منکر جب معروف بن جائے

مصنف : ابو یحییٰ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2019

    ایک فیملی میں کسی بچی کا رشتہ آیا۔ لڑکا سرکاری ملازم تھا۔ تیس چالیس ہزار ماہانہ تنخواہ تھی، مگر خرچے لاکھوں کے تھے۔ اس کا سبب رشوت کی کمائی تھی۔ رشتہ کی ابتدائی بات چیت میں بھی وہ نوجوان اور اس کے گھر والے رشوت اور کرپشن کی آمدنی کا اس طرح ذکر کرتے رہے جیسے کہ یہ کسی جائز کاروبار سے آمدنی کا ذکر کر رہے ہوں۔لڑکی والے بہت دیانتدار اور خدا کا خوف رکھنے والے تھے۔ دو تین ابتدائی ملاقاتوں میں جب یہ ذکر بار بار ہوا تو انھوں نے رشتہ ختم کرنے سے پہلے ایک دفعہ براہ راست لڑکے سے اس حوالے سے بات کرلی۔ اس پر لڑکے اور اس کی فیملی کی طرف سے سخت رد عمل آیا کہ یہ کون سا قابل اعتراض معاملہ ہے جس پر سوالات کیے جائیں۔ چنانچہ یہ رشتہ ختم ہوگیا۔
جو لوگ قرآن وحدیث سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ دین اس صورتحال کو ایک بہت بڑے عذاب سے پہلے کا پیش خیمہ سمجھتا ہے کہ کسی معاشرے میں لوگ منکر پر اتنے دلیر ہوجائیں کہ اس منکر کو معروف اور معروف کو منکر سمجھنے لگیں۔ رشوت اور کرپشن معمول کی چیز بن جائے اور اس پر سوال کرنے والے مجرم قرار پائیں۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اسی دور میں داخل ہوچکا ہے۔ تاہم ایک اچھی بات یہ ہے کہ اسی معاشرے میں کچھ لوگ پوری قوت سے اس بات پر قائم ہیں کہ وہ اس برائی کو برائی سمجھیں گے، چاہے ان کی شادی کے قابل بیٹی کا رشتہ ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے۔
پاکستانی قوم کے مستقبل کا فیصلہ اگلے دو عشروں میں ہونے والا ہے۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ اس بنیاد پر کریں گے کہ معاشرہ مجموعی طور پر کس طرح کے لوگوں کی بات کو سنتا ہے۔ ہماری بچت کا ایک ہی راستہ ہے کہ معاشرہ اہل خیر کی بات سنے۔ ورنہ ایک کرپشن زدہ معاشرے کا انجام یہی ہوگا کہ وہ اپنی عیاشیوں سمیت زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔
فرینڈز لسٹ
    فیس بک انٹرنیٹ پر سماجی روابط کی ایک معروف ویب سائٹ اور سروس ہے۔ دنیا میں نوے کروڑ سے زائد لوگ اس سروس کو باقاعدہ استعمال کر کے اپنے دوست احباب سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ فیس بک میں لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود اس سائٹ کا ممبر بنا جائے اور پھر اپنے جاننے والے لوگوں کو فرینڈ ریکیوسٹ بھیجی جائے۔ یوں ایک حلقہ یاراں وجود میں آتا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے اور باہمی دلچسپی کی چیزیں شیئر کرتے ہیں۔
میں ایک تنہائی پسند شخص ہوں، اس لیے فیس بک جیسی چیزوں سے دور ہی رہا ہوں۔ تاہم پچھلے دنوں بعض دوستوں کے پیہم اصرار پر میں بھی فیس بک کا ایک ممبر بن گیا۔ممبر بنتے ہی دوست بننے اور بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس عمل میں جو پہلا خیال مجھے آیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں سب سے قیمتی دوستی اور سب سے اچھا ساتھ عالم کے پروردگار کا ہوتا ہے۔ مگر ان نوے کروڑ لوگوں میں سے کتنے ہوں گے جنھیں عالم کے پروردگار کو اپنا دوست اور ولی بنانے کا خیال آیا ہوگا۔ پرودگار انہیں کا ولی بنتا ہے جو اس کی دوستی کو زندگی کا مسئلہ بنالیں۔ مگر جن لوگوں کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا دو عالم کا مالک ان کا دوست کیسے بن سکتا ہے؟
اس کی محبوبیت کا حال یہ ہے کہ اس کے چاہنے والے اپنی زندگی لگا دیتے ہیں، اس غرض سے کہ اس کی ایک نظر ان کے حال پر ہوجائے۔ وہ اس کو راضی کرنے کے لیے اپنی زندگی کا نذرانہ بھی اس کے حضور پیش کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی خواہش اور مرضی کو اس کے حکم کے تابع کر دیتے ہیں۔ اس کی نافرمانی ہوجائے تو وہ تڑپ کر اس کے حضور توبہ کرتے ہیں۔ وہ دن رات اس کے احسانوں اور مہربانیوں کو یاد کر کے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد و محور بس یہی ہوتا ہے کہ وہ، فیس بک کی اصطلاح میں، ان کی فرینڈ ریکیوسٹ کو ایک دفعہ کنفرم کر دے۔ پھر یہی ایک نظر ان کی زندگی بھر کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے۔
اک نظر کے لیے ساری عمر
عمر بھر کے لیے اک نظر
مگر کیا کیجیے عالمی دوستی کے اس دور میں جب لوگ ہر کسی کو دوست بنا رہے ہیں، دوست اگر نہیں بنایا جا رہا تو اسے نہیں بنایا جا رہا جو دوست بنانے کا سب سے بڑھ کر مستحق ہے اور جس کی دوستی سب سے زیادہ مفید ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ المیہ اور کیسی عجیب ہے دوستی کی یہ کہانی۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ جن کی فرینڈ لسٹ میں اللہ جل جلالہ کا نام موجود ہے اور کتنے بدنصیب ہیں وہ جن کی فرینڈ لسٹ پر یہ نام موجود نہیں۔
شیخ الاسلام اور میوزیکل نعتیں
مغلیہ دور میں شہرت پانے والے علمائے دین میں ملا عبد اللہ سلطان پوری کا نام بہت نمایاں ہے۔ وہ ہمایوں کے دربار سے وابستہ ہوئے اور مخدوم الملک کا خطاب پایا۔ ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی تو وہ اس کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔ سوری نے انہیں شیخ الاسلام کا منصب دیا۔مغل دوبارہ اقتدار میں آئے تو ان کے زمانے میں بھی اسی عہدے پر فائز رہے۔
وہ علوم اسلامی اور خاص طور پر فقہ کے ماہر تھے۔ رعایا کو تو تشدد کرکے احکام فقہ پر عمل کرنے کے لیے مجبور کرتے، مگر خود اپنے لیے علم کے زور پر، ایسے حیلے تراشتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ مثلاََ زکوٰۃ سے بچنے کے لیے حولانِ حول کی شرط سے فائدہ اٹھاتے۔ حولانِ حول کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کے مال پر زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے سال گزرنا ضروری ہے۔ شیخ الاسلام سال کے آخر پر تمام مال و جائداد اپنی بیگم کو تحفے میں دے دیتے اور سال کے آغاز پر واپس لے لیتے۔ حج کی مشقت سے بچنے کے لیے یہ عذر تراشا کہ خشکی کے راستے سے جاؤں تو رافضیوں کے ملک (ایران)سے گزرنا پڑتا ہے اور سمندر سے جاؤں تو بحری جہاز فرنگی مسیحیوں کے ہیں۔
آج کے لوگ یہ باتیں سن کر کہیں گے کہ یہ ماضی کے قصے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ‘شیخ الاسلام’ کا یہ کردار آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔جس کی سب سے نمایاں مثال ہماری وہ نعتیں ہیں، جو اگر اردو زبان سے نابلد کسی شخص کو اچھے ٹیپ ریکارڈ پر سنوا دی جائیں تو وہ بے ساختہ کوئی گانا سمجھ کر ‘گلوکار’ کو داد دینے پر مجبور ہوجائے گا۔
نعت پڑھنا ایک پاکیزہ عمل ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کا اظہار ہے۔ شاعروں نے آپ کی شان میں ہمیشہ عمدہ اشعار کہے ہیں اور خوبصورت آواز والے لوگ انہیں اچھی طرز پر پڑھتے رہے ہیں۔ ان اشعار میں اگر مشرکانہ باتیں ڈال دی جائیں تو الگ بات ہے، وگرنہ اہل علم نے کبھی اس عمل کو برا نہیں سمجھا۔
عام لوگ موسیقی اور گانے کو بہت پسند کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں کے اکثر اہل علم موسیقی کو بدترین درجہ کی حرام چیز سمجھتے ہیں۔ اس لیے نعت پڑھنے والوں کے لیے یہ ہمیشہ مشکل رہا ہے کہ وہ موسیقی کے ساتھ نعت پڑھیں۔ لیکن دور جدید کے نعت خوانوں نے شیخ الاسلام کی طرح اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔ وہ حل اتنا ‘پاکیزہ’ ہے کہ بڑے سے بڑا عالم ٹیکنیکل بنیادوں پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ حل یہ ہے کہ نعت روایتی مذہبی لہجے کے بجائے گانے کی لے میں پڑھی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو واقعتا کسی اچھے گانے کی دھن چرالی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ پس منظر میں اللہ کے نام کو اس طرح لیا جاتا ہے کہ سننے والے کو کسی ساز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اس حل پر بڑے سے بڑا عالم فنی بنیادوں پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا ہے، اس لیے ہمارے جیسے ایک طالب علم کی کیا مجال ہے کہ اعتراض کرے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر نعتوں کے ساتھ ایک پاکیزہ ساز ہوتا تو ہمیں اعتراض بھی نہ ہوتا۔ اس لیے کہ کون نہیں جانتا کہ مدینہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے بچیوں نے جب نعتیہ اشعار پڑھے تو ساتھ میں دف بھی بجائے تھے۔
بات یہ ہے کہ جس طرح قرآن پاک ہر طرح کی طرز پر نہیں پڑھا جاتا بلکہ ایک خاص نوعیت کا لہجہ اختیار کیا جاتا ہے، اسی طرح نعت کے لیے بھی ہر لے موزوں نہیں ہوتی۔ موسیقی کے ماہرین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مختلف طرح کی لے انسان کے جذبات پر خاص طرح کے احساسات مرتب کرتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر لے ہر کلام پر موضوع نہیں ہوتی۔ مگر آج کل کی نعتوں کی لے گانوں کی طرح ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان نعتوں کو پڑھنے والے اور انہیں سننے والے بھی اسی طرح ہاتھ لہراتے ہوئے جھومتے ہیں، جس طرح کسی میوزیکل پروگرام کے شرکا کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے جذبات پر اس لے کا ایک خاص اثر ہورہا ہوتا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ یہ لوگ بمشکل اپنے آپ کو رقص کرنے سے روک رہے ہیں۔
پھر سب سے بڑھ کر میوزک کا تاثر دینے کے لیے اللہ کے نام کو جس طرح استعمال کیا جاتا ہے، وہ سر تا سر رب کے بابرکت نام کی بے حرمتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہاں کسی کو خدا سے دلچسپی نہیں ہے، اس لیے یہ توہین نظر نہیں آتی۔ کسی کو ہماری بات کی سنگینی کا اندازہ کرنا ہے تو ان نعت والوں سے فرمائش کرے کہ اللہ کے نام کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام استعمال کریں اور آپ کے مبارک نام کے ذریعے سے میوزک کی آواز کا تاثر دینے کی کوشش کریں۔ پھر دیکھیں کہ علما اور عوام ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ ہر طرف سے توہین رسالت کا شور اٹھے گا۔ احتجاج شروع ہوگا۔ اخباری بیانات شایع ہوں گے۔ جلوس نکلیں گے۔ مقدمے درج ہوں گے۔ نعت خواں اور نعت کو نشر کرنے والے چینل کو جان بچانا مشکل ہوجائے گا۔
جو لوگ موسیقی کی قطعی حرمت کے قائل ہیں ان کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے۔ فطرت کے آگے بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ موسیقی کے حوالے سے جتنی کچھ اجازت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، اگر علما نے اتنی اجازت بھی نہ دی تو لوگ بہرحال موسیقی سے باز نہیں آئیں گے۔ وہ موسیقی کے شوق میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی بے حرمتی کرتے رہیں گے۔
٭٭٭