شادی شدہ زندگی

زید کی شادی ۲۷،۲۸ سال پہلے ہوئی تھی۔ زوجین نے پرمسرت ازدواجی زندگی گزاری۔ ان کے درمیان کسی طرح کی ناچاقی نہیں تھی۔ اس عرصے میں ان کی پانچ اولادیں ہوئیں، جو بحمد اللہ اب جوان ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹی کی شادی بھی ہوچکی ہے۔ زید کی بیوی نے گزشتہ دس سال سے اس کے کمرے میں سونا چھوڑدیا ہے۔ وہ اپنے جوان بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی ہے اور شوہر دوسرے کمرے میں اکیلاسوتاہے۔ زید اسے باربار  اس کا فرض یاد دلاتاہے اور اسے اپنے کمرے میں سُلانا چاہتا ہے۔مگر وہ کہہ دیتی ہے کہ بچے اب بڑے ہوگئے ہیں۔ وہ کیا سوچیں گے؟ زید عمر کے اس مرحلے میں پہنچ چکاہے، جہاں وہ چاہتاہے کہ اس کی بیوی زیادہ اوقات اس کے ساتھ رہے۔ شادی صرف جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تو نہیں کی جاتی۔ اس کی بیوی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے، لیکن عملاً وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے سے غفلت برتتی اور جوان اولاد کی دیکھ بھال کو ترجیح دیتی ہے۔ اب وہ صرف اپنے بچوں کی ماں بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں درج ذیل اُمورجواب طلب ہیں:
۱۔ کیا زید اور اس کی بیوی کے درمیان زن و شوہر کی حیثیت باقی ہے؟ یا ختم ہوگئی ہے؟
۲۔ بیوی کا رویّہ کہیں شوہر سے خلع حاصل کرنے کے زمرے میں تو نہیں آتا؟
۳۔ کیا دونوں ایک مکان میں رہ سکتے ہیںاور بلاکراہت ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں؟

بچوں کی عمر کے کس مرحلے میں ان کے ساتھ کیسامعاملہ کیاجائے؟ قرآن وحدیث میں اس کے اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انھیں الگ سلایاجائے (مسند احمد، ۲/۱۸۰)اس سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ ان کے بستر ماں باپ کے بستر سے بھی الگ ہونے چاہییں   سورۃ نورمیں، جہاں حجاب سے متعلق مختلف احکام دیے گئے ہیں، وہیں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ قریب البلوغ بچوں کو مخصوص اوقات میں ماں باپ کے کمروں میں بغیر اجازت لیے نہیں داخل ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمھارے لونڈی غلام اور تمھارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں، صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب کہ تم کپڑے اتارکر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں‘‘۔(النور ۵۸)
آگے بالغ بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کاحکم دیاگیا ہے:
’’اور جب تمھارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں‘‘۔(النور ۵۹)
ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ بچے جب بڑے ہوجائیں تو پردے کے احکام ان سے بھی اسی طرح متعلق ہوجاتے ہیں جس طرح بڑوں سے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف متعدد ایسی آیات اور احادیث ہیں، جن سے زوجین کے ایک کمرے میں رات گزارنے کااشارہ ملتاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:’’اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کااندیشہ ہو انھیں سمجھائو، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو‘‘۔(النسا ۳۴)’’مضاجع‘‘کاترجمہ بستر بھی کیاگیا ہے اور خواب گاہ بھی۔ اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے:
وَلَاتَھْجُرْاِلّافِی الْبَیْتِ ابوداود: ۲۱۴۲’’اور بیوی سے مت علیحدگی اختیارکرو، مگر خواب گاہ میں‘‘۔
بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں اس کی تادیب و اصلاح کے لیے بستر میں، یاخواب گاہ میں اس سے علیحدہ رہنے کو کہاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں زوجین کا ساتھ رہنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔
اوپر کے خط میں سائل نے بیوی کے جس رویّے کی شکایت کی ہے، اس کا تعلق نام نہاد مشرقی تہذیب سے ہے۔ عموماً جب بچّے کچھ بڑے اور باشعور ہوجاتے ہیں تو عورتیں ان کی موجودگی میں اپنے شوہروں کے کمروں میں رہنے سے شرماتی اور اسے ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے بجائے بچوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ اس عمل کو اجنبی اور غیراخلاقی نہ سمجھیں۔ ویسے بھی ازدواجی تعلق صرف جنسی عمل کا نام نہیں ہے۔ بہت سے معاملات و مسائل روزمرّہ کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں، جن پر بچوں کی غیرموجودگی میں زوجین کا تنہائی میں گفتگو کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ بیوی کے فرائض میں سے ہے کہ وہ شوہر کو گھر میں سکون فراہم کرے اور جائز امور میں اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اللہ کے رسولﷺسے کسی نے دریافت کیاکہ سب سے اچھی عورت کون ہے؟ فرمایا:
’’وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہے، شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے‘‘۔
اس معاملے میں زوجین کو افراط و تفریط سے بچناچاہیے نہ انھیں اپنے باشعور بچوں کے سامنے کھلے عام ایسی ’حرکتیں‘ کرنی چاہییں، جن کا شمار بے حیائی میں ہوتا ہو اور نہ ایک دوسرے سے بے تعلق ہوجانا چاہیے کہ دوسرا فریق اسے اپنی حق تلفی شمار کرنے لگے۔ رہیں وہ باتیں، جن کاتذکرہ خط کے آخر میں کیاگیا ہے، وہ جاہلانہ باتیں ہیں۔ بیوی کے کچھ عرصہ شوہر سے الگ دوسرے کمرے میں رہنے سے نہ تو ازدواجی حیثیت ختم ہوجاتی ہے نہ یہ عمل خلع حاصل کرنے کے زمرے میں ٓتاہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے چاہییں اور ان کی ادائیگی کے لیے شرحِ صدر کے ساتھ خود کوآمادہ کرنا چاہیے۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ادْعُوہُمْ لِآبَاءِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاء ہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ ۔۔۔۔۔ 
تم اْن (مْنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔(الاحزاب، 33: 5)
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اْن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (بخاری، الصحیح، 3: 1292، رقم: 3317، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامۃ)
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘
بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6385
مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 63
باپ دادا سے منہ پھیرنے والے کا حکم:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا ؤ اجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔(بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6386مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 62)
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(ابن ماجہ، السنن، 2: 870، رقم: 2609، بیروت: دار الفکر)
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، دمشقی، کوفی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشندی، چشتی، سہروردی، شازلی، سلفی دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا اِمْرَأَۃَ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃَ لُوطٍ۔۔۔۔
اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت (واعلہ) اور لوط (علیہ السلام) کی عورت (واہلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے۔( التحریم، 66: 10)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا اِمْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ ۔۔۔۔اور اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجہِ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔بخاری، الصحیح، 2: 531، رقم: 1393
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔بخاری، الصحیح، 5: 1950، رقم: 4780
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اْن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ 
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئے بغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔


 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جواب :ساس اور سسر مثل والد والدہ کے ہیں ان کا اسی طرح احترام کرنا چاہئے۔ ساس اور داماد میں پردہ نہیں ہے البتہ اگر ساس جوان ہو اور فتنہ کا اندیشہ ہو تو داماد کو خلوت میں ساس کے ساتھ رہنا نہیں چاہئے ۔

(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )

جواب : آپ نے میاں بیوی میں موافقت کے لیے کوئی سورہ پڑھنے کے لیے پوچھا ہے۔

عرض یہ ہے کہ قرآن مجید سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ہر مسئلے کے لیے صحیح تدبیر کرو اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ سے دعا کرو۔ بس یہ دونکاتی فارمولا ہے جس پر ہر مسلمان کو عمل کرنا ہے۔ اس معاملے میں صحیح تدبیر یہ ہے کہ ہر فریق یعنی میاں بھی اور بیوی بھی اپنی غلطی یا اپنی خامی کا صحیح تعین کریں۔ دونوں یہ طے کریں کہ جو چیز دوسرے کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ دونوں ایک دوسرے پر ایسا بوجھ نہ ڈالیں جو دوسرا آسانی سے اٹھا نہیں سکتا۔ وغیرہ ۔اس کے بعد وہ اللہ تعالی سے خلوص دل سے دعا کریں کہ وہ انھیں صحیح بات کو سمجھنے اور اس کو اپنانے کی ہمت دے اور غلط بات کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی صلاحیت دے۔ وہ دعا کریں کہ اللہ ان کے بیچ محبت کو بڑھائے اور ان کے معاملات کو درست کر دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی اعلی دعا سکھائی ہے۔ ‘‘اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑ دے۔ ہمارے بیچ کے معاملات کو درست کردے۔ ہمیں سلامتی کے راستوں پر چلا۔ ہمیں تاریکیوں سے نجات دے کر روشنیوں میں لے جا۔ ہمیں کھلی چھپی بے حیائی سے محفوظ رکھ۔ اے اللہ ہماری حفاظت فرما: ہماری سماعتوں میں، ہماری بصارتوں میں اور ہمارے ازواج میں۔ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا کہ ہم ان پر تیرے ثنا خواں رہیں اور ان نعمتوں کو ہم پر پورا کر۔’’   

(مولانا طالب محسن)

سوال: زید کی شادی ۲۷، ۲۸ سال پہلے ہوئی تھی۔ زوجین نے پرمسرت ازدواجی زندگی گزاری۔ ان کے درمیان کسی طرح کی ناچاقی یا ناخوش گواری نہیں تھی۔ اس عرصے میں ان کی پانچ اولادیں ہوئیں، جو بحمد اللہ اب جوان ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی بیٹی کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ زید کی بیوی نے گزشتہ دس سال سے اس کے کمرے میں سونا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنے جوان بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی ہے اور شوہر دوسرے کمرے میں اکیلا سوتا ہے۔ زید اسے بار بار اللہ اور رسولؐ کا واسطہ دے کر اس کا فرض منصبی یاد دلاتا ہے اور اسے اپنے کمرے میں سلانا چاہتا ہے۔ مگر وہ کہہ دیتی ہے کہ بچے اب بڑے ہو گئے ہیں۔ وہ کیا سوچیں گے؟ پھر انھیں اکیلے الگ کمرے میں رکھنا مناسب نہیں۔ ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ زید عمر کے اس مرحلے میں پہنچ چکا ہے، جہاں وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی زیادہ اوقات اس کے ساتھ رہے۔ شادی صرف جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تو نہیں کی جاتی۔ اس کی بیوی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے، لیکن عملاً وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے سے غفلت برتتی اور جوان اولاد کی دیکھ بھال کو ترجیح دیتی ہے۔ اب وہ صرف اپنے بچوں کی ماں بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں درج ذیل امور جواب طلب ہیں:

۱۔ کیا زید اور اس کی بیوی کے درمیان زن و شوہر کی حیثیت باقی ہے؟ یا ختم ہو گئی ہے؟

۲۔ بیوی کا رویہ کہیں شوہر سے خلع حاصل کرنے کے زمرے میں تو نہیں آتا؟

۳۔ کیا دونوں ایک مکان میں رہ سکتے ہیں اور بلاکراہت ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ ازدواجی تعلقات کا مطلب ہی یہ ہے کہ عام حالات میں بیوی ہمیشہ رات اپنے شوہر کے ساتھ گزارے۔ الاّ یہ کہ کوئی شرعی مجبوری آڑے آ گئی ہو۔

جواب: مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں، لیکن نکاح کے دو بول کہتے ہی ان کے درمیان انتہائی قریبی تعلق استوار ہو جاتا ہے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یک جان دو قالب بن جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے:لم نر للمتاحبین مثل النکاح. (ابن ماجہ: ۱۸۴۷)‘‘نکاح کے ذریعے زوجین میں جیسی محبت پیدا ہو جاتی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ دو افراد کے درمیان ویسی محبت کسی اور ذریعے سے پیدا ہوتی ہو۔’’

ازدواجی زندگی کا ثمرہ جب بچے کی ولادت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو عورت کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ اس کی محبت کا ایک اور حق دار وجود میں آ جاتا ہے۔ پہلے وہ اپنی تمام تر محبتیں اپنے شوہر پر نچھاور کرتی تھی اور اس کے تمام اوقات اور پوری توجہات اپنے شوہر کے لیے وقف تھیں، اب اس کا بچہ بھی اس کی نگاہ التفات کو اپنی طرف منعطف کر لیتا ہے اور اس کا خاصا وقت اس کی پرورش و پرداخت میں صرف ہونے لگتا ہے۔ بچہ اور بڑا ہوتا ہے تو ماں باپ دونوں مل کر اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر دھیان دیتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ بچوں کی عمر کے کس مرحلے میں ان کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے؟ قرآن و حدیث میں اس کے اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انھیں الگ سلایا جائے۔ (مسند احمد ۲/ ۱۸۰) اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بستر ماں باپ کے بستر سے بھی الگ ہونے چاہییں۔ سورۂ نور میں، جہاں حجاب سے متعلق مختلف احکام دیے گئے ہیں، وہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قریب البلوغ بچوں کو مخصوص اوقات میں ماں باپ کے کمروں میں بغیر اجازت لیے نہیں داخل ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:‘‘اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمھارے لونڈی غلام اور تمھارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں۔ صبح کی نمازسے پہلے اور دوپہر کو جب کہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں۔’’(النور: ۵۸)

آگے بالغ بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے: ‘‘ اور جب تمھارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں۔’’(النور: ۵۹)

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے جب بڑے ہو جائیں تو پردے کے احکام ان سے بھی اسی طرح متعلق ہو جاتے ہیں جس طرح بڑوں سے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف متعدد ایسی آیات اور احادیث ہیں، جن سے زوجین کے ایک کمرے میں رات گزارنے کا اشارہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِع. (النساء: ۳۴)

‘‘اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو۔’’

‘مضاجع’ کا ترجمہ بستر بھی کیا گیا ہے اور خواب گاہ بھی۔ اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے: ولا تہجر الا فی البیت. (ابو داؤد: ۲۱۴۲)

‘‘اور (بیوی سے) مت علیحدگی اختیار کرو مگر خواب گاہ میں۔’’

بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں اس کی تادیب و اصلاح کے لیے بستر میں، یا خواب گاہ میں اس سے علیحدہ رہنے کو کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں زوجین کا ساتھ رہنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔

اوپر کے خط میں سائل نے بیوی کے جس رویے کی شکایت کی ہے، اس کا تعلق نام نہاد مشرقی تہذیب سے ہے۔ عموماً بچے کچھ بڑے اور باشعور ہو جاتے ہیں تو عورتیں ان کی موجودگی میں اپنے شوہروں کے کمروں میں رہنے سے شرماتی اور اسے ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے بجائے بچوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ اس عمل کو اجنبی اور غیر اخلاقی نہ سمجھیں۔ ویسے بھی ازدواجی تعلق صرف جنسی عمل کا نام نہیں ہے۔ بہت سے معاملات و مسائل روز مرہ کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں، جن پر بچوں کی غیر موجودگی میں زوجین کا تنہائی میں گفتگو کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ بیوی کے فرائض میں سے ہے کہ وہ شوہر کو گھر میں سکون فراہم کرے اور جائز امور میں اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اللہ کے رسولؐ سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے اچھی عورت کون ہے؟ فرمایا: التی تسرہ اذا نظر وتطیعہ اذا امر ولا تخالفہ فی نفسہا ولا مالہا بما بکرہ.

‘‘وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہو جائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں، اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہے شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے۔’’

اس معاملے میں زوجین کو افراط و تفریط سے بچنا چاہیے۔ نہ انھیں اپنے باشعور بچوں کے سامنے کھلے عام ایسی ‘حرکتیں’ کرنی چاہییں، جن کا شمار بے حیائی میں ہوتا ہو اور نہ ایک دوسرے سے بے تعلق ہو جانا چاہیے کہ دوسرا فریق اسے اپنی حق تلفی شمار کرنے لگے۔ رہیں وہ باتیں، جن کا تذکرہ خط کے آخر میں کیا گیا ہے، وہ جاہلانہ باتیں ہیں۔ بیوی کے کچھ عرصہ شوہر سے الگ دوسرے کمرے میں رہنے سے نہ تو ازدواجی حیثیت ختم ہو جاتی ہے نہ یہ عمل خلع حاصل کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے چاہییں اور ان کی ادائیگی کے لیے شرح صدر کے ساتھ خود کو آمادہ کرنا چاہیے۔

()

سوال: کتاب و سنت کی روشنی میں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کیا راہنمائی کرتے ہیں کہ ایک آدمی اولادِ نرینہ کی خاطر دوسری شادی کی خواہش کرتا ہے اور وہ دوسری شادی کے لیے اپنی پہلی بیوی کو بارہا منانے کی کوشش کرتا ہے اور نکاحِ ثانی سے پہلے زبانی کلامی طور پر ہر چیز اپنی پہلی بیوی کو دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور غیر مشروط طور پر ایک عدد مکان ایک کنال پر محیط، دس لاکھ روپے اور لے پالک بچے کے نام دو عدد پلاٹ پانچ پانچ مرلے اور اپنے کاروبار میں سے صوبہ سرحد کا ٹور جس کی رقم یا آمدنی کا پانچ فی صد ہر ماہ دیا کرے گاپہلی بیوی اس کی دوسری شادی پر کسی طرح بھی راضی نہ ہوئی۔ پھر اس آدمی نے پہلی بیوی کو بتائے بغیر کچھ دن بعد نکاح کر لیا۔ تو پہلی بیوی انتہائی پریشان ہوئی اور اپنے شوہر کو کیے ہوئے وعدے یاد دلانے لگی۔ بیوی کے وعدہ یاد دلانے پر شوہر نے کہا کہ تم کس چیز سے پریشان ہوتی ہو، میں آج بھی اپنے وعدے پر قائم ہوں اور ہر چیز ہبہ کرتا ہوں اشٹام پیپر لاؤ میں اس پر تحریر کر دیتا ہوں۔ چوں کہ رات کا وقت تھا، اشٹام پیپر موجود نہ تھا اس لیے ایک ڈائری پر یہ سب کچھ تحریر کر دیا گیا اور پانچ لاکھ نقد بھی ادا کردیا، کچھ عرصہ بعد اس میں سے پچاس ہزار روپیہ اس شرط پر لیا کہ اب وقتی طور پر میرے پاس مکان کے کاغذات بنوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، میں بعد میں یہ پیسے ادا کر دوں گا۔ 22-G سبزہ زار والا مکان پہلی بیوی کے نام لگوانے کے لیے کام شروع کردیا گیا۔ مختار نامہ عام بنوا لیا گیا، اسے بعد میں delayکر دیا گیا، اور سرحد ٹور کے پیسے حسب وعدہ ادا کیے جانے لگے۔ پہلے مہینوں میں دس ہزار ، سات ہزار،چھ ہزار ادا کرتے رہے پھر تقریباً ایک سال سے پیسے سات ہزار فکس کر دیے گئے۔ اب چھ ماہ سے وہ رقم بھی ادا نہیں کی۔پہلی بیوی کا جیب خرچ چار ہزار روپے مقرر تھا دوسری کے آنے پر اس کی رضا مندی سے پوچھنے کے بعد دو ہزار اس کا مقرر ہوا۔ اس مختصر سی توضیح کے بعد چند امور وضاحت طلب ہیں۔

سوال: کیا مذکورہ شخص اپنی پہلی بیوی سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کا پابند ہے یا کہ دوسری بیوی کو بھی اتنی ہی مالیت کی اشیا لے کر دے پھر برابری اور مساوات شروع کرے؟

جواب: پہلی بیوی سے کیے گئے وعدے کی پابندی ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے: واَوْفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا۔( بنی اسرائیل: ۳۴) ‘‘اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی۔’’

دوسری بیوی کو اتنی مالیت کی اشیا لے کر دینا اور دیگر مذکورہ مالی فوائد پہنچانا ضروری نہیں کیوں کہ پہلی بیوی سے وعدے دوسری کی آمد سے پہلے کے ہیں اس لیے ان کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم دوسری سے نکاح کے بعد دونوں میں مساوات ضروری ہے۔ پہلی بیوی کو پہلے جو کچھ مل چکا ہے، وہ اسی کا استحقاق ہے، دوسری کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ اور بعد میں جو چیز بھی خریدی جائے گی اس میں دونوں بحصہ برابر شریک ہوں گی۔ اگرچہ پہلی کے پاس وہ شے موجود ہو، رضامندی سے دونوں میں رقم بھی تقسیم ہوسکتی ہے یا کوئی ایک اتنی قیمت لینا چاہے تو لے سکتی ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
 اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا  کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر عزت و احترام عطا کیا ہے اور جتنا عدل وانصاف کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام حیثیتوں میں اس کے مکمل حقوق عطا کیے ہیں خواہ اس کے یہ حقوق ماں کی حیثیت سے ہوں بیوی کی حیثیت سے ہوں بہن کی حیثیت سے ہوں بیٹی کی حیثیت سے ہوں یا ایک انسان کی حیثیت سے ہوں اسلام نے ان تمام جاہلی رسم ورواج کو یکلخت کالعدم قراردیا جن کی بنیاد پر عورتوں پر ظلم ہوتا تھا۔قرآن مجید میں مرد و عورت کے تعلقات کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہایت بلیغ تعبیر استعمال کی ہے:﴿هُنَّ لِباسٌ لَّكُم وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرۃ: 187)”وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو ایک دوسرے کے لیے لباس قراردیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ سب کچھ ہیں جو لباس کی خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً پردہ پوشی ذریعہ زینت و زیبائش سردی و گرمی سے حفاظت اور باعث عزت ووقاراللہ کے فرمان کے مطابق مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لباس کاکام دینا چاہیے۔۔“
 اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو جنت میں انھیں اکیلا و تنہا نہیں چھوڑدیا بلکہ ان کے سکون وآرام کے لیے اور ان کی تنہائیوں کو دور کرنے کے لیے ایک عورت یعنی حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اس بات سے اسلام کا یہ موقف واضح ہو جاتا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے ”فریق مخالف“ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ دونوں مل جل کر ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتے ہیں۔ اسی مفہوم میں اللہ کا یہ فرمان ہے بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ (تم ایک دوسرے کا حصہ ہو) تم دونوں کے درمیان تعاون اور اتحاد کا جذبہ ہونا چاہیے نہ کہ نفرت دشمنی اور ایک دوسرے کی مخالفت کا۔
اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ نارواسلوک کرنا‘ انھیں ڈانٹنا مارنا اور گالم گلوچ کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو جانوروں کو گالی دینے سے منع کرتا ہے کجا کہ انسانوں کو گالی دی جائے اور وہ بھی اپنی شریک حیات کو، حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی کو گالی دی اور اسے لعن طعن کیا۔ نبی نے اس عورت کو سخت تنبیہ کی اور اس غلطی کی پاداش میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ اس عورت کی اونٹنی لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو تاکہ کوئی اسے استعمال نہ کرے۔ غور کریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانور کو گالی دینے اور لعن طعن کرنے سے سخت منع فرمایا ہے تو اپنی شریک حیات کو لعن طعن کرنا گالی دینا اور اس سے بھی بڑھ کر اسے مارنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ یہ باتیں سراسر قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ قرآن نے صرف ایک صورت میں عورت کو مارنے کی اجازت دی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے بغاوت پر اتر آئے ۔ ایسی صورت میں بھی پہلی فرصت میں مارنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پہلے بیوی کو نصیحت کی جائے۔ نصیحت سے نہ مانے تو حکم ہے کہ اس کا بستر الگ کردیا جائے اور اس پر بھی نہ مانے تو اسے مارنے اور اس پر سختی کرنے کی اجازت دی گئی ہے-
اس آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ اطاعت گزار اور فرماں بردار بیوی کو ستانے اور پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جائیں جو حضرات خواہ مخواہ اپنی نیک بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں اور انھیں تنگ کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہزار بار غور کریں۔
مذکورہ صورت حال میں مارنے کی اجازت کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولن یضرب خیارکم (شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتےہیں) شرفاء اپنی بیویوں کو مارنے کی بجائے پیار محبت اور نرمی سے سمجھاتے ہیں اور اس کی بہترین مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ ہے،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بارے میں فرماتے ہیں:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔ (ترمذی)
”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیویوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا علم رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہاتھ نہیں اٹھایا  کسی شریف انسان کویہ زیب نہیں دیتا کہ اس کی ماتحت رہنے والوں کو مارے پیٹے اور ان کے ساتھ براسلوک کرے -کوئی مرد یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ رات میں اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرے اور دن میں اسے مار پیٹ اور گالم گلوچ کے ذریعے اذیت پہنچائے۔ یہ کام تو کوئی رذیل اور بد اخلاق شخص ہی کر سکتا ہے۔ جبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شرفاء اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ہیں گویا اپنی بیوی کو مارنے والے لوگ رذیل ہوتے ہیں البتہ اگر کبھی انتہائی غصے کی حالت میں یا غلطی سے کسی مرد نے اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھادیا یا گالم گلوچ کیا تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کومنانے اور خوش کرنے کی کوشش کرے۔
یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن پر عمل کر کے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو شوہر اور بیوی کے ساتھ ساتھ بچوں کا مستقبل بھی تباہ ہو جاتا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)