خدا کے نام خط

مصنف : گریگوریو

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : ستمبر 2020

Click here to read in English

پوری وادی میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پر ایک اکلوتا گھر بنا ہوا تھا۔اس اونچائی سے دریا دکھائی دیتا تھا۔مویشیوں کے باڑے سے آگے مکئی کے کھیت تھے۔مکئی پکی ہوئی تھی۔اس کے ساتھ لوبیے کے پودے تھے۔جن پر پھول لگے ہوئے تھے،جو ہمیشہ اچھی فصل دیتے تھے۔صرف ایک اچھی بارش کی ضرورت تھی یا پھر ہلکی پھلکی پھوار ہی کافی ہوتی۔لینچو (Lencho) نے جو اپنے کھیتوں سے بخوبی واقف تھا،صبح سے شمال مشرق میں آسمان کا جائزہ لیتے رہنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔''اب کچھ پانی ملنے کی امید بندھی ہے۔خاتون۔''
خاتون جو شام کا کھانا بنانے میں مصروف تھی،نے جواب دیا۔''ہاں! ان شاء اللہ ''
بڑے لڑکے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔جب کہ چھوٹے لڑکے گھر کے قریب کھیل رہے تھے۔خاتون نے سب کو آواز دے کر بلایا۔''کھانے کے لئے آ جاؤ۔''
کھانے کے دوران جیسا کہ لینچو نے پیش گوئی کی تھی۔بارش کے موٹے موٹے قطرے گرنے لگے۔ شمال مشرق میں بادلوں کے بڑے بڑے پہاڑ آگے بڑھتے نظر آ رہے تھے۔ہوا تازہ اور مزے دار تھی۔ مرد باہر باڑے میں کچھ تلاش کرنے نکلا۔لیکن دراصل وہ بارش کو اپنے جسم پر محسوس کرنے کی خوشی سے ہمکنار ہونا چاہتا تھا۔واپس آکر کہا۔''آسمان سے بارش کے قطرے نہیں گر رہے بلکہ وہ نئے سکے ہیں۔بڑے قطرے دس سینٹاوو (centavo) اور چھوٹے قطرے پانچ کے -97
بہت پرسکون اور مطمئن انداز میں اس نے کھیتوں میں پکی مکئی اور لوبیے کے پھولوں کو بارش کے پردے میں لپٹے قرار دیا۔لیکن جلد ہی تیز طوفانی ہوا چلنے لگی اور ہوا کے ساتھ ہی بڑے بڑے اولے گرنے لگے۔یہ اولے صحیح معنوں میں نئے سلور کے سکوں جیسے تھے۔لڑکے جو باہر بارش سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ان برفانی موتیوں کو اکٹھا کرنے کے لئے بھاگے۔
''اب تو سب کچھ خراب ہونے لگا ہے۔ '' مرد نے شرمندگی سے وضاحت کی۔'' امید ہے یہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔’’لیکن یہ جلد ختم نہیں ہوا۔ایک گھنٹے تک اولے گھر، باغ، پہاڑی، مکئی کے کھیتوں اور پوری وادی پر برستے رہے۔ کھیت ایسے سفید ہو رہا تھا جیسے نمک سے ڈھکا ہو۔ درختوں پر ایک بھی پتہ باقی نہیں رہا تھا۔مکئی مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی لوبیے کے پھول غائب ہو چکے تھے۔لینچو کی روح کی گہرائیوں تک اداسی بھر گئی۔جب طوفان ختم ہوا تو اس نے کھیت کے درمیان کھڑے ہو کر بیٹے سے کہا۔
ٹڈی دل سے تھوڑی بہت بچت ہو جاتی ہے۔اولوں نے توکچھ باقی نہیں چھوڑا۔ اس سال ہمارے پاس نہ مکئی ہے نہ لوبیا -97
وہ رات بہت اداس رات تھی۔'' ہمارا سارا کام بیکار گیا۔''''کوئی بھی تو نہیں جو ہماری مدد کرے۔''''اس سال ہم سب بھوکے رہیں گے۔''اس وادی میں واقع اس اکلوتے گھر کے سارے مکینوں کے دلوں میں ایک ہی امید تھی۔خدا کی مدد۔'' اتنے پریشان نہ ہوں۔اگرچہ بظاہر نقصان بھرپور ہے لیکن یاد رکھو،کبھی کوئی بھوک سے نہیں مرا۔''''یہی کہاوت ہے:کوئی بھوک سے نہیں مرتا۔۔''ساری رات لینچو اپنی آخری امید کے بارے میں سوچتا رہا۔''خدا کی مدد ''''اس کی آنکھیں سب کچھ دیکھ لیتی ہیں۔وہ بھی جو انسان کے باطن میں دور کہیں پوشیدہ ہوتا ہے۔'' یہی اسے سکھایا گیا تھا۔
لینچو بیل کی طرح طاقت ور تھا۔وہ اپنے کھیتوں میں جانوروں کی طرح کام کرتا تھا۔تاہم اسے لکھنا بھی آتا تھا۔اگلے اتوار طلوع فجر کے ساتھ ہی وہ اس یقین پر پہنچ گیا تھا کہ کوئی ''محافظ '' ہے۔وہ خط لکھنے بیٹھ گیا۔جسے وہ خود شہر جا کر ڈاک کے حوالے کرے گا۔یہ خط خدا کے نام تھا۔
''اے خدا '' اس نے لکھا۔'' اگر تم نے میری مدد نہیں کی،تو میں اور میرا خاندان اس سال بھوکے رہیں گے۔مجھے ایک سو پیسو (pesos) کی ضرورت ہے۔تا کہ میں دوبارہ فصل بو سکوں۔اور فصل کے تیار ہونے تک گزر بسر کر سکوں۔کیوں کہ اولوں کے طوفان۔۔''لفافے کے اوپر اس نے لکھا۔'' خدا کے لئے ''
خط لفافے کے اندر رکھا،اور شہر چل پڑا۔ ڈاکخانے پہنچ کر لفافے پر ٹکٹ لگایا اور اسے ڈاک کے ڈبے میں ڈال دیا۔ڈاک خانے کا ایک ملازم جو ڈاکیا ہونے کے علاوہ ڈاکخانے کے اور چھوٹے موٹے کام بھی کرتا تھا۔ یہ خط لے کر خوشدلی سے قہقہے لگاتا پوسٹ ماسٹر کے پاس پہنچا۔اسے خدا کے نام کا خط دکھایا۔بطور ڈاکیا اپنے پیشے کے دوران وہ اس ایڈریس سے واقف نہیں تھا۔پوسٹ ماسٹر ایک موٹا خوش مزاج شخص تھا۔وہ بھی خوش دلی سے ہنسنے لگا۔لیکن فوراً ہی سنجیدہ ہوتے ہوئے خط اپنے میز پر پھینکا اور بولا۔''کیا اعتقاد ہے۔میری خواہش ہے کہ میرا اعتقاد بھی اس خط لکھنے والے جیسا ہو۔اتنا اعتماد،اتنی امید کہ خدا کے ساتھ خط و کتابت۔'' چنانچہ اس غیر معمولی اعتقاد کو،جو اس خط سے ظاہر ہو رہا تھا۔جو اپنی منزل پر نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔مایوسی سے بچانے کے لئے پوسٹ ماسٹر کو ایک خیال سوجھا: خط کا جواب۔لیکن جب اس نے خط کھولا،تو اس پر واضح ہوا کہ اس کا جواب دینے کے لئے نیک خواہشات، سیاہی اور کاغذسے کچھ زیادہ کی ضرورت ہے۔لیکن وہ اپنے ارادے پر ڈٹا رہا۔اس نے ملازمین سے مطلوبہ رقم میں حصہ ڈالنے کا کہا۔اس نے اپنی تنخواہ سے رقم ڈالی۔اس کے بہت سے دوستوں نے بھی اس خیراتی عمل میں تعاون کیا لیکن پھر بھی اس کے لئے لینچو کے طلب کردہ ایک سو پیسو جمع کرنا ممکن نہیں ہوا۔وہ صرف آدھے سے کچھ اوپر رقم اس کسان کو بھیج سکا۔اس نے رقم کے بلز لفافے میں رکھے،لینچو کا ایڈریس لکھا اور صرف ایک لفظ بطور دستخط لکھا۔:‘‘خدا’’
اگلے اتوار لینچو معمول سے قبل ڈاکخانے پہنچ گیا۔اس کے نام آنے والے کسی بھی خط کا پوچھا۔ڈاکیے نے اسے خط دیا۔جب کہ پوسٹ ماسٹر اپنے اچھے کام سے مطمئن اپنے دفتر کے دروازے سے اسے دیکھتا رہا۔لینچو نے رقم دیکھ کر ذرا بھی حیرانی کا اظہار نہیں کیا۔اس کا اعتماد اتنا قوی تھا،لیکن رقم گننے کے بعد وہ غصے میں آگیا۔۔ خدا غلطی نہیں کر سکتا۔نہ ہی اس کی درخواست رد کر سکتا تھا۔فوراً ہی لینچو کھڑکی پر پہنچا،کاغذ اور سیاہی مانگی۔لوگوں کے لکھنے کے لئے رکھی میز پر اس نے لکھنا شروع کیا۔ما تھے پر تیوری چڑھائے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں وہ مشکل سے دو چار تھا۔کھڑکی سے ٹکٹ لئے۔انہیں زبان سے چاٹ کر لفافے پر چپکایا اور ڈاک کے ڈبے میں ڈال دیا۔جونہی لفافہ ڈاک میں پہنچا پوسٹ ماسٹر اسے کھولنے کے لئے بھاگا۔اس میں لکھا تھا۔''اے خدا جو رقم میں نے مانگی تھی،مجھے اس میں سے ستر پیسو ملے ہیں،مجھے بقایا رقم بھیج دیں کیوں کہ مجھے اس کی اشد ضرورت ہے۔لیکن بذریعہ ڈاک نہ بھیجنا،کیوں کہ ڈاکخانے کے ملازمین بدمعاشوں کا گروہ ہیں۔’’
لینچو
مصنف کا مختصر تعارف
گریگوریو لوپیز وافوئنٹس میکسیکو کی ایک میونسپیلٹی زون ٹیکوماٹلا کے وسیع میدانی علاقے میں انڈین کے درمیان پیدا ہوا اور پروان چڑھا۔اس نے اپنے ادبی کیرئر کا آغاز دو شعری مجموعوں سے کیا۔پھر صحافت کا رخ کیا اور پھر نثری افسانہ۔بے شمار افسانے لکھے اور نو،دس ناول لکھے۔جن میں سے ایک ناول El Indian پر اس نے ۱۹۳۱ میں نیشنل پرائیز حاصل کیا۔

 

بشکریہ : ترجمہ ، عقیلہ منصور جدون