عید الاضحیٰ

اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، بلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے۔ مسلَّمہ فقہی قاعدہ ہے: ‘‘یقین شک سے زائل نہیں ہوتا’’، تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے، کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:‘‘اور جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو، وہ ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا، تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے’’۔ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ‘‘کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کا مسئلہ ہے)، کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتاہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے، اور ماں (مادہ) کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔ (فتح القدیر، ج: 9، ص: 532)’’۔

(مفتی منیب الرحمان)

ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے، وہ یکم ذو الحجہ سے عیدالاضحی کے دن تک یا جس دن قربانی کرے گا، اُس وقت تک ناخن اور بال نہ ترشوائے، اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں کہ یہ مستحب ہے واجب نہیں۔ احادیث مبارکہ میں طہارت و نظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے، بغل اور زیرِ ناف بال صاف کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رہنا مکروہِ تحریمی ہے، حدیث میں ہے: ‘‘حضرت انس بیان کرتے ہیں: مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم:599)’’۔امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ‘‘اگرکسی شخص نے۱ ۳ دن کسی عذر کے سبب یا بلاعذر نہ ناخن تراشے ہوں، نہ خط بنوایا ہو کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہوگیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتاہو، اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا، اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا مکروہِ تحریمی ہے، اور مستحب کی رعایت کرنے کے لیے واجب کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ ردالمحتار میں ہے: ذوالحجہ کے دس دنوں میں ناخن کاٹنے اور سرمنڈانے کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ سنّت کو موخر نہ کیا جائے جبکہ اس کے متعلق حکم وارد ہے، تاہم تاخیر واجب نہیں ہے۔ تو یہ بالاجماع استحباب پر محمول ہے اور وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے، لہٰذا مستحب ہے۔ ہاں! اگر استحباب پر عمل اباحت کی مدت میں تاخیر کا باعث بنے جس کی انتہا چالیس روز ہے، تواستحباب پر عمل کو ترک کردے۔ (فتاویٰ رضویہ،جلد20، ص:354،بتصرف)’’۔ بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں، اُنہیں ذوالحجہ کے چاند سے ایک دو دن پہلے طہارت یعنی ناخن تراشنے، مونچھیں اور ضرورت سے زیادہ بال کٹوالینے چاہییں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے۔
 

(مفتی منیب الرحمان)

حقیقی ذبیحہ تو دور کی بات ہے، محض شک کی بنیاد پر مسلمانوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں، اس لیے جہاں جان اور آبرو کا خطرہ ہو،مسلمانوں کو چاہیے کہ گائے کی قربانی سے احتراز کریں، اور بھینس، اونٹ یا بکرے دنبے کی قربانی کے ذریعے سنتِ ابراہیمی کو ادا کریں۔

(مفتی منیب الرحمان)

جواب :آپ نے قربانی کرنے والے کے لیے ناخن اور بال نہ کاٹنے کے مستحب ہونے کے بارے میں پوچھا ہے۔یہ بات ایک روایت میں بیان ہوئی ہے۔ اسی روایت کی وجہ ہی سے اسے مستحب عمل قرار دیا جاتا ہے۔ کسی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے اس پر عمل کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ لھذا اس کے لازمی ہونے کا کوئی قائل نہیں ہے۔       

(مولانا طالب محسن)

ج: پہلے ذبح نہیں کیا جاسکتا ۔ اس معاملے میں رسالت مآب ﷺ نے بہت سختی فرمائی ہے اور کہا ہے کہ جس نے ہماری نماز سے پہلی قربانی کر لی ، اس کی قربانی کوئی قربانی نہیں ہے ، وہ تو بس ایک جانور تھا جو اس نے ذبح کر لیا ۔

(جاوید احمد غامدی)