ختم نبوت کے بعدہدایت خلق کا انتظام

مصنف : مولانا امین احسن اصلاحی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : 2014 فروری

دین و دانش
ختم نبوت کے بعد ہدایت خلق کا انتظام
مولاناامین احسن اصلاحی

 

 

 سوال: یہ کائنات ایک امتحان گاہ ہے اور اس کے ہر فرد سے آخرت میں بازپرس ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ختم نبوت کے بعد ہر نفس پر اتمام حجت کا کام قلیل، غافل، اور اکثر اپنی راہ سے بھٹک جانے والی، اپنے فرائض کو پس پشت ڈال دینے والی امت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟
جواب: ختم نبوت کے بعد ہدایت خلق کی ذمہ داری امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ڈالی گئی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے دو خاص انتظام ایسے بھی فرمائے ہیں جو اس بات کی ضمانت بہم پہنچاتے ہیں کہ اگر یہ امت بحیثیت مجموعی اپنے فرض منصبی— شہادۃ علی الناس—سے غفلت برتے جب بھی شہادت حق کا کام بالکل معطل نہیں ہو سکتا۔
ایک یہ کہ قرآن کریم کو، جو اللہ تعالیٰ کی ہدایات معلوم کرنے کا ذریعہ ہے، ہر قسم کے تحریف و تغیر سے ہمیشہ کے لیے بالکل محفوظ کر دیا ہے۔ پچھلی امتوں میں جو انبیاء  علیہم السلام تشریف لائے، ان کی تعلیمات اور ان کی کتابوں کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام نہیں فرمایا، اس وجہ سے ان کی تعلیمات میں تحریفات اور تبدیلیاں ہو گئیں جن کو صرف بعد میں آنے والے انبیاہی درست کر سکتے تھے۔ لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم الانبیا ہیں، آپ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں تھا، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی کتاب کی حفاظت کے لیے یہ انتظام فرمایا کہ اس کو جن و انس کی ہر قسم کی دراندازیوں سے ہمیشہ کے لیے محفوظ فرما دیا۔ قرآن مجید کی اس محفوظیت نے اس اندیشہ کا بالکل سدباب کر دیا ہے کہ خدا کی یہ زمین خدا کی اصل تعلیم سے کبھی بالکل محروم ہو جائے گی۔
دوسرا انتظام یہ فرما دیا ہے کہ اس امت میں ایک گروہ حق پر قائم رہنے والا اور حق کی طرف دعوت دینے والا ہر دور میں موجود رہے گا جو اپنے قول اور عمل سے خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور ان کے بتائے اسوہ حسنہ کی شہادت برابر دیتا رہے گا۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی امتوں کو یہ چیز بھی حاصل نہیں تھی جس کے سبب سے بگاڑ کے دور میں ان کے اندر نہ تو خدا کی اصل تعلیم باقی رہ جاتی تھی اور نہ ان کی یاددہانی کرنے والے اشخاص و افراد باقی رہ جاتے تھے۔ اگر کوئی شکل اس بگاڑ کی اصلاح کی باقی رہ جاتی تھی تو صرف یہ کہ کوئی نبی آکر اس کی اصلاح کرے۔ لیکن اس امت کو اس طرح کے کسی اندھیرے میں گھر جانے سے خدا نے محفوظ فرمایا ہے۔ اس کے لیے، جیسا کہ متعدد احادیث میں وارد ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام فرمایا ہے کہ جب اس امت کے سارے جسم میں بدعت و ضلالت کا اثر اس طرح سرایت کر جائے گا، جس طرح سگ گزیدہ کے جسم میں کتے کا زہر سرایت کر جاتا ہے، اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اس کے ایک حصہ کو اس زہر کے اثر سے محفوظ رکھے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس امت پر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شہادۃ علی الناس کی جو ذمہ داری ڈالی ہے تو اس ذمہ داری کے تعلق سے اس امت کو من حیث الامت وہ عصمت بھی عطا فرمائی ہے جو انبیا علیہم السلام کو حاصل ہوتی ہے۔ یعنی یہ امت بحیثیت افراد کے تو گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہو سکتی ہے، لیکن بحیثیت امت کے یہ ہمیشہ ہدایت پر قائم رہے گی۔ اس کو یہ حالت کبھی نہیں پیش آئے گی کہ پوری امت ضلالت پر مجتمع ہو جائے، حق پر قائم کوئی گروہ اس کے اندر سرے سے باقی ہی نہ رہ جائے۔ یہی معنی ہیں اس حدیث کے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’لا تجتمع امتی علٰی الضلالۃ‘ (میری امت کبھی ضلالت پر متفق نہیں ہو گی)۔
یہ اہتمام اس امت کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرمایا ہے کہ ختم نبوت کے بعد بھی اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے حاملین اس کے اندر باقی رہیں۔ اگر نبوت ختم نہ ہو چکی ہوتی تو اس اہتمام کی ضرورت نہ تھی۔ بالفرض خدا کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مٹ بھی جاتی تو بعد میں آنے والا نبی ان کو زندہ اور تازہ کر دیتا۔
یہ اہتمام تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اصل دین کو محفوظ کرنے کے لیے فرمایا ہے۔ اب آئیے دیکھیے کہ اس دین کو دنیا میں پھیلانے اور خلق پر اس کی حجت قائم کرنے کے لیے کیا اہتمام فرمایا ہے؟
اس کے لیے یہ اہتمام فرمایا ہے کہ تبلیغ و دعوت کی ذمہ داری پوری ایک امت پر ڈال دی ہے جو ہر دور میں، ہر ملک میں اور ہر زبان میں یہ خدمت انجام دے سکتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس امت کے اکثر افراد اپنی اس ذمہ داری سے غافل ہیں، بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ ان کے اعمال کی شہادت ان کے اس منصب کی ذمہ داریوں کے بالکل خلاف ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ تاریخ کا کوئی تاریک سے تاریک دور بھی ایسا نہیں گزرا ہے جس میں یہ امت شہادت علی الناس کا فرض ادا کرنے والوں سے بالکل ہی خالی ہو گئی ہو۔ اللہ کے بندوں نے یہ شہادت زبان سے بھی دی ہے، قلم سے بھی دی ہے، عمل سے بھی دی ہے اور ہر ملک، ہر زبان، ہر دور اور ہر طرح کے حالات کے اندر دی ہے۔ اس شہادت سے شہادت دینے والوں کو نہ امرا اور سلاطین کی تلواریں روک سکی ہیں نہ ان کی اشرفیوں کی تھیلیاں، یہ عوام کی مخالفت سے دبے ہیں اور نہ خواص کی سازشوں سے، نہ ان کو کسی خوف سے دبایا جا سکا ہے اور نہ کسی طمع سے خریدا جا سکا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ اس طرح کے رجال کی تعداد ہر دور میں بہت تھوڑی رہی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جگانے والوں کی تعداد اتنی نہیں ہوا کرتی جتنی تعداد سونے والوں کی ہوتی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ نبوت کا سلسلہ ختم نہ ہوا ہوتا، جاری ہوتا، جب بھی کیا ہوتا۔ ہر شہر اور ہر قریہ میں تو نبی آنے سے رہے تھے، یہی ہوتا کہ وقفہ وقفہ کے ساتھ کوئی نبی تذکیر کے لیے آ جاتا۔ سو یہ کام ہر دور میں اللہ کے نیک اور خدا ترس بندوں کے ذریعے سے ہوا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔
یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ساری ذمہ داری صرف جگانے والوں ہی پر نہیں ہے، بلکہ اس ذمہ داری کا کچھ حصہ جاگنے والوں پر بھی ہے۔ یہ دنیا جس کو آپ غافلوں کی دنیا کہتے ہیں، بہرحال ڈھوروں اور ڈنگروں کی دنیا نہیں ہے۔ اس میں بڑے بڑے سائنس دان، بڑے بڑے فلسفی، بڑے بڑے مصنف، بڑے بڑے پروفیسر اور بڑے بڑے مدبر اور سیاست دان پڑے ہوئے ہیں۔ یہ
 حضرات آسمان و زمین کے سارے قلابے ملاتے ہیں، آخر کبھی انھیں خدا اور اس کے احکام کی تلاش کیوں نہیں ہوتی؟ ان کی ساری حِسیں زندہ ہیں، آخر یہی حِس کیوں مردہ ہو گئی ہے؟ یہ نہیں ہے کہ یہ حضرات خدا اور رسول، مسیح علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقف ہوں، خوب واقف ہیں۔ اپنی سیاسی بازی گریوں میں اگر ضرورت پیش آجاتی ہے تو ان ناموں کو استعمال بھی کرتے ہیں۔ آخر یہ حضرات کبھی ان ناموں کی حقیقت پر ایمان داری اور سچائی کے ساتھ کیوں نہیں غور کرتے۔ انھیں عوامی گیتوں اور عوامی ناچوں کے احیاء کی فکر تو بہت پریشان رکھتی ہے، آخر انھیں خدا کے دین کے احیاء کی فکر کبھی کیوں نہیں لاحق ہوتی۔میں تو ان عقلاء و فضلا کے معاملہ پر جب غور کرتا ہوں تو مجھے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ان کو جگانے کے لیے تو ان کی عقل کو کافی ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ کافی نہیں ہے تو ان کے لیے کوئی چیز بھی کافی نہیں ہو سکتی۔ ان سے تو اللہ تعالیٰ یہی پوچھے گا کہ ہماری بخشی ہوئی عقل کے راکٹ پر سوار ہو کر آپ حضرات چاند تک پہنچ گئے، کیا کبھی اس عقل نے ہمارے دروازے کی طرف آپ لوگوں کی رہنمائی نہیں کی؟ اس دور کے لوگوں پر میرے نزدیک ان کی عقل پوری طرح خدا کی حجت تمام کر رہی ہے۔
میرے اس بیان سے کسی کو یہ بدگمانی نہ ہو کہ میں اس امت کو اس کی دعوتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ٹھہرانا چاہتا ہوں۔ میرا یہ منشا ہر گز نہیں ہے۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریضہ تبلیغ و دعوت میں کوئی کوتاہی ہو جاتی تو اللہ تعالیٰ ان سے بھی مواخذہ کرتا، پھر شہادت علی الناس کی جو ذمہ داری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت پر ڈالی گئی ہے اگر اس امت کے لوگ اس کو ادا کرنے میں کوتاہی کریں گے تو اس کے مواخذہ سے کس طرح بچ سکیں گے؟ ہم میں سے ہر شخص اپنی صلاحیتوں اور اپنے اختیارات کے اعتبار سے اس بارے میں خدا کے ہاں مسؤل ہو گا اور مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں ہے کہ اس خلق کی وہ تمام گمراہیاں جو ہماری غفلتوں کے نتیجہ میں ظہور میں آئیں گی، ان کے نتائج بھگتنے میں ہم بھی برابر کے شریک ہوں گے۔٭٭