یوم تشکر اور دو بھلے مانس

مصنف : او ہنری

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : ستمبر 2018

غیر ملکی ادب
یوم تشکر اور دو بھلے مانس
تحریر ، او ہنری

                                                                                            ہمارے ہاں ایک دن منایا جاتا ہے۔ یہ ایسا دن ہے جب تمام امریکی اپنے قدیمی گھروں کو لوٹتے ہیں اور انواع و اقسام کے کھانوں کی دعوت اڑاتے ہیں اور اس دن کی رحمتیں سمیٹتے ہیں۔ صدر ہر سال اس دن کی چھٹی دیتا ہے۔ہم نے سنا ہے کہ وہ پیوریٹنز(عیسائیوں کا ایک فرقہ) تھے جو بحرِ اوقیانوس کے ساحل پر اترے اور جنھوں نے پہلا یومِ تشکر منایا۔ ہم اْن کے متعلق زیادہ نہیں جانتے لیکن یہ معلوم ہے کہ انھوں نے پہلے یومِ تشکر پر ایک بڑا پرندہ فِیل مرغ کھایا تھا۔ سو اگر ہم مالدار ہوں تو یومِ تشکر پر فِیل مرغ ہی خریدتے ہیں۔ یہ ایک روایت بن گئی ہے۔
یومِ تشکر سال بھر میں ایک دن نومبر کی آخری جمعرات کو منایا جاتا ہے۔ یہ خالصتاً امریکی تہوار ہے۔ چنانچہ اسی سے متعلق ایک کہانی پیش کی جاتی ہے تاکہ آپ جان سکیں کہ ایک نئی مملکت میں کْہنہ روایات ابھی زندہ ہیں۔ قدیم ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں یہ روایات تیزی سے پرانی ہو رہی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم زیادہ جوان اور زندگی سے بھر پور ہیں۔ ہم ہر کام تیزی اور پھرتی سے کرتے ہیں۔
سٹفی پیٹ نیویارک شہر کے پارک یونین سکوئر میں بنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ جونہی آپ مشرقی سمت سے یونین سکوئر میں داخل ہوتے ہیں تو یہ فوارے کے بالمقابل دائیں جانب سے تیسری نشست ہے۔ نو سال ہونے کو آئے کہ وہ یومِ تشکر پر سہ پہر کے وقت اسی نشست پر آکر بیٹھتا تھا۔ ہر مرتبہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ رونما ہوتا۔ وہ باتیں بہت حیران کن ہوتیں۔ وہ اس کے دل کو خوشی سے معمور کر دیتیں اور اسی طرح سے جسم کے ایک اور حصے کو بھی۔۔۔وہ حصہ( پیٹ) دل سے ذرا نیچے واقع تھا۔ 
یومِ تشکر کے علاوہ وہ دیگر ایام میں بھی بھوکا ہوتا تھا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ متمول لوگ مفلسوں اور ناداروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ لوگ صرف یومِ تشکر پر ہی بھوکے ہوتے ہیں۔مگر آج پِیٹ بھوکا نہیں تھا۔ وہ ایک بہت بڑی ضیافت کھا کر آ رہا تھا۔ وہ اتنا زیادہ ٹھونس چکا تھا کہ ہلنے کی بھی سکت نہ تھی۔ اس کی زرد آنکھیں گول بیروں کی طرح اس کے خاکستری چہرے سے جھانک رہی تھیں جس پر ابھی تک خوراک کی کچھ باقیات چپکی ہوئی تھیں۔ اْس کا دم گھٹ رہا تھا اور جسم پھول کر کپا ہو گیا تھا۔ لباس اس کے تن پر سما نہیں رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وجود کپڑے پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔ قمیص کے دامن کے خلا سے اس کی جلد دکھائی دے رہی تھی۔ سرد ہواؤں میں برف کے گالوں کی آمیزش تھی۔ لیکن سرد برفیلی ہوائیں اسے خوشگوار محسوس ہو رہی تھیں۔
سٹفی پِیٹ شکم سیری کے باعث بہت زیادہ حدت محسوس کر رہا تھا۔ دعوت بہت پْر تکلف تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ دنیا کی تمام غذائیں اور فِیل مرغ دستر خوان پر سجا دئیے گئے ہیں۔ سو وہ جم کر بیٹھ گیا اور سَیر ہوکر ہی اٹھا۔ کھانے کے بعد اس نے دنیا کو یوں حقارت سے دیکھا گویا اِس میں پیش کرنے کو کوئی دلچسپ چیز باقی نہ بچی ہو۔یہ ضیافت بہت غیر متوقع تھی۔ وہ ایک کشادہ سڑک ففتھ ایونیو کے شروع میں ہی ایک سرخ اینٹوں والی بڑی حویلی کے پاس سے گزر رہا تھا۔ یہ گھر ایک قدیمی خاندان کی دو عمر رسیدہ بہنوں کا تھا جنھیں روایات سے گہرا لگاؤ تھا۔ یومِ تشکر کی دوپہرکو وہ ایک ملازم کو دروازے میں ایستادہ کر دیتیں جہاں وہ سب سے پہلے گزرنے والے بھوکے راہگیر کا انتظار کرتا۔ ملازم کو احکامات صادر کئے گئے تھے کہ وہ اْس شخص کو گھر کے اندر لے کر آئے اور اْسے پیٹ بھر کر اْس وقت تک کھلایا جائے جب تک اْس کی بَس نہ ہو جائے۔ سٹفی پِیٹ اسی راستے سے پارک میں آ رہا تھا۔ ملازم اسے گھیر کر اندر لے گیا اور یوں روایت کی پیروی ہو گئی۔
سٹفی پِیٹ پارک میں بیٹھ کر دس منٹ تک عین سیدھی سمت میں تکتا رہا تب اس میں کسی دوسری سمت میں دیکھنے کی خواہش بیدار ہوئی۔ کافی تنگی اور جد و جہد کے بعد وہ سر کو بائیں جانب موڑنے میں کامیاب ہوا۔ تب اس کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں اور سانس رکنے لگی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کے سِروں پر لگے ہوئے پاؤں اس کے پھٹے ہوئے جوتوں میں سے نکل کر زمین میں گڑ گئے۔ ایک بھلا مانس فورتھ ایونیو کو عبور کر کے اسی کی جانب بڑھا چلا آ رہا تھا۔
نو سال سے ہر یومِ تشکر پر اس شریف آدمی کا معمول تھا کہ وہ سٹفی پِیٹ کو اس کی مخصوص نشست پر ڈھونڈنے کے لئے یہاں پر آتا تھا۔ یہ کام وہ شریف آدمی روایت نبھانے کے لئے کرتا تھا۔ سٹفی اس کو ہمیشہ یہیں پر ملتا تھا۔ پھر وہ سٹفی کو ریستوران لے جاتا اور ایک بھر پور دعوت کھاتے ہوئے دیکھتا۔
قدیم ممالک مثلاً برطانیہ میں لوگ ایسی چیزیں بہت آسانی سے کر لیتے ہیں۔ وہ ان کو سوچے سمجھے بنا ہی سر انجام دے لیتے ہیں۔ لیکن اس نو تعمیر شدہ ملک میں ہمیں ان کے متعلق سوچ بچار کرنا پڑتی ہے۔ روایات کے جڑ پکڑنے کے لئے ہمیں طویل دورانیے تک ایک ہی بات کو بار بار دہرانا پڑتا ہے۔ معمر شریف آدمی اپنے وطن سے محبت کرتا تھا وہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک عظیم امریکی روایت کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ اور وہ اِس کام کو بہت عمدگی سے سر انجام دے رہا تھا۔ نو سال آخر کو ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ 
معمر شریف آدمی اس احساسِ تفاخر کے ساتھ سیدھا پِیٹ کی جانب بڑھا کہ وہ ایک روایت کی آبیاری کر رہا ہے۔ شکم سَیر سٹفی کو کھانا کھلا دینا در حقیقت کوئی اہم روایت نہیں تھی۔برطانیہ میں اس سے کہیں زیادہ عظیم اور اہمیت کی حامل روایات موجود ہیں۔ مگر یہاں پر ابھی شروعات تھیں۔ اس سے ثابت ہوتا تھا کہ امریکہ میں بھی کسی روایت کا وجود برقرار رکھنا ممکن ہے۔
معمر شریف آدمی ساٹھ سال کا دبلا پتلا شخص تھا۔ وہ تماتر سیاہ لباس میں ملبوس تھا اور پرانی طرز کا چشمہ لگائے ہوئے تھا جسے ناک پر ٹکانا مشکل تھا۔ اس کے بال پچھلے سال کی نسبت بد رنگ اور چھدرے تھے۔ سابقہ سالوں کی نسبت اس کی ٹانگیں مضبوط نہیں رہی تھیں اور اب وہ چلتے وقت خمدار دستے والی لاٹھی کا سہارا لیتا تھا۔جونہی معمر شریف آدمی اس کے پاس آیا تو سٹفی کی سانس خرخرانے لگی ، وہ یوں لرزنے لگا جیسے کوئی خاتون گلی میں بھونکنے والے پَگ( چپٹی ناک والے چھوٹے کتے) کے غصہ کرنے پر کپکپاتی ہے۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس نے خواہش کی کہ کاش کسی طرح اْڑ کر وہ یہاں سے بھاگ جاتا۔ لیکن وہ اپنی نشست پر حرکت تک نہیں کر سکتا تھا۔
''دن بخیر!! مجھے خوشی ہے کہ مزید ایک سال کی مشکلات نے آپ کو مجروح نہیں کیااور اس خوب صورت دنیا میں آپ صحت مند و توانا گھوم پِھر رہے ہیں۔۔ ان نعمتوں کا میں اور آپ مل کر یومِ تشکر کو شکرانہ ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ مہربانی فرما کر میرے ہمراہ چلتے ہیں تو میں آپ کو ایک بہت بڑی دعوت کھلاؤں گا جو آپ کے جسم کے ساتھ ساتھ آپ کے دماغ کو بھی شکر ادا کرنے پر مجبور کر دے گی۔''
یہی جملے معمر شریف آدمی نو سالوں سے ہر یومِ تشکر پر دہراتا تھا۔ یہ الفاظ بذاتِ خود ایک روایت تھے۔ پہلے ہمیشہ یہ الفاظ اس کے کانوں میں سْر بکھیرتے تھے مگر اب وہ مشکل میں مبتلا آنسو بھری آنکھوں سے معزز آدمی کا چہرہ تک رہا تھا۔ گرتی ہوئی برف کے گالے اس کے چہرے سے ٹکراتے تو جسم کی حدت سے پگھل کر قطروں میں ڈھل جاتے۔ مگر معمر شریف آدمی سردی سے کانپ رہا تھا۔ وہ مڑا ، اس کی پشت سٹفی کی جانب تھی سو وہ اس کی آنکھوں میں نہ جھانک سکا۔
سٹفی ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ معمر شریف آدمی بات کرتے ہوئے اداس کیوں ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی بھی نہ جان سکا کہ وہ اس وجہ سے مغموم دکھائی دیتا تھا کیونکہ اس کی خواہش تھی کہ اس کا کوئی بیٹا ہوتا۔۔ایک جانشیں جو اس کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہاں آتا۔۔ بیٹا فخریہ انداز میں سٹفی کے سامنے آ کھڑا ہوتا اور کہتا'' میرے والدِ محترم کی یاد میں۔۔'' تب در حقیقت یہ روایت کہلاتی۔مگر معزز بزرگ کا کوئی خاندان نہیں تھا۔ وہ پارک کی مشرقی جانب کی خاموش گلیوں میں سے ایک گلی کی قدیم بھورے پتھر والی حویلی میں کرائے کے کمرے میں رہتا تھا۔ موسمِ سرما میں وہ وہاں پر پھول اگاتا، بہار میں وہ ففتھ ایونیو پر نکل آتا، موسمِ گرما میں وہ نیو جرسی کے پہاڑی علاقے میں ایک فارم ہاؤس میں رہتا تھا۔ وہاں وہ بید کی بازوؤں والی کرسی میں بیٹھ کر ایک نایاب تتلی کی باتیں کرتا تھا جو اس کو امید تھی کہ ایک روز اسے مل جائے گی۔ موسمِ خزاں میں وہ سٹفی کو دعوت کھلاتا تھا۔ بس یہی باتیں تھیں جن سے معمر شخص کی زندگی میں رنگ بھرے ہوئے تھے۔
سٹفی پِیٹ بے بسی اور معذرت خواہانہ انداز میں آدھ منٹ تک اسے تکتا رہا۔ معمر شریف آدمی کی آنکھیں عنایت کرنے کی مسرت سے جگمگا رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر شکنوں کا جال سال بہ سال گہرا ہو رہا تھا۔ مگر اس کا لباس ہمیشہ کی طرح نیا اور صاف ستھرا تھا۔ اس کی بھوری مونچھیں سروں پر دلکشی سے خمدار تھیں۔ اور تب سٹفی نے ایک عجیب و غریب آواز نکالی، جیسے مٹر کے دانے کسی برتن میں اچھلتے ہیں۔ وہ بولنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ جیسا کہ معمر شریف آدمی نو دفعہ یہ آواز سن چکا تھا سو وہ سمجھ گیا۔ وہ جان گیا کہ سٹفی نے دعوت قبول کر لی ہے۔ '' بہت شکریہ!! میں بہت بھوکا ہوں''
سٹفی کا پیٹ بھرا ہوا تھا۔ مگر اسے معلوم تھا کہ وہ بھی ایک روایت کا حصہ ہے۔ یومِ تشکر پر کھانا کھانے کی خواہش اس کی اپنی نہیں تھی۔ اس خواہش کا تعلق مہربان معمر شخص کے ساتھ تھا۔ یہ سچ ہے کہ امریکہ آزاد ہے مگر بہت سی باتوں کی پابندی کرنا ابھی بھی ایک مجبوری ہے۔
معمر شریف آدمی سٹفی کو اسی ریستوران میں اسی میز پر لے گیا جہاں وہ ہمیشہ بیٹھتے تھے۔ وہ یہاں خاصے معروف تھے۔ '' یہاں پر ایک معمر شخص آتا ہے'' ویٹر نے کہا '' اور اپنے ساتھی کے لئے یومِ تشکر کا کھانا خریدتا ہے۔معمر شریف آدمی اِدھر اْدھر نظریں دوڑاتا ہوا میز پر بیٹھ گیا۔ ویٹر کھانے کے خوان پر خوان لانے لگے اور سٹفی بھوک کی اداکاری کرتے ہوئے چمچ اور کانٹے سے کھانے پر پِل پڑا۔ کسی مشہور اور عظیم سپاہی نے بھی اْس سے زیادہ پختگی اور بہادری سے دشمن کے خلاف جنگ نہ لڑی ہو گی۔ فِیل مرغ اور دیگر کھانے جتنی سرعت سے آتے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے چٹ ہو جاتے۔ سٹفی نے معمر شخص کے چہرے پر خوشی کے تاثرات دیکھے۔اس نے خوشی کے تاثر کو برقرار رکھنے کے لئے کھانا جاری رکھا۔ایک گھنٹے بعد جنگ اختتام پذیر ہو گئی اور وہ فاتح ٹھرا۔ ''بہت شکریہ! '' سٹفی بولا۔ '' یومِ تشکر کی دعوت کھلانے پر میں آپ کا شکر گزار ہوں۔'' تب وہ بوجھل انداز میں اٹھا اور کچن کے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ ویٹر نے اس کی سمت ٹھیک کی اور باہر کے دروازے کی طرف رہنمائی کی۔معمر شخص نے احتیاط سے گن کر ڈیڑھ ڈالر بل ادا کیا اور پندرہ سینٹ ویٹر کے لئے ٹپ چھوڑ دی۔ ہر سال کی طرح انھوں نے دروازے پر ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ معمر شریف آدمی جنوب کی طرف ہو لیا اور سٹفی شمال کی جانب چل دیا۔
سٹفی پہلے موڑ تک ہی جا سکا۔ وہ ایک منٹ تک قدم جمائے کھڑا رہا اور پھر لْو زدہ
گھوڑے کی طرح فٹ پاتھ پر ڈھیر ہو گیا۔ایمبولینس آئی تو ڈرائیور اور سرجن اس کے وزن کو کوسنے لگے۔ سٹفی اور اس کی دونوں دعوتوں کو اٹھا کر ہسپتال لے جایا گیا۔ اسے ایک بستر پر لٹایا گیا اور اس کی بیماری کا کھوج لگانے کی کوشش کی گئی جو اس کے گرنے کا سبب بنی۔
لو دیکھو! ایک گھنٹے بعد معمر شریف آدمی کو بھی اسی ہسپتال میں لایا گیا اور دوسرے بستر پر لٹا دیا گیا۔ اور بیماری کا سراغ لگانے کی کوشش کی گئی۔
قلیل وقت کے بعد ایک نوجوان ڈاکٹر ایک نوجوان نرس سے ملا جس کی آنکھیں اسے بہت پسند تھیں اور وہ رک کر اس معاملے کے بارے میں بات کرنے لگے۔
'' یہ نفیس طبع ضعیف آدمی جو یہاں موجود ہے بھوک سے تقریباً نیم مردہ ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک قابلِ فخر شخص ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا ہے کہ تین دنوں سے اس نے کچھ نہیں کھایا''

***
ترجمہ ، رومانیہ نور