تعلق یاد رکھتا ہوں نشانی یاد رکھتا ہوں
کہاں ٹھہری کہاں گزری جوانی یاد رکھتا ہوں

 

کسی کے ساتھ بیتا تلخ لمحہ بھول جاتا ہوں
کسی کے یاد گزری رت سہانی یاد رکھتا ہوں

 

مجھے محسوس ہوتا ہے سبھی کردار ہیں میرے
اسی خاطر میں ساری ہی کہانی یاد رکھتا ہوں

 

بٹھا کر سامنے اس کو کئی غزلیں لکھی میں نے 
وہ آمد وہ طبیعت کی روانی یاد رکھتا ہوں

 

بھلائی کر کے میں اکثر بہا دیتا ہوں دریا میں
یہی کرنا ہے ساری زندگانی یاد رکھتا ہوں

 

تبھی تو میں در توبہ پہ اکثر سر جھکاتا ہوں 
کہ آ سکتی ہے کوئی ناگہانی یاد رکھتا ہوں

 

کسی سے بات کرتے پل میں جو الفاظ کہتا ہوں
میں ان الفاظ کی حرمت معانی یاد رکھتا ہوں

 

برائے سود ہر اک سود کو بے سود لکھتا ہوں
برائے رائیگانی ، رائیگانی یاد رکھتا ہوں

 

ترے کیف مسلسل میں ، میں چاہے جتنا کھو جاؤں
پر اے دنیا تو ہے اک دارِ فانی یاد رکھتا ہوں

 

فراوانی میسر ہے سہولت بھی مجھے لیکن
کبھی سلمان تھی اس کی گرانی یاد رکھتا ہوں