اگر اللہ ہوا ،تو؟

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مئی 2013

Click here to read in English

(محترم آصف افتخار کے مضمون what if He is سے ماخوذ)

زاہد: کیا آپ کافی مطالعہ کر تے ہیں؟

خالد : اتنا تو نہیں ،البتہ میں سوچتا کافی ہوں۔

زاہد: آپ میرے سوالات سے ناراض تو نہیں ہوں گے؟

خالد: امید تو ہے کہ نہیں ہو ں گا۔

زاہد: اگر آپ کو بعض اجنبی اور ناگوار سوالا ت کا سامنا کرنا پڑے تو ؟

خالد: ایک اچھا سوال ذہانت کی علامت ہوتا ہے۔لیکن ہر سوال نہیں۔ ایک بیوقوف بھی بہت سے سوال پوچھ سکتا ہے بلکہ اتنے پوچھ سکتا ہے کہ عقلمند ان کا جواب دینے سے قاصر رہ جاتا ہے ۔

زاہد: کیا تم مجھے بیوقوف کہنا چاہتے ہو؟

خالد: نہیں بلکہ میں یہ کہنا چا ہ رہا ہوں کہ محض تنقید کی نیت سے کیا گیا سوال فائد ہ نہیں دے سکتا۔ اگر سیکھنے اور جاننے کی خواہش سچی ہو تو انسان ایک بیو قوف سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اس کے بر خلاف عقلمند کی دانائی سے بھی کچھ فائد ہ نہیں ہوتا۔

زاہد: مسکراتے ہوئے گویا تم اپنے آپ کو عقلمند کہنا چاہ رہے ہو؟

خالد: تم میرے پاس سائل بن کر آئے ہیں نہ کہ میں۔تو ظاہر ہے کہ تم نے مجھے عقلمند سمجھا ہو گا۔ اور اگر ایسا نہیں تو یا تمہاری جاننے کی خواہش سچی نہیں اور یا تم عقلمند نہیں۔اگرکسی کی سیکھنے اور جاننے کی خواہش واقعتا سچی ہو تو پھر اس بات کی بے پنا ہ اہمیت ہے، کہ وہ یہ جانے، کہ وہ کس کے پاس مشورے یا سوال پوچھنے کے لیے جا رہا ہے۔بیما ر اپنے مرض کی تشخیص کے لیے ہر ایرے غیرے کے پاس تونہیں جائے گا ۔ظاہر ہے اس کے لیے اسے بہت جانچ پر کھ کرنا ہو گی۔اسی طرح اگرتم علم کی تلاش میں ہو تو اس کے لیے تمہیں اہل شخصیت کا انتخاب کر نا چاہیے۔اور اگرتم علم کے حصول میں واقعی مخلص ہوں توتمہیں استاد کا احترام بھی کرنا چاہیے ۔

سب سے پہلے بات کو اچھی طرح سمجھو’ پھر اس کا جائزہ لو اور پھرتنقید کر و، اگر کرنی ہو تو۔علم بلاشبہ عظمت کی طرف لے جاتا ہے لیکن اس کا آغازبہر حال عاجزی اور انکساری سے ہی ہوتا ہے ۔علم کے متلاشی کو ہمیشہ منکسر المزاج ہونا چا ہیے۔

مجھے بہر حال عقلمند ہونے کا دعوی نہیں لیکن یہ تو ظاہر ہے کہ ایک بیوقوف بھی اچھی بات کہہ سکتا ہے اور اس لحاظ سے ہوسکتا ہے کہ میں تمہاری کوئی خدمت کر سکوں۔لیکن اگر مجھے یہ محسوس ہو اکہ اتمھارا رویہ صرف اور صرف تنقید او رتمسخر کا ہے تو پھر میرے لیے کوئی خدمت ممکن نہ ہو گی۔یہ بات بدیہی ہے کہ اگرتم اچھے طالب علم نہیں ہو گے تو میں بھی اچھا استاد نہیں ہوں گا ’ اگرچہ میرے پاس تمھیں دینے کے لیے بہت کچھ ہو۔

زاہد : ٹھیک ہے جناب’ میں آپ کا مطلب سمجھ گیا ہوں۔لیکن اگر دوران گفتگو، میں نے محسوس کیا کہ آپ میرے سوالوں کو اہمیت نہیں دے رہے اور میں سمجھوں کہ میرا وقت ضائع ہو رہا ہو ں تو میں اجازت چاہوں گا۔

خالد : بالکل

زاہد: میرا پہلا سوال یہ ہے کہ قوموں کی تاریخ میں فلسفی زیاد ہ اہمیت کاحامل ہوتا ہے یا ایک لیڈر ؟

خالد: دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے ۔

زاہد: لیکن پھر بھی اصلاً اہمیت کس کی ہے ؟

خالد: اس کا جواب دینے کے لیے میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔تم کیا سمجھتے ہو کہ امریکہ نے عراق پر حملہ کر نے کے لیے اقوام متحدہ کی اجازت کا اتنے دنوں انتظار کیوں کیا؟

زاہد: عالمی دباؤ کی وجہ سے ۔

خالد: دنیا کیا پریشر ڈال رہی تھی؟ کیا بندوق کا ڈر تھا یا اقتصادی پابندیوں کا؟

زاہد: نہیں یہ مطلب نہیں ، شاید امریکہ کا خیال یہ تھا کہ اقوام متحد ہ کی اجازت کے بغیر یہ حملہ اس کے مفادات کو نقصان پہنچائے گا۔

خالد: یعنی تمہارا خیا ل ہے کہ اُ س صورت میں عرب امریکہ کو تیل کی سپلائی بند کر دیتے ۔

زاہد: ہاں شاید ، لیکن اصل بات کیا ہے ؟

خالد : میں تو صرف سوال پوچھ رہا ہوں،کہ کس چیز نے امریکہ کو اتنے دنوں روکے رکھا؟ اس نے اقوام متحدہ کی اجازت کیوں حاصل کی ؟

زاہد: چلیے میں ہارا ، آپ ہی بتائیے؟

خالد: میرے خیال میں اور وجوہات بھی ہو ں گی لیکن اصل وجہ اخلاقی جواز فراہم کرنا تھا۔

زاہد: تو؟

خالد: یہ فلسفی ہے جو لیڈروں کو ایسے جواز فراہم کرتا ہے ، اگرچہ دونوں کا اپنا اپنا مقا م ہے ۔

زاہد: لیکن اخلاقی جواز تو گھناؤنے اعمال کا بھی فراہم کیا جا سکتا ہے ؟

خالد: ٹھیک ہے لیکن اخلاقی اقدار کی اپنی اہمیت ہے ؟

زاہد: لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کامیاب ہونے والے لیڈر تو اخلاقیات کو اتنی اہمیت نہیں دیتے اور جو دیتے ہیں شکست ان کا مقدر بنی رہتی ہے ۔

خالد: اس کے باوجود لوگ اخلاقی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں۔

زاہد: چلیے مان لیا آگے چلیے۔

خالد: یہ بتائیے کہ کس قسم کے انسان کو قتل کر نا بہت مشکل ہے ؟

زاہد : ریاست کے سربراہ کو۔

خالد: ضیا ء الحق ، یا بھٹو یا کینیڈی کی طرح؟

زاہد: اگر نہیں تو پھر کس کو؟

خالد: ایک بچے کو ، معصوم بچے کو، تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ معصوم بچوں کا قتل ہمیشہ مشکل امر رہا ہے اور اس کے پیچھے اخلاقیات کی حس ہی کام کر رہی ہوتی ہے۔

زاہد : مجھے لگتا ہے کہ تم اخلاقیات کی اس بات کو اپنے خدا سے جوڑنا چاہتے ہو وہ خدا جو بس تصورات میں ہی ہے ۔ عقلی و سائنسی طور پر ثابت نہیں ہوتا۔

خالد: تصورات میں نہیں بلکہ خدا انسانوں کے دلوں اور ذہنوں میں موجود ہے اور موجود رہتا ہے ۔اگر تمہیں اتفاق ہو تو لیر ی کنگ کی وہ کتاب پڑھو جو دعاؤں پر ہے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ دنیا کے معروف اور طاقتور ترین لوگ خدا پر یقین کرتے رہے ہیں۔اگر مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک لوگ سور کا گوشت کھانے سے احتراز کرتے ہیں تو اس کے پیچھے کیا وجہ ہے ؟ صرف ایک ، کہ ان کا مذہب ان کو ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ گویا آج بھی مذہب کروڑوں انسانوں کی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے ۔جبکہ تمہارے منطقی اور عقلی استدلال یہ قوت نہیں رکھتے ۔

زاہد: اس سے کیا فرق پڑتا ہے اس دنیا میں کامیاب لوگ وہی گزرے ہیں جو مذہبیات اور اخلاقیات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔انہوں نے کبھی ان تصوراتی چیزوں کو اپنے معاشی یا سیاسی مفادات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

خالد : اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا جائے ۔ اگر کسی قوم کا ہر شخص ہی ٹھگ اور چور بن جائے تو کیا وہ قوم ترقی کر ے گی؟

زاہد: ہر ایک کی بات نہیں کر رہا۔

خالد : تو پھر کس کی بات کر رہے ہو؟

زاہد: کسی قوم میں چند افراد ہی اعلی ذہانتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

خالد : یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ یہ اعلی ذہانت والے لوگ ہی لیڈر ہوتے ہیں اور ان لیڈروں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں ،جیسے چاہیں لوگوں کو نقصان پہنچائیں۔

زاہد: صرف ان کو جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنیں۔لینن نے ہر شخص کو تو قتل نہیں کیا ۔ صرف وہی مارے گئے جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔

خالد: ہاں ہاں ،صرف پچاس لاکھ لوگ ہی مارے گئے اور وہ بھی چند سالوں میں۔

زاہد: بھئی کائنا ت کا اصول یہ ہی ہے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس ، صرف اہل شخص کو ہی جینے کا حق حاصل ہے ۔

خالد: اور اس اہل میں ہٹلر بھی شامل ہے ؟

زاہد : نہیں ہٹلر تو ناکام ہو گیا تھا۔اصل میں کامیابی ہی غلط اور درست کو ممیز کر تی ہے ۔

خالد : اور کامیابی کیا ہوتی ہے؟

زاہد: کامیابی اصل میں طاقت ہی کا دوسرا نام ہے طاقت چاہے معاشی ہو ، سیاسی ہو یا سماجی ، یا پھر کامیابی ہر اس چیز کا نام ہے جس سے تمہیں سکون حاصل ہو۔

خالد : کو ئی بھی چیز؟

زاہد : ہا ں ہاں کوئی بھی چیز بشرطیکہ تم اسے حاصل کر سکو اور اس سے سکون پاسکو۔

خالد : زنا، قتل ، بدکاری ، کچھ بھی

زاہد: ہاں کیوں نہیں؟

خالد: یعنی اگر تمہیں اپنی والد ہ سے زنا میں سکون حاصل ہو تو؟

زاہد: خاموشی!

خالد: کیا تم یہ فعل کر وگے؟

زاہد: میرا خیال ہے اس سے تو سکون حاصل نہیں ہو گا۔

خالد: حقیقت نہ سہی فرض کر لو اگر ایسا ہو تو!

زاہد: ہاں شاید

خالد: یعنی تمہیں موقع ملے تو تم یہ فعل کر لو گے ۔

زاہد: خاموشی

خالد: بتاتے کیوں نہیں ؟

زاہد: ہاں شاید

خالد: اور اسی طرح قتل اور بدکاری وغیر ہ بھی۔

زاہد: ہاں شاید

خالد: کیا تم یہ سب کھلے عام کہہ سکتے ہو؟

زاہد: کیوں ؟ کیا میں بیوقوف ہوں؟اخلاقیات کا طوق لوگوں کے گلے میں ڈال کر ہی انہیں کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ عوام میں تو میں اخلاقیات کا علمبردار بن کر رہنا ہی پسند کر وں گا۔ یہ باتیں تو چند خاص لوگوں سے کی جا سکتی ہیں۔

خالد: بہت خوب! اچھا ہوا تم یہ مان گئے ہو کہ اصل میں تم ایک بزدل اور منافق انسان ہو۔

زاہد: ان اصطلاحات کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ۔ ہر ایک شخص کے لیے ان کامطلب مختلف ہو سکتا ہے ۔

خالد: تو تمہارے خیا ل میں مدر ٹریسا اور سر تھامس مور جیسے لوگ سب بیوقوف تھے۔

زاہد: بالکل

خالد: اچھا چلو یہ بتاؤ کہ کیا یہ ممکن ہے کہ تمہیں میرے گھر سے جاتے ہی فالج ہو جائے ؟

زاہد: ہاں یہ توممکن ہے ۔

خالد: پھر کیا ہو گا؟

زاہد: امید ہے کوئی میری دیکھ بھال کر ے گا۔ میرے خاند ان میں سے کوئی فرد۔

خالد: لیکن وہ ایک ایسے شخص کی دیکھ بھال کیوں کریں گے جس سے انہیں کوئی مالی مفاد نہ ہو ۔ کیا وہ سب تمہاری ہی طرح کے ذہین نہ ہوں گے ؟

زاہد: شاید نہ ہوں۔

خالد: فرض کرو کہ ان میں سے کوئی بھی تمہاری دیکھ بھال نہ کرے اور تمہیں صدقے خیرات پر گزارا کرنا پڑے تو کیا ہو؟

زاہد : پھر تو شاید میں جیتے جی مرجاؤں۔

خالد: اس کامطلب ہے کہ تم اس امکان کو تسلیم کر تے ہو ، تم مانتے ہو کہ ایسا حادثہ ہو سکتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے تمہارے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے ؟

زاہد: جی بالکل

خالد: پھر تم کس بات کے اعتماد پر جیتے ہو ۔ کم از کم مجھے تو یہ معلوم ہے کہ اس دنیا میں مجھے اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو آخرت میں اس کا صلہ مل جائے گابشرطیکہ میں اپنے اخلاقی اصولوں پر کار بند رہوں۔

زاہد: میں اپنی زندگی اخلاقی اصولوں کے نام پر داؤ پر نہیں لگا سکتا اور اخلاقی اصول بھی وہ جو دوسروں کے بنائے ہوئے ہیں۔

خالد: جو لوگ دنیا میں فالج جیسے مصائب یا دوسری آفات کا شکار ہوتے ہیں ان کی تلافی کی اس دنیا میں کیا صورت ہے ؟

زاہد: یہ میرا مسئلہ نہیں ہے ۔اور دوسرے یہ کہ سائنسی ترقی کے ساتھ ہم ایسی بہت سی بیماریوں اور آفات پر قابو پا سکتے ہیں اور ان لوگوں کی دیکھ بھال کے طریقے بھی دریافت کر سکتے ہیں۔

خالد: لیکن ان لوگوں کا کیا ہو گا جو سائنس کی اس مفروضہ ترقی سے قبل ہی مر چکے ہو ں گے ۔

زاہد : میں نے کہا نا کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے ۔زند گی ایسے ہی ہے ،کوئی کھوتا ہے کوئی پاتا ہے ۔حتی کہ بعض رومی شہنشاہوں کو خود کشی کرنا پڑی۔

خالد: اس کا مطلب ہے کہ جب زندگی کا جبر بڑھے توتم خود کشی سے فرار حاصل کر لوگے ۔ کیا تم نے کبھی صبر اور استقامت کا سنا؟

زاہد: پھر وہی مبہم اور مجہول اصطلاحات!اس کوفرار کیوں کہتے ہو یہ کیوں نہیں کہتے کہ جب زندگی تمہارے لیے قابل قبول نہیں رہتی تو تم اپنے ہاتھوں پرُ سکون موت کا راستہ منتخب کر لیتے ہو۔

خالد: بہت بہتر ، جواب تو سارے ہو گئے ہیں بہر حال ہم بحث جاری رکھیں گے لیکن پہلے چائے ہو جائے۔

زاہد: بہت بہتر یہ تو ہونا ہی چاہیے۔مجھے واقعی چائے کی طلب ہو رہی ہے۔

چائے آتی ہے ۔

خالد: (جب زاہد چائے پینے لگتا ہے ) ٹھیرو، میرے ملازم نے بتا یا ہے کہ اس چائے میں زہر ہو سکتا ہے اسے مت پیو۔

زاہد: کیا؟

خالد: یہی مجھے کہا گیا ہے ۔

زاہد: لیکن تم تو پی رہے ہو۔

خالد: اس لیے کہ اس میں کوئی زہر نہیں ہے ۔

زاہد: اور میرے کپ میں ہے ؟

خالد: ہاں اس کا امکا ن ہے ۔

زاہد : خالد کی طرف گھورتا ہے ۔

خالد: تم چائے پی کیوں نہیں رہے ؟

زاہد: تم نے خود ہی تو کہا ہے کہ اس میں زہر ہو سکتا ہے

خالد : لیکن تم تو کہہ رہے تھے کہ تمہیں چائے کی طلب ہو رہی ہے۔

زاہد: مذاق مت کرو ، تھوڑے سے سکون کے لیے میں اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتا۔

خالد: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ چھوٹے فائدے کے لیے بڑا فائد ہ چھوڑ دینا کوئی عقلمند ی نہیں ہے ۔

زاہد: ہا ں ایسے کہا جا سکتا ہے ۔

خالد: لیکن اگر خدا ہو تو؟

زاہد: میں سمجھا نہیں۔

خالد: کیا تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے؟ کہ ابد ی جہنم کی سزا زیاد ہ بڑا رسک ہے اس دنیا کی تکلیفوں کے مقابلے میں۔

زاہد: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں بہت برا انسا ن ہوں؟ تمہارا یہ خیال درست نہیں۔ مجھے قتل یا دوسروں کو جنسی بہکاوے دے کر سکون حاصل نہیں ہوتا۔

خالد: میں جانتا ہوں ، لیکن میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ممکن ہے کہ تم زندگی میں بہت سی ذمہ داریاں پوری کرتے ہو گے، لیکن چونکہ تم انہیں ایک فریضے کی حیثیت سے قبول نہیں کررہے تومیرے نزدیک تم علم کے ایک اہم اصول کے انکار کے مرتکب ہورہے ہو۔زندگی میں ہم اپنے آبا ؤ اجداد سے ملے موجود علم کی بنیاد پر ہی فیصلے کرتے ہیں اور اسوقت تک کر تے رہتے ہیں جب تک کہ کوئی چیز ہمارے عقل و شعور کی بنا پر غلط ثابت نہ ہوجائے۔اس میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری عقل اورشعور کی صلاحیت، علم کا بنیادی ماخذ نہیں ہے ۔جب میں دیکھتا ہو ں کہ موٹر کار میری طرف آ رہی ہے تو میں ایک طرف ہو جاتا ہوں۔ اس مفروضے کی بناپر کہ یہ مجھے ٹکر مار دے گی اور اس طرح مجھے تکلیف ہو گی او راس طریقے سے تکلیف پانا اچھی بات نہیں ہے۔میرے یہ دونوں مفروضے غلط ہو سکتے ہیں لیکن جب تک یہ عقل و شعور کی روشنی میں غلط ثابت نہ ہوجائیں تو میں اپنے فیصلوں کی بنیاد اسی علم پر رکھتا ہوں۔اسی طرح میں قتل کوبرا سمجھتا ہوں ، گھر سے ننگا نکلنے کو ناپسند کر تا ہوں، بڑھاپے میں اپنے والدین کاخیال رکھتا ہوں اگر چہ ان سے اس وقت مجھے کسی مالی فائدے کی توقع نہیں ہوتی ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال کر تا ہوں اور یہ تمام اسی بنیاد پر ہوتا ہے کہ یہ سب صحیح ہیں جب تک کہ عقل و شعور کی کسوٹی پر غلط ثابت نہ ہو جائیں۔اسی طرح میں ڈاکٹر کا نسخہ استعمال کرتا ہوں جب تک وہ مضر صحت ثابت نہ ہوجائے۔ثابت یہ ہوا کہ علم ابہام سے ابہام کی طرف نہیں لے کے جاتا بلکہ یقین سے مزید یقین کر طرف لے جاتا ہے۔

اللہ پر یقین انسانوں کے علم میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔مشرکین اور موحد سب اس پر یقین کر تے رہے ہیں۔ اسی طرح آخرت اور جزا و سزا پر یقین بھی ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔اس میں استثنی سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ یہ یقین فی نفسہ غلط ہیں کیونکہ عقل و شعور ان کے انکار کی طرف رہنمائی نہیں کرتے ۔

اب امکانات کے ہونے کو لیتے ہیں۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ خداکے بغیر زندگی بے معنی اور بے مقصد ہے۔اس کے نہ ہونے کا نتیجہ بے معنویت اور بے مقصدیت ہے ۔ لیکن اگر وہ ہو تو؟اور اگر وہ تمہیں حقائق کے اس انکارپر جوابدہ ٹھیرا لے اور پوچھ لے کہ عقل و شعور نے تو تمہیں کوئی جواز فراہم نہیں کیا تھا تو پھر کس بنیاد پر میری ہستی کو جھٹلایا؟کیا اس فانی زندگی کی آسائش کوئی ٹھوس بنیاد تھی جس کی بنا پر تم ابدی زندگی کو جھٹلاتے رہے؟

میں نسل انسانی کے مشترکہ علم ، پیغمبروں کی پاکیزہ زندگیوں ، آسمانی ہدایت ، انسانی ضمیر ، اور اپنے عقل و شعور کی بنا پر قسم کھاتا ہوں کہ اللہ ہے اور اس کی موجودگی اس بات کا تقاضا کر تی ہے کہ اس کی عباد ت کی جائے خدا کے ہونے پر یقین کرنا مشکل ہے تو اس کے نہ ہونے پر یقین کر نا نا ممکن ہے ۔ اگر وہ ہے ہی نہیں توپھر تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر وہ ہوا تو؟ تو نہ ماننے والو ں کے لیے مسئلہ بن جائے گا۔اگر وہ نہ ہوا تو سب برابر ، ماننے والے بھی اور نہ ماننے والے بھی ۔ اس صورت میں ماننے والے کسی خسارے میں نہ رہیں گے ۔ لیکن اگر وہ ہوا تو نہ ماننے والے یقینایقینا خسارے میں ہو ں گے ۔ اس لیے امکانات کی دنیا بھی اسی بات کاتقاضا کرتی ہے کہ اس کے ہونے پر یقین لایا جائے تا کہ آخرت کے خطرے سے بچا جا سکے ۔

زاہد: نتائج کے اعتبار سے تو مجھے اس وقت کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے مزید مجھے کیا کرنا چاہیے اس بارے میں کوئی فیصلہ میں اب اسی وقت کروں گا جب اسے دیکھ لوں گا۔

خالد: ٹھیک ہے مجھے بھی مرنا ہے اور تمہیں بھی ،اس وقت ان شا ء اللہ ہم دیکھ لیں گے ۔

زاہد: ٹھیک ہے ٹھیک ہے دیکھ لیں گے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۳۵:۲۴)

بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں وہ نہیں لوٹیں گے ۔(۱۸:۲)

تم کس طرح خدا کا انکار کر سکتے ہو؟ تم بے حیات تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہ تمہیں موت دے گا،پھر دوبارہ تمہیں زندگی دے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹ کے جاؤ گے ۔(۲۷:۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔