ملازمین کے حقوق

کسی شخص کے ماتحت کچھ ملازمین ہوں تو اس پر لازم ہے کہ ان کا مشاہرہ وقت پر اداکرے۔ اس کی ادائی میں تاخیر کرنا یا اس میں لیت و لعل سے کام لینا یا اس کاکچھ حصہ روک لینا، تاکہ وہ ملازمین اس کے یہاں کام کرتے رہیں، اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ حدیث ہے کہ’’مزدور کو اس کی مزدوری دے دو، اس سے پہلے کہ اس کا پسینہ سوکھ جائے۔‘‘
ملازمین کامشاہرہ ان کے قبضے میں دینے کے بعد، آدمی ضرورت مند ہوتو ان سے قرض لے سکتا ہے۔ یہ قرض خواہی بھی بغیر دباؤ کے ہونی چاہیے کہ ملازمین میں سے جو چاہے اسے قرض دے اور جو چاہے منع کردے۔ ساتھ ہی قرض کی شرائط بھی طے کرلی جائیں کہ وہ کتنی مدت کے لیے قرض لے رہاہے؟ واپسی یک مشت ہوگی یا قسطوں میں؟ وغیرہ۔اگر قرض کی صراحت کے بغیر وہ شخص اپنے کسی ملازم کا مشاہرہ اپنے پاس روکتا ہے، یا کوئی ملازم اپنامشاہرہ اس کے پاس رکھواتا ہے تو وہ رقم اس کے پاس بہ طور امانت ہوگی۔ اس میں تصرف کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ رقم کے مالک کی اجازت کے بغیر اسے کاروبار میں لگانا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔
آدمی کو اپنے ماتحت کام کرنے والے ملازمین کاخیرخواہ ہونا چاہیے۔ اگر کسی شخص کا کاروبار مستحکم ہو اور وہ سمجھتا ہو کہ ملازمین کی کچھ رقم اپنے کاروبار میں لگانے سے انھیں فائدہ ہوگا اور ان کی رقم میں اضافہ ہوگا تو وہ انھیں اعتماد میں لے کر اور ان کی مرضی سے دی ہوئی رقم کو کاروبار میں لگاسکتا ہے، لیکن ضروری ہے کہ ابتدا ہی میں وہ ان پر واضح کردے کہ وہ نفع و نقصان میں برابر کے شریک ہوںگے۔
صحیح حدیث میں ایک شخص کاواقعہ تفصیل سے مذکور ہے، جس کے پاس بہت سے ملازم کام کرتے تھے۔ ان میں سے ایک ملازم اپنی اجرت لیے بغیر چلاگیا اور پلٹ کر نہیں آیا۔ اس شخص نے اس کی اجرت کو اپنے کاروبار میں لگالیا۔ کافی دنوں کے بعد وہ ملازم آیا اور اس نے ڈرتے ڈرتے اپنی اجرت مانگی تو اس شخص نے ایک وادی کی طرف اشارہ کرکے کہاکہ اس میں جانوروں (گایوں، بکریوں، بھیڑوں وغیرہ)کا جتنا بڑا ریوڑ دکھائی دے رہاہے وہ سب تمھارا ہے۔ میں نے تمھاری مزدوری کو اپنی تجارت میں شامل کرلیاتھا، جس سے تمھاری مزدوری کی مالیت بڑھتے بڑھتے اتنی ہوگئی ہے۔ وہ آدمی خوشی خوشی اپنے ریوڑ کو ہانک لے گیا۔ اللّٰہ تعالیٰ کو اس کا یہ عمل بہت پسند آیا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد اس شخص نے اپنے اس عمل کا واسطہ دے کر اللّٰہ تعالیٰ سے ایک دعا کی، جسے اس نے شرفِ قبولیت بخشا۔ (صحیح بخاری: ۲۲۷۲)

 

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)