ہر زمانے كا ابولہب

مصنف : محمد رضوان خالد چوھدری

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : نومبر 2022

سورہ ابو لہب پر غور کرنے کے بعد مُجھے آئینے میں بھی ابو لہب دکھائی دیا اپنے اردگردہر طرف بھی وہی چلتا پھرتا بولتا دکھائی دینے لگا۔ گھبرا کر مسجد کا رُخ کیا تو ممبر اور صفوں میں ہر طرف ابُو لہب ہی نظر آتے۔میری گلیوں شہروں، سیاسی جماعتوں ایوانوں، اداروں اور عدالتوں میں ہر طرف ایک ہی چہرہ نظر آتا، آگ برساتا، عقل اور تدبیر سے عاری، جذبات اور احساس برتری سے سے بھرا ابُو لہب۔
مُجھے ان سب میں سے اُس ابُو لہب کی تلاش تھی جسکے بارے میں قُرآن نے سورہ ابو لہب میں ذکر کیا ہے۔ کسی نے کہا بھائی کسے ڈھونڈتے ہو، قرآن نے جسے ابُو لہب کہا ہے وہ تو مُحمدﷺ کا چچا عبدُالعزیٰ تھا جسے اللہ نے اُس کے رویّے کی وجہ سے ابُو لہب یعنی شُعلوں کا باپ کہا۔ وہ تو چودہ سو سال پہلے مر کھپ بھی گیا، تم آج اسے ڈھونڈ رہے ہو۔میں نے عرض کی، جیسے سورہ ابُو لہب میں ذکر ہے اُس کے ہاتھ ٹُوٹیں گے کیا عبدالعزیٰ کے ہاتھ ٹُوٹے تھے۔ انہوں نے فرمایا نہیں بھئی یہ حقیقت میں نہیں مجازی طور پر ہونا تھا، یعنی تباہی ابولہب کا مُقدّر ہونا تھی۔میں نے پھر سوال کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ عبدالعزیٰ کو ابولہب کہہ کر مجھ اور آپ سمیت شعلوں کے ہر اس باپ کو وارننگ دی جا رہی تھی جو دلیل و حکمت کی بجائے انا، ضد، تشدد اور بد اخلاقی کو شعار بناتا ہے۔ اگر عبدالعزیٰ کے ہاتھ ٹُوٹنے کی بات کو آپ مجازی معنوں میں لیتے ہیں تو اسکے رویے کا عمومی اطلاق کر کے ہر دور میں اپنے اندر اور اردگرد ابولہب کیوں نہیں ڈھونڈتے، اور ایسا کیوں نہ ہو، عبدُالعزیٰ تو صدیوں پہلے مر کھپ گیا تھا کیا اسکی موت کے ساتھ ہی دلیل حکمت اور خوش اخلاقی کا دور دورہ ہو گیا تھا جو آج بھی قائم و دائم ہے۔ 
کہیں آپ بھی آگ کے باپ تو نہیں۔ 
کہیں آپ بھی عبدُل عُزا کی طرح متعصب، ضدّی اور انا پرست تو نہیں۔ کہیں اُسکی طرح آپ بھی مُخالف نظریے کے لوگوں کی نفرت میں اندھے تو نہیں ہو جاتے۔ کہیں آپ کے بھی دل دماغ آنکھ کان اور عقل پر مُہر تو نہیں لگی۔ کیا دلیل آپ پر بھی تو بے اثر نہیں ہو گئی۔ اگر آپ میں یہ سب نشانیاں ہیں تو آپ ہی اصلی گُمشدہ ابُو لہب ہیں۔
مُجھے آپکو ڈھونڈ کر بس یہ بتانا تھا کہ سورہ ابُو لہب کے مُطابق آپکے ہاتھ ٹُوٹیں گے۔ آپکا مال اولاد آپکے کام نہ آئیں گے۔ آپکے اندر جو جھوٹی انا، غُصہ، فرقہ ورانہ نفرت، حسد اور بُغض کی آگ بھری ہے اس سورہ کے مُطابق آپ ہی کے گلے کا طوق بنے گی۔ قُرآن بعض اوقات بظاہر کسی خاص قوم یا افراد سے مُخاطب ہوتا ہے جیسے بنی اسرائیل، نصاری، ابُو لہب یا قُریش وغیرہ۔ 
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جب یہ آیات آپ کے لیے ہیں ہی نہیں تو آپ کیوں انہیں تلاوت کرتے ہیں جبکہ نہ ابُو لہب زندہ ہے اور نہ کوئی قُریشی اب غیر مُسلم ہے۔ 
کبھی سوچیے کہ قرآن کے بنی اسرائیل نصاری، ابُو لہب یا مُشرک قُریش کولکھے جانے والے کھُلے خط مُجھے اور آپکو کیوں دیے گئے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اُن تک یا اُن جیسوں تک یہ خطوط مُجھے پہنچانے ہیں لیکن یہ خط کھُلے اس لیے چھوڑے گئے کہ میں آگے پُہچانے سے پہلے ان خطُوط کے آئینے میں خود کو دیکھ لوں۔
بنی اسرائیل کو پیغام دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لوں کہ کہیں اُنکی سب سے بڑی بُرائیاں یعنی قوم پرستی تعصب، شرک اور نسلی تفاخُر وغیرہ میں سے بعض یا سب علامات مُجھ میں تو موجود نہیں۔ یاد رکھیے کسی بھی قوم کے بارے میں جو آیات قُرآن میں ہیں وہ ہمارے لیے آئینہ بھی ہیں اللہ کو مطلوب ایمان کی چھلنیاں بھی۔ آئیے اُن الہامی چھلنیوں سے گُزر کر آئینے میں اپنی صورت دیکھیں۔

قرآنیات
ہر زمانے کا ابو لہب
رضوان خالد