رمضان اور تعلق باللہ

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جولائی 2014

Click here to read in English

 

چار سال قبل وحدت روڈ پہ میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوا، ٹانگ کا نہ صرف فریکچر ہوا بلکہ گہراگھاؤ بھی آیا اسی حالت میں وہ خود ہی ایک کلینک تک پہنچا، وہاں سے اسے ایک بڑے ہسپتال پہنچایا گیا اور پھر لمبا عرصہ وہ بستر پر پڑا رہا۔ لیکن پہلے چند روز اس کی مجھ سے بات نہ ہو سکی ۔مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔ آخر میں نے ایک دن سکائپ پہ گھر والوں سے پوچھا کہ تم میری عثمان سے بات کیوں نہیں کرواتے ، روز یہ کہہ دیتے ہو کہ وہ دوستوں کے پاس بیٹھاہوا ہے جبکہ مجھے ایک تکلیف سی محسوس ہورہی ہے ۔ یہ سن کر میری بیوی رو نے لگی اور اس سے نہ رہا گیا او راس نے بتایا کہ اسکا تو ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے جبکہ اس سے قبل سب نے مجھ سے اس لیے اوجھل رکھا تھا کہ مجھے پردیس میں تکلیف نہ ہو۔یہ سن کر ، اسے دیکھ کر اور پھراس کی تفصیل سن کر کتنی ہی راتیں، یہ سوچ کر مجھے رونا آجاتا کہ ہائے بیچارا اکیلا ہی سڑ ک پر پڑا رہاہو گا ، کس طرح اس نے اتنا بڑا فریکچر او رگہرا زخم برداشت کیا ہو گا، کیسے وہ ہسپتال تک پہنچا ہو گا۔ جبکہ میں خو د اس سے قبل اس سے کہیں بڑے ایکسیڈنٹ سے گزر چکا تھا لیکن اسے یا د کر کے کبھی مجھے رونا نہیں آیا۔اولادکی تکلیف بھی کیا تکلیف ہوتی ہے اور اولاد سے تعلق بھی کیا عجیب تعلق ہوتا ہے۔ دو سال قبل میں نے اپنی اہلیہ کو ابو ظبی بلایا کہ عمر ہ کرتے ہیں ۔ ہر چیز مکمل ہو گئی تھی بلکہ ویزہ ایجنٹ کو کچھ رقم ایڈوانس بھی دے دی تھی کہ ایک شام یہ پتہ چلا کہ میرا ایک بیٹا جو بیما ر تھا وہ باتھ روم میں گر گیا ہے اور اس کو چو ٹ لگی ہے۔اس سے قبل اسی بیٹے نے ضد کر کے اپنی ماں کو بھیج دیا تھا کہ اس کا اللہ نگہبان ہے آپ عمر ہ کر کے آئیں ۔گھر میں اس کے بھائی اور ایک چھوٹی بہن ہی تھی۔ ہم نے بھی سوچاکہ اللہ مالک ہے جب یہ اتنی ضد کر تا ہے تو عمر ہ کر لیتے ہیں۔ لیکن اس شام جب سکائپ پہ اس کی شکل دیکھی اور اس نے ہاتھ اور سر دکھا کر کہاکہ ابو یہا ں چوٹ لگی ہے تو دل کٹ کے رہ گیا۔میں نے اہلیہ سے کہا، میری تو نوکر ی کی مجبوری ہے تم تو جاؤ تا کہ بچوں کے پاس ماں تو ہو۔اور اسکو اگلی ہی صبح جہاز پر بٹھاکر واپس بھیج دیا اور عمر ے کا پروگرام دھرے کادھر ا رہ گیا۔اپنی اولاد کے ہونے اور ان کے اس طرح کے تمام مراحل سے گزرنے کے بعد یہ سمجھ آئی کہ والدہ مرحومہ کی اس بات کا کیا مطلب تھا کہ جب وہ کہاکرتیں کہ بیٹا رات جلد آ جایا کرو مجھے نیند نہیں آتی ۔اس وقت تو میں کہہ دیتا تھاکہ امی جان آپ سو جایا کریں آپ کی نیند کا میرے آنے سے کیا تعلق؟ لیکن اب پتہ چلا کہ بچوں کے لیے والدین کے جذبات کیا ہوا کرتے ہیں اور ان کی تکلیف والدین کے کلیجے کو کس طرح کاٹ کے رکھ دیا کرتی ہے ۔بچہ بیمار ہو تو والدین اس سے بڑھ کر بیمار ہو جاتے ہیں، بچے کو چوٹ لگے تو والدین کو اس سے بڑھ کر تکلیف ہوتی ہے ، بچہ اداس ہو تو والدین اس سے بڑھ کر اداس، بچہ خوش ہو تو والدین اس سے بڑھ کر خوش ۔ اولاد سے تعلق کا یہ درجہ اور مقام شاید لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں یہ ایک مرحلہ، حالت اور واردات ہے کہ جو اس سے گزرے اورجسے اس کاتجربہ ہو وہی اس کو سمجھ سکتا ہے ۔اسی طرح تعلق باللہ بھی ایک کیفیت ، واردات اور تجربہ ہے اسے بھی وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اس کامزہ چکھا ہو۔اگرچہ یہ تعلق ہر ہر مسلمان سے مطلوب ہے لیکن یہ ایک مرد مومن ہی بتا سکتا ہے کہ اللہ کی ناراضی اسے کس طرح کا ٹ کے رکھ دیتی ہے او راللہ کی رضا اسے کس طرح خوش کر دیتی ہے ۔ جس طرح اولاد کی خوشی اور تکلیف ہر ہر خوشی اور تکلیف پہ بھاری ہے اس طرح ایک کامل مومن کے لیے اللہ کی ناراضی اور رضا بھی ہر ہر رشتے اور شے پہ حاوی ہوتی ہے۔ جس طرح میرے جیسا کمزور اورطبعاً سہل پسند اولاد کی خوشی اور بہتری کے لیے پردیس کی تنہائی اور بے بسی بھی برداشت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اس طر ح ایک مر دمومن کو اپنے مالک کی رضا کے لیے ہر ہر تکلیف برداشت کرنا سہل ہو جاتا ہے ۔اور وہ پھر ہر تکلیف میں حضورﷺ کے الفاظ دہرا کے مطمئن ہوجاتا ہے کہ جو آپ نے طائف میں کہے تھے۔‘‘اے اللہ ،اگر تْو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو پھرمجھے کسی مصیبت کی پروا نہیں۔ مگر تیری طرف سے عافیت مجھے نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لیے زیادہ کشادگی ہے۔’’
انسان سے صحت چھن جائے تو وہ پھر بھی انسان ہی رہتا ہے ، دولت چھن جائے تو وہ پھر بھی انسان ہی رہتا ہے ، کوئی اور خوبی یا نعمت چھن جائے تو وہ پھر بھی انسان ہی رہتاہے لیکن اگر اس سے تعلق کا جذبہ چھن جائے تو وہ پھر انسان نہیں حیوان بن جاتا ہے ۔ اسلام اسی تعلق کی نفسیات کو مال و اولاد سے پھیر کر اللہ کی طرف کرتا ہے ۔مال و دلت اور اولاد سے جذبے، محبت اور تعلق کو ختم نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کو پہلے نمبر پر او ران کو دوسرے نمبر پر لے آتا ہے ۔اور پھر اسی تعلق کی تجدید، بقا اور مضبوطی کے لیے مختلف وسائل عطا کرتا رہتا ہے ۔ انہیں وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ رمضان کا موسم بہار ہے ۔جو اس موسم میں بھی اپنے مالک سے تعلق استوار نہ کر سکا تو پھر خدشہ ہے کہ وہ کہیں ازلی ابدی محروم ہی نہ ہو۔ ایک بار پھر رمضان ہماری زندگیوں میں موجو د ہے ،ایک بار پھر خود احتسابی اور اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمار ا،اپنے رب اور مالک سے تعلق باقی سب سے بڑھ کر ہے ؟ اگر بڑھ کر نہیں تو کیا کم از کم اتنا تو ہے کہ جتنا تعلق ہمیں ہماری اولاد سے ہے ؟ کیا رب کی ناراضی بھی ہمیں ویسے ہی اداس کر دیتی ہے جس طرح اولاد کی تکلیف، اور کیا رب کی رضا بھی ہمیں ویسا ہی خوش کر تی ہے جتنا کہ اولاد کی خوشی ۔ اگر یہ سب نہیں توپھر یقینا لوٹ آنے کی ضرور ت ہے کہ ابھی وقت باقی ہے ۔اور جس کے ہاں یہ سب ہے، اسے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے رب سے تعلق کو مال و دولت اور اولاد سے بڑھ کر بنائے اور اس کے لیے بھی رمضان کے دن اور رمضان کی راتیں یقینا بہترین عطیہ ہیں ۔ہے کوئی، ان سے فائدہ اٹھا کر اپنے رب سے تعلق کومضبوط بنانے والا۔۔۔! آگے بڑھو کہ جو ایک قدم بڑھتا ہے وہ دس قدم بڑھتا ہے اور جو اُس کی طرح چل کے جاتا ہے وہ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے اور رمضان میں تو یہ رفتا ر اور تعلق اور بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے بعض کے لیے دس گنا ، بعض کے لیے ستر گنا اور بعض کے لیے بے حد وبے حساب۔