سوال : سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کرائیں؟

 جواب : مجھے ہندو مذہب میں رام ویر سنگھ کہاکرتے تھے لیکن جب ۱۹۹۴ء میں میں نے بودھ مذہب قبول کیا تو میں نے اپنا نام ویر چھٹّو رکھا،پھر ۱۹۹۷ء میں عیسائیت کو قبول کیا وہاں پر ان لوگوں نے بپ ٹائز(Beptize)کرادیا تھا نام نہیں بدلا تھا اور میرا اسلامی نام محمد سلمان ہے ،ہم لوگ میرٹھ کے رہنے والے ہیں لیکن اب دہلی میں رہ رہے ہیں،میرے والد بہت کم عمری میں دہلی آگئے تھے اور دہلی کو ہی اپنا وطن بنا لیا تھا،میری پیدائش بھی دہلی کی ہی ہے اور اب ہم دہلی کے محلہ وزیرآباد میں رہ رہے ہیں۔

 سوال : آپ کی تعلیم ؟

 جواب : میں نے انگلش اور مارشل آرٹ میں ایم اے کیا ہے، میں تین سال تک دہلی صوبہ کا مارشل آرٹ کا چمپین بھی رہ چکا ہوں،میں مشرقی دہلی میں ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ چلاتا ہوں انگلش اسپیکنگ کورس خاص طور پر میرا شوق رہا ہے۔

 سوال :آپ نے اسلام کب قبول کیا؟

 جواب : میں نے ۶؍ اپریل ۲۰۰۷ء کو اسلام قبول کیا۔

 سوال :        آپ نے بدھ مذہب اور عیسائیت کو کب اور کیسے قبول کیا؟کیا کسی نے آپ کو دعوت دی تھی؟

 جواب : احمد بھائی، اصل میں، میں حق کی تلاش میں تھا،اس کی تلاش مجھے دردر لئے پھری،مجھے دنیا میں سکون کی تلاش تھی، میرے اللہ کا کرم ہے کہ اللہ نے مجھے کتنے باطل کے مزے چکھائے،اب اسلام میرے لئے تحقیقی مذہب ہے تقلیدی نہیں۔میں نے ۱۹۹۴ء میں بدھ مذہب اختیار کیا میرے گھر سے تقریبا ڈیڑھ کلو میٹر دور بنتھے ویر چھٹّو (امام)رہتے ہیں ان کے نام پر ہی میں نے اپنا نام ویر سنگھ سے ویر چھٹّو رکھا تھا انھوں نے مجھے بدھ مذہب کی دعوت دی اور کسی فارن کنٹری میں بھیجنے کا لالچ دیا،میں نے ان کی بات مان لی اور یہ مذہب قبول کر لیا۔

 سوال : آپ نے اس مذہب کو کیسے چھوڑا؟

 جواب : میرا ان کے گھر پر آنا جانا تھا اور وہاں میں بے تکلفی سے رہا کرتا تھا ایک مرتبہ میں نے ان کا فریج کھولا ،تو پورک (خنزیر)کا گوشت رکھا ہوا تھا میں اس کو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ اس مذہب کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ لوگ پورک کھاتے ہیں اور یہ بات میں ان سے کہہ کر چلا آیا کہ امن کا ڈھونگ بھرتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں،وہ بھی گندے جانور کا۔

 سوال : آپ نے عیسائیت کو کیسے قبول کیا؟

 جواب : میری والدہ مستقل چرچ میں جایا کرتی تھیں،ان کے ساتھ مجھے بھی جا نا پڑتا تھا۔ وہاں پر جو پادری تھے وہ مجھے عیسائیت کے بارے میں سمجھاتے تھے اور میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا کرتے تھے،کبھی مجھے گلے لگاتے اور کبھی بہت محبت کا اظہار کرتے مجھے ان کی یہ باتیں بہت اچھی لگیں اور میں ان سے بہت متأثر ہواکہ کتنے اچھے لوگ ہیں،انھوں نے مجھ سے اتنی محبت کا اظہار کرکے عیسائیت کی طرف مائل کرلیا اور میں نے عیسائیت کو قبول کرلیا۔وہ بھی بنتھے ویر چھٹّو کی طرح مجھ سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے ساتھ رہو،ہم تمھیں باہر ملک میں لے جائیں گے،لیکن اللہ تعالی کو کہیں بھیجنامنظور نہ تھا اس لئے اس نے مجھ سے اس مذہب کی حقیقت کو کھول دیا اور میں نے وہی ہندو مذہب کی طرح کی مورتی پوجا کو دیکھ کر اس مذہب کو چھوڑدیا۔

 سوال : اس کے بعد کیا ہوا ،آپ کے اسلام کی طرف مائل ہو نے کا کیا راستہ بنا؟

 جواب : اصل میں حق میری پیاس تھی۔دور دورتک مجھے بے چینی اور ڈھونگ کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیا۔میں روحانیت اور سچ کی تلاش میں تھا۔میرے ایک ہندو دوست نے مجھے بدایوں کے ایک پیر صاحب سے ملوایا،جو دہلی آیا کرتے تھے،مجھے بدایوں جانے کو کہا،میں بدایوں ان کی درگاہ میں گیا،وہاں لوگ مرید ہو رہے تھے،وہاں کے کچھ لوگوں نے مجھے بھی کپڑا پکڑوادیا اور مجھ سے کہا کہ آپ ہمارے حضرت صاحب سے مرید ہو گئے،انھوں نے کلمہ اور اللہ کا ذکر بتایا،احمد بھائی ! مجھے کلمہ اور اللہ کے ذکر میں تو مزا آتاتھا،مگر ان پیر صاحب کا سارا نظام ہندوؤں کی طرح ہی لگتا تھا۔بس مورتی کی جگہ پیر بدل گیا تھا،پیر صاحب کو سب سجد ہ کرتے تھے،مجھے بھی نہ چاہتے ہوئے یہ سب کرنا پڑتا تھا۔میں چند بار بدایوں گیا مگر مجھے گھر پر رہ کر ذکر میں تو چین سا ملتا تھا،مگر وہاں جاکر پھر وہی بے چینی ہوجاتی تھی۔

 سوال :کیا پیر صاحب نے آپ کو کلمہ پڑھایااورباقاعدہ مسلمان بنایا ؟

 جواب : نہیں، ان کے یہاں اپنے مذہب میں رہ کرہی سب ان کے مرید رہتے ہیں۔

 سوال : پھر اسلام قبول کرنے کا کیا واقعہ ہوا ؟

 جواب : ہمارے گھر میں تعمیر کا کام چل رہا تھا،مجیب بھائی سے میں نے کچھ سامان خریدا مجیب بھائی نے ایک بار مجھے اسلام کے بارے میں بتایا اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی میں نے اپنی حق کی تلاش اور در بدر مارے مارے پھرنے کی داستان سنائی اور پیرصاحب سے بیعت ہونے کی بات بھی بتائی،انھو ں نے مجھ سے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوال کیا تومیں نے بتایا کہ پیر صاحب اپنے مذہب میں رہ کر سب کو مرید کرتے ہیں،تو وہ بہت ہنسے اور میرا مذاق سااڑایا اور مجھ سے حضرت مولانا کلیم صاحب صدیقی کا تعارف کرایا اور بتایا کہ سچے پیر ایسے ہوتے ہیں آپ ان سے ملیں تو پھر آپ کو در در بے چین پھرنا نہیں پڑے گا۔میں نے وعدہ کرلیا اور تین روز کے بعد ہم پھلت کے لئے چلے راستہ میں مجیب بھائی نے اسلام کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتایا ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں’’ مجھے دی ،میں نے اسے پڑھا،مجھے ایسا لگا کہ جس حق کو توتلاش کررہا ہے وہ تجھے مل گیا ہے،ہم لوگ مغرب کے بعد پھلت پہنچے حضرت نے مجھے محبت سے گلے لگایا بہت وقت دیا اور مجیب بھائی کے کہنے سے دوبارہ کلمہ پڑھوایا۔حضرت مولانا نے مجھے توحید اور شرک کے سلسلہ میں خاص طور پر بڑی تفصیل سے بتایا،جس سے میرا دل بہت مطمئن ہوگیا۔ حضرت نے مجھے‘‘مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ ’’ اسلام کیا ہے؟ اور خطبات مدراس کا ترجمہ پڑھنے کا مشورہ دیا میں نے دہلی جاکر کتابیں خریدیں،ان کتابوں کو پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ اندھے کو آنکھیں مل گئیں۔میں نے حضرت سے کہا کہ بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی توحید سے دور ہے اور پیر پرستی کرتی ہے،خود میرے پیر صاحب سجدہ کرواتے ہیں،ان کو شرک سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے میں نے حضرت سے کہا کیا میں پیر صاحب کو سمجھانے کی کوشش کروں؟حضرت نے فرمایا کہ انھوں نے آپ کو ذکر بتایا ہے وہ آپ کے محسن ہیں ان کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مجیب بھائی کے مشورہ سے میں نے حضرت مولاناسے بیعت کی درخواست کی حضرت نے فرمایا کہ آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں،آپ کو ہر فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے اب تک آپ بہت جلدی میں فیصلے کرتے رہے ہیں یہ فیصلہ اور بھی زیادہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے ۔میں نے اصرار کیا کہ حضرت مجھے اپنے اللہ سے قوی امید ہے کہ میرے اللہ نے مجھے بھٹکا بھٹکا کر منزل تک پہنچا دیا ہے، اب انشاء اللہ ان کے بعد مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں میرے بہت اصرار پر حضرت نے مجھے بیعت کرلیا، الحمد للہ۔

 سوال : پھر آپ اپنے پہلے پیر صاحب سے ملنے نہیں گئے؟

 جواب : میں گیا اور ان کو شرک کی برائی مثالوں سے بتانے کی کوشش کی،شروع میں تووہ بہت غصہ ہوئے اور بولے یہ چوبیس نمبری ہو گیاہے، کسی وہابڑے کے چکر میں آگیا ہے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری بار بار ان سے ملتا رہا،وہ رفتہ رفتہ نرم پڑتے گئے انھوں نے ایک روز کوئی خواب دیکھا۔اب وہ انشاء اللہ ہمارے حضرت سے مرید ہونے آنے والے ہیں وہ اب اس راہ سے توبہ کرکے ادھر حق پر آنے کو تیار ہیں ان کے ساتھ مجھے امید ہے ان کے ہزاروں مرید بھی شرک اور خرافات سے توبہ کریں

گے۔

 سوال :کیااس سے پہلے آپ کو کسی نے اسلام کی دعوت نہیں دی ؟

 جواب : دعوت تو نہیں دی لیکن میرے دوستوں نے مجھے اسلام کے بارے میں بتایا اور ممبئی میں بھی مجھے ایک صاحب نے اسلام کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں لیکن وہ مجھے ٹھیک سے سمجھا نہیں پائے اور کچھ مسلمانوں سے مجھے نفرت بھی تھی کیونکہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں پر مسلمان ہر برا کام کرتے ہیں ،کرائم کرنا اور شراب پینا ان کے لئے عام بات تھی،اس لئے مجھے مسلمان پسند نہیں تھے اور جولوگ مجھے اسلام کے بارے میں بتاتے تھے وہ اسلام سے خود بہت دور تھے ان میں کوئی بھی اسلامی بات نہیں پائی جاتی تھی،اس لئے بھی ان کی باتوں نے مجھ پر کوئی اثر نہیں کیا ۔

 سوال : اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے تربیت کہاں حاصل کی اور اسلام کے بارے میں کہاں سے جانا؟

 جواب : اسلام کے بارے میں مجھے مجیب بھائی نے بتایا،مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی،تو میں مجیب بھائی کے پاس آکر اس کو حل کرلیتا تھا اور بہت سی باتیں کتابوں سے سیکھی ہیں۔

 سوال : جماعت میں بھی آپ نے کبھی وقت لگایا ہے؟

 جواب : جی ہرمہینہ تین دن کیلئے جماعت میں جاتا ہوں۔

 سوال : اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے کیسا محسوس کیا ؟

 جواب : اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے بہت اچھا محسوس کیا،کیونکہ مجھے مکمل زندگی گزارنے کا طریقہ مل گیا ہے، معاشرہ میں کس طرح رہنا ہے اور لوگوں سے کیسے میل جول رکھنا ہے اور کیسے معاملات ہونے چاہئیں مجھے ایک مثبت فکر مل گئی اور میں نے بہت سکون محسوس کیا۔

 سوال : آپ نے اپنے گھر والوں پر دعوت کا کام نہیں کیا؟

 جواب : میرے حضرت نے الحمد للہ میرے دل ودماغ میں یہ بات بٹھادی ہے کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد، اس کا پیشہ اور اس کی پہچان دعوت ہونی چاہئے اور یہ مسلمانوں میں جو اسلام دکھائی نہیں دیتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دعوتی منصب سے غافل ہیں، اس لئے تم اگر داعی بن کر نہ رہے ،جس طرح نمک کی کان میں ہرچیز نمک بن جاتی ہے،تم بھی اسلام کے نعرے اور حقیقت سے محروم نام کے مسلمان بن کر رہ جاؤگے۔ الحمد للہ میں نے داعی بن کر جینے کی کوشش کی اور اس کے صدقہ میں اللہ نے میرے بیوی بچوں کو اسلام کی دولت سے نوازا، میری اہلیہ نہ صرف یہ کہ مسلمان ہوگئیں بلکہ وہ میری بہت مضبوط دعوتی رفیق ہیں۔اس کے بعد میرے والد صاحب مشرف بہ اسلام ہوئے، اللہ کی رحمت پر قربان جاؤں کہ میرے حضرت اورمجیب بھائی دعوتی مشکل مراحل پر مجھے بڑی امید کے ساتھ بھیجتے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی حضرت کی امید کی لاج رکھتے ہیں۔

 سوال : ایک دو واقعات سنائیے؟

 جواب : مدھیہ پردیش کے ایک سید گھرانہ کی لڑکی ایک ہندو لڑکے کے ساتھ دہلی آگئی تھی اورکورٹ میریج کرکے دہلی میں ہندو بن کر اس کے ساتھ رہ رہی تھی ان کے چچا اور ماموں حضرت کے یہاں آئے حضرت نے مجھے فون کیا،مجیب بھائی اور میں نے اس لڑکی سے اپنے شوہر سے ملوانے کو کہا،مگر وہ راضی نہ ہوئی اور ہمیں بھی دعوت سے روکتی تھی کہ اگر آپ دعوت دیں گے تو وہ مجھے چھوڑ دیں گے حضرت نے فون پر مجھ سے کہا تھا،اگر ان دونوں کو کلمہ پڑھواکر نکاح کروادیا تو پیٹ بھرکے مٹھائی کھلائی جائے گی ہم لوگ لگے رہے،میں نے لڑکے کے دفتر جاکر لڑکی کو خبر کئے بغیر جاکر بات کی الحمد للہ پہلی میٹنگ میں اس نے کلمہ پڑھ لیااور بعد میں لڑکی کو بھی ایمان کی تجدید کروائی اور جعفرآباد بلاکر ان کا نکاح کروایا اب وہ دونوں اسلامی زندگی گزار رہے ہیں۔حضرت بہت خوش ہوئے ہمارے ماتھوں کو چوما اور فوراً مٹھائی منگواکر مٹھائی کھلوائی۔

ایک جج کے پاس حضرت نے ہمیں دعوت کے لئے بھیجا الحمد للہ انھوں نے بھی کلمہ پڑھا، اصل میں احمد بھائی ،سچی بات یہ ہے کہ حضرت سچ فرماتے ہیں کہ ہدایت تو اتری ہوئی ہے ہم لوگ جہاں جائیں کوشش کریں لوگوں کے لئے اتری ہوئی ہدایت ہماری جھولی میں آسکتی ہے۔

مجھے ایک رات عشاء کے بعد معلوم ہوا کہ ایک مسلمان وکیل نے ایک مسلم لڑکی کی شادی ایک ہندو لڑکے کے ساتھ شدھی کراکے کروادی ہے،میں بیان نہیں کرسکتا میرے بدن میں غصہ میں آگ سی لگ گئی ساڑھے دس بجے وکیل صاحب کا پتہ معلوم کرکے میو روہار ان کے گھر گیا،میں نے ان سے کہا آپ مسلمان تو نہیں انسان بھی نہیں،انسان سے ہمدردی اگر آپ کو ہوتی تو ہر ایک کو مرنے کے بعد دوزخ کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتے،آپ نے ایک دوسری کو بھی جہنمی بنادیا۔آپ خود مسلمان نہیں رہے،کیا آپ کو مرنا نہیں،مجھے پتہ بتائیے وہ لڑکی لڑکا کہاں رہ رہے ہیں؟وہ کہنے لگے،فائل میرے دفتر میں ہے، صبح لے لینا ،میں نے کہا رات کو دونوں مرگئے تو کیا ہو گا میں نے دباؤ دیا کہ مجھے پتہ ابھی چاہئے میں نے ساڑھے دس بجے ان کو دفتر لے جاکر فائل نکلوائی اور ساڑھے گیارہ بجے ان کے فلیٹ پر پہنچا اور ان سے بات کی، کہ رات کو میں اس لئے آپ کے پاس آیا کہ اگر رات کو آپ کی یا میری موت ہوگئی تو آپ کا کیاہوگا،ایک بجے تک بات ہوتی رہی،الحمد للہ ایک بجے اس لڑکے نے جو کمپیوٹر انجینئر تھا کلمہ پڑھا،لڑکی کا حال بھی یہ تھا کہ اسے کلمہ یاد نہیں تھا۔میں نے اگلے روز ان کا نکاح پڑھوایا اور اپنی اہلیہ کو اس لڑکی کو دین سکھانے کے لئے بھیجنا شروع کیا،الحمد للہ اس نے نماز پڑھنا شروع کردی۔

 سوال : اسلام قبول کرنے کے بعد کیا کچھ مشکل کا سامنا کرنا پڑا؟

 جواب : اسلام جیسی نعمت کے مقابلہ میں جو کچھ مشکل آئی وہ کچھ بھی نہیں تھی اصل میں قیمتی چیز بڑی قیمت پر خریدی جاتی ہے،چاندی کے لئے کم قیمت اور سونے کے لئے زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے،ایمان سے زیادہ کائنات میں کوئی چیز قیمتی نہیں ، اللہ نے اس بندہ کو بالکل سستے میں عطا فرمادی ۔کچھ تھوڑی تھوڑی مشکلیں آئیں ان میں سب سے پہلی یہ تھی کہ میرے انسٹی ٹیوٹ سے سارے اسٹوڈنٹ چھوڑ کر چلے گئے کہ یہ تو پڑھا لکھا جاہل ہو گیا اور میرا روزگار کا مسئلہ مشکل ہوگیا،مگر اللہ نے جلد ہی مسلمان لڑکو ں کی بڑی تعداد بھیج دی اور بعد میں ان میں سے بھی بہت سے لڑکے دوسری جگہ ناکام ہوکر میرے یہاں واپس آگئے۔سسرال والوں نے بائیکاٹ کردیا،مکان بنانے میں کچھ لوگوں کا قرض ہو گیا تھا،ان لوگوں نے میرے مسلمان ہونے کے بعد بہت سختی کی،مگر یہ معمولی باتیں ہیں۔یہ تو عام آدمی کی زندگی میں آتی ہیں، ان مشکلوں نے مجھے دعا کا مزہ سکھا دیا اور الحمد للہ دعا کی قوت پر میرا اعتماد بڑھا۔

 سوال : کچھ اور لوگوں نے بھی آپ کی دعوت پر اسلام قبول کیا ہے اس کی کچھ تفصیلات؟

 جواب : الحمد للہ ایک خاصی تعدادہے۔

 سوال : وہ تعدادکتنی ہوگی؟

 جواب : ہمارے حضرت یہ کہتے ہیں کہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے ان تک دعوت پہنچانی ہے وہ ساڑھے چار ارب ہیں، ان کے مقابلے میں جو مسلمان ہوئے وہ بالکل نہ کے برابر ہیں تاہم ہم گندوں کو اللہ نے ذریعہ بنایا اور اس پر ہم اللہ کا کروڑوں کروڑ شکر ادا کرتے ہیں، الحمد للہ بڑی تعداد تو ایسے لوگوں کی ہے کہ خاندانوں کے لئے مسئلہ بنے ہوئے تھے،اللہ نے ہم دونوں کو ہدایت کا ذریعہ بنایا۔

 سوال : ارمغان کے قارئین کے لئے کچھ پیغام آپ دیں گے ؟

 جواب : پوری انسانیت حق کی پیاسی ہے،سراب دیکھ کر ان کو پانی کا گمان ہو تا ہے،کبھی اس مذہب میں، کبھی اس مذہب میں،کبھی اس ست سنگ میں، کبھی اس ست سنگ میں،کبھی جے گرودیو،کبھی شر ڈی والے بابا،مگر سب اندھیرے میں ہیں، صرف اور صرف اسلام ہی ان کے سکون اور درد کا مداوا اور ان کی بے چینی کا علاج ہے ۔آج دولت کی ریل پیل اور سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے انسانیت کو پہلے سے بہت زیادہ بے چین کردیا ہے،خدا را بے چین انسانیت پر ترس کھائیں،اسلام کے مزے سے آشنا ہونے کے لئے بھی اور دکھی اور بے چین انسانیت پر ترس کھاکر بھی اپنے دعوتی منصب اور فریضہ کا حق ادا کریں۔

 سوال : اسلام کے مطالعہ کے لئے آپ کیا کر رہے ہیں؟

 جواب : الحمد للہ میں مسلسل مطالعہ کرتا ہوں اور اب میں نے قرآن مجید حفظ شروع کردیا ہے،میری دلی خواہش ہے کہ میں داعی بالقرآن بنوں،اس کے لئے قرآن کا حفظ بہت ضروری سمجھتا ہوں۔

 سوال : بہت بہت شکریہ ! جزاکم اللہ خیر الجزاء

 جواب : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مستفاد از ماہنامہ ارمغان،مئی ۲۰۰۸؁ء