زبان و ادب اور ہمارے رویے

مصنف : محمد رضوان خالد چوھدری

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2022

کئی کلچرز میں پڑھنے پڑھانے والے پام ٹری بورڈ ممبر پاکستانی آسٹریلین ڈاکٹر حمّاد صاحب سے انسانیت اور ترقی کے لوازمات پربات ہو رہی تھی، اُنکا کہنا تھا کہ پسماندہ اقوام کی حالتِ زار میں بڑا حصہ اُنکے زبان و ادب اور کلچر کا بھی ہوا کرتا ہے  اپنی بات کی وضاحت کرتے ہُوئے وہ بولے جاپانی زبان میں ناممکن کا لفظ سرے سے موجود ہی نہیں ہے- جاپانیوں کو اس مفہوم والا کوئی فِقرہ کہنا ہو تو اُنہیں کئی فِقروں میں اپنی بات سمجھانی پڑتی ہے، زبان میں اس لفظ کی غیر موجودگی اور کلچر میں اس مفہوم کی مثالیں موجود نہ ہونے نے اُنکی اُس عمومی نفسیات کو بھی جِلا بخشی ہے جو کسی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ اُنکا کہنا تھا کہ زبان و ادب اور کلچر کی اسی انفرادیت کی وجہ سے جاپانی مرد و خواتین نوّے سال کی عمر تک دن رات کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ساس چائنیز ہیں، اُنہوں نے بتایا کہ چائنیز کلچر میں بھی اُنکے زبان و ادب کے باعث ایسی ہی چیزیں موجود ہیں تبھی چائینیز سولہ گھنٹے روزانہ سخت ترین مشقت کرتے ہیں- وہ بولے میں اُن مہینوں کا انتظار کرتا ہوں جب میری ساس ہمارے ہاں رہنے کو آتی ہیں کیونکہ وہ آتے ہی سارے گھر کے کام اور بچوں کو ایسے سنبھال لیتی ہیں کہ ہم میاں بیوی کے کرنے کو کچھ نہیں بچتا- اُنکا کہنا تھا کہ وہ اُن دنوں کرکٹ پریکٹِس کے لیے دگنا وقت نکال سکتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ قرآن میں بھی پڑھتا ہوں لیکن میری نو مسلم بیوی اسکی ایک ایک آیت پر غور کرتی ہے، اُنہوں نے بتایا کہ اُنکی بیوی اس آیت پر ریفلیکٹ کرتے رو پڑی جس میں اللہ پُوچھتا ہے کہ اُس نے کب تمہیں تنہا چھوڑا۔ گویا غور و فکر کی عادت کا بھی کلچر اور زبان و ادب سے  گہرا تعلق ہے-پسماندہ ثقافتیں ضرور لا اُبالی رویّے اور سطحی مشاہدے کی طرف راغب کریں گی۔
  اسلام میں تصورِ توبہ اور تصورِ شُکر کی اہمیت اور ترقی سے ان مفاہیم کے تعلق پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب بولے کہ کسی ثقافت کے نارمز میں اگر کوتاہی پر شرمندگی اور نعمت پر شُکر کی نارمز یا زبان و ادب میں اسکے لیے ایسے مناسب الفاظ ہی موجود نہ ہوں جنکی عملاً مثالیں بکثرت ہوں تو یہ حقائق ضرور اُس ثقافت کو پسماندگی کی طرف دھکیلیں گے- اُنکا خیال تھا کہ جو لوگ اپنے معاشرتی پارٹنرز کے سامنے اپنی غلطی پر شرمندہ نہیں ہو سکتے اُن میں اللہ کے سامنے توبہ کا رجحان بھی کم ہی ہو گا- جو لوگ اپنے دوستوں اور کُولیگز کا شُکریہ ادا کرنے میں بخیل ہوں وہ اللہ کے شُکر میں بھی بخیل ہوں گے۔ اُنہوں نے مجھ سے پُوچھا کہ تُم کینیڈا میں روزانہ کتنے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا شکریہ ادا کرتے دیکھتے ہو اور کتنے لوگ روزانہ چھوٹی چھوٹی اِنکنوینئینسز پر تمہیں سوری کہتے ہیں۔ یہ سچ ہے میں خود بھی روزانہ بیسیوں لوگوں کو سوری یا تھینک یُو کہتا ہوں اور بیسیوں لوگ مجھے - کینیڈین معاشرہ دنیا کے بہترین معاشروں میں سرِ فہرست ہے۔
 ڈاکٹر صاحب خود پنجابی ہیں، اُنہوں نے مجھے بتایا کہ پنجابی میں سوری اور شُکریے کے عام استعمال والے متبادل سرے سے موجود ہی نہیں اور فرض کیجیے کھینچ تان کر ہم یہ مفاہیم پنجابی اور سرائیکی میں ڈال بھی لیں تو کتنے پنجابی اور سرائیکی ان جذبات کا حقیقی اظہار اپنی روزمرّہ زندگی میں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے کہ شُکر ایک رویّے کا اظہار ہے جو کسی فرد کی شخصیت سے جُڑا نہ ہو تو بے چینی اُسکا خاصا رہے گی، توبہ بھی ایک رویّہ ہے جو غلطی پر احساسِ شرمندگی کی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہماری گفتگو کا خلاصہ کلام یہ نکلا کہ مغرب سمیت کئی غیرمُسلم اقوام عملاً وہ بنیادی لوازمات پُورے کرتی ہیں جو ایمان کے لیے کھاد کا کام کرتے ہیں-جنہیں البتہ اُن تک ایمان کے بیج پہنچانے تھے وہ خود اپنی انا کو معبود سمجھتے ہیں۔ عمومی احساسِ شرمندگی اور عمومی احساسِ شُکر اُنہی کرخت نفوس میں کم ہو گا جو اپنے معبود خود ہیں۔ زبان و ادب یا ثقافت میں ان مفاہیم کی کمی کوئی بڑا مسئلہ بہرحال نہیں ہے اگر نئی نارمز کی آبیاری پر توجہ دی جائے- معاشرے میں نئی نارمز کی انڈکشن تقابلی علم، تجربات اور مشاہدات پر غور و فکر کا منطقی نتیجہ ہے- جہاں قرآن دنیا گھومنے اور غور و فکر کا داعی ہے وہیں ایک حدیثِ نبویؐ کے مطابق یہ تقابلی اور مشاہداتی علم اور پریکٹِس مومن کا خاصہ ہونی چاہیے۔ مفہوم قولِ رسُولؐ ہے کہ مومن اس علم و حکمت کو لینے میں نہیں ہچکچاتا خواہ جہاں سے بھی ملے۔