حج و عمرہ کے مسائل

ایک فقہی مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص کسی بھی سبب سے حج کے موسم (شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ) میں حرم میں پہنچ گیا تو اس پر حج فرض ہو جائے گا اور حج فرض ادا نہ کیا تو گنہگار ہوگا۔ اب پاکستان سے لوگ رمضان المبارک میں عمرے کے لیے جاتے ہیں اور بعض اوقات فلائٹ میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے انھیں شوال کے ابتدائی دنوں تک مجبوراً رکنا پڑ تا ہے اور اب خود سعودی حکومت شوال کے مہینے میں عمرے کے ویزے جاری کرتی ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا ان پر حج فرض ہو جائے گا اور نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے، حالانکہ اُن کے پاس حج تک کے لیے قیام وطعام کے لیے پیسے نہیں ہوتے، مزید یہ کہ سعودی حکومت کے نزدیک ان کا قیام غیر قانونی ہوتا ہے اور قانون کی گرفت میں آنے کی صورت میں انہیں سزا ہو سکتی ہے یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں لوگ غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ واپس اپنے وطن چلے آئیں، اُن پر حج فرض نہیں ہوا اور حج اد اکیے بغیر واپس آنے کی صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوں گے، کیونکہ حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے اور ایامِ حج تک رکنے اور مصارفِ حج ادا کرنے کی ان کے پاس استطاعت ہی نہیں ہے، اور اگر اُن کے پاس تکمیلِ حج تک سعودی عرب میں قیام اور دیگر مصارفِ حج کی استطاعت تو ہے، لیکن سعودی حکومت ان دنوں میں وہاں قیام کی اجازت نہیں دیتی، تو غیر قانونی طور رکنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم کسی ملک کا ویزا لے کر جاتے ہیں تو اس کے ضمن میں اُس ملک کے قوانین کی پابندی کا عہد بھی شامل ہوتا ہے اور قانون شکنی کی صورت میں سزا یا بے توقیری کے ساتھ ملک بدری کی نوبت بھی آسکتی ہے، لہٰذا یہ شرعاً ناجائز ہے۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: ‘‘مؤمن کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے، صحابہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) کوئی شخص اپنے آپ کو کیوں ذلیل کرے گا؟، آپ ﷺنے فرمایا: وہ اپنے آپ کو ایسی صورتِ حال سے دوچارکرے، جس سے عہدہ برا ہونے کی وہ طاقت نہیں رکھتا، (اور انجامِ کار اسے ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے) (ترمذی: 2254)’’۔ الغرض مؤمن کے لیے عزتِ نفس اور اپنے شخصی وقار کا تحفظ ضروری ہے۔

()

ہماری قدیم کتبِ فقہ میں لکھا تھا: مکہ الگ مقام ہے، منیٰ و عرفات و مزدلفہ الگ مقامات ہیں، لہٰذا جب حجاجِ کرام ۸ ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے مِنیٰ کی طرف جائیں گے تو اگر کوئی حاجی اس سے پہلے مکہ میں پندرہ دن کے لیے مقیم نہیں تھا، تو وہ مسافر ہوگا اور ان مقامات پر قصر نماز پڑھے گا۔ لیکن اب چونکہ بلدیہ مکۃ المکرمہ کی حدود وسیع ہو چکی ہیں اور منیٰ و عرفات و مزدلفہ حدودِ بلدیہ میں آچکے ہیں، لہٰذا اب یہ مکہ مکرمہ میں شامل ہیں اور الگ مقامات نہیں ہیں۔ مکہ مکرمہ میں رہنے والے علمائے کرام نے اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا، لہٰذا ہم نے یہ فتویٰ دیا: ‘‘اگر حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام، ایامِ حج میں منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں قیام اور بعدالحج مکہ مکرمہ میں قیام کی مجموعی مدت کم از کم پندرہ دن یا اس سے زیادہ بنتی ہو تو ان تمام دنوں میں وہ پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ اس پر سفرکا نہیں، بلکہ اِقامت کا حکم عائد ہوگا۔ پاک و ہند کے کئی علماء نے اس رائے کو اختیار کیا ہے۔
ہمارے مفتیانِ کرام میں سے علامہ مفتی محمد رفیق حسنی صاحب نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا ہے اور انہوں نے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے استفسار کے جواب میں سابق امامِ حرم شیخ عبداللہ بن سبیل کے مندرجہ ذیل مکتوب کاحوالہ دیا ہے: ‘‘ہمارے لیے جو ظاہر ہے وہ یہ کہ آج جب کہ مکہ مکرمہ کی عمارات نے منیٰ کی حدود کا احاطہ کر لیا ہے اور وہ عرفات تک پھیل گئی ہیں، اس بنا پر منیٰ عرفات وغیرہ مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے، سو مکہ سے منیٰ جانے والے کو مسافر شمار نہیں کیا جاتا، اس بنا پر حاجی کے لیے جائز نہیں ہے کہ منیٰ میں قصر کرے اور نہ اس کے لیے عرفات میں نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے، یہ مسئلہ اُن علماء کی رائے کے مطابق ہے جو یہ کہتے ہیں کہ منیٰ میں قصر کی علّت مسافر ہونا ہے، کیونکہ منیٰ جانے والا حدودِ مکہ سے خارج نہیں ہوا۔ البتہ جن علماء کا کہنا یہ ہے کہ منیٰ وغیرہ میں قصر ایک مستقل عبادت ہے، جیسا کہ مالکیہ کا مذہب ہے، سو آپ پر مخفی نہیں کہ حکم ثابت ہے۔ رہا آپ کا یہ سوال کہ آیا سعودی عرب کی حکومت ان دونوں مقامات کے ساتھ ایک شہر جیسا معاملہ کرتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ منیٰ مکہ مکرمہ کے محلوں میں سے ایک محلہ ہے، صرف اتنی بات ہے کہ حکومت کا منیٰ میں عمارتیں بنانے سے منع کرنا مصلحتِ عامہ کی بنا پر ہے، کیونکہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ کا مالک ہو اور منیٰ و دیگر مَشاعر (مزدلفہ وعرفات) میں سے کوئی شے اس کے ساتھ خاص ہو، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: منیٰ ہر اس شخص کے لیے جائے قرار ہے جو پہلے وہاں پہنچے’’۔ علامہ علی القاری نے لکھا ہے: ‘‘مالکیوں کا مذہب یہ نہیں ہے کہ قصر فی نفسہٖ عبادت ہے، بلکہ اُن کا مذہب یہ ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا نُسُک ہے اور یہ سفر کے ساتھ خاص نہیں ہے، غیرِ مسافر بھی عرفہ میں نمازیں جمع کر سکتا ہے’’۔
مفتی محمد شریف الحق امجدی لکھتے ہیں: ‘‘جو لوگ مکہ معظمہ میں حج کی نیت سے حاضر ہوں اور بشمول منیٰ و عرفات مکہ معظمہ میں بلکہ حج کے بعد کے ایام بھی ملا کر پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتے ہوں، تو وہ مکہ معظمہ میں بھی قصر پڑھیں گے اور منیٰ وغیرہ میں بھی اور جو حضرات ان تمام ایام یعنی ایامِ حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام، ایامِ حج اور حج کے بعد مکہ مکرمہ میں قیام کے ایام کو ملا کر مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کا ارادہ رکھتے ہوں، وہ مکہ معظمہ میں بھی پوری نماز پڑھیں گے حتیٰ کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ ہر جگہ پوری پڑھیں گے۔ (نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج:2،ص: 650،بتصرف)’’۔

(مفتی منیب الرحمان)

فقہِ حنفی میں ہے کہ عرفات میں غروبِ آفتاب کا یقین ہوجانے پر مزدلفہ روانہ ہو، وہاں پہنچ کر مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کرے اور پھر طلوعِ فجر سے قبل مناسب وقت تک آرام کرنا سنت ہے کہ آپ ﷺ نے امت کی آسانی کے لیے اس رات تہجد کی نماز بھی ادا نہیں فرمائی۔ صبح صادق کے بعد اور سورج کے طلوع ہونے سے پہلے تک مزدلفہ کی حدود میں وقوف واجب ہے، اگر نہیں کرے گا تو دم لازم آئے گا۔ البتہ بیماری، کمزوری یا بڑھاپے کے سبب ضُعف لاحق ہو تو صبح صادق سے پہلے جاسکتا ہے۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ‘‘اگر مزدلفہ کی حدود سے طلوعِ فجر سے پہلے چلا گیا، تو اس پر دم لازم ہے، کیونکہ اس نے وقوفِ مزدلفہ کو ترک کیا، لیکن اگر اُسے کوئی عذر درپیش ہے یا بیمار ہے یا ضعیف ہے اور اژدحام کا خوف ہے اور وہ رات ہی کو چلا گیا تو اس پر دم واجب نہیں ہے۔ اَلسِّرَاجُ الْوَہَّاج میں اسی طرح ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، ج: 1، ص:231)’’۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کل اژدحام بھی عذر ہے۔ ‘‘حضرت عبداللہ بن عمر اپنے گھر کے کمزور افراد کو پہلے منیٰ بھیج دیا کرتے تھے’’۔ حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ‘‘میں اُن لوگوں میں سے تھا جن کو نبی ﷺ نے مزدلفہ کی رات میں کمزور افراد کے ساتھ منیٰ روانہ کردیا تھا۔ (صحیح البخاری : 1676-78)’’۔ لہٰذا اگر ضعیف لوگ یا کم عمر بچے یا عورتیں بیماری اور کمزوری کے سبب یا اژدحام کے خوف سے صبح صادق سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ چلے جائیں تو عذر کی بنا پر اُن کو اجازت ہے اور اُن پر دم واجب نہیں ہوگا۔

(مفتی منیب الرحمان)

فقہِ حنفی کا اصولی مسئلہ تو یہی ہے کہ سفرحج و عمرہ کا ہو یا دیگر مقاصد کے لیے، اگر اس کی مسافت اٹھانوے کلومیٹر کے برابر ہے، تو عورت شوہر یا محرم کی رفاقت کے بغیر سفر نہیں کرسکتی۔ لیکن عورتوں کو مشکلات درپیش ہیں کہ یا تو وہ کسی محرم کا خرچ برداشت کریں یا اس عذر کے سبب حج و عمرے پر جانے سے محروم رہیں۔ نیز ہمارے فقہائے کرام نے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ اگر عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت دستیاب نہیں ہے، اور وہ اپنی زندگی میں فریضہ حج ادا نہیں کرسکتی، تو کیا اس پر حجِ بدل کی وصیت کرنا یا کسی کو فرض حجِ بدل کے لیے بھیجنا لازم ہے۔ فقہائے کرام میں سے جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے محرم کی رفاقت حج کے فرض ہونے کی شرط ہے، اُن کے نزدیک اس پر نہ کسی کو حجِ بدل پر بھیجنا اور نہ اس کی وصیت کرنا لازم ہے، البتہ جن کا مؤقف یہ ہے کہ عورت کے لیے شوہر یا محرم کی رفاقت حج کے ادا کرنے کی شرط ہے، تو اُن کے نزدیک اس کے لیے فرض حجِ بدل کرانا یا اس کی وصیت کرنا لازم ہے، ورنہ گناہگار ہوگی۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اگر ثقہ عورتوں کی ایک جماعت حج یا عمرے پر جا رہی ہے، توجس عورت کو شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، وہ اُن کے ساتھ جا سکتی ہے۔ بعض حالات میں ہمارے فقہائے کرام نے دفعِ حرج اور یُسر کے لیے دوسرے ائمہ کے مذہب پر عمل کی اجازت دی ہے، اور ہمارے معاصر فقہاء میں سے مفتی محمد رفیق حسنی نے لکھا ہے: ‘‘اب احناف کو موجودہ دور میں امام شافعی کے مذہب کے مطابق فتویٰ دینا چاہیے، اگر ثقہ خواتین عورتوں کا کوئی گروپ ہو تو وہ عورت جسے شوہر یا محرم کی رفاقت میسر نہیں ہے، اُن کی رفاقت میں فریضہ حج ادا کرلے۔(رفیق المناسک،ص: 481) 
ہماری رائے میں اب مفتیانِ کرام کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے، اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں سفر آسان ہے، بس یا ہوائی جہاز میں عورتوں کو ایک ساتھ بٹھا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ ٹورسٹ گروپوں میں یا سرکاری اسکیم میں حج پرجاتے ہیں، اُن میں بھی عورتوں کو الگ کمرے میں ٹھہرایا جاتا ہے اور اس میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہیں ہوتا۔ سو بجائے اس کے کہ گروپ لیڈر جھوٹ کا سہارا لے کر کسی مرد کو کسی عورت کا محرم ظاہر کرے، بعض مخصوص صورتوں میں اس رخصت پر غور کرنا چاہیے۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب : اِس حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ اکثر حجاج تردد کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِس مسئلے میں صحیح رائے یہ ہے کہ ایّامِ منٰی میں مقامی اور آفاقی،تمام حجاج نمازوں کو قصر کر کے پڑھیں۔ دورانِ حج اِن مقامات پر پوری نمازیں پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْسوہ کے خلاف ہے۔ ابلیس کے خلاف جنگ کی تمثیل کے تقاضے سے اِن ایّام میں نمازوں کو قصر کرکے پڑھنا ہی آپ کا اْسوہ ہے۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اِن ایّام میں آپ نے نمازیں قصر کر کے پڑھی ہیں۔ (بخاری،رقم:1656,1655) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اْس حج میں مکہ کے مسلمان بھی اِن نمازوں میں آپ کے ساتھ شریک تھے اور اْنہوں نے بھی آپ کے پیچھے نمازوں کو قصر کیا۔ آپ نے اْنہیں پوری نماز پڑھنے کی تاکید نہیں کی ؛جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں اْن کو کی تھی۔(المعجم الکبیر،طبرانی،رقم:517)اِس تفصیل سے واضح ہوا کہ ایام منٰی میں نمازوں کو قصر کر کے پڑھنے کا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ یہ مناسکِ حج کے ساتھ خاص ہے۔ منٰی کی قدیم ترین مسجد، مسجدِ خَیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اْسوہ کے مطابق آج بھی تمام نمازیں قصر ہی پڑھائی جاتی ہیں۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : پاک وہند کے اکثر حجاج یہی خیال کرتے ہیں کہ کنکریاں مزدلفہ کے میدان ہی سے اْٹھانی ہوں گی۔ وہ حج میں اِسے ایک عملِ مشروع اور مناسک کا حصہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ اِس میدان میں پہنچ کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد پہلے مغرب وعشا کی نمازوں کی ادائیگی کے بجائے کنکریاں اْٹھانے میں مشغول ہوجاتی ہے۔ اور مزید یہ کہ تمام ایاّمِ تشریق کی رمی کے لیے بھی کنکریاں وہیں سے اْٹھا کر وہ اپنے پاس محفوظ کرلیتے ہیں۔شریعت کی رو سے مناسکِ حج میں اِس عمل کی قطعاً کوئی دینی حیثیت نہیں ہے۔ آدمی جہاں سے چاہے،جتنی چاہے، کنکریاں اْٹھاسکتا ہے۔ اِس کے لیے کوئی خاص مقام شریعت میں مقرر نہیں کیا گیا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ادائیگی حج کے باب میں آپ کے اْسوہ کی روایتوں میں بھی اِس کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اِس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔

(مولانا عامر گزدر)

 جواب : شریعتِ اسلامی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی روایات میں حجاج ومعتمرین کے اِس عمل کے مشروع اور پسندیدہ ہونے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ سنت کی رو سے حج وعمرہ کی عبادات میں مشروع طریقہ اصلاً یہ ہے کہ آدمی حج کے لیے اپنے وطن سے الگ سفر کرے اور عمرہ کے لیے الگ۔ دْور دراز سے آنے والوں کے لیے یہ حکم زحمت کا باعث ہوسکتا تھا،چنانچہ اِسی بنا پر اللہ تعالٰی نے اْنہیں اجازت دی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے حج کے سفر میں عمرہ بھی ادا کرلیں۔ تاہم اِس رخصت سے فائدہ اْٹھانے کی بنا پر قرآن کی رو سے اْنہیں قربانی یا روزوں کی صورت میں فدیہ ادا کرنا ہوگا (البقرہ 196:2)۔

 قرآن کے اِس حکم سے اللہ تعالٰی کا یہ منشا بالکل واضح ہے کہ اِن عظیم عبادات کی ادائیگی کا اصل اور افضل طریقہ یہی ہے کہ آدمی اِن میں سے ہر کے لیے الگ سے عزمِ سفر کرے۔ اور فدیے کے حکم سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے جب حج کے سفر میں ایک عمرہ ادا کرنے پر فدیہ عائد کردیا ہے تو پھر اْس پروردگار کے نزدیک ایک سفر میں متعدد بار عمرہ کرنا کوئی پسندیدہ عمل کیسے ہوسکتا ہے!۔

 پھر جب اللہ تعالٰی کے نزدیک ایک عمل پسندیدہ نہیں ہے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اْس کا رسول اْس عمل کو انجام دے یا اْسے دین میں پسندیدہ قرار دے۔ چنانچہ ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور حج وعمرہ کے باب میں آپ کے اْسوہ کی روایتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حج یا عمرہ کے کسی سفر میں حدودِ حرم سے باہر جاکر کبھی کوئی عمرہ کیا ہے،نہ آپ نے اِسے مسلمانوں کے لیے کسی پسندیدہ عمل کی حیثیت سے کبھی بیان ہی فرمایا ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نفلی عمرے کے لیے مکہ مکرمہ سے باہر نکلنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔سیدہ عایشہ کو بھی آپ نے خود اِس کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ بلکہ اْن کی مراجعت (اور اصرار) پر تالیف قلب کے لیے آپ نے اْنہیں اِس کی اجازت دی تھی۔ (الاختیارات العلمیۃ،ابن تیمیۃ،ص۹۱۱)۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح آج کل بہت سے لوگ مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر عمرہ کرتے ہیں؛نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس طرح عمرہ کرنا عمر بھر میں ایک بار بھی کبھی صادر نہیں ہوا۔ بلکہ آپ نے تو اپنے تمام عمرے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے ہی کیے ہیں۔ یہاں تک کہ منصبِ رسالت کے بعد آپ تیرہ سال مکہ ہی میں مقیم رہے ، لیکن سارے عرصے میں بھی یہ بات کہ آپ نے مکہ سے باہر نکل کر کوئی عمرہ کیا ہو، قطعاً کہیں نقل نہیں ہوئی ہے۔ (زاد المعاد،ابن القیم،86/2)

دار الھجرت مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار مرتبہ عمرے کا قصد کیا۔ جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :

پہلی مرتبہ 6 ھجری میں آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ عمرے کا سفر کیا۔ تاہم حدیبیہ کے مقام پر مشرکین نے آپ کو روک لیا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے صحابہ اْس سال اپنے عمرے کو اتمام تک نہیں پہنچا سکے۔ بلکہ حدیبیہ ہی کے مقام اپنے ھدی کے جانور ذبح کر کے آپ اور آپ کے صحابہ نے اپنے سر منڈوائے اور اِس طرح حالتِ احرام سے نکل آے۔

عمرے کا دوسرا سفر آپ نے اگلے سال 7 ھجری میں کیا۔ اْس سال آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا کیا اور تین دن مکہ میں قیام کر کے واپس مدینہ روانہ ہوئے۔

مدینہ سے تیسرا عمرہ آپ نے 8 ھجری میں جعرانہ کی میقات سے کیا۔ عمرہ کے لیے یہ تینوں اسفار ہر سال آپ نے ذو القعدہ ہی کے مہینے میں کیے تھے۔

آخری عمرہ آپ نے 10 ھجری کو حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہوئے ادا کیا۔(زاد المعاد،ابن القیم:93-90/2)

عمرے کے اِن تمام اسفار میں کوئی ایک سفر بھی ایسا نہیں ہے جس میں آپ نے یا آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم نے مکہ میں قیام کے دوران میں اْس سے باہر نکل کر کوئی عمرہ ادا کیا ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ جب 8 ھجری کے ماہِ رمضان کے آخری ایام میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اپنے اْس سفر میں آپ اْنیس دن مکہ میں مقیم رہے (بخاری،رقم:4298)،لیکن حدود حرم سے باہر جاکر اْس موقع پر بھی کوئی عمرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا،نہ آپ کے صحابہ نے۔ اِس طرح عمرہ کرنا دین میں اگر کوئی مشروع اور پسندیدہ عمل ہوتا تو آپ کے اْسوہ یا آپ کے ارشادات میں اِس کے شواھد ہمیں ضرور مل جاتے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ آپ کی نسبت سے اس عمل کا کوئی استناد کسی درجے میں بھی ثابت نہیں ہوتا۔ اور بالبداہت واضح ہے کہ عبادات کی نوعیت کا کوئی عمل اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے محروم ہے تو نہ صرف یہ کہ دینِ خداوندی میں اْسے کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوتی،بلکہ اْسے غیر مشروع اور بدعت ہی قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ محقق رائے یہی ہے کہ مکہ میں مقیم رہتے ہوئے حدودِ حرم سے باہر جاکر عمرہ کرنا قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْسوہ کی رو سے ایک خلافِ سنت عمل ہے۔ علمائے سلف میں سے یہی رائے امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کی ہے (مجموع الفتاوی،ابن تیمیہ301-248/26۔زاد المعاد،ابن القیم:176,175,94/2)۔

بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس مسئلے میں سیدنا ابن عباس،سالم،عطا،طاووس اور مجاہد کی آرا بھی اِسی قول کی تائید کرتی ہیں (مصنف ابن ابی شیب?،رقم الباب515,480,50:)۔

عصر حاضر کے جلیل القدر علما میں سے امام ناصر الدین البانی،شیخ صالح العثیمین،شیخ خالد المصلح،شیخ محمد علی فرکوس کی بھی یہی رائے ہے۔

 مسئلہ زیر بحث سے متعلق اب محض ایک سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے سیدہ عائشہ نے حدودِ حرم سے باہر جاکر تنعیم کے علاقے سے احرام باندھ کر جو عمرہ کیا تھا؛اْس کی کیا حیثیت تھی ؟ اور اْس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟

 اِس باب کی تمام روایتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ حجۃ الوداع کے اْس موقع پر مدینہ منورہ سے آپ کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوئی تھیں۔ پھر جب مکہ مکرمہ پہنچیں تو وہ ایام سے تھیں؛جس کی بنا پر اپناقصد کیا ہوا عمرہ وہ ادا نہ کرسکیں۔ اور نتیجتاً اْسی حالتِ احرام میں باقی رہیں،یہاں تک کہ ایام حج کا آغاز ہوگیا اور اْنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق تمام حجاج کے ساتھ اپنے اْسی احرام میں حج ادا کیا۔ حج کے بعد اْنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!کیا آپ سب حج وعمرہ دونوں کی ادائیگی کرکے لوٹیں اور میری واپسی صرف حج کے ساتھ ہو ؟آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:اے عائشہ! اللہ کے ہاں تمہیں بھی وہی کچھ ملے گا جو اِن سب کو ملے گا۔پھر سیدہ نے کہا:(اے اللہ کے رسول!)میرے دل میں یہ بات کھٹک رہی ہے کہ میں حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف تک نہ کرسکی تھی۔(چنانچہ سیدہ کے اصرار کو دیکھ کر)آپ نے اْن کے بھائی سے کہا:اے عبد الرحمٰن!تم اِنہیں لے کر جاؤ اور تنعیم سے لاکر عمرہ کراو۔ (مسلم، رقم:1211-1213۔بخاری،رقم :1560۔ابوداود، رقم:1785)

 اِن تمام تر تفصیلات کو پیش نظر رکھ کر ہم اگر سیدہ عائشہ کے عمرہ تنعیم کا اْس کے پورے پس منظر کے ساتھ تجزیہ کریں تو اْس سے مندرجہ ذیل اْمور ونتائج ثابت ہوتے ہیں :

ایک یہ کہ اِس عمرے کے لیے سیدہ عائشہ کو آپ سے اجازت لینی پڑی ہے۔ یہ اگر دین میں کوئی پسندیدہ اور مشروع عمل ہوتا تو آپ کو اجازت حاصل کرنے کی ہر گز کوئی ضرورت نہ پڑتی۔ دوسرے یہ کہ سیدہ کی طلبِ اجازت اور اْن کے اصرار کی وجہ اصلاً وہ عمرہ تھا جس کا احرام باندھ کر وہ مدینہ سے روانہ ہوئی تھیں؛لیکن اپنی نسوانی معذوری کی بنا پر اْسے ادا نہ کرسکی تھیں۔بالبداہت واضح ہے کہ اْن کے ساتھ یہ معاملہ اگر نہ ہوا ہوتا تو اِس عمرے پر اصرار اور اِس کا قصد وہ قطعاً نہ کرتیں۔ جیساکہ معلوم ہے کہ حجۃالوداع کے اْس موقع پر بشمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی شخص نے مزید عمرہ کرنے کی کوئی خواہش تک ظاہر نہیں کی۔ پھر واقعہ یہ ہے کہ اْس موقع پر سیدہ عائشہ کے بھائی عبد الرحمٰن،جن کے ساتھ وہ تنعیم تک گئی ہیں؛اور جن کے لیے موقع تھا کہ صورتِ حال سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے وہ بھی مزید ایک عمرہ کرلیتے؛نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اْنہیں اِس عمرے کی کوئی ترغیب دی،نہ اپنی دینی بصیرت کی بنا پر خود اْنہوں نے اِسے کوئی عملِ مشروع سمجھا۔چنانچہ سیدہ کی رفاقت کے باوجود اْنہوں نے کوئی عمرہ ادا نہیں کیا۔

 تیسرے یہ کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس واقعہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ حج کے کسی سفر میں اگر کسی خاتون کو وہی صورتِ حال پیش آجائے جو سیدہ عائشہ کو پیش آئی تھی تو اْس کے لیے اِس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ حج کے بعد،قصد کیا ہوا اپنا عمرہ ادا کرلے۔ اِس واقعہ سے اِسی استنباط کی بنا پر امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ تنعیم کے عمرے کو "عمرۃ الحائض" کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی اِس عمرے کی اگر کوئی مشروعیت ہے تو محض اْس عورت کے لیے جو گھر سے نکلتے ہوئے اپنا قصد کیا ہوا پہلا عمرہ اپنی ماہواری کے شروع ہوجانے کی بنا پر حج سے پہلے نہ کرسکی ہو۔

 غرضیکہ اِس تمام بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک سفر میں جس طرح حج ایک ہی ہوا کرتا ہے،عمرہ بھی ایک ہی مشروع ہے۔ اِس کے برخلاف عمل کرنا خلافِ سنت ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

 جواب : حالتِ احرام میں قربانی کا جانور مْحرِم کا اپنا ہو یا کسی دوسرے کا؛اْسے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حالتِ احرام میں قربانی کے علاوہ بھی اگر ضرورت پیش آجائے تو آدمی اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کرسکتا ہے۔ شریعت میں اِس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ مْحرِم کے لیے اِس باب میں جو چیز ممنوع ہے،وہ جانور ذبح کرنا نہیں ہے،بلکہ شکار کھیلنا ہے۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب : اِس طرح کی صورت حال کسی خاتون کو خواہ حج میں پیش آئے،خواہ عمرہ میں؛احرام باندھنے سے پہلے پیش آئے یا اْس کے بعد؛بہرحال وہ احرام کی تمام پابندیوں کا لحاظ رکھے گی،تلبیہ پکارے گی،دیگر حجاج ہی کی طرح تمام مناسک ادا کرے گی اور دعا ومناجات بھی کرے گی۔ تاہم شریعت کی رو سے یہ واضح رہے کہ اِس حالت میں خواتین جس طرح نماز سے مستثنٰی ہوتی ہیں،اْسی طرح وہ نماز کی جگہوں یعنی مساجد میں بھی حاضر نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر حج وعمرہ کی عبادات میں خواتین اِس حالت میں اْن مناسک کو بھی ادا نہیں کرسکتیں جو مسجدِ حرام میں ادا کیے جاتے ہیں۔ اور وہ دو ہی مناسک ہیں :ایک بیت اللہ کا طواف دوسرے صفا ومروہ کی سعی ۔اِن کے سوا باقی تمام مناسک وہ دیگر حجاج ومعتمرین ہی کی طرح ادا کریں گی۔ طواف اور سعی کو اْنہیں بہرحال پاکیزگی کی حالت لوٹ آنے تک موخر کرنا ہوگا۔صفا ومروہ کی پہاڑیوں اور اْن کے احاطے کو جس زمانے تک مسجدِ حرام میں شامل نہیں کیاگیا تھا،اْس وقت تک عورتوں کو ایام کی اِس حالت میں سعی کی اجازت بھی حاصل تھی؛جیساکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب سیدہ عایشہ رضی اللہ عنھا ایام سے تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اْن سے فرمایا : تم اِس حالت میں سوائے طواف کے،حج کے تمام مناسک ادا کرسکتی ہو۔(بخاری،رقم:294۔مسلم،رقم:1211)

(مولانا عامر گزدر)

جواب : حج وعمرہ کے احرام کے موقع پر پاک وہند میں عام طور پر دو رکعت نماز کی ادائیگی کو مسنون اور منجملہ مناسک سمجھا جاتا ہے۔ تحقیق کی رو سے خاص طور پر احرام سے متعلق اِس طرح کی کوئی نماز شریعت میں مقرر کی گئی ہے،نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد یا آپ کے اْسوہ سے اس طرح کا کوئی عمل ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اِس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔ آدمی اگر چاہے تو بغیر کسی نماز کے حج یا عمرہ کی نیت کر کے حالتِ احرام میں داخل ہوجائے۔ اور وہ چاہے تو اْس موقع پر اگر کسی فرض نماز کا وقت ہو تو اْس سے فارغ ہوکر تلبیہ کا آغاز کرلے ؛ جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے (مسلم ، رقم : ۸۱۲۱)۔ تاہم حدیث وسنت کی رو سے خاص اِس موقع کی کوئی نماز شریعتِ مناسک کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جاسکتی۔

(مولانا عامر گزدر)

جواب :حج بدل کسی شخص کا اپنی جگہ کسی دوسرے کو حج پر بھیجنا ہے۔ اس کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو خود حج کرنے سے معذور ہو۔ جس حدیث میں صدقہ جاریہ کا لفظ آیا ہے اس میں صدقہ جاریہ کے اعمال الگ بیان ہوئے ہیں اور صالح اولاد کا ذکر الگ ہوا ہے۔جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سواے تین کے : صدقہ جاریہ ، علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور صالح اولاد جو دعا کرے۔اصلاً صدقہ جاریہ ایک الگ چیز ہے اور صالح اولاد کی دعا ایک الگ چیز ہے۔ اولاد کو صدقہ جاریہ کہنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ والدین کے سکھائے ہوئے اعمال کو جاری رکھتی ہے۔ لیکن یہ بات حدیث کے مضمون کا اطلاق ہے براہ راست حدیث سے ماخوذ نہیں ہے۔ بچے کے کان میں اذان کیوں کہی جاتی ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ والدین کا عمل ہے یعنی ان کی طرف سے اولاد کے کان میں پہلی بات کیا ڈالی جانی چاہیے۔ دوسری یہ کہ اس عمر کے تمام واقعات انسان کے لاشعور کا حصہ بنتے ہیں اور یہ چیز اس کی شخصیت کے بنیاو میں ایک کردار ادا کرتی ہے اگرچہ وہ اپنی عمر کے کسی حصے میں بھی اسے دوبارہ یاد نہیں کر سکتا۔

(مولانا طالب محسن)

ج: یہ لوگوں میں رائج ہو گیا ہے ، ایسی کوئی بات نہیں ۔ قرآن کی اصطلاح میں ہرحج کوحج اکبر کہتے ہیں اورعمرے کو حج اصغر کہتے ہیں۔ جمعے کے دن کے حج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کوئی عبادت اور نیکی کبھی اسراف نہیں ہوتی البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں اعتدال یا توازن قائم رکھنا چاہیے۔ بعض اوقات آدمی پر کسی ایک چیز کا غلبہ ہو جاتا ہے اور وہ اس میں اعتدال اور توازن قائم نہیں رکھ پاتا تو اسے اس کی طرف متوجہ کرنا چاہیے نہ کہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ اسراف کر رہا ہے۔مسلمان کی زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں اعتدال اور توازن پر رہتا ہے۔ یعنی معاشرتی تقاضوں کو بھی بخوبی پورا کرتاہے اور عبادات کے معاملے میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح نہج پر قائم رہتا ہے۔ اس چیز کا ضرور لحاظ رکھنا چاہیے ، باقی نیکی اسراف نہیں ہوتی ، اعتدال او رتوازن بسا اوقات مجروح ہو جاتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اصل میں حج اور غیر حج کا کوئی مسلہ نہیں ہے ، حضورﷺ نے یہ بات بیان فرمائی کہ خواتین جب بھی لمبے سفر پر جائیں تو ان کو ایک محفوظ ماحول کے اندر رہنا چاہیے اور وہ اپنے کسی محرم ، عزیز کو ساتھ لے لیں تاکہ ان کے بارے میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہو جائے ۔ اسلام چونکہ خاندانی معاشرت کا داعی ہے اور خاندانی معاشرت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک عفت و عصمت کے بارے میں سوسائٹی حساس نہ ہو ۔ اس وجہ سے یہ تاکید آپ نے فرمائی ۔ قدیم زمانے میں تو سفر اونٹوں پر ہوتا تھا ، جنگلوں میں ہوتا تھا ، صحراؤں میں ہوتا تھا ، رات کو اکیلے لیٹنا بھی ہے ، موجودہ زمانے میں سفر کی نوعیت بدل گئی ہے تو ظاہر ہے احکام کی نوعیت بھی تبدیل ہو جائے گی ۔آپ محسوس کرتے ہیں کہ ایک محفوظ صورتحال ہے ، اس میں کسی فتنے کا اندیشہ نہیں توجایا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی قانونی چیز نہیں ہے بلکہ فتنے سے بچانے کے لیے ایک ہدایت اور ایک نصیحت ہے ، جس کا جس حد تک ممکن ہو خیال رکھنا چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ان دو پہاڑیوں پر بت تھے اور مسلمان ان کی وجہ سے سعی کرنے سے ہچکچا رہے تھے تو کعبہ میں تو 365 بت تھے وہاں تومسلمانوں کو طواف کرنے سے کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی ۔ یہ محض قصہ ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اصل بات یہ تھی کہ صفا اور مروہ کی سعی کے بارے میں یہو دنے یہ پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ یہ کوئی مناسک حج کی چیز ہے ہی نہیں۔ اور اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ مروہ حضرت اسماعیلؑ کی قربان گاہ ہے اور یہود کے پورے لٹریچر میں اس چیز کو ہدف کی حیثیت حاصل ہے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیمؑ کا تعلق مروہ یعنی کعبہ اورمکہ سے ثابت نہیں ہونا چاہیے تو وہ اس کا پروپیگنڈہ کرتے تھے ۔قرآن نے اسی کے ضمن میں اس کاذکر کیا ہے۔ جہاں یہ آیت آئی ہے اس کے فورا ًبعد بیان ہے کہ یہ یہود اللہ کے دین کی اس طرح کی حقیقتوں کو چھپاتے ہیں اور جانتے بوجھتے چھپاتے ہیں ، یہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں اس پر یہ سوال پیدا ہوا تو قرآن نے اس کا جواب یہ دیا کہ صفا و مروہ کی سعی کوئی بری چیز نہیں ہے یہ ایک خیر کا کام ہے ، جو آدمی بھی حج و عمرہ کے لیے آئے وہ اگر اپنی طرف سے کوئی خیر کا کام کرتا ہے تو بالکل ٹھیک کرتا ہے ۔ من تطوع خیرا فان اللہ شاکر علیم کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ یہ ایک نفل عبادت ہے ۔ حضور نے یہ نفل عبادت کی ہے ایسے ہی جیسے آپ نے بڑی باقاعدگی کے ساتھ فجر کی دو رکعتیں پڑھی ہیں فرضوں سے پہلے ،تو وہ فجر کی دو رکعتیں آپ کے مسلسل پڑھنے کے باوجود بھی نفل ہی رہی ہیں فرض نہیں ہو گئیں ۔تو یہ سعی بھی نفل ہی ہے اگرچہ حضور سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور بڑی اچھی عبادت ہے کرنی چاہیے۔لیکن یہ عمرے یا حج کا لازمی رکن نہیں ہے ،بس یہ بات ملحوظ رہے۔آپ کی مکہ سے واپسی حج کے بعد ہوئی ہے اس میں حضور نے سعی نہیں کی ۔ بعض علما نے یہ سمجھا کہ شاید عمرے والی سعی کو حضور نے کافی سمجھا ہے حالانکہ آپ نے ا پنے عمل سے یہ بتا دیا یعنی پہلے کر کے اور بعد میں نہ کر کے کہ یہ نفل عبادت ہے چاہے تو کر لیں اور چاہیں تو نہ کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صورتوں میں یہ بات زیادہ بہتر بھی ہوتی ہے اور زیادہ اجر کا باعث بھی کہ آدمی اپنی دولت کو نفلی حج یا عمرہ پر صرف کرنے کے بجائے، دوسروں کی ضروریات پر صرف کر دے۔لیکن ہم کوئی ایسا اصول نہیں بنا سکتے کہ ہر آدمی کو ہر صورت میں لازماً، ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جو شخص اپنے خاندان اور اپنے ماحول میں موجود ضرور ت مندوں کی دیکھ بھال کر رہا ہو ، اُس کے لیے تو بالکل درست ہے کہ وہ نفلی حج کیا کرے۔ لیکن جو شخص اپنے خاندان اور اپنے ماحول میں موجود ضرور ت مندوں سے یکسر صرفِ نظر کرتے ہوئے محض نفلی حج و عمرہ کرنے ہی میں لگا ہوا ہے ، تو وہ یقیناً غلطی پر ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔سرکاری ڈیلی گیشن کے ذریعے پبلک فنڈ سے حج و عمرہ کرنا غلط نہیں بشرطیکہ یہ اعلانیہ ہو اور اِس پر پبلک کو اعتراض نہ ہو یعنی یہ بات اُن کے اندر معروف ہو۔ لیکن اگر اِس کو غلط سمجھا جاتا ہے اور اِس پر اعتراض کیا جاتا ہے ، تو پھر یہ غلط ہے۔ کمپنیوں کے ملازمین کا کمپنی کی طرف سے ملنے والے تعاون کی بنا پر حج کرنا بالکل درست ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ مسجدِ نبوی میں نمازیں پڑھنا اور روضہ أقدس کی زیارت کرنا اصلاً حج کے مناسک کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ جب انسان سفر کرے تو محبت رسول کا تقاضا ہے کہ اسے مدینہ بھی جانا چاہیے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: کسی کے لیے عمرہ ادا کرنے کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی خدا کا بندہ بہت خواہش رکھتا تھاکسی وجہ سے نہیں جا سکا ، اب اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تو معذور ہو گیا ہوں تو تم میری طرف سے یہ معاملہ کر لو۔ اس کی نیت کا اجر تو ا سکو ویسے ہی مل گیاتھا اگربیٹا اسکی تکمیل کر دے گا تو بہت اچھی بات ہے ۔یہی ایک صورت ہے اسکے علاوہ کسی کے لیے نیکی کا کوئی کام کیسے کیا جاسکتا ہے؟ قرآن نے اس کو واضح کر دیا ہے۔اس کو قربانی کے معاملے سے سمجھاجا سکتا ہے ۔ اسکے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ قربانی کا گوشت اورخون اللہ تک نہیں پہنچتابلکہ دلوں کا تقوی پہنچتا ہے۔ اب جب کوئی دوسرے کی طرف سے عمرہ کرے گا تواس دوسرے کے دل کا تقوی اللہ تک کیسے پہنچے گا۔ اس نے تو کوئی ارادہ، کوئی نیت بھی نہیں کی ۔قربانی کی طرح سب نیکیوں کا یہی معاملہ ہے ان کی شکل کے پیچھے جو دلوں کاحال ہوتا ہے وہ اللہ تک پہنچتاہے ۔ خدا کے ہاں جو چیز اجر کا باعث بنتی ہے وہ اندر کا احساس اور نیت ہے۔دوسرے کا اند ر کا احساس ، نیت اور اللہ سے تعلق کی نوعیت میں کیسے لے جاؤں گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: حج الگ چیز ہے ، عمرہ الگ چیز ہے ۔ آپ کو اللہ تعالی نے سہولت عطا فرمائی آپ نے عمرہ کر لیا ۔ اللہ توفیق دے گا تو آپ حج بھی کر لیں ۔ حج کے لیے استطاعت شرط ہے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے عمرہ کر لیں تو حج فرض ہو جائے گا ۔ قرآن نے یہ کہا ہے کہ من استطاع الیہ سبیلا آدمی کے پاس اگرجسمانی ، مالی استطاعت ہے تو اس کو حج کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کا انحصار آپ کے حالات پر ہے بعض اوقات ایساہوتا ہے کہ عمرے ہی کے پیسے ہیں اوراتنا ہی وقت ہے۔ایسے میں انسان عمرے کی سعادت سے کیوں محروم رہے ۔اور اگر حج کے لیے آپ کے پاس ذرائع موجود ہیں تو پھر ضرور حج کریں حج فرض ہے اور عمرہ تو ایک نفل عبادت ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: لکڑی یا جوتے سے رمی کرنا جائز نہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عقبہ کی صبح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لاؤ، میں چھوٹی چھوٹی سات کنکریاں چن لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا : ہاں ایسی ہی کنکریاں مارو۔ پھر فرمایا : اے لوگو! تم دین میں زیادتی سے بچو کیونکہ تم سے پہلی اُمتیں دین میں زیادتی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔

اس لئے رمی کرنے والے کو چاہئے کہ وہ راہِ اعتدال اختیار کرتے ہوئے چھوٹی کنکریاں مارے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوبیا کے دانہ کے برابر چھوٹی کنکریاں ماریں اور لوگوں سے فرمایا کہ لوبیا کے دانہ کے برابر کنکریاں حاصل کرو تاکہ جمرہ کو رمی کی جا سکے۔ لہٰذا لکڑی، جوتے یا بڑے کنکر مارنے سے گریز کرے کیونکہ ایسا کرنے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ لکڑی، جوتا یا بڑا کنکر کسی شخص کو بھی لگ سکتا ہے اور شدید نقصان کا موجب بن سکتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیا ہے۔

 

(نامعلوم)