ہمارے تعصبات

مصنف : ہارون ملک

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : دسمبر 2022

یَک رَنگی اکثریت ہماری اندر کی خوب صورت انسانیت کے رنگ اُڑا دیتی ہے!
دیکھیے اپنے تعصبات کا بوجھ اٹھائے لندن گئے ایک دوست کی یاد داشتوں کی بِپتا؛ امپورٹڈ کہانیوں سے اپنا تزکیہ نفس فرمانے کے بعد اپنے آپ سے سوال کیجیے گا کہ اگر آپ پنجابی ہیں تو پختونوں، بلوچوں، سندھیوں اور انسانی تنوّع کے گُل دستے کے باقی انسانوں کے متعلق آپ نے کیا کیا منفی سوچا؟ یا انھیں اپنے کسی مَثبت سٹیریوٹائپ یا تیار شدہ کَینڈے پر ناپ دیا؟
یہی سوال پختونوں، بلوچوں، سندھیوں، گلگتی، بلتی اور کشمیری انسانوں سے بھی ہے؟
اسی وجہ سے کہتا ہوں کہ کسی سوچنے والے کی بات سُنیں، یا کسی سنجیدہ فکر بندے کی کتاب پڑھنے لگیں تو دھیرج سے پڑھیے؛ پڑھتے پڑھتے اپنے آپ سے سوال کرتے جائیے، اپنے جوابوں پر غور کیجیے۔
 یقین مانیے، انسانیت نکھرے گی، یا خود پر پشیمانی کے تعمیری عمل سے آپ کے اندر سے نیا بہتر انسان برآمد ہو گا۔ 
ہم انسان امکانات کے زرخیر کھیت ہیں، بھلے یہ محبت کرنا ہو، نفرت کو کھرچنا ہو، وفا کو اُجالنا ہو، یا پھر کسی نئی شعوری اور احساس کی سطح کے چہرے کو بوسہ دینا ہو! 
سو، اپنے انسانی امکانات میں موجود جڑی بوٹیوں سے خوف مت کھائیے۔ ان سے بغل گیر ہوئیے۔ انھیں جانیے اور ان کی کاٹ خراش سے اپنے آپ کو جمال دیجیے۔
اب ہارون کی نگاہ کے اجالنے ترتیب دیکھیے؛ شاید اس ترتیب میں وہ ترتیل اور تحرّک ہو جو ہمیں اپنی اکثریت کے کنویں کے مینڈک کے درجے سے اٹھا کر بہتر انسان بنانے کی جانب لے چلے:
میں برسوں پہلے لندن وارد ہُوا تو اپنے آپ کو بڑا ویل پالشڈ سمجھنے اور سو کالڈ پڑھا لِکھا ہونے کے باوُجود اندر سے ایک پکا ٹھپا دیسی تھا جو اپنے اندر کے تعصبات کو کبھی مرنے نہیں دیتا بلکہ اُن کی مُسلسل آبیاری کرتا رِہتا ہے۔ تعصبات کی فہرست تو لمبی ہے لیکن چند ایک بطور دیگ کے چند چاول لِکھے دیتا ہُوں۔ 
میرے چند تعصبات: 
مُجھے ہلکا پُھلکا یقین تھا کہ غیر مذاہب کے افراد سے بُو آتی ہے، ہندو مذاہب کے لوگ منفی چالاک اور سِکھ مذاہب کے لوگ عقل سے پیدل ہوتے ہیں، مغربی ممالک کے لوگ زیادہ نسل پرست ہوتے ہیں، جِس کو مذہب میں غلط کہہ دِیا گیا ہے وُہ دُرست نہیں ہوسکتا وغیرہ۔’’ 
پھر یُوں ہُوا کہ میں جب بینک جاتا تو وہاں چیرٹی کے لئے جو ڈبہ پڑا ہوتا وُہ سُور (پِگی بینک) کی شکل کا ہوتا اور میں اُس میں بوجوہ نفرت کبھی کُچھ نہ ڈالتا کہ کیسے یہ بے وقوف لوگ ہیں جو اِس گندے سے جانور کی شکل کا ڈبہ رکھے بیٹھے ہیں۔ کبھی سوچتا کہ یہ اِس کو کھاتے بھی ہیں، اُف کیسے بے وقوف ہیں۔ پِگی کارٹُون ٹی وی پر دیکھتا تو کبھی پسند نہ آتے۔ ہندوؤں اور سرداروں سے میل جول میں پہلے سے سوچ رکھا ہوتا کہ یہ دُرست لوگ نہیں، اُن کی ہر بات میں کوئی چکر فراڈ تلاش کرتا۔ ایسے ہی کئی رویے جو لِکھنے بیٹھوں تو فہرست طویل ہوتی جائے۔ یہ بھی دُرست ہے کہ ایک عام دیسی بھائی کی نسبت میں کافی اِنسان کا بچہ تھا جِتنا لِکھا ہے اُتنا تعصب مُجھ میں تھا بھی نہیں بہرحال آہستہ آہستہ پتہ چلا کہ یہ سب بھی ہمارے جیسے لوگ ہیں، ہنستے ہیں، روتے ہیں، محبت کرتے ہیں، نفرت بھی، جِیتے بھی ہیں اور ہماری طرح مر بھی جاتے ہیں۔ اِن کے ہاں بھی خاندان ہوتے ہیں، وُہ ہماری طرح ماں باپ کی عزت کرتے ہیں، رشتے داروں سے لڑتے ہیں جو بھی ہے سب ایک جیسا ہی ہے کُچھ روایات اور رسومات ہر جگہ، علاقے کی الگ ہی ہوتی ہیں اور یہی تنوع ہم سب کو مُنفرد بھی بناتا ہے۔
تعصبات مِلنے جُلنے سے ہمیشہ کم ہوتے جاتے ہیں، جہاں کِسی بھی مُلک یا عِلاقے میں ایک خاص مذہب، سوچ یا نظریے کے ماننے والوں کی تعداد اکثریت میں ہو جائے وہاں سے ریشنلیٹی ، رواداری اور برداشت اپنا سامان باندھ کر کہیں اور نِکل لیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بُنیادی مُسئلہ ‘‘ہماری اکثریت’’ کا ہی ہے۔ آج ایک پُرانے جاننے والے سردار دِلباغ سِنگھ کی اچانک وفات کا‘‘ انتم ارداس’’ کا پاٹھ تھا۔ ہم بھی وہاں موجود تھے، دیکھا کہ ایک سردار جی جو وہاں بیٹھے گرنتھ صاحب سے کُچھ دُعائیں عبارات پڑھ
 رہے تھے بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے مولوی صاحب یا کوئی پنڈت صاحب پڑھتے ہیں، سمجھ مُجھے کِسی کی بھی نہیں آتی بس سُن لیتا ہُوں، وہاں بھی لوگ تائید میں سر ہِلا رہے تھے جیسے ہم ہِلاتے ہیں۔ سر پر کپڑا باندھنا ضروری تھا اکثر مذہبی عِمارات میں یہی رواج ہے کہ ننگے سر آنے کی اِجازت نہیں اور اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
ساری بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دُوسروں کے مذاہب، مسالک، عقائد، خیالات اور رسومات کو برداشت کرنا بلکہ معاشرے میں اُن کے ساتھ مِل جُل کر رہنے سے ہی ایک بہتر معاشرہ تشکیل پاتا ہے ورنہ وُہی حال ہوتا ہے جو ہمارا ہو رہا ہے۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں زیادہ تر الگ تھلگ اور اپنی کمیونٹی تک محدُود رہتے ہیں۔ کلچرز کو نہیں سمجھتے، اپنے عقیدے کی آنکھ اور عینک سے سب کو دیکھتے ہیں جو نہ صرف غلط ہے بلکہ سمجھ بھی نہیں آتا۔ 
 ہم لوگ بے جا مختلف لوگوں کو ذہن پر سوار کر لیتے ہیں، اُن سے’’ ٹسل’’ بنا کر اندر ہی اندر کُڑھتے رہتے ہیں اور یُوں اپنی مثبت توانائی کِسی انجان فرد کی نفرت میں ضائع کر دیتے ہیں۔ ڈئیر آل! لوگوں کو نظرانداز کرنا سِیکھیں۔ اگر کوئی آپ کو ناپسند ہے یا کوئی آپ کو ناپسند کرتا ہے تو اُس کو بُھلانا سیکھیں نہ کہ ہر وقت اپنے تعصبات اور نفرت کی آبیاری کرتے رہیں۔ 
سماجیات
ہمارے تعصبات
یاسر چٹھہ ’ ہارون ملک