تقدیر معلق

جواب: متکلمین کی اصطلاح میں تقدیر مبرم سے مراد وہ چیزیں ہیں کہ جس میں انسان اپنے فیصلے سے کوئی تبدیلی نہیں کرسکتاہے مثلاً انسان کی موت کا وقت مقرر ہے انسان کی عمر مقرر ہے کوئی انسان چاہے کہ اپنی عمر میں اضافہ کر لے یا کمی کر لے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں فیصلہ کیا ہے کہ فلاں جگہ پیدا ہوں گا فلاں ماں باپ کے ہاں پیدا ہوں گافلاں جگہ مروں گا میں اپنے بارے میں کوئی فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتا اس طرح کے معاملات تقدیر مبرم کہلاتے ہیں۔
اس کے بر عکس جن معاملات میں میرے فیصلے یاchoiceسے فرق پڑتا ہے وہ تقدیر معلق ہے یہ محض اصطلاح کا فرق ہے ورنہ قرآن میں کوئی ایسی اصطلاحا ت نہیں آئیں اور نہ حدیث میں آئیں نہ متقدمین کے ہاں ملتی ہے بلکہ بعد والوں کے ہاں ملتی ہیں۔ تقدیر معلق کابدا ء سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بداء کا تصورجو شیعہ کلام میں پایا جاتا ہے وہ مختلف ہے بداء کا تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوجزوی واقعات کا علم پہلے سے حاصل نہیں ہے یہ علم ان کو ان جزوی واقعات کے وقوع پذیر ہوجانے کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو کائنات کے ایک ایک ذرے کا علم ہے ۔جب سوال یہ پیدا ہوا تو بعض حضرات خاص طور پر فلاسفہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو کلیات کا علم تو ہے جزئیات کا علم نہیں ہے میرے جیب اگر چار سکے ہیں تو چوتھا سکہ کون سا ہے؟ نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کواس کا علم نہیں ہے ۔اس کو صرف کلیات کا علم ہے کہ ایک محمود غازی ہے اس کے پاس اتنے پیسے ہیں فلاں جگہ کام کرتا ہے یہ وہ بات جانتا ہے لیکن یہ تفصیلات جو میرے بارے میں ہیں یہ نعوذباللہ اس کے علم میں نہیں ہیں کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں اور اس زمانے کی عقلیات کے لحاظ سے وہ اسی لغو نتیجے پر پہنچے ہیں جب یہ تصور ایک بار ایک حلقہ میں عام ہوگیا تو پھر یہ سوال پیدا ہو ا اللہ تعالیٰ جو بہت سے فیصلے کرتا ہے و ہ نعو ذباللہ اس مفروضے پر کرتا ہے اور نقل کفر، کفر نہ با شد بہت سی جزئیات اس کے علم میں نہیں ہیں بعد میں جب حکم دینے کے بعد پتا چلتا ہے کہ چونکہ جزئیات سامنے نہیں تھیں اس لئے غلط نتیجہ نکلا تو پھر اللہ تعالیٰ اس پر نظر ثانی کرتا ہے اس نظر ثانی کے عمل کو بدا ء کہتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ ایک غلط بات ہے اور بالبداہت غلط ہے لیکن چونکہ یہ لغو خیا ل اس زمانے میں ایک طبقہ میں پھیل گیا تھا اس لئے کچھ لوگ اس سے متاثر بھی ہو گئے تھے اس زمانے میں چونکہ لوگ اس کے قائل ہو ئے کہ خالق کائنات کو جزئیات اور انفرادی واقعات کا علم نہیں ہوتا ان میں بعض بڑے بڑے فلاسفہ بھی شامل ہیں جنہوں نے عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا علم صرف کلیات تک محدود ہے جزئیات تک محیط نہیں ہے۔ انہوں نے جن عقلی دلائل سے یہ بات کہی تھی آج وہ عقلی دلائل مضحکہ حیز معلوم ہوتے ہیں لیکن اس زمانے میں یہ بہت state of۔the۔art قسم کی چیزیں مانی گئیں یہ بات ایک زمانے میں عام تھی اور جو دلائل دیے گئے تھے وہ سب ایک ہی طرح کے تھے مثلاً ایک دلیل دی گئی کہ اگر بادشاہ ہو اور اس کی سلطنت میں دس لاکھ آدمی ہوں تو بیک وقت وہ دس لاکھ آدمیوں سے کیسے مخاطب ہو سکتا ہے وہ اپنے گو رنروں سے مخاطب ہو گا ولی سے مخاطب ہو گا گورنر نائب گورنر سے مخاطب ہو گا وہ فلاں سے ہو گا اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کرتا ہے کہ وہ کلیات سے رابطہ رکھتا ہے اور کلیات کے ذریعے جزئیات تک پہنچاجاسکتا ہے یہ بات آج بالبداھت کمزور اور غلط معلوم ہوتی ہے۔ 
جزئیات سے رابطہ اور ایک ایک آدمی کی بابت ہر بات کی بیک وقت اطلاع ہونا یہ بہت آسان بات ہے کئی سال پہلے میں انگلستان گیا تومیں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ وہاں انفرادی طور پر ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے بیک وقت رابطہ رکھنے کا ایک نظام ہے اگر آپ انگلستان کہیں جانا چاہتے ہیں تو آپ کمپیوٹر سے اپنا ایڈریس وہاں نوٹ کروادیں کمپیوٹر آپ کو گائیڈ کرتا رہے گا کہ آپ سڑک کے دائیں ہو جائیں پھر آپ مین روڈ پر جائیں پچاس میل کے بعد پھر دائیں مڑ جائیں بائیں مڑ جائیں پھر وہ آپ سے کہے گا کہ آپ دو سو میل چلیں دو سومیل کے بعد آپ فلاں سٹرک ایم یا ایم ۲ پر ہوجائیں اور اس طرح آپ گھر تک پہنچ جائیں گے اس وقت میں نے اپنے دوست سے جو مجھے لے کر جا رہے تھے کہا کہ مجھے وہ جزئیات کے علم والامسئلہ یاد آرہا ہے کہ کس طرح یہ کمپیوٹر(جی پی ایس) ایک ایک آدمی کو انگلستان میں اس وقت کتنی گاڑیو ں کو ایک ایک گھر تک پہنچا رہا ہے جب انسانوں کی بنائی ہوئی مشین یہ کر سکتی ہے تواللہ تعالیٰ کیوں نہیں کر سکتا؟ 
 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)