زوال بے سبب نہں آتا

مصنف : میاں محمد افضل

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : جون 2014

Click here to read in English

اللہ کے ہاں قوموں کے عروج و زوال کے فیصلے اخلاقی معیارکی بنیاد

پر ہوتے ہیں نہ کہ طاقت اور اسلحے کی مقدار پر

عباسی خلافت کا آغاز ہی ظلم اور اندھیرنگری سے ہواتھا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں۔ ‘‘نئے مدعیان خلافت(بنو عباس) جس وجہ سے کامیاب ہوئے تھے وہ یہ تھی کہ انھوں نے عام مسلمانوں کو یہ اطمینان دلا دیا تھا کہ ہم خاندان رسالت کے لوگ ہیں، ہم قرآن و سنت کے مطابق کام کریں گے اور ہمارے ہاتھوں سے حدود اللہ قائم ہوں گی، لیکن حکومت حاصل ہونے کے بعد کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ یہ سب کچھ فریب تھا۔

بنو امیہ کے دارالسلطنت دمشق کو فتح کرکے عباسی فوجوں نے وہاں قتل عام کیا جس میں پچاس ہزار آدمی(مسلمان) مارے گئے۔ ستر دن تک جامع بنی امیّہ گھوڑوں کا اصطبل بنی رہی۔ حضرت معاویہ سمیت تمام بنی امیّہ کی قبریں کھود ڈالی گئیں۔ ہشام بن عبدالمالک کی لاش قبر سے صحیح سلامت مل گئی، تو اس کو کوڑوں سے پیٹا گیا، چند روز تک اسے سرِ عام لٹکائے رکھا گیا اور پھر جلا کر اس کی راکھ اڑا دی گئی۔ بنی امیہ کا بچہ بچہ قتل کیا گیا اور ان کی تڑپتی لاشوں پر فرش بچھا کر کھانا کھایا گیا۔ بعد میں بنی امیہ کو قتل کرکے ان کی لاشیں ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچی گئیں اور انھیں سڑکوں پر ڈال دیا گیا جہاں کتے انھیں بھنبھوڑتے رہے۔ یہی کچھ مکہ اور مدینہ میں ان کے ساتھ کیا گیا۔ سفاح (بنو عباس کا پہلا خلیفہ) کے خلاف موصل میں بغاوت ہوئی، تو اس نے اپنے بھائی یحییٰ کو بغاوت کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ یحییٰ نے اعلان کیا کہ جو شہر کی مسجد میں داخل ہوجائے گا، اس کے لیے امان ہے، لوگ ہزاروں کی تعداد میں وہاں (مسجد میں) جمع ہوگئے۔ پھر مسجد کے دروازوں پر پہرہ لگا کر ان امان یافتہ پناہ گزینوں کا قتلِ عام کیا گیا، اس طرح تین دن موصل میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ یحییٰ کی فوج میں چار ہزار زنگی تھے وہ موصل کی عورتوں پر ٹوٹ پڑے اور زنا بالجبر کا طوفان برپا کردیا۔ ایک عورت نے یحییٰ کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر اسے شرم دلائی کہ تم بنی ہاشم میں سے ہو اور رسول اللہ کے چچا کی اولاد ہو، تمھیں شرم نہیں آتی کہ تمھارے زنگی(حبشی) سپاہی عرب مسلمان عورتوں کی آبروریزی کرتے پھررہے ہیں؟’’

مشہور شیعہ مصنف و مورخ محمد علی ابن علی ابن طبا طبائی بحیثیت مجموعی خلفائے بنو عباس کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اعتراف کرتے ہیں ‘‘حکومت عباسیہ کفر و فریب اور بے وفائی کی حکومت تھی، اس میں جتنی قوت و طاقت تھی اس سے کہیں زیادہ اس میں حیلہ گری اور دغابازی تھی، خصوصاً آخری دور میں تو عباسی خلفا نے فریب اور دغا کو وتیرہ بنا لیا تھا۔’’ ایک شاعر عباسی خلافت کے جنگی و جہادی روح سے خالی متوسلین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے‘‘یہ لوگ صبح شام اپنی کمر میں تیز دھار شمشیر لٹکائے رکھتے ہیں جس میں کبھی کوئی رخنہ نہیں پڑا’’ بالکل لکھنؤ کے دور زوال کے بانکوں کی طرح۔مطلق العنان بادشاہ یا خلفاعام طور پر حد سے گزرنے والے ہوتے ہیں۔ عباسی خلفا میں بہت کم ایسے تھے جو اعلیٰ ذاتی اوصاف کے مالک کہے جاسکیں۔ چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔سب سے پہلا عباسی خلیفہ سفاح تھاجس نے بنی امیّہ کی قبریں اکھڑوائی تھیں اور ہزاروں بے گناہوں کو بے وجہ قتل کیاتھا۔ دوسرا خلیفہ منصور ویسے تو بڑا سادگی پسند اور موسیقی وغیرہ سے نفور تھا لیکن سخت حریص، کنجوس، کینہ پرور اور ظالم تھا۔ اسی خلیفہ منصور نے امام اعظم ابو حنیفہ کو درے لگوائے تھے اور قید میں ڈال کر سخت اذیتیں دی تھیں حتیٰ کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ روایت ہے کہ اس کے حکم پر امام صاحب کو زہر کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں منصور نے بہت سے دوسرے اکابر علما، جیسے ابن عجلان اور امام عبدالحمید بن جعفر کو بھی اذیتیں دیں، اس کے شرسے اپنے وقت کے قطب حضرت سفیان ثوری اور عباد بن کثیر بھی محفوظ نہ رہے، انھیں بھی قید و بند میں مبتلا کیا گیا اور اذیتیں دی گئیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ جس شخص نے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں رکھی یعنی ابو مسلم خراسانی، اسے بھی غداری اور فریب سے منصور نے قتل کیا۔ جھوٹ بول کر امان دینا اور پھر قتل کردینا منصور کی عادت تھی۔ ابو مسلم خراسانی کو معلوم ہوگیا تھا کہ خلیفہ اس کے در پے آزار ہے اور وہ خراسان چلا گیا جہاں اس کے حامی بکثرت تھے۔ خلیفہ نے قاصد بھیج کر اسے طلب کیا اور امان کا وعدہ کیا۔ آخر وہ خلیفہ پر اعتبار کرکے اس کے ہاں پہنچا اور مدائن میں جاکر خلیفہ سے ملا۔ آگے کی کہانی‘‘القحری’’ کے مصنف محمد علی ابن طبا طبائی کی زبانی:‘‘منصور کو اس کے آنے کی خبر ملی، تو تمام لوگوں کو اس کے استقبال کا حکم دیا۔ جب ابو مسلم اندر گیا، تو اس نے منصور کی دست بوسی کی۔ منصور نے بڑے احترام کے ساتھ اپنے پاس بٹھایا، پھر اس سے کہا کہ اپنے خیمے میں جاکر آرام کرے اور غسل سے فارغ ہوکر ملاقات کرے۔ ابو مسلم چلا گیا اور دوسری صبح منصور کا قاصد اسے بلانے آیا۔ منصور نے یہ انتظام کیا کہ چند مسلح افراد کو پردے کے پیچھے چھپادیا اور ان سے کہہ دیا کہ جوں ہی میں اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر ماروں تم فوراً باہر نکل آنا اور ابو مسلم کو قتل کردینا۔ جب ابو مسلم منصور کے پاس آیا، تو منصور نے اس سے پوچھا، عبداللہ بن علی کی چھاؤنی سے جو تلواریں تمھیں ملی تھیں وہ کہاں ہیں؟ ابو مسلم نے ایک تلوار جو اس وقت اس کے پاس تھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو یہ ہے۔ منصور نے وہ تلوار لے کر جانماز کے نیچے رکھ لی، اس کے بعد ابو مسلم کو ایک ایک الزام دہرا کر ڈانٹنا شروع کیا، غیر مسلح اور تنہا ابو مسلم ہر الزام کے جواب میں معذرت پیش کرتا گیا۔ منصور نے اس کے بہت سے جرم گنوائے، تو ابو مسلم نے کہا کہ امیر المومنین میرے جیسے آدمی کو نہ ایسی باتیں سنانی چاہئیں اور نہ ہی اس کے سامنے یہ جرم دہرانے چاہئیں۔ اس پر منصور لال پیلا ہوگیا اور کہا، اوبدبودار عورت کے بچے، تونے یہ سب جرم کیے ہیں، تجھے جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ ہماری بدولت اور ہماری حکومت کے صدقے میں حاصل ہوا ہے۔ ابو مسلم نے کہا، امیر المومنین، ان باتوں کو جانے دیں، میں نے جو کچھ کیا محض اللہ سے ڈر کر کیا تھا۔ منصور نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا، تو چھپے ہوئے مسلح آدمی باہرنکل آئے اور ابو مسلم پر تلواروں سے چرکے لگانے لگے۔ ابو مسلم چلایا، امیر المومنین مجھے اپنے دشمنوں کے لیے زندہ رکھیے۔ منصور بولا تجھ سے زیادہ بڑا دشمن میرا اور کون ہے؟ منصور نے اشارہ کیا اور ابو مسلم کی لاش ایک دری میں لپیٹ کر رکھ دی گئی۔’’ ابو مسلم کو امان اور پناہ دینے کے باوجود قتل کردیا گیا۔ یہ وہ شخص تھا جس کے بارے میں مورّخین نے لکھا ہے کہ اس نے بنی عباس کی خاطر، انھیں اقتدار دلانے کی خاطر یمن، عرب، عراق اور ایران میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد کا خون بہادیا تھا۔ اس کی تلوار سے نہ غیر مسلم محفوظ رہے اور نہ ہی مسلم۔ ہزاروں مسلمان علما، صوفیا، عابدوں اور زاہدوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ اس طرح اس کا خاتمہ ہوا کہ ایک شخص بھی مدد کرنے کے لیے موجود نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ ابو مسلم کے باورچیوں کی تعداد ایک ہزار تھی، روزانہ تین ہزار من آٹے کی روٹیاں پکتیں، ایک سو تیس بکرے ذبح ہوتے بارہ سوجانور صرف اس کے باورچی خانے کا سامان اٹھانے کے لیے تھے۔بھیانک ظلم جب واقع ہوتا ہے، تو اس کے اثرات فضا میں اْڑ کر غائب نہیں ہوتے۔ ظلم کے بیج ہوتے ہیں، ان بیجوں سے سلسلہ آگے چلتا ہے اور جو نیا پودا نکلتا ہے اس کے نوکیلے کانٹے ظلم کے بانی کو بھی ضرور نشانہ بناتے ہیں۔ بنو امیہ نے جس ظلم کا آغاز کربلا سے کیا وہ آگے بڑھتا چلا گیا، عفود در گزر سے کبھی کام نہ لیا گیا، حجاج بن یوسف نے تو ظلم کی انتہا کردی۔ ردِ عمل میں بنو امیہ کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو انھوں نے روا رکھا تھا۔ بنو عباس کی ایک بْری خصلت یہ تھی کہ پرلے درجے کے عیاش تھے۔ ان کے ہاں عمربن عبدالعزیز جیسا ایک بھی حکمران نہ ہوا۔ اس کے علاوہ وافر جھوٹ اور دغا سے کام لیتے تھے، فریب سے قتل کرنا ان کے لیے معیوب نہ تھا۔ مکافاتِ عمل تھی کہ خلیفہ معتصم باللہ اور پورے خاندان بنو عباس کو (جس کے افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی) اسی طرح دھوکے سے قتل کیا گیا۔ روایت ہے کہ ایک بار خلیفہ منصور کو مکھیوں نے بہت پریشان کیا۔ منصور نے اپنے پاس موجود مقاتل بن سلیمان سے پوچھا آخر ان مکھیوں کوکیوں پیدا کیا گیا ہے، ان کا کیا فائدہ ہے؟ مقاتل نے جرات ِ مومنانہ سے کام لیتے ہوئے کہا:‘‘اللہ نے انھیں ظالموں کو ذلیل کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔’’ خلیفہ منصور شراب خوری، نجوم، شگون اور خونریزی میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔خلیفہ المہدی ابن منصور کے بارے میں عام طور پر یہ لکھا جاتا ہے کہ وہ بہت صحیح العقیدہ اور اچھا مسلمان تھا لیکن انصاف کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک بوڑھے شخص کو زندیق ہونے کے الزام میں اس کے سامنے لایا گیا، خلیفہ نے اس کے قتل کا ارادہ کیا، لیکن بوڑھے شخص نے کہا:‘‘میں اللہ سے اس گناہ کی توبہ کرتا ہوں’’ اور معافی کی درخواست کی۔ خلیفہ نے معاف کردیا، لیکن جب وہ جانے لگا، تو خلیفہ نے اپنا ارادہ تبدیل کرلیا اور اسے قتل کرادیا۔ مہدی شعر بھی کہتا تھا، ایک شعر میں کہتا ہے‘‘میری عیش و عشرت اور لذت خوشبو میں بسی کنیزوں، موسیقی اور دنیا کی مزے دار چیزوں میں ہے، لیکن شراب کے ساتھ بہتے ہوئے خون کے نظارے کا بھی شائق تھا۔ اپنے بوڑھے وزیر ابو عبیداللہ سے ایک دن کہا میں تمھارے فرزند کی دین اسلام سے واقفیت کا امتحان لینا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اس کے بیٹے کو طلب کیا گیا۔ قرآن کے بارے میں کچھ سوالات کیے جن کے وہ معقول جواب نہ دے سکا۔ خلیفہ مہدی نے ابوعبیداللہ سے کہا‘‘اچھا اٹھو اپنے فرزند کو قتل کرو’’ خلیفہ کا حکم تھا، ابو عبیداللہ اٹھا مگر گر پڑا اور کانپنے لگا۔ مہدی نے ایک اور شخص کو جو وہاں موجود تھا، قتل کا حکم دیا اور ابو عبیداللہ کے روبرو اس کے جواں سال بیٹے کو بے گناہ قتل کرادیا۔ شاعر بشار اس مہدی کے دور کے بارے میں کہتا ہے‘‘اے لوگو، تمھاری خلافت ضائع ہوچکی، اب اللہ کی خلافت ڈھونڈنی ہو، تو بانسری اور طنبورے میں ڈھونڈو’’یہ ایک مثال ہے مہدی کی موسیقی پسندی اور لذت پرستی کی۔مہدی کے بعد خلیفہ ہادی بھی شراب و شباب کا رسیا تھا، بلکہ کچھ زیادہ ہی اس طرف راغب تھا۔ عام طور پر نشے کی حالت میں رہتا۔ روایت ہے کہ اسے اس کی ماں خیزران نے قتل کرادیا تھا۔ وہ بخار کی حالت میں منہ لپیٹ کر لیٹا ہوا تھا کہ کچھ لوگوں نے اس کی ماں کے اشارے پر گلا گھونٹ کر مارڈالا۔ خلیفہ کو امور مملکت سے دلچسپی نہ تھی اور تمام معاملات پر اس کی ماں چھائی ہوئی تھی۔ ہارون الرشید اور مامون الرشید بنو عباس کے سب سے اچھے حکمران تھے۔ لیکن حدود اللہ کے معاملے میں ان کا ریکارڈ بھی اچھا نہیں۔ برامکہ کے ساتھ ہارون الرشید کی زیادتی اور ظلم کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ درمیان میں تھوڑے عرصے کے لیے الامین کے پاس حکومت آئی، امین کا کردار اورنگ زیب کے بھائی دار اشکوہ جیسا تھا۔ امین کو مامون نے قتل کرادیا۔ امین بے حد عیاش حکمران تھا۔ لہوولعب میں غرق رہتا، حد یہ کہ جب اس کی بدقسمتی کا آغاز ہوا اور وہ مامون کے خوف سے بغداد چھوڑ کر مار مارا پھرتا تھا،تب بھی اپنی بری عادتوں سے توبہ نہ کی۔ علامہ سیوطی نے ابراہیم ابن مہدی کی زبانی یہ روایت نقل کی ہے‘‘اس مصیبت کے زمانے میں وہ(ابراہیم) امین کے ساتھ منصورہ میں تھا، ایک رات امین نے مجھے بلایا، جب میں اس کے پاس پہنچا، تو اس نے کہا دیکھو کیسی خوبصورت شب ہے، چاند جوبن پر ہے، چاندنی پانی میں جوت جگارہی ہے، ایسے میں شراب کا دور چلنا چاہیے، میں نے کہا جیسے آپ کی مرضی۔ چنانچہ ہم نے جی بھر کر پی، اس کے بعد اس نے اپنی خاص لونڈی ضعف کو بلایا اور اسے گانے کا حکم دیا’’ مورّخ ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ امین کو ہیجڑوں کی صحبت سے بڑی رغبت تھی اور ان سے قوم لوط کے عمل کا مرتکب ہوتا تھا۔ اس نے اپنے محل میں سینکڑوں خوبصورت خواجہ سرا بڑی بھاری رقمیں ادا کرکے جمع کرلیے تھے اور ہر وقت ان کی طرف متوجہ رہتا، علاوہ ازیں کھیل تماشا دکھانے والوں اور بازی گروں کو بھی جمع رکھتا تھا۔خلیفہ مامون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا ہی حلیم، متحمل مزاج اور بردبار تھا،لیکن اس دعویٰ کو غلط کرنے کے لیے یہی کافی ہے اس نے خلق قرآن کے مسئلے پر اس وقت کے جید علما پر بہت تشددکیا، امام احمد بن حنبل نے خلیفہ کے موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، تو انھیں اذیتیں دی گئیں۔ روایت ہے کہ اپنے وزیر فضل بن سہل کو سیاسی مصلحتوں کے تحت قتل کروادیا اور اس کے بعد اس کے قتل کرنے والوں کو بھی قتل کرادیا۔ جب ان لوگوں کو مامون کے حکم پر قتل کیا جانے لگا، تو انھوں نے کہا آپ ہی نے تو ہمیں فضل بن سہل کے قتل کا کہا تھا اور اب ہم کو قتل کراتے ہیں؟ مامون نے کہا، میں تمھیں اس لیے قتل کرارہا ہوں کہ تمھیں اس قتل کا اعتراف ہے۔ علی بن موسیٰ رضا کو انگوروں میں زہر ملا کر کھلایا اور وہ جان سے گئے۔خلیفہ معتصم باللہ مکمل ان پڑھ ہونے کے باوجود خلق قرآن کے پیچیدہ فکری مسئلے پر وقت کے علما سے الجھتا رہا۔ ذہنیت قاتلانہ تھی، معمولی بات پر لوگوں کو قتل کرا دیتا تھا۔ علماکی بڑی تعداد کو صرف اس لیے اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتارا کہ وہ خلق قرآن کے مسئلے پر سرکاری موقف سے متفق نہ تھے۔ خوبصورت غلاموں کو خریدنے کا شوقین تھا۔ وسطی ایشیا سے اتنے غلام خریدے کہ بغداد کے شہری ان کے ہاتھوں عاجز آگئے۔ ان غلاموں کو خوب سجاکر شہر میں گھومنے کے لیے چھوڑا جاتا تھا اور وہ لوگوں کو ستاتے تھے، لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے اور عورتوں کے ساتھ دست درازی کرتے، یہاں تک کہ لوگوں نے خلیفہ کو سرعام بددعائیں دینا شروع کردیں۔ جب معتصم مرنے لگا، تو ایک کشتی میں سوار ہوا اور ‘‘زنام’’ نامی گویے کو کہا کہ گائے اور وہ گاتا رہا اور معتصم سنتا رہا۔ گویا آخری وقت میں بھی لہوولعب میں کھویا رہا۔خلیفہ واثق کا دور بھی علما کے لیے سخت ابتلا کا دور تھا، اس کے وزیر ابن زیات نے علماکو اذیت دینے کے لیے ایک آہنی تنور بنایا تھا جس کے اندر نوکیلے کیل لگے تھے۔ جب وہ خود زیر عتاب آیا، تو اپنے بنائے ہوئے تنور میں ڈالاگیا۔ خلیفہ جعفر متوکل نے حضرت امام حسین کی قبر پر ہل چلوادیا تھا۔ روایت ہے کہ اس کے فرزند منتصر نے اپنے باپ کو اْس وقت ہلاک کیا جب وہ مئے نوشی اور عیاشی میں مصروف تھا۔خلیفہ متوکل کے دور میں عجیب و غریب واقعات پیش آئے، شہر حلاط کے باشندوں نے آسمان سے ایک چیخ کی آواز سنی جس کی ہیبت سے ہزاروں اؒفراد مرگئے۔ مصر کے ایک علاقے میں آسمان سے بھاری پتھر برسے۔ یمن میں ایک پہاڑ نے اس طرح حرکت کی کہ لوگوں کے کھیت ایک جگہ سے دوسری جگہ پر پہنچ گئے۔ شہر حلب (شام) میں ایک عجیب و غریب سفید پروں والا پرندہ فضا میں نمودار ہوا اور انسانوں کی بولی میں پکار کر کہا‘‘لوگو، اللہ سے ڈرو’’ پرندے نے چالیس بار یہ آواز لگائی اس کے بعد غائب ہوگیا۔ متوکل کی عیش پسندی کی یہ کیفیت تھی کہ اس کے حرم میں چار ہزار لونڈیاں اور خوبصورت کنیزیں جمع تھیں المنتصر باللہ کے بارے میں یہی کافی ہے کہ اس نے تاج و تخت کے لیے باپ کو قتل کیا تھا، وہ خود صرف چھ ماہ تک حکمران رہا اور مرگیا۔تاریخ کے طالب علم یہ سوچنے میں برحق ہیں کہ کاش ان حکمرانوں نے اپنی عادتوں اور خواہشوں پر قابو پالیا ہوتا تو آج تاریخ انھیں کسی اور طرح یاد کرتی اور امت مسلمہ کے نوجوان اپنے ماضی کے ان حوالوں پر پریشانی سے یوں سوال نہ اٹھاتے۔