بيوقوف

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اكتوبر2023

بے و قوف

محمد صديق بخاري

2008) كی ايك تحرير)

            اسے وہ دن اچھی طرح یادہے کہ جب اسے پہلی بار بیوقوف کہا گیا تھا۔اس وقت اس کی عمر دس گیارہ برس سے زیادہ نہ تھی اور وہ چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ اس نے اپنی ماں سے کبھی کوئی فرمائش کی تھی اور نہ کبھی کوئی ضد کیونکہ اسے اپنی ماں کی مجبوریوں کا بخوبی علم تھالیکن اس دن نہ جانے کیا ہوا کہ وہ اپنی ماں سے نئے کپڑوں کی ضد کر بیٹھا۔اصل میں عید آنے والی تھی اور ہر طرف نئے نئے کپڑوں کی آمدتھی۔شاید اس کا معصوم دل بھی اس ماحول کا اثر لے بیٹھا تھاحالانکہ اس کا دل اس عمر میں بھی کافی حد تک ’’اثر پروف‘‘تھا۔ اس دن اس کی ماں نے اسے پہلی بار مارا تھا۔ اسے یادہے کہ اس کی ماں زاروقطار روتے ہوئے یہ کہہ رہی تھی کہ ’’بیوقوف ہو تم بیوقوف! جانتے نہیں کہ تم زندہ باپ کے یتیم بیٹے ہو‘‘۔ اسے اپنے رشتہ داروں کے وہ چہرے بھی اچھی طرح یاد ہیں جو مسکر اتے ہوئے اس کی ماں سے پوچھ رہے تھے کہ کیوں مار رہی ہو اسے؟ تو اس کی ماں نے جواب دیاتھا کہ بیوقوف ہے بیوقوف!  بس پھر کیا تھا، بیوقوف کا لفظ چل نکلا۔گھر میں تو وہ بیوقوف تھا ہی، محلے میں بھی مشہور ہو گیا۔ وہ گھر سے بہت کم نکلتا تھا۔بے مقصد گھومنا پھرنا اور کھیلنا اسے پسند نہ تھا۔وہ صرف مسجد کی جانب چلتا تھا اور وہ بھی چپ چاپ۔اسے مسجد کی طرف جاتا دیکھ کر اس کے ہم عمر لڑکے کہتے، بیوقو ف ہے بیوقوف، ہمارے ساتھ کھیلتا ہی نہیں۔ اسے کسی کھیل سے دلچسپی نہ تھی۔ اس کی دلچسپی اپنی کتابوں اور اپنی ماں تک محدود تھی۔دنیا کی اورکسی چیز میں اس کا دل نہ لگتا تھا۔ سکول میں بھی اس کی کل دنیا، بس کتابیں تھیں۔ اس لیے اس کے کلاس فیلو بھی اسے بیوقوف گردانتے تھے۔ البتہ سال کے کچھ دنوں میں اس لفظ کی گردان کم ہو جایا کرتی تھی اور یہ دن وہ ہوتے تھے جب سکول میں سالانہ رزلٹ کا اعلان ہوتا۔ وہ ہر کلاس میں اول آتا تھا مگر گھر میں اسے کوئی مبارک باد دینے والا نہ ہوتا تھا۔البتہ کچھ اساتذہ اس کی ہمت افزائی ضرور کرتے تھے۔ اس میں ٹیوشن پڑھنے کی ہمت نہ تھی مگر چند اساتذہ اسے اپنے گھر پر فری پڑھاتے تھے کیونکہ ابھی تعلیم صنعت اور بزنس نہ بنی تھی اور کچھ استاد واقعی استاد تھے۔آج بھی وقتِ نیم شب،جب اس کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں تو اپنی ماں کے بعد وہ ان اساتذہ کوبھی ضرور یاد کیا کرتا ہے۔

            اس بیوقوف نے میٹر ک بہت اچھے نمبروں میں پاس کر لیا تو اس کی ماں اسے لاہور لے آئی اور سائنس کالج وحدت روڈ میں داخل کر وا دیا۔یہ کالج میں بھی سہما سہما سا رہتا۔اس کی کسی کے ساتھ دوستی نہ تھی۔کیونکہ اس کے پاس کینٹین میں بیٹھ کر چائے پینے کے پیسے ہوتے تھے اور نہ کہیں گھومنے پھرنے کے لیے۔کالج میں اسے محسوس ہو ا کہ تعلیم بزنس بننے جار ہی ہے۔ کالج کے اساتذہ کی توجہ مخصوص لڑکوں کی طرف مبذول رہا کرتی تھی۔ بلکہ کئی استاد تو بر سر کلاس اس کا مذاق بھی اڑا دیا کرتے تھے۔اسے کیمسٹر ی کا حامدنامی استاد آج بھی یاد ہے جو بھری کلاس میں اسے کہا کرتاتھا کہ تمہارے چہرے پرتو موت کی ویرانی چھائی رہتی ہے۔اس کے پاس ہر بات کا جواب خاموشی ہوتاتھا البتہ وہ ہر بات اپنے اللہ کو ضرور بتا دیا کرتا تھا۔کالج والے بھی اسے بیوقوف سمجھنے لگے اور جس گھر میں اس کی ماں اسے لے کر رہ رہی تھی وہاں تو پہلے ہی سے یہ لفظ موجو د تھا۔ اس کے ایک اور قریبی رشتہ دار بھی لاہور میں رہا کرتے تھے۔ ان کے گھر میں اسے، البتہ ’بدھو‘ کہا جاتااور بعض اوقات’اللہ میاں کی گائے‘۔ لاہور کے یہ دوبر س اس کی زندگی کے بہت تلخ ایام تھے۔ اس پر یہ حقیقت انہی دنوں واضح ہو ئی تھی کہ ہمارے معاشرے کے بڑے گھرانوں میں فاقہ کش رشتہ دار کس طرح پلا کرتے ہیں۔ آج پينتيس برس گزر جانے کے بعد بھی اگر کبھی لاہور، گلبرگ ۳، بلاک کے 54نمبر مکان کے سامنے سے اس کاگزرنا ہوتا ہے تو بہت سے مہیب سائے اس کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتے ہیں اور وہ تیزی سے وہاں سے نکل آتا ہے۔

            اس بیوقوف نے انٹر میڈیٹ میں بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور گریجوایشن میں یونیورسٹی میں تیسری۔اس نے اپنے اساتذہ کے کہنے پر پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے انگلش میں داخلہ لے لیا۔وہ اسے ،سی ایس ایس کروانا چاہتے تھے مگر اسی اثنامیں اسے ملک کے مرکزی بینک میں اچھی جاب مل گئی۔جاب تو اسے کسٹم، انکم ٹیکس، واپڈا، روپالی پولی ایسٹر پلانٹ سب میں مل گئی تھی مگر اس نے سٹیٹ بنک کو ترجیح دی اور 1982کے آخرمیں اسے جوائن کر لیا۔ جاب ملتے ہی بیوقوف کہنے والی اکثر زبانیں گنگ ہو کر رہ گئیں۔لیکن اس کے بعد یہ لفظ بہت سی اور جہات سے اس کا پیچھا کرنے لگا۔اس کے قریبی اعزہ برطانیہ میں تھے ان کی طرف سے رشتے کی پیشکش ہوئی تو اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ میں اپنی ماں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔اس پر سب لوگ پھر اس بات پر متفق ہو گئے کہ بیوقوف ہے بیوقوف۔لاہور میں ایک بڑے صنعت کار کی طرف سے رشتے کی پیشکش ہوئی جس میں لڑکی کے ساتھ گاڑی، گھر اور وہ سب کچھ تھا جو پر تعیش زندگی گزارنے کے لیے کافی ہو اکرتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کی ماں اس کے ساتھ نہیں رہے گی۔ اس بیوقوف نے یہ سنتے ہی اسے بھی حقارت سے ٹھکر ادیا۔اسے اپنی ماں دنیا کی ہر چیز سے عزیز تھی۔ جاب ملتے ہی وہ مکان کرائے پر لے کر اپنی ماں کو اپنے پاس لاہورلے آیا تھا۔ اب دونوں ماں بیٹا بہت سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔ماں پھر ماں ہوتی ہے ما ں نے کہابیٹا یہ رشتہ قبول کر لو پل بھر میں تمہیں سب کچھ مل جائے گا، میرا کیا ہے میں تمہیں بس کبھی کبھی دیکھ لیا کروں گی میرا جی خوش ہو جایا کرے گا۔ بیٹے نے کہا ماں تمہارے بغیر مجھے ساری دنیا بھی ملے تو قبول نہیں۔رشتہ کروانے والے نے کہا پاگل ہے پاگل۔ لوگ تو ایسے رشتوں کا انتظار کیا کرتے   ہیں اور یہاں بن مانگے مل رہا ہے۔ کوئی بیوقوف ہی اسے چھوڑ سکتا ہے۔اس نے کہا ہاں بھائی میں تو ہوں ہی بیوقوف!

            اس کی ماں کو اپنے والدین کی طرف سے ایک مکان وراثت میں ملا تھا۔ ماں نے کہا بیٹا تمہیں تو اچھی جاب مل گئی ہے۔ تمہارا مکان تو بن ہی جائے گا یہ مکان سارے کا سارا تم اپنے بڑے بھائی کو دے دو۔ بیٹے نے کہا ضرو ر امی جان، اور اسی وقت بھائی کے نام لکھ کر اپنے حصے سے سبکدوش ہو گیا اس پر اس کے ننھیال نے کہا کہ بیوقوف ہے بیوقوف۔ کوئی اتنا بڑا مکان بھی چھوڑا کر تا ہے اور مکان بھی وہ جو بالکل مفت مل رہا ہو۔

            انہی دنوں اس کا تبلیغی جماعت سے تعارف ہو گیا اسے ان کا پیغام پسند آیا اور وہ ان کے ساتھ آنے جانے لگا۔ اس پر تمام خاندان میں پھر یہ بات دہرائی جانے لگی کہ ہم نہ کہتے تھے کہ یہ تو ہے ہی بیوقوف۔ کوئی بھلا گھر بار چھوڑ کر بھی دین کی خدمت کیا کرتا ہے۔ بھائی گھر بار پہلے ہے دین بعد میں!

            اسے فلاحی کاموں کا بالخصوص تعلیمی میدان میں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے سوچاکہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ بنایا جائے جس میں دینی و عصری دونو ں علوم کو یکجا اور بالکل فری پڑھایا جائے۔اس کے لیے وہ پلا ن بناتا رہا اور دوستوں کو دعوت دیتا رہا۔کچھ دوست اس کے ہم خیال بن گئے۔ اس نے لاہور کے قریب رائے ونڈ نامی بستی میں اپنی جیب سے ڈھائی کنال جگہ خریدی اور پلان بنایا کہ یہا ں اس ادارے کی بنیاد رکھی جائے۔دوستوں کو بلایا کہ اب وقت ہے کہ ہم فائنل فیصلہ کریں اور ادارہ شروع کردیں۔ سب نے کہا ہمارے پاس کیا ہے جو لگایا جائے۔ اس نے کہا ایسا کرتے ہیں کہ ہم سب اپنے اپنے مکان فروخت کرتے ہیں اور بنک ملازمت سے استعفی دے کر رائے ونڈ ڈیرے لگاتے ہیں۔ اللہ مدد کرے گا اور ادارہ بن جائے گا۔ سب نے کہا کہ ہم کوئی بیوقوف ہیں کہ اپنے مکان بیچیں۔ تم توٹھہرے بیوقوف۔ ہماری توبہ!تم جانو او رتمہارا کام۔اس نے یہ زمین فروخت کر کے لاہور اپنے مکان کے ساتھ ایک پلاٹ خرید لیا اور اسے اللہ کے راستے میں وقف کر دیا۔ اس نے اعلان کیا کہ یہاں مسجد بنے گی اور مدرسہ۔ اس اعلان پر رشتہ داروں اور دوست احباب سب نے کہا بیوقوف ہے بیوقوف، یہ پلاٹ بچوں کے لیے بچا کر رکھنا چاہیے تھا۔ اس نے کہا میری کوشش تو یہ ہے کہ بچے صالح بنیں کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وھو یتولی الصالحین کہ وہ خود ہی صالحین کا والی ہے۔اللہ کریم نے مدد کی اوراس جگہ پر سال کے اندر اندر عظیم الشان عمارت تعمیر ہو گئی۔ایک ثقہ مولوی صاحب نے کہا، جناب آپ تو بیوقوف ہیں بيوقوف۔ مسجد کی آڑ میں آپ اپنی ایک کوٹھی بھی تعمیر کر سکتے تھے۔ بس دو چار ستون کھڑے کر دیتے، آٹھ دس سالوں میں مسجد بن ہی جاتی لیکن اتنے عرصے میں آپ کے ایک نہیں دو  مکان بن سکتے تھے۔ مولوی صاحب نے مزید فرمایا، جنا ب ہم محنت کرتے ہیں تو آخر ہمارا بھی تو حق ہے، ہم نے آخر کہاں سے کھانا ہے۔اس نے کہا بھائی مجھے تو اللہ سے لینا ہے۔مولوی صاحب نے کہا تم تو رہے بیوقوف کے بیوقوف۔

             اسی زمانے میں اس کا ذہن یہ بن گیا کہ سودکی وجہ سے بنک کی جاب جائز نہیں۔ اس نے تما م مکاتب فکر کے علما سے تحقیق کی اور خود بھی غور کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ جاب واقعتا ًچھوڑ دینی چاہیے۔ چنانچہ ۱۹۹۷ میں اس نے یہ جاب چھوڑ دی۔اور ہاتھ جھاڑ کر گھر آ بیٹھا۔اس اقدام نے ایک بار پھر اس کے حلقے میں تہلکہ مچا دیا۔ اس کے بھانجے نے کہا، ماموں، پہلے جو لوگ آپ کو آدھا بیوقوف سمجھتے تھے اب وہ بھی آپ کوپورا بیوقوف سمجھنے لگے ہیں۔چنانچہ وہ ثقہ بیوقوف مشہور ہو گیا۔

            اس نے سوچا چلودین کا علم حاصل کرتے ہیں۔ وہ ایک ماڈرن دینی ادارے میں پہنچا۔ رئیس الادارہ کہنے لگے اس عمر میں آپ نہیں پڑھ سکتے۔ اس نے کہا جناب یہ بات توآپ قبل از وقت کہہ رہے ہیں۔ موقع دینا آپ کا کام ہے پڑھنا میرا کا م۔ نہ پڑھ سکاتو نکال دیجیے گا۔ چنانچہ وہ تین سال شب و روز پڑھتا رہا اور اس کلاس میں دوسرے نمبر پر رہا۔ اس دوران میں اللہ نے غیب سے جس طرح اس کے رزق کا اہتمام کیا وہ الگ سے ایک کہانی ہے۔ لیکن لوگوں نے بہر حال کہا،38 سال کی عمر میں بھی کوئی پڑھا کرتا ہے، لگتا ہے بیوقوف ہے،بیوقوف۔

پڑھنے کے بعد اس نے سوچا، ایک ماہانہ اصلاحی و دعوتی رسالہ نکالنا چاہیے۔ اس کے لیے، اس نے جب عقل مند لوگوں سے مشورہ کیا تو وہ پہلے تو اس کامنہ تکنے لگے اور پھر زیر لب ہنسنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہ اس کا دماغ ٹھیک نہیں لگتا ورنہ یہ اس طرح کی باتیں نہ کرتا۔ رسالہ نکالنا کوئی بچوں کا کھیل ہے؟ لوگ ہنستے رہے لیکن وہ چلتا رہا۔ دیکھنے والے تھک ہا ر کر کہنے لگے بیوقوف ہے بیوقوف۔اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔

            اس کے ایک دوست نے کہا، کہ اس کے پاس سولہ لاکھ ہیں،لے لو اور کاروبار کرو۔ نفع آدھا، آدھا۔ اس نے کہا میری توبہ، میں تمہاری رقم کو کیوں رسک میں ڈالوں۔ میں نہیں لیتایہ پیسے۔ ایک اور دوست کو جب یہ صورت حال پتا چلی تو اس نے کہا، رہے نا،تم بیوقوف کے بیوقوف۔ تم رقم قابو کرتے، بعد میں دیکھا جاتا۔ کاروبار ہوتا کہ نہیں۔ پھر کو ن رقم واپس کرتاہے۔ وہ اس کا منہ دیکھتا رہ گیا اور دل میں سوچتا رہ گیا کہ لوگ جب اس طرح کی باتیں کرتے ہیں تو شاید اس وقت وہ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ موت کی پہنچ سے باہر نکل گئے ہیں یا شاید اگر انہیں مرنا پڑ بھی گیا تو حساب کتاب میں اللہ کو دھوکا دے دیں گے۔

            اس کی زندگی اسی ڈھب پر گزر رہی تھی اور اللہ غیب سے اس کے اخراجا ت پورے کر رہا تھا کہ ایک دن اسے بیٹھے بٹھائے بیرون ملک سے ملازمت کی آفر آ گئی۔ اس نے سوچا بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کر نے کے لیے یہ اچھا موقع ہے۔ چنانچہ اس نے یہ آفر قبول کر لی اور وہ بیرون ملک چلا گیا۔ اب وہ بیرون ملک ہے لیکن جوں ہی اسے کوئی چھٹی ملتی ہے وہ فوراً گھر کی راہ لیتا ہے اور ہزاروں روپے کرایہ لگا کر اپنے بچوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے سب کولیگز نے یہ ٹارگٹ سیٹ کیا ہوا ہے کہ اتنے لاکھ جمع کرنا ہیں۔ لیکن وہ کچھ بھی نہیں بچاتا جو بھی جمع ہوتا ہے کرایہ لگاتا ہے اور چند دن گھر والوں میں گزار آتا ہے۔ اس کی یہ حرکت دیکھ کر اس کے نئے کولیگز نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ بیوقوف ہے بیوقوف  -تنخواہ بھی اس کی ہم سے تھوڑی،اضافی آمد ن کے راستے بھی مسدود۔اور پھر تنخواہ بھی یہ کرایوں میں برباد کر دیتا ہے۔ بے چارے کو بچت کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں۔وہ خاموشی سے یہ سب سنتا ہے۔ اور دل ہی میں دل میں یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ میرے اللہ نے مجھے کبھی رسوا نہیں کیا۔ میر ی ہر ضرورت کا کفیل وہی ہے۔ اب بھی کوئی ضرورت آڑے آئی تومیرا کفیل مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا۔

            اب اس کی عمر بڑھاپے کی دہلیزپر دستک دے رہی ہے۔ اتنے برس تو اس نے لوگوں كے اس كہنے كو زيادہ اہميت نہ دی  لیکن اب  نہ جانے یہ خیال کیوں آجاتا ہے کہ  اس كی نہ تو پنشن ہے اور نہ ہی ديگر  مراعات تو اگر  ملازمت سے فارغ ہو كر وہ خالی ہاتھ گھر كو لَوٹا ،تو کہیں  اس کے بیوی بچے بھی اسے بیوقوف نہ کہنا شروع کر دیں-يہ خيال البتہ اس پہ خوف طاري كر ديتا ہے  ليكن پھر ايك آواز آتی ہے جو كہتی ہے كہ  پگلے! جس نے اتنے برس تیری لاج رکھی کیا اب نہ رکھے گا؟اور پھر يہ آواز اسے ميٹھی نيند سلا ديتی ہے اورايسی نيند ميں وہ اكثر  خواب ديكھتا ہے كہ كوئی يہ كہہ رہا ہوتا ہے-    ومن يتوكل علي اللہ فھو حسبہ۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭