ولی کے اجازت کے بغیر نکاح

جواب : کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اولاد سے پوچھئے بغیر اس کا نکاح نہ کرو الفاظ مجھے یاد نہیں لیکن مفہوم یہ ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب تم کسی بیٹی کی شادی کرو تو اس سے اجازت لے لو ۔ اس کی خاموشی اسکی اجازت ہے اور ایک ایسی مثال ہے کہ کسی صاحب نے اپنی زیر کفایت خاتون یا لڑکی کا نکاح کر دیا اور اس نے اعتراض کیا تو حضورﷺ نے اس نکاح کو ختم کروایا اور ان سے پوچھ کر ان کا نکاح کروایا اور ایسی بھی مثالیں ہیں کہ ایھا امرت نکحت بغیر اذن ولیھا فنکا حھا باطل باطلکہ جوخاتون اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو وہ باطل ہے باطل ہے باطل ،اب بظاہر یہ دو احادیث ہیں اور ان دونوں میں تعارض ہے میں نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ علماء نے تعارض کو حل کرنے کے کم سے کم پچاس اصول مقرر کئے ہیں ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جن احادیث میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرنے کا ذکر ہے ان احادیث کو ترجیح دی جائے گی اور ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جو ہوگا وہ باطل ہوگا ؛
امام ابوحنیفہ ؒ نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے تطبیق دینے کی کوشش کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جہاں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرنے کا ذکر ہے وہاں اس کے اخلاقی پہلو کوحضورﷺ نے بیان کیا ہے کہ اخلاقی طور پر ایک خاتون کو یہ حق نہیں دیتا کہ باپ سے پوچھے بغیر جہاں چاہیے نکاح کر لے اور باپ کو بعد میں پتا چلے وہ بیچارہ پریشان ہو اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بہت مضبوط اخلاقی ہدایت ہے لیکن کیااگر کوئی خاتون نکاح کرے تو کیا وہ نکاح legally valid ہوا کہ نہیں ہوا؟یہ بڑا نازک سا معاملہ ہے فرض کریں ایک خاتون نے نکاح کرلیا اور گھروالوں کو اطلاع نہیں دی ان کو دس سال بعد پتا چلا میں ایک مثال دیتا ہوں ایک لڑکی یہاں سے پڑھنے کے لئے انگلستان گئی وہاں اپنے کلاس فیلو سے شادی کر لی ماں باپ کو پتہ نہیں چلا دس سال بعد آئی تو شوہر صاحب بھی ساتھ آئے اور تین بچے بھی ساتھ تھے اب بتایئے کہ جو فقہا کہتے ہیں کہ نکاح جائز نہیں ہے ان بچوں کو کیا کہیں گے ؟امام ابو حنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ یہ نکاح قانوناًجائز ہے لیکن ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ان کو سزا دیں جرمانہ کریں قید میں بھی ڈالیں تھپڑ بھی لگائیں اس لئے کہ اس نے ایک ایسا کام کیا ہے جس کی اجازت حدیث میں نہیں دی گئی ہے لیکن قانوناً آپ اس کو منسوخ نہیں کر سکتے یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن دونوں بیانات کا خلاصہ یہ ہے۔پاکستان میں عدالتیں اکثر امام ابوحنفیہ ؒ کے نقطہ نظر کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں اس میں بھی عدالتیں کے بعض فیصلوں کے بارے میں مجھے بھی تامل ہے اس میں فیصلہ اس طرح نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اس موضوع پر ایک مفصل مرتب قانون ہونا چاہیے جب میں اسلامی کونسل کا رکن تھا تو وہاں میں نے یہ مسئلہ اٹھا یا تھا اور اس ضرورت کا اظہار کیا تھا کہ ایک مکمل اور جامع مسلم فیملی لا پاکستان میں تیار ہونا چاہیے جس میں اس طرح کے سارے مسائل کو مکمل طریقے سے بیان کردیا جائے اور جوکمزور پہلوہیں چھوٹے چھوٹے راستے ہیں ،ان کو بند کر دیا جائے ۔

 

()

ج: نکاح اصل میں تومرد اور عورت کے درمیان ایک آزادانہ معاہدہ ہے لیکن قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ سوسائٹی کے جو معروفات ہیں ان کے مطابق ہونا چاہیے ۔ انہی معروفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح میں خاندان اور اس کے بڑے شریک ہوں تاکہ سوسائٹی کے اندر اچھی روایات پیدا ہوں ۔ اگرصورت حال یہ ہو کہ نہ باپ موجود ہے نہ بھائی موجود ہے نہ خاندان والے موجود ہیں تو یہ ایک مخدوش صورتحال ہوتی ہے ۔ ایسے میں عدالت فیصلہ کر سکتی ہے کہ یہ نکاح اصل میں نکاح ہی نہیں ہے ۔نکاح کے لیے اعلان بھی شرط ہے خفیہ نکاح کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس سوال کے ساتھ سائل نے پوری تفصیل کے ساتھ فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں، لہٰذا پہلے ہم ان دلائل کو یہاں نقل کردیتے ہیں:
(۱) حنفیہ کا استدلال حسب ذیل آیات اور احادیث سے ہے:
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو جو کچھ وہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے کریں، اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘
 (البقرہ۔ 234)
’’پھر اگر (تیسری بار شوہر نے بیوی کو) طلاق دے دی، تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے‘‘۔
(البقرہ۔ 230)
’’پھر تم ان عورتوں کو اس سے مت روکو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ بھلے طریقے سے باہم رضامند ہوجائیں‘‘۔
(البقرہ۔ 232)
’’نافع ابن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے، اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حقدار ہے‘‘۔ (نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
ابی سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح ایک مرد سے کردیا ہے اور میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔ آپ نے باپ سے فرمایا کہ نکاح کا اختیار تمہیں نہیں ہے اور لڑکی سے فرمایا کہ جاؤ جس سے تمہارا جی چاہے نکاح کرلو۔(نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
مالک نے عبدالرحمٰن سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حفصہ بنت عبدالرحمٰن کا منذر ابن زبیر سے نکاح کردیا۔ اس وقت عبدالرحمٰن شام میں تھے۔ جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ کیا میری رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ تب حضرت عائشہؓ نے منذر ابن زبیر سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ جس معاملے کو آپ نے طے کردیا ہے، میں اس کی تردید نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ حفصہ منذر کے پاس ہی رہیں اور یہ طلاق نہ تھی۔
ابوداؤد اور نسائی نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا شوہر دیدہ عورت پر ولی کو کچھ اختیار حاصل نہیں ہے۔
نسائی اور احمد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول! میرے باپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ میرا بیاہ صرف اس لیے کردیا ہے کہ میرے ذریعے سے اسے ذلت سے نکالے۔ آپ ﷺ نے نکاح کی تنسیخ و استقرار کا حق لڑکی کو دے دیا۔ لڑکی نے کہا، میرے والد نے جو کچھ کیا ہے، میں اسے جائز قرار دیتی ہوں، میری خواہش صرف یہ ہے کہ عورتیں جان لیں کہ باپوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
(۲) اہل حدیث حضرات اپنی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے … پس اگر جھگڑا ہو تو جس عورت کا ولی نہ ہو تو سلطان اس کا ولی ہے۔
’’ ابو موسیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے، اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا جس عورت کا نکاح ولی یا حکام نہ کریں، اس کا نکاح باطل ہے۔
عکرمہ ابن خالد سے روایت ہے کہ ایک شوہر دیدہ عورت نے اپنا معاملہ ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا جو اس کا ولی نہ تھا اور اس شخص نے عورت کا نکاح کردیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والوں کو کوڑوں کی سزا دی اور نکاح منسوخ کردیا۔
’’حضرت علیؓ نے فرمایا جس عورت نے بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ بلا اجازت ولی کوئی نکاح نہیں‘‘۔
امام شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ ، حضرت عمرؓ ، شریح اور مسروق نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیئے ہیں؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتا ہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟ پہلی شق تو صریحاً باطل ہے۔ کیوں کہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کا ملہ پر دلالت کر رہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔ دوسری شق بھی باطل ہے کیوں کہ نسخ کا کوئی مثبت یا منفی موجود نہیں ہے۔ اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اس کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ رہا ہوں وہ یہ ہے۔
۱۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیائے عورت۔ اسی بنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
۲۔ بالغہ عورت (باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر یا اس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا، خواہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضامندی نہ ہو، اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
۳۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں، اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں  اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے، شارع نے اس کے نکاح کے لیے اس کی اپنی مرضی کے ساتھ اس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے، اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
۴۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کرے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا، نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نا منظور ہے تو عدالت اسے باطل قرار دے گی۔
۵۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اسکا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ ولی منظور کر لے تو نکاح برقرار رہے گا، نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔ اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بنا پر اس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہ کرتا ہو تو یہ نکاح فسخ کردیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا ، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھہرادیا جائے گا اور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)