غیر ملکی ادب
ننھی ماچس فروش
ہینس کرسٹین اینڈرسن ۔۔ ترجمہ ، رومانیہ نور

برفباری سے اٹی یہ سال کی آخری تاریک ہوتی ہوئی یخ بستہ شام تھی۔ اس سرد اور تاریک شام میں ایک ننھی بچی ننگے سر اور ننگے پاؤں گلی میں چلی جا رہی تھی۔ یہ درست ہے کہ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کے پاؤں میں چپل تھی۔ مگر وہ چپل اسکی ماں کی تھی جو وہ اب تک پہنتی آئی تھی وہ پرانی ہو چکی تھی اور بچی کے پاؤں میں کافی بڑی تھی۔ اس چپل کو بھی اس نے سڑک پر چلتی ہوئی دو تیز رفتار بگھیوں کے تصادم سے خوفزدہ ہو کر کھو دیا تھا۔ایک چپل کی تو کچھ خبر نہ ملی۔ دوسرا ایک شریر بچہ اٹھا کر بھاگ گیا اس خیال سے کہ جب کبھی اسکے اپنے بچے ہوں گے تو یہ بطورِ جھولا کام آئے گی۔چناچہ ننھی بچی ننگے پاؤں ہی چلی جا رہی تھی۔ ٹھنڈ سے اس کے گلابی پیر نیلے پڑ گئے تھے۔ اس نے ایک پرانی گٹھری میں بہت سی ماچسیں باندھ کر ہاتھ میں اٹھائی ہوئی تھیں۔ دن بھر کسی نے بھی اس سے کچھ نہ خریدا۔ اس نے ایک دھیلا تک نہ کمایا۔ بیچاری ننھی بچی غم و یاس کی تصویر بنی سردی اور بھوک سے کانپ رہی تھی۔ برف کے گالوں نے اسکے خوبصورت لمبے بالوں کو جو کہ لچھے بن کر اس کی گردن کے گرد لپٹے ہوئے تھے، ڈھانپ لیا تھا۔ اس نے کبھی اپنی اس خوبصورتی پر دھیان نہیں دیا ہو گا۔ گھروں کی کھڑکیوں سے شمعوں کی کرنیں چھن چھن کر آ رہی تھیں۔ اور ہر طرف بھنی ہوئی مرغابیوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔ یہ جشنِ سالِ نو کا تہوار ہے ،یہ بات البتہ ضروراس کے دھیان میں تھی۔
ایک سے بڑھ کر ایک جدید وضع کے دو خوبصورت گھروں کے درمیان ایک نکڑ پر وہ نیچے اکڑوں بیٹھ گئی۔ ننھے ننھے پاؤں اس نے جسم کے قریب کھینچ لئے۔ مگر وہ سرد سے سرد تر ہوتی جا رہی تھی۔ گھر جانے کی تو وہ جرأت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ اس کی کوئی ماچس نہیں بکی تھی ۔ اسے پورا یقین تھا کہ گھر جانے پر بھی اسے باپ سے جھڑکیاں ہی ملتیں۔ سردی تو وہاں بھی ایسے ہی تھی۔ بس فرق یہ تھا کہ وہاں ان کے اوپر چھت تھی۔ ایسی چھت جس میں سے برفیلی ہوائیں سنسناتی ہوئی آتی تھیں۔ اگرچہ زیادہ بڑی دراڑوں کو بھوسے اور چیتھڑوں سے بھر دیا گیا تھا۔اس کے ننھے ننھے ہاتھ سردی سے سُن ہو گئے تھے۔اگر وہ ڈبیا میں سے ایک دیا سلائی نکالنے کی ہمت کر لے تو ایک دیا سلائی کی حرارت اسے کچھ سکون فراہم کر سکتی ہے۔یہ سوچ کر اس نے ایک دیا سلائی نکالی، اسے دیوار سے رگڑا اور اپنی انگلیوں کو تمازت پہنچائی۔ اس نے ایک اور دیا سلائی نکالی۔ یہ کیسے بھڑکی۔کیسے جلی۔ دہکتے ہوئے روشن شعلے کی حدت کسی موم بتی کی طرح تھی۔ اس نے گرم کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں کو اوپر کیا۔ یہ بہت حیران کن شعلہ تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی آہنی چولھے کے پاس بیٹھی ہے جس کا پائیدان پیتل کا بنا ہو اور بالائی حصہ تانبے سے مرصع ہو۔ آگ کی تپش ایسی نعمت تھی جو بچی کو خوشگوار محسوس ہوئی۔ اس نے گرم کرنے کے لئے پاؤں آگے بڑھائے مگر چھوٹا سا چولھا غائب ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں صرف جلی ہوئی ماچس کی باقیات رہ گئیں۔اس نے ایک اور دیا سلائی کو دیوار سے رگڑا۔ یہ روشن ہو کر بھڑک اٹھی۔ جہاں جہاں دیوار پر روشنی پڑ رہی تھی وہاں پر دیوار ایک شفاف پردے میں ڈھل گئی۔لہذا اب وہ اندر کمرے میں دیکھ سکتی تھی۔ اندر میز پر برف کی مانند سفید میز پوش بچھا تھا۔ اس پر چینی کی رکابیاں سجی تھیں اور طشت میں بھنی ہوئی مرغابی، خشک میوہ جات اور سیب کا مربہ سجا ہوا تھا۔ اور جو انوکھی بات ہوئی وہ یہ کہ مرغابی پھدک کر طشت سے یوں باہر آئی کہ اس کے سینے میں کانٹا اور چمچ گڑے ہوئے تھے۔ وہ فرش پر پھسلتی ہوئی ننھی لڑکی کے پاس آ گئی۔ جب دیا سلائی کی روشنی معدوم ہوئی تو وہاں نم دیوار، گھپ اندھیرے اور شدید سردی کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اس نے ایک اور دیا سلائی روشن کی۔ اب اس نے خود کو ایک شاندار کرسمس ٹری کے نیچے بیٹھے پایا۔ یہ اس سے کہیں زیادہ عظیم الشان اور سجا ہوا تھا جو اس نے شیشے کے دروازے میں سے امیرتاجرکے گھر میں دیکھا تھا۔سبز شاخوں میں ہزاروں قمقمے جگمگا رہے تھے۔ اور خوشنما رنگوں سے سجی ہوئی تصویریں آویزاں تھیں۔ یہ بالکل ویسی ہی تھیں جو اس نے دکان کی الماریوں میں دیکھی تھیں۔ ننھی لڑکی نے ان کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ تبھی دیا سلائی بجھ گئی۔ اور کرسمس ٹری کی روشنیاں تیز سے تیز تر ہوتی گئیں۔ اب اسے یوں دکھائی دیتا تھا جیسے آسمان پر ستارے جگمگا رہے ہوں۔ ان میں سے ایک ستارہ ٹوٹ گیا اور روشنی کی ایک لمبی لکیر بناتا چلا گیا۔'' شاید کوئی مرنے والا ہے'' ننھی لڑکی نے کہا. اس کی دادی ہی وہ واحد فرد تھی جو اس سے محبت کرتی تھی۔ اور وہ آج دنیا میں نہیں رہی تھی۔ اسی نے بتایا تھا کہ جب کوئی تارا ٹوٹتا ہے تو ایک روح آسمانوں پر خدا کے پاس چلی جاتی ہے۔اس نے ایک اور دیا سلائی دیوار سے رگڑی۔ روشنی دوبارہ نمودار ہوئی اور اس کے پرُ نور ہالے میں دادی ماں کی نہایت حلیم، اجلی اور نور افشاں شبیہ محبت کا مظہر بنے کھڑی تھی۔'' دادی ماں!'' ننھی لڑکی روہانسی ہو کر بولی'' آہ! مجھے بھی اپنے ہمراہ ہی لے جائیں۔'' جب دیا سلائی بجھ گئی تو آپ بھی چلی جائیں گی۔ آپ بھی آہنی چولھے، مزیدار بھنی ہوئی مرغابی اور شاندار کرسمس ٹری کی طرح غائب ہو جائیں گی۔ اور یوں اس نے تیزی سے یکمشت تمام بنڈل دیوار سے رگڑ ڈالا۔ کیونکہ وہ دادی ماں کی قربت کو یقینی بنانا چاہتی تھی۔ دیا سلائیوں سے ایسی تابناک روشنی پھوٹی جس نے دن کے اجالے کو ماند کر دیا۔ دادی ماں ایسی حسین اور طویل قامت کبھی نہ تھی جیسی اب دِکھ رہی تھی۔ اس نے ننھی بچی کو اپنے بازوؤں میں بھر لیا۔ اور وہ دونوں منور و تاباں، شاداں و فرحاں بلند آسمان پر پرواز کر گئیں۔ اتنی بلندی پر کہ جہاں پر سردی تھی اور بھوک اور نہ ہی کوئی بے چینی و اضطراب۔ وہ رب کے حضور پیش ہو گئی تھیں۔صبح صادق کے سرد لمحوں میں نکڑ پر جہاں ننھی لڑکی بیٹھی تھی، اب دیوار کے ساتھ جھکی ہوئی تھی اس کے گال زرد تھے اور چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی۔ وہ گزشتہ سال کی آخری شام کو سردی سے منجمد ہو کر مر گئی تھی۔ اس کے سخت اور اکڑے ہوئے وجود کے ارد گرد جلی ہوئی دیا سلائیوں کی راکھ بکھری ہوئی تھی۔ جنھیں اس نے خود کو گرم رکھنے کے لئے جلایا تھا۔ '' وہ بیچاری خود کو حرارت دینا چاہتی تھی'' لوگوں نے اظہارِ افسوس کیا۔ کسی کو شائبہ تک نہ ہوا کہ اس نے کیسے خوبصورت مناظر دیکھے۔ کسی نے بھی اس شان و شوکت کا خوابناک تصور نہ کیا جس کے ساتھ وہ اور دادی ماں نئے سال کی خوشیوں اور مسرتوں میں داخل ہوئے ۔***