ماہِ عزم

(خالد عبدالرحمن الدرویش)

ہر مسلمان اپنے آپ کو مخاطب کرکے ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کا عزم کرے:

٭ میں مہینا بھر اپنی نیت کو خالص رکھوں گا، نیک کام کروں گا اور بھلائیوں کے لیے آگے بڑھوں گا۔

٭میں رمضان کا چاند دیکھ کر دْعا کروں گا۔ یہ میری خوشی کا اظہار ہوگا۔

٭اپنے مال کا کچھ حصہ روزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا، خواہ تھوڑا ہی ہو۔

٭خشوع و خضوع اور غوروفکر کے ساتھ قرآن کریم کا ایک حصہ روز تلاوت کروں گا۔

٭میں اپنی زبان کو غیبت، چغلی، جھوٹ اور فضول باتوں سے بچاؤں گا۔

٭میں تمام فرض نمازوں کے بعد سنتیں ادا کروں گا، اللہ کے ہاں ان کی فضیلت کے پورے احساس کے ساتھ۔

٭میں رمضان کا پورا مہینا اللہ کے ذکر (تسبیح، تہلیل اور تکبیرات) میں گزاروں گا۔

نمازِفجر کے بعد سے لے کر طلوعِ آفتاب تک جتنا ممکن ہو سکے میں ذکر، دْعا اور تلاوتِ قرآن کریم کے لیے مسجد میں قیام کروں گا۔

٭میں اپنے تمام رشتے داروں کے گھر جا کر انھیں اس مہینے کی آمد کی مبارک باد دوں گا۔

٭میں پانچوں نمازیں مسجد میں جماعت کے ساتھ اور تکبیراولیٰ کے ساتھ ادا کروں گا۔

٭میں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑوں گا اور اپنی آنکھ، کان اور تمام اعضا کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاؤں گا۔

٭ میں قیام اللیل کے ثواب کی نیت سے پوری نمازِتراویح باجماعت اداکروں گا۔

٭میں اپنے آپ سے پوچھوں گا کہ میں رمضان میں کتنی بھلائیاں کر سکتا ہوں، پھر جواب کے مطابق ایک قابل عمل پروگرام ترتیب دوں گا۔

٭میں اس مبارک مہینے میں ہر وقت بھلائی کے کسی موقع کی تلاش اور تاک میں رہوں گا، کیونکہ اس مہینے میں بھلائی کا اجر کئی گنا ہو جاتا ہے اور یہ وقت بڑی جلدی گزر جاتا ہے۔

٭میں اس مہینے میں مسجد کی سطح پر، ملازمت کی سطح پر اور سفر کے دوران نئے تعلقات بنانے کی کوشش کروں گا۔

٭میں اس ماہِ مبارک میں پوری دنیا میں موجود اپنے مسلمان بھائیوں کے حالات سے آگاہی حاصل کروں گا اور ان کے لیے دعائیں کروں گا۔

٭میں اپنے گھر، دفتر اور گاڑی میں ایسی ایمان افروز کتابیں، رسائل اور سی ڈیز رکھوں گا جنھیں میں اس مبارک مہینے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو ہدیہ کرسکوں۔

٭میں اپنے امام مسجد کو ایسی عملی تجاویز پیش کروں گا جنھیں اہل محلہ کی ہدایت و راہنمائی کے لیے اپنایا جا سکے۔

٭میں دن بھر خاص طور پر سحر و افطار کے وقت شوق سے دعائیں کروں گا اور اس کی پوری پابندی کروں گا۔

٭میں محلے کی مسجد میں افطاری کے انتظامات میں اپنا مالی اور جسمانی حصہ ڈالوں گا اور اپنے مہمان بھائیوں کی پوری خدمت کروں گا۔

٭میں خاندانی اور دوستانہ ملاقاتوں میں فلاحی، دعوتی اور اصلاحی تجاویز پیش کروں گا اور نیکی کے اس موسم میں وہ ضرور انھیں قبول کریں گے۔ انھیں ان اہم کاموں کے لیے تیار کروں گا۔

میں درج ذیل عبادتوں کا خاص خیال رکھوں گا

٭ افطار میں جلدی کرنا

٭ سحری ضرور کھانا اور اس میں تاخیر کرنا

٭دوسروں کو کھانا کھلانا

٭ طاق عدد کھجوروں سے افطار کرنا

٭جو مجھے گالی دے، یا کوئی بدسلوکی کرے، اس سے یہ کہنا کہ ‘‘میں روزے سے ہوں۔’’

٭ فضول باتوں اور لا یعنی مشغلوں سے اجتناب کرنا

٭لیلۃالقدر کی تلاش کرنا

٭نمازِ تراویح میں امام قرآن کا جو حصہ پڑھتا ہے، میں اسے غور سے سنوں اور اسے سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ قرآن کریم کی تلاوت کے وقت خاموش رہنے کا ثواب بھی ملے گا۔

٭میں اس ماہِ مبارک میں اہل خیر، داعیانِ دین اور نیک لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی کوشش کروں گا تاکہ میں ان کی برکت اور علم سے مستفید ہوں۔

٭میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استحضار کرتے ہوئے اس بابرکت مہینے میں اپنے دل اور زبان کو لفظ الحمدللہ کا عادی بناؤں گا۔

٭میں اپنے اہل و عیال اور ملنے جلنے والوں کو اس بات پر آمادہ کروں گا کہ وہ رمضان سے شعوری طور پر استفادہ کریں۔

٭میں اس مہینے اپنی آمدنی کا ایک حصہ رمضان کے پروگرامات کے لیے مخصوص کروں گا۔

٭میری زبان سے ہر وقت دعائیں جاری ہوں گی۔ والدین، مسلمان مرحومین اور غلبہ اسلام کے لیے وقت مقرر کروں گا تاکہ ناغہ نہ ہو۔

٭ میں سحری کے بعد اور افطاری کے وقت اپنے گھر میں ذکر و دعا کے لیے ایک مختصر مجلس منعقد کروں گا۔

٭میں کوشش کروں گا کہ اس مہینے اپنے رشتے داروں، دوستوں اور ملازمت کے ساتھیوں سے مسلسل رابطہ رکھ کر اور انھیں بھلائی کے کاموں کی ترغیب دے کر ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کروں کہ ان میں میرا کردار سب سے فعال اور نمایاں ہو۔

٭میں اس مہینے بھلائی کے کاموں کے حوالے سے اپنے لیے ایک ڈائری ترتیب دوں گا جس میں یہ چیزیں خاص طور پر شامل ہوں گی: مریض کی عیادت، نمازِجنازہ میں شرکت، صلہ رحمی، دوستوں کے ہاں جانا، عوامی فلاح و بہبود اور ہر پریشان حال کو خوش کرنا۔

٭ میں بروقت ڈیوٹی پر حاضری کو اپنا معمول بناؤں گا اور سارا مہینا پوری پابندی سے کام کرکے ہمیشہ کے لیے اپنی یہ عادت بنالوں گا۔

٭میں ہمیشہ اللہ کے سامنے توبہ کروں گا۔ آئندہ رمضان سے پہلے، اس کے دوران اور اس کے بعد مستقل طور پر اسے اپنی عادت بناؤ ں گا۔

٭ کوشش کروں گا کہ اہل محلہ میں کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہوجائے تاکہ میں انھیں سیدھے راستے پر لاسکوں۔ اس طرح ان کے دلوں میں بھلائی کی محبت پیدا ہوجائے گی۔

٭میں اپنے مسلمان بھائیوں کو دعوتی مقاصد کے لیے مختصر موبائل پیغامات ’’ایس ایم ایس‘‘ ارسال کروں گا جس میں انھیں اس بابرکت مہینے میں بھلائی کے کاموں کی طرف متوجہ کروں گا۔ اس طرح میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے اللہ کی اطاعت کا کام لیتے ہوئے روزانہ کم از کم ۱۰،ایس ایم ایس ارسال کروں گا۔

٭ میں اپنے اہل خاندان کو اپنے گھر افطار کی دعوت دوں گا، اس شعور کے ساتھ کہ روزہ کھلوانا اور صلہ رحمی کا خیال رکھنا مسلمان ہونے کا تقاضا ہے۔

٭ ایسی گفتگو کروں گا جو کسی بھلائی کو آگے بڑھائے اور کسی برائی کے راستے میں رکاوٹ بنے، کسی کو شرح صدر عطا کرے، یا کسی کے دل پر کوئی مثبت اثر ڈالے۔

٭میں اپنے آپ کو اخلاق حسنہ سے مزّین کروں گا، اپنے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رکھوں گا۔ بے شک اکثر لوگ حسن اخلاق کی وجہ سے جنت میں داخل ہوتے ہیں۔

٭نیکی اور بھلائی کے ان کاموں میں حصہ لینے کی کوشش کروں گا جو اسلامی معاشرے کے مختلف اداروں کی طرف سے تجویز کیے جاتے ہیں، خواہ اس حد تک ہی ہو کہ میں ان کے دفتر کا دورہ کروں، ان کی اخلاقی حمایت کروں اور ان کے لیے کلماتِ تشکر پیش کروں۔

٭اگر اللہ تعالیٰ نے اسباب فراہم کیے تو میں اس مہینے کو عمرے کی ادائی کے لیے غنیمت سمجھوں گا۔

٭میں اپنے نفس کو استقبالِ رمضان کے لیے اِن ذرائع سے تیار کروں گا: کتاب پڑھنا، کیسٹ، سی ڈی سننا یا کسی لیکچر یا تعلیمی مجلس میں حاضر ہونا۔

٭قرآن کریم کی کچھ ایسی آیات یاد کرنے کی کوشش کروں گا جو مجھے پہلے سے یاد نہیں ہیں تاکہ میں ہر یاد کی ہوئی آیت کے بدلے جنت کی ایک سیڑھی اور اوپر چڑھ جاؤں۔ اس مقصد کے لیے میں ایک متعین پروگرام ترتیب دوں گا۔

٭ میں قبرستان جاؤں گا اور اہلِ قبور کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا۔ زیارتِ قبور سے میرے دل میں دنیا اور اس کے عارضی سازوسامان سے بے رغبتی کا جذبہ بیدار ہوگا اور میرے اندر اللہ کی اطاعت کا جذبہ پروان چڑھے گا۔

٭میں اعتکاف اور اللہ کے ساتھ خلوت کے لیے ایک ورقہ عمل تیار کروں گا۔ اس سلسلے میں جو کتابچے دستیاب ہیں، ان سے مدد لوں گا تاکہ اعتکاف کی کوئی ساعت ضائع نہ ہو۔

(ترجمہ: گل زادہ شیر پاؤ)