ظلم

ج: یہ دنیا امتحان کے لیے بنی ہے اور اس میں اللہ نے انسان کو یہ مہلت دے رکھی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ وہ حق پرستی اختیار کرتا ہے یا سرکش ہو جاتا ہے ۔ قرآن نے ذوالقرنین کے واقعے میں اس بات کو بیان کیا ہے ۔ اس کی غیر معمولی بادشاہی اور فتوحات کا نقشہ کھینچا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ہم نے اس کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ چاہے تو لوگوں کو عذاب میں مبتلا کرے چاہے ان کے لیے کرم کا باعث بن جائے۔ یعنی اللہ نے انسان کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ اپنی طاقت اور برتری کا استعمال جیسے چاہے کرے ۔ وہ انسانوں کے لیے کرم کا باعث بنتا ہے یا ان کوعذاب میں مبتلا کرتا ہے۔دونو ں راستے موجود ہیں۔ انسان کو انفرادی یا اجتماعی سطح پر جب قوت حاصل ہوتی ہے تو وہ عموماً سرکشی ، ظلم اور ناانصافی کارویہ اختیار کرتاہے۔مال و دولت اور قوت کی عمومی نفسیات یہی ہوتی ہے کہ وہ اخلاقی حدود سے بالاتر ہوجاتے ہیں۔محض اللہ کے کرم اور توفیق ہی سے انسان مال و دولت اور قوت کے ہوتے ہوئے بھی ظلم سے بچ سکتا ہے۔ انسان معصوموں پر ظلم بھی کرتاہو تو تب بھی اللہ اپنی سکیم کے تحت ہونے دیتا ہے ۔ دنیا کی سکیم کو سمجھنا چاہے کہ یہ امتحان کی جگہ ہے یہ دنیا انصاف کے اصول پر نہیں بنی بلکہ امتحان کے اصول پر بنی ہے اور آخرت میں ہر چیز کا ازالہ ہوگا۔ اگر اللہ بچوں پر بڑوں کے اور کمزوروں پر طاقتور کے ظلم کو فوراً روک دے اور نہ ہونے دے تو پھر ظاہر ہے امتحان ختم ہو جائے گا۔ جب انسان حدود سے تجاوز کر کے ظلم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا نے مہلت دے رکھی ہے تو وہ بری ا لذمہ ہو گیا ، وہ اصل میں اپنی بدبختی کا سامان کررہا ہوتا ہے ۔یعنی وہ امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے ۔

 چیچنیا میں جن لوگوں نے معصوم بچوں کو مارا ہے انہوں نے ایک غیر معمولی ظلم کاارتکاب کیا ہے ۔اسلام کے نزدیک تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے۔کجا کہ اتنے سارے معصوم بچے؟اس کی توجیح یہ کی جاتی ہے کہ جب روس نے گروزنی پر حملہ کیا تھا تو اس وقت بھی توبچے مارے گئے تھے تو یہ ان بچوں کی مائیں ہیں جو اپنے انتقام کی آگ بجھا رہی ہیں۔یہ ایسے ہی ہے کہ فرض کیجیے اگر خدانخواستہ آپ کا بچہ اغوا ہو جائے توکیا آپ اس کے بدلے میں ہمسائے کا بچہ اغوا کر لیں گے ۔مسلمان کو تو ہر حال میں اخلاقی حدود کا پابند رہنا ہے ۔ انسان کی جان مال آبرو کو پیغمبرﷺ نے حرم کے برابر محترم قرار دیا ہے ۔اگرمسلمان بھی انتقام میں ایک معصوم کو مار دے تو اس میں اور ایک جاہل میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

(جاوید احمد غامدی)