سلیم گورنمنٹ کالج شکرگڑھ میں میرا شاگرد تھا۔ خوبصورت، خوش اخلاق، لائق اور پکا نمازی۔ اس لیے میرے دل میں اُس کی خاص قدر تھی۔شکرگڑھ سے ایف ایس سی کرنے کے بعد سلیم مرے کالج سیالکوٹ چلا گیا اور وہاں سے بی ایس سی کرکے قسمت آزمائی کے لیے کراچی منتقل ہوگیا۔ وہاں گیا تو وہ ملازمت کی تلاش میں تھا مگر ایک نوجوان لیڈی لیکچرار اُس کی شخصیت کی رعنائی پر مرمٹی اور اُس نے اصرار کر کے اُس سے شادی کرلی۔ لیڈی لیکچرار کا وہاں اپنا مکان تھا چنانچہ سلیم کو بیٹھے بٹھائے ایک ‘‘کماؤ’’ بیوی بھی مل گئی اور رہنے کے لیے مناسب مکان بھی۔سلیم حالانکہ بی ایس سی تک تعلیم حاصل کرچکا تھا مگر اُس کے پاس کوئی پیشہ ورنہ ڈگری نہیں تھی اس لیے کراچی میں اُسے کوئی ملازمت نہ ملی۔ یوں بھی چونکہ بیوی کی تنخواہ مناسب تھی اور رہنے کے لیے مکان بھی۔ اس لیے وہ بھی سُست ہوگیا اور اُس کا سارا وقت فارغ رہنے اور عیش کرنے میں گزرتا رہا۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے چھ سال گزر گئے اور اس دوران میں خدا نے اُسے چار بچے عطا کردیئے: دو بیٹے، د و بیٹیاں۔اور پھر اُس نے ‘‘آزاد’’ فضا میں زندگی گزارنے کی خاطر یورپ جانے کا فیصلہ کرلیا اور جرمنی چلا گیا۔ جرمنی میں وہ چار سال مقیم رہا۔ مگر واپس آیا تو میاں بیوی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوتی چلی گئیں اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ دونوں کا اکٹھے رہنا محال ہوگیا اور بیوی نے باقاعدہ عدالت میں مقدمہ کرکے خلع حاصل کرلیا۔

            میں ۹۷-۱۹۹۶ء میں گورنمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ، لاہور تھا جب ایک روز سلیم میرے پاس آیا۔ اُس کی شخصیت کی رعنائی اور دلکشی میں چنداں فرق نہیں آیا تھا مگر سنجیدگی اور اُداسی نے اُس کے چہرے کو کملا دیا تھا۔ اُس نے اپنی ساری داستان سنائی اور یہ افسوس ناک خبر بھی دی کہ جرمنی سے جو کچھ کما کر لایا تھا اُس کا کچھ حصہ بیگم نے ہتھیا لیا اور جو کچھ بچا تھا وہ لاہور میں ایک فراڈیے دوست نے اُچک لیا۔ اُس نے کاروبار کا جھانسہ دیا تھا اور میں نے ساری رقم اُس کے حوالے کردی تھی۔ چنانچہ سلیم نے روہانسے چہرے کے ساتھ بتایا کہ اب وہ بالکل دیوالیہ ہوچکا ہے اور اُسی مقام پر ہے جہاں کراچی جانے سے پہلے تھا۔میں نے پوچھا کہ اس نقصانِ عظیم کی وجہ کیا ہوسکتی ہے تو اُس نے صاف گوئی سے کہا کہ جرمنی میں اُس کا مذہبی کردار ختم ہوگیا تھا اور وہ وہاں کے ماحول کی آلودگیوں سے محفوظ نہیں رہ سکا تھا۔ ظاہر ہے پھر وہی کچھ ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ اُس پر اللہ کی ناراضی کا کوڑا خوب برسا۔ بیوی ہاتھ سے گئی ، بچوں سے محروم ہوا، گھر بیوی کا تھا اُس سے نکالا گیا اور جرمنی سے جو کچھ کماکر لایا تھا وہ سب غارت ہوگیا۔ اب وہ گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ اور یہ کرشمہ ہے اُس کی بدعمالیوں کا اور یورپ یاترا کا۔

            امانت علی مرحوم میرا دُور کا رشتہ دار تھا۔ تعلیم اُس کی زیادہ نہیں ہوسکی تھی محض بی اے کرسکا اور ایک سرکاری محکمے میں جونیئر کلرک تھا کہ کوشش کر کے وہ سعودی عرب چلا گیا اور وہاں ایک لمبے عرصے تک مقیم رہا۔امانت علی ایک آزاد خیال آدمی تھا اور اخلاقی پابندیوں کا چنداں لحاظ نہ کرتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک بار میر ے گھر آیا تو کہنے لگا: میں بھابی محترمہ سے ملنا چاہتا تھا۔ میں نے جواب دیا کہ میری بیوی ایک پردہ دار خاتون ہے اور غیرمردوں کے سامنے نہیں آتی۔ اس پر وہ بڑا برہم ہوا کہ پھر آپ میری بیوی کے سامنے کیوں آتے ہیں۔میں نے کہا کہ میں نے کبھی بھی آپ سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ آپ کی بیگم میرے سامنے آئے۔ میں آپ کے گھر جاتا ہوں تو وہ ڈرائنگ روم میں خود میرے سامنے آجاتی ہے تو میں کیا کروں۔باتوں کے دوران امانت علی نے پوچھا: بیٹی جوان ہورہی ہے اُس نے ایف ایس سی کرلیا ہے اب کیا کیا جائے؟ میں نے کہا کہ بہتر ہے کہ کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر اُس کی شادی کردیں لیکن اُس نے میری بات سے اختلاف کیا: نہیں میں تو اُسے کمپیوٹر کورس کراؤں گا اور بزنس کی ٹریننگ دوں گا تاکہ وہ کامیاب بزنس کرسکے۔امانت علی جدہ میں مقیم تھا۔ اس کی بیوی اور بچے پاکستان ہی میں رہتے تھے اور وہ بہت لمبے وقفے کے بعد ڈیڑھ دوسال کے بعد ہی واپس آیا کرتا تھا اور میں حیران پریشان ہواکرتا تھا کہ اُس کی بیوی جوان ہے، خوبصورت ہے پھر دونوں کا گزارا کیسے ہوتا ہے؟ دھماکہ تو اُس وقت ہوا جب پتہ چلا کہ امانت علی بیمار ہوکر لاہور کے ایک کینسرہسپتال میں داخل ہوگیا ہے۔ میں عیادت کے لیے گیا۔ بے چارہ بے بسی کی تصویر بنا بستر پر دراز تھا جبکہ اُس کی بیوی پوری چمک دمک کے ساتھ پاس بیٹھی تھی۔ پتا چلا کہ کینسر نے اُس کے جگر کا صفایا کردیا ہے۔کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ میاں بیوی میں سے کون اس المیے کا ذمہ دار تھا یا شاید دونوں تھے۔

            اجمل ذہین نوجوان تھا۔ میٹرک کے بعد اُس نے بجلی کا، اے سی کا اور فرج مرمت کرنے کا کام سیکھ لیا۔ قسمت نے یاوری کی اور اُسے کویت میں ملازمت مل گئی اور اسی بنا پر اُس کی شادی ایک امیر خاندان میں ایک خوبصورت لڑکی سے ہوگئی۔دیکھنے میں آیا ہے کہ غریب نوجوان بیرونِ ملک نوکری کرتے ہیں تو اُن کی ساری تگ و دو جائیداد بنانے میں صرف ہوتی ہے۔ پلاٹ خریدنا، بڑے مکان بنانا اور بیوی بچوں کو عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنا اُن کا پسندیدہ مشغلہ بن جاتا ہے۔ اجمل نے بھی رہنے کے لیے مکان بنایا، دو تین پلاٹ خریدے لیکن اُس کی زیادہ توجہ بیوی کو خوش رکھنے اور اُس کے مطالبات پورے کرنے میں لگی رہتی تھی۔ وہ ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو سال پاکستان نہیں آتا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اُس کی بیوی خوش رہتی تھی۔ خوب سج دھج کے ساتھ زندگی گزارتی۔ خوبصورت تو تھی ہی، دولت اور عیش و عشرت نے اُس کی شخصیت کو مزید نکھار دیا تھا۔لیکن یہ خبر پورے خاندان نے نہایت دُکھ اور انتہائی صدمے کے ساتھ سنی کہ صرف چالیس سال کی عمر میں اجمل کی بیوی کینسر میں مبتلا ہوگئی اور یہ مرض بڑھتا ہی چلا گیا۔ سب سے پہلے اُس کا گلا متاثر ہوا اور پھر یہ تکلیف جسم میں پھیلتی ہی چلی گئی اور جگر تک پہنچ گئی۔ شدید اذیت اُسے ہلکان کیے رکھتی اور پانی بھی پیتی تو اُس کی جان پہ بن آتی۔ یہ جان لیوا عمل ایک دو نہیں پورے چار سال تک جاری رہا۔ بیگم اجمل کے لیے زندگی عذاب بن گئی تھی۔ وہ اکثر موت کی دعائیں کرتی لیکن موت اُسے بھول ہی گئی تھی۔پتا چلا کہ جب اجمل کویت میں تھا تو اُس کی بیوی نے کتنے ہی مردوں سے تعلق قائم کرلیا تھا۔ گھر میں عیش کا ہر سامان موجود تھا اور وہ خوبصورت اور جوان تھی اور شوہر بہت دُور تھا۔ پھر وہ یہ راستہ اختیار کیوں نہ کرتی۔ اور یہی راستہ اُسے جہنم کی طرف لے گیا۔ دنیاوی اعتبار سے بھی اور آخرت کے حوالے سے بھی۔

            میں نے ایک جوان کو دیکھا، عمر یہی کوئی ۳۵سال ہوگی، لیکن نقاہت اور افسردگی کی گویا تصویر بنا ہوا تھا۔ سر جھکائے، آنکھیں زمین میں گاڑھے، بوجھل قدموں کے ساتھ اتنا آہستہ آہستہ چل رہا تھا کہ مجھے ترس آنے لگا۔ وہ تھوڑے فاصلے پر میرے آگے تھا۔ میں جلد ہی اُس سے جا ملا، اُسے سلام کیا اور پوچھا: کیا بات ہے آپ بیمار ہیں کیا؟ تو اُس نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور جواب دیا: بیمار نہیں ہوں بس حالات کے ہاتھوں پریشان ہوں۔اُس نے بتایا: شادی شدہ ہوں، اللہ نے دو جڑواں بیٹے عطا کیے۔ بہت خوبصورت، بہت پیارے مگر بیوی سے میرے تعلقات خراب ہوگئے۔ میں نے اُسے راضی کرنے کی پوری کوشش کی۔ اُس کا ہرمطالبہ مان لیا مگر وہ کسی ڈھب پر نہیں آئی، گھر چھوڑ کر اپنے والدین کے پاس چلی گئی اور پھر اُس نے خلع کا مقدمہ دائر کردیا اور بدقسمتی یہ کہ عدالت نے اُس کے حق میں ڈگری دے دی ہے۔ اس صورتِ حال نے میری زندگی جہنم بنا دی ہے۔ نہ رات کو نیند آتی ہے ، نہ دن کو قرار ملتا ہے۔ ہروقت شش و پنج میں پڑا رہتا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا ، کیا کروں؟

            میں نے پوچھا: آپ نے کبھی جائزہ لیا ہے کہ یہ صورت ِ حال کیوں پیدا ہوئی ہے؟

            جی ہاں، میں نے اپنے اعمال کا جائزہ لیا ہے۔ بدقسمتی سے شادی سے پہلے میں تقریباً تین سال کے لیے یورپ چلا گیا تھا۔ وہاں مختلف ملکوں میں ملازمتیں کرتا رہا اور سچی بات ہے کہ مَیں اپنے آپ کو وہاں کے ماحول سے بچا نہ سکا اور میں سمجھتا ہوں کہ وہی نحوست میری زندگی کا حصہ بن گئی ہے اور خدا جانتا ہے کہ کب تک اُس کے وہاں مَیں پڑ ا رہوں گا۔

٭٭٭