ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ‘‘کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کا مسئلہ ہے)، کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتاہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے، اور ماں (مادہ) کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔ (فتح القدیر، ج: 9، ص: 532)’’۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب:اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی آمدنی مکمل یا اکثر حرام ہے، تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کی آمدنی کے حلا ل و حرام ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ غیرمسلم ممالک میں نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کی حلال وحرام مخلوط آمدنی اس کے حق میں ہے، ملازم کے حق میں تو اس کی اجرت ہے۔ جہاں تک مسئلہ بینک کے سود کا ہے تو سود خواہ بینک کے ذریعہ ہو یا کسی بھی ذریعہ سے ہو وہ حرام ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: جھینگے کی حلت و حرمت کا دارومدار اس پر ہے کہ جھینگا مچھلی ہے یا نہیں؟ ماہرین لغت اس کو مچھلی کی ہی ایک قسم مانتے ہیں۔ جبکہ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی تسلیم نہیں کرتے ۔ اس لئے جو حضرات اس کو مچھلی قرار دیتے ہیں وہ حلال کہتے ہیں اور جو اس کو مچھلی نہیں مانتے وہ اس کو حرام کہتے ہیں۔ زیادہ راجح اس کا مچھلی ہونا ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب: مشروم بارش کے بعد زمین سے اگنے والی ایک سفید نباتات ہے، جس میں کسی طرح کی کوئی قباحت شرعاً نہیں ہے۔ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے اس لئے مشروم کھانا جائز ہے۔ البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مشروم زہریلا نہ ہو کیونکہ بعض مرتبہ زہریلا مشروم بھی زمین سے اُگ آتا ہے؛ اس لئے احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب:آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ مغرب میں قانونی طور پر کسی فرد کے کسی عمل کو ممنوع ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں ہے جب تک وہ فعل دوسروں کے جسم وجان کے ضرر رساں یاان کے کسی حق کو تلف کرنے کا باعث نہ ہو۔اس کے برعکس اسلام میں وہ تمام چیزیں بھی ممنوع ہیں جو انسان کے اخلاقی وجود کے منافی ہیں۔ شراب کوسورہ بقرہ کی آیت ۲۱۹میں اثم یعنی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ‘اثم’ کے لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘اثم کا لفظ…………اخلاقی مفاسد اور گناہوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ج۱، ص۵۱۴)اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت ۹۰میں اسے ‘رجس’ گندگی اور عمل شیطان قرار دیا گیا ہے۔ یہ آیت بھی شراب کے اخلاقی قباحت ہونے ہی کو واضح کرتی ہے۔سورہ نساء کی آیت ۴۳ سے واضح ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت کا اصل باعث اس کا نشہ آور ہونا ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ جب تم نشے میں ہو تو نماز نہ پڑھو۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ شراب کی حرمت کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس آیت میں نشے اور جنابت دونوں کو نماز کے لیے مانع قرار دیا گیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے ان کے اشتراک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘‘نشہ اور جنابت دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرکے اور دونوں کو یکساں مفسد نماز قرار دے کر قرآن نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں، بس فرق یہ ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی۔ شراب کو قران نے جو ‘رجس’ کہا ہے یہ اس کی وضاحت ہو گئی۔’’ (تدبر قرآن، ج۲، ص۳۰۲)میں نے قرآن کا منشا بیان کر دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اسلام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے آگیا ہو گا۔ لیکن مغرب میں پہلے اس اصول کو منوانا ضروری ہے کہ انسان کے اخلاقی وجود کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ جب تک یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی قرآن کا یہ موقف ان کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔

(مولانا طالب محسن)

ج: کھانے والی چیزوں میں سے حلت و حرمت کے حوالے سے جو شریعت نے حرام ٹھہرائی ہیں،وہ چار ہیں۔ مردار ، بہتا ہوا خون ، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر کیا جانے والا ذبیحہ۔یہ چیزیں تو شریعت کی طرف سے حرام کی گئی ہیں۔ اِس کے علاوہ کچھ چیزیں فطری طور پر کھانے والی نہیں ہیں۔ مثلاً بول و براز، درندے وغیرہ۔احادیث میں بعض مواقع پر اِسی فطرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خرگوش کو اِسی فطری حلت و حرمت کے حوالے سے حلال چیزوں میں شمار کیا گیا ہے اور بندر کو حرام چیزوں میں۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اللہ تعالی نے جو جانور پیدا کیے ہیں ان میں کچھ جانوردرندے کہلاتے ہیں جیسے شیر اور چیتا وغیرہ اور انسان کی فطر ت یہ ہے کہ انسان انہیں نہیں کھاتا۔یہ درندے گوشت خور ہیں۔ بعض جانور ایسے ہیں جنہیں انسان کھاتا ہے مثلاً بکری گا ئے وغیرہ یہ جانور سبزی خور ہیں۔ چنانچہ جو جانور انسان کے کھانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں وہ سبزی خور جانورہیں ۔گوشت خور جانور انسان کے کھانے کے لیے نہیں۔سور واحد جانور ہے جو بکری کی Specie (نسل) سے ہے ۔ لیکن گوشت کھاتا ہے اور سبزی بھی اس وجہ سے ا س کا معاملہ مشتبہ تھا کہ آیا یہ کھانے کا ہو گا یا نہیں۔یعنی اسے درندہ قرار دیا جائے کہ نہیں۔ اللہ نے اس کا فیصلہ کر دیا کہ یہ درندوں میں شمار ہو گا اس لیے اس کا کھانا ممنوع ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب:جس چیز کا نقصان دہ ہونا ثابت ہو جائے تو اسے کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا ترجمہ: اپنی جانوں کو قتل مت کرو؛ یقیناً اللہ تعالی تم پر نہایت مہربان ہے۔النساء: 29ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچاؤ اور نہ ہی کسی دوسرے کو نقصان پہنچاؤ) اس حدیث کو احمد، اور ابن ماجہ: (2341) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔جب یہ بات ثابت ہو کہ کوئی بھی کھانے یا پینے کی چیز جسم کو یقینی طور پر نقصان پہنچاتی ہے تو اسے کھانا یا پینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر محض گمان یا بے دلیل دعویٰ ہی ہو تو پھر اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔کھانے پینے کی چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعاً۔ ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز بنائی ہے۔]البقرۃ:29[
اس لیے کسی بھی چیز کے بارے میں حرام ہونے کا موقف صحیح اور واضح دلیل کے بغیر نہیں اپنایا جا سکتا، چنانچہ محض گمان یا شبہات سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔پھر اگر یہ بات ثابت ہو کہ ان مشروبات کی زیادہ مقدار جسم کو نقصان پہنچاتی ہے، اور اسی نقصان کی وجہ سے اس پر حرام ہونے کا حکم لگے تو پھر اس کی وہی مقدار حرام ہو گی جو نقصان دہ ہو، چنانچہ ان مشروبات کی قلیل مقدار حرام نہیں ہو گی، اہل علم یہ اصول ذکر کرتے ہیں کہ: ''جس چیز کی کثیر مقدار نقصان دہ ہو تو اس کی قلیل مقدار حلال ہوتی ہے۔''
اگر کوئی شخص ذاتی احتیاط کے طور پر ان مشروبات کو نہیں پینا چاہتا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کے لیے ان مشروبات کو واضح دلیل کی صورت میں ہی حرام کہنا ممکن ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)