تلاوت

یہ ایک غلط بات مشہور ہو چکی ہے کہ زوال کے وقت عبادت جائز ہے یا ناجائز۔ اصل میں 24 گھنٹوں میں تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنا اور سجدہ تلاوت جائز نہیں ہے۔ وہ اوقات درج ذیل ہیں:
1۔ طلوع آفتاب یعنی سورج نکلنے کا وقت۔
2۔ وقت استواء۔ جب سورج بالکل درمیان میں ہوتا ہے۔
3۔ غروب آفتاب ۔جب سورج غروب ہوتا ہے۔
زوال کا وقت تو وقت استواء کے بعد شروع ہوتا ہے یعنی جب سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے۔ معلوم ہوا زوال کے وقت نماز اور سجدہ تلاوت جائز ہے۔ ممنوعہ اوقات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ باقی رہا تلاوت قرآن اور دیگر تسبیحات ہر وقت جائز ہیں۔ ان کے لیے کوئی ممنوع وقت نہیں ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جواب : دیگر زبانوں کی طرح عربی میں بھی بہت سے الفاظ بہ طور مترادف مستعمل ہیں۔ ایسے متعددالفاظ کا استعمال قرآن کریم میں بھی ملتا ہے۔ علماء لغت نے ایک بحث یہ کی ہے کہ جن الفاظ کو مترادف سمجھا جاتا ہے ، ان کے درمیان بھی کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے۔ دو مترادف سمجھے جانے والے الفاظ سوفی صد ایک معنی میں نہیں ہوسکتے۔ ’فروق لغویہ‘ کے موضوع پر عربی زبان میں متعدد کتابیں پائی جاتی ہیں۔ اردو زبان میں اس موضوع پر ایک اچھی کتاب ’مترادفات القرآن‘ کے نام سے ہے، جو مولانا عبدالرحمن کیلانی کی تالیف ہے اوراس کی اشاعت ۲۰۰۹ میں مکتبہ دارالسلام لاہور سے ہوئی ہے۔اس کتاب سے متعلقہ بحث کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتاہے:
۱۔ قلب : مشہور عضو۔ روح وحیات کا منبع (جمع قلوب)۔ عقل ، فہم ، سوچ، فکرکے لیے اللہ تعالیٰ نے دل کومخاطب بنایا ہے۔ یعنی جوافعال جدید طب نے دماغ سے متعلق بتلائے ہیں ، قرآن نے دل سے متعلق کیے ہیں۔ ارشاد باری ہے :
لَہْم قْلْوب لَّا یَفقَہْونَ بِہَا (الاعراف: ۷۹ا)
’’ ان کے دل تو ہیں، لیکن وہ ان سے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔‘‘
۲۔فواد:بعض علماء نے کہا ہے کہ جو فرق ’عین‘ اور’بصر‘ یا ’اْذن ‘ اور’سمع‘ میں ہے ، وہی فرق ’قلب‘ اور ’فواد‘ میں ہے۔ اس کی دلیل میںیہ آیت پیش کی جاتی ہے:
’’بے شک کان، آنکھ اوردل، ان سب (جوارح)سے ضرور باز پرس ہوگی۔‘‘(الاسراء :۳۶)
لیکن یہ صحیح نہیں۔۔۔.فواد (جمع افئدۃ) فاد سے مشتق ہے ۔۔۔.یہ لفظ گرمی اورشدیدحرارت پردلالت کر تاہے۔ لہٰذا جہاں انسان کے جذ با ت کی شدت اور اس کی تاثیر کا ذکر آئے گا وہاں اس لفظ کا استعمال ہوگا۔ مثلاً:
وَاَصبَحَ فْوادْ اْمِّ مْوسی فٰرِغًا(القصص:۰ا)
’’اور موسیٰ کی ماں کا دل خالی ہوگیا (یعنی اس میں قرار نہ رہا)‘‘
’’سر اْٹھائے دوڑتے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں (بھی) ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی اور دل(دہشت کے مارے)اْڑرہے ہوں گے۔‘‘(ابراہیم:۴۳)
اللہ تعالیٰ نے فواد سے جس باز پر س کا ذکر فرمایا ہے وہ ایسے ہی اعمال سے متعلق ہوگی جوشدتِ جذبات کے تحت انسان کربیٹھتا ہے۔
۳۔ صدر: بہ معنی سینہ(جمع صدور) اورسینہ کے اند رہی دل ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
وَلِٰن تَعمَ القْلْوبْ الَّتیِ فِی الصّْدْورِ (الحج: ۴۶)
’’لیکن وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘
لہٰذا کبھی صرف’ صدور‘ کہہ کر قلوب مراد لیے جاتے ہیں ، جیسے شِفَاء لِّمَا فِی الصّْدْورِ (یونس:۵۷) اب چوں کہ صدر کا تعلق ظرف مکان سے ہے ، لہٰذا اگردل کی تنگی یا فراخی کاذکر مطلوب ہوتو صدور کا لفظ آئے گا۔ مثلاً:’’ اورہم جانتے ہیں کہ ان کی باتوں سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے۔‘‘ (الحجر:۹۷)
اَلَم نَشرَح لََ صَدرَک (الانشراح:۱)
’’ کیا ہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا۔‘‘
پھرکسی چیز کو چھپانے کے لیے بھی چوں کہ ظرف کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا راز کی بات کے چھپانے، خیالات اوروسواس کے ذکر میں بھی صدر کا استعمال ہوگا۔مثلاً:
’’وہ آنکھوں کی خیانت کوبھی جانتا ہے اورجو باتیں دلوں میں ہیں ان کوبھی جانتا ہے۔‘‘(المومن ۹ا)
الَّذی یْوَسوِسْ فِی اصْدْورِ النَّاسِ (الناس:۵)’’وہ( شیطان ) لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔‘‘
۴۔ اس معنیٰ میں قرآن میں ایک اورلفظ کا بھی استعمال ہوا ہے اوروہ ہے نفس (جمع نفوس)۔ اس سے خواہشات کا مبدا اورآرزو کرنے اورخوش ہوجانے والا دل مراد ہوتا ہے۔ جہاں تک پوشیدہ باتوں اور خیالات وغیرہ کو چھپانے کا تعلق ہے ، یہ صفت نفوس اورصدور میں مشترک ہے۔ ارشاد باری ہے :
’’اورتم اپنے دل میں وہ چیز چھپاتے تھے جسے اللہ ظاہر کرنیوالا تھا۔‘‘(احزاب ۳۷)
خواہشات کا تعلق نفس سے ہوتا ہے ، خواہ وہ اچھی ہوں یا بری۔ ارشاد باری ہے :
’’ یہ لوگ محض ظن (فاسد) اورخواہشاتِ نفس کے پیچھے چل رہے ہیں۔‘‘(النجم۲۳)
خوش ہونے کا تعلق بھی نفس سے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے :
’’پھر اگروہ عورتیں اپنے دل کی خوشی سے اس( یعنی اپنے مہر) میں سے تم کچھ چھوڑدیں تواسے شوق سے کھاؤ ۔‘‘(النسا:۴)
اس تفصیل سے ’دل‘ کے لیے قرآن میں مستعمل الفاظ (قلب، فواد، صدر اور نفس ) کے درمیان فرق کی کچھ وضاحت ہوجاتی ہے۔
تحریکی سرگرمیاں شوہر کی اجازت

(ابو یحییٰ)

ج ۔حائضہ عورت قرآن کریم کی زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ حائضہ کی تلاوتِ قرآن کریم کی ممانعت پر بعض روایات تو موجود ہیں لیکن وہ تمام روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان میں حرمت کا واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔

ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:

 " حائضہ عورت اور جنبی شخص قرآن میں سے کچھ بھی نہ پڑھے " سنن ترمذی حدیث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنی ( 1 / 117 ) سنن البیھقی ( 1 / 89 ).

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ یہ اسماعیل بن عیاش حجازیوں سے روایت کرتے ہیں، اور اس کا حجازیوں سے روایت کرنا ضعیف ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کا علم رکھنے والوں کے ہاں بالاتفاق یہ حدیث ضعیف ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

حائضہ عورت کی تلاوت کی ممانعت میں کوئی صریح اور صحیح نص نہیں ملتی۔ اور ان کا کہنا ہے: کہ یہ تو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی عورتوں کو حیض آتا تھا، لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن کی تلاوت سے منع نہیں کیا، جس طرح کہ انہیں ذکر و اذکار اور دعاء سے منع نہیں فرمایا۔

فلہٰذا حائضہ عورت زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ جہاں تک قرآن کو دیکھ کر پڑھنے کا تعلق ہے تو راجح قول کے مطابق حائضہ عورت قرآن کو دیکھ کر پڑھ تو سکتی ہے لیکن وہ قرآن مجید کو چھونے سے گریز کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے:لا یمسہ الا المطہرون‘‘ اسے پاکبازوں کے علاوہ اور کوئی نہیں چھوتا‘‘۔

(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))

ج۔ 1- امام کی دعا کے دوران وظیفہ پڑھنا جائز ہے۔

2- جس جگہ قرآن کریم کی تلاوت باآواز بلند کی جارہی ہو تو اس تلاوت کا سننا واجب ہے، اس لیے جہاں ایک سے زیادہ لوگ تلاوت کررہے ہوں تو سب کو آہستہ آواز میں تلاوت کرنی چاہیے، تاکہ قرآن کریم کی تلاوت سننے کے واجب حکم میں خلل نہ آئے اور یا پھر جو بلند آواز سے تلاوت کررہا ہو اس کی تلاوت سنی جائے اور اپنی موقوف کردی جائے یہ بہتر ہے اگرچہ اپنی تلاوت جاری رکھنا بھی جائز ہے۔

(دارالعلوم بنوری ٹاؤن)

جواب: قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے یا سنتے ہوئے سجدے میں گر پڑنا اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جو بندہ مومن پر وفور شکر یا وفور خوف کی وجہ سے طاری ہوتی ہے۔ مسجدوں سے تلاوت کی آوازوں سے اس کیفیت کے پیدا ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے سورہ یاسین کی آیت 14 کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اس میں تین رسولوں سے کون مراد ہیں۔

اس حوالے سے دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا دعوتی کام مراد ہے۔ یہ بستی شام کی ایک بستی انطاکیہ ہے۔ لیکن جس طرح قرآن میں بات بیان ہوئی ہے اس سے حواری مراد لینا محل نظر ہے۔

دوسری رائے یہ کہ پہلے دو سے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام مراد ہیں اور تیسرے سے وہ ہستی مراد ہے جو فرعون کے دربار میں تھا اور کئی موقعوں پر اس نے ان دونوں رسولوں کا ساتھ دیا۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کی جتنی داستانیں ہیں ان میں سے بیک وقت دو پیغمبروں کی طرف بعثت کا واقعہ صرف ایک ہی ہے۔ اس لیے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اس آیات میں مصر کی طرف اشارہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : قبر کے پاس تلاوتِ قرآن کریم کے مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ مالکیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ سلف سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ البتہ متاخرین مالکیہ نے اس کی اجازت دی ہے۔

احناف، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ قبر کے پاس قراتِ قرآن مکروہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے انتقال کے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین کے بعد قبر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی جائے۔مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین نے شرح اللباب کے حوالے سے لکھا ہے:

‘‘آدمی کو قبر کے پاس سورہ فاتحہ، سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات المفلحون تک آیت الکرسی، سورہ بقرہ کی آخری آیات آمن الرسول تا ختم سورہ سورہ یٰس ، سورہ ملک، سورہ تکاثر اور سورہ اخلاص تین، سات، گیارہ یا بارہ مرتبہ میں سے جو بھی توفیق ہو پڑھے’’۔

ایک قول یہ ہے کہ ‘‘قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پیروں کی طرف کھڑے ہوکر اس کی آخری آیات پڑھی جائیں’’۔ الموسوع الفقہی، کویت، ۲۳/ ۵۵۲-۶۵۲

()