نماز میں اختلاف

جواب: اس میں اختلاف کی موجودگی تشویش ناک بات نہیں ہے رسولﷺْ نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے مجمع کے سامنے نمازیں پڑھیں اور مختلف انداز میں پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ رسول ﷺ نے نماز میں جس طرح سے بھی کیا اور جو جوبھی کیا وہ سب محفوظ رہے ۔ رسول ﷺ کی کوئی ادا ایسی نہ ہو جو مسلمانوں میں محفوظ نہ رہے اور مسلمانوں کا کوئی طبقہ اسے اختیار نہ کرے۔ رسولْﷺ بعض اوقات پوری پوری رات نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ پاؤں مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا۔ بعض اوقات مسجد نبویﷺ میں ظہر کے بعد طویل نوافل پڑھتے تھے۔ طویل نوافل میں جب آدمی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے تو بعض اوقات ہاتھ تھک جاتا ہے اور ہاتھ کو کھول کر نماز پڑھنے میںآرام ملتا ہے۔ تورسول ﷺ بھی طویل نمازوں میں کبھی کبھی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اب کسی نے دیکھا کہ حضور ﷺ دست مبارک چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ کبھی ہاتھ اوپر باندھ لیے اور تھک گئے توپھر نیچے باندھ لیے۔ نیچے تھک گئے تواوپر باندھ لیے ۔اس میں آرام مل جاتا ہے اس لئے اس میں نہ تو کسی جائز ناجائز کا مسئلہ ہے نہ اس میں کسی مکروہ اور مستحب کا مسئلہ ہے۔ ہر طرز عمل سنت ہے اور ان میں سے ہر طرز عمل جائز ہے ۔فقہا نے صرف یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان میں افضل کو ن سا ہے ۔کچھ لوگوں نے کہا کہ ہاتھ چھوڑ کر پڑھنا افضل ہے کچھ نے کہا ہاتھ باندھ کر پڑھنا افضل ہے ۔اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ سب سنت کا حصہ ہے اس لیے اس میں کسی تشویش کی کوئی بات نہیں مسلمان چودہ سو بر س سے نماز اسی طر ح پڑھ رہے ہیں آئندہ بھی پڑھیں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں آپ کا جی چاہے تو سورہ فاتحہ میں آمین اونچی آواز میں پڑھئے اور جی چاہے تو آہستہ پڑھئے۔ جی چاہے تو رفع یدین کریں اور جی چاہے تو نہ کریں سب سورتیں جائز ہیں سب سنت ہیں اور سب کا تعلق سنت سے ہے جس میں کوئی شک نہیں 
نہ یہ چیزیں مسلمانوں میں افتراق کا موجب ہیں نہ ان سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ حرم شریف میں جاکر دیکھیں لاکھوں افراد کئی کئی طریقوں سے نماز پڑھتے نظر آتے ہیں کوئی زور سے آمین کہتاہے کوئی آہستہ سے کہتا ہے سب ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور کوئی لڑتا نہیں۔ ہمارے ہاں ان امور کو اختلاف کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لڑنے کے اسباب اور ہیں ان کا آمین زور سے یا آہستہ کہنے سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی اس کا رفع یدین سے کوئی تعلق ہے ۔نماز کے اندر رفع یدین کرنے سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا ہاں نماز سے باہر رفع یدین کرنے پر جھگڑا ہوتاہے۔ جب جاہل اور متعصب لوگ ایک دوسرے پر رفع یدین کرتے ہیں اس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہیے۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)