سنبھل کر چلیے

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2011

            چھوٹے جانوروں کو ندی پار کرنا ہو تو وہ پانی میں تیزی سے چل کر نکل جاتے ہیں۔ مگر ہاتھی جب کسی ندی کو پار کرتا ہے تو وہ تیزی سے چلنے کے بجائے ہر قدم پر رک رک کر چلتا ہے، وہ ہر قدم نہایت احتیاط سے رکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے جانوروں کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ پانی کے نیچے مٹی نرم ہو یا سخت، ان کا ہلکا پھلکا جسم بآسانی اس سے گزر جاتا ہے۔ مگر ہاتھی غیر معمولی طور پر بڑا جانور ہے۔ بھاری جسم کی وجہ سے اس کے لیے یہ خطرہ ہے کہ نیچے کی مٹی اگر نرم ہو اور اس کا پاؤں اس میں دھنس جائے تو اس کے لیے اس سے نکلنا سخت مشکل ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھی جب تک یہ نہ دیکھ لے کہ نیچے کی سطح مضبوط ہے وہ قدم آگے نہیں بڑھاتا۔ ہر بار جب وہ قدم رکھتا ہے تو اس پر اپنا پورا بوجھ نہیں ڈالتا۔ وہ ہلکا قدم رکھ کر پہلے اس کی نرمی اور سختی کو آزماتا ہے۔ اور جب اندازہ کرلیتا ہے کہ زمین سخت ہے اسی وقت اس پر اپنا پورا بوجھ رکھ کر آگے بڑھتا ہے۔یہ طریقہ ہاتھی کو کس نے سکھایا۔ جواب یہ ہے کہ خدا نے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھی کے اس طریق عمل کو خدائی تصدیق حاصل ہے۔ گویا زندگی کے لیے خدا کا بتایا ہوا سبق یہ ہے کہ جب راستے میں کسی خطرے کا اندیشہ ہو تو اس طرح نہ چلا جائے جس طرح بے خطر راستے پر چلا جاتا ہے بلکہ ہر قدم سنبھل سنبھل کر رکھا جائے، ‘‘زمین’’ کی قوت کا اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ انسان کو خدا نے ہاتھی سے زیادہ عقل دی ہے۔ جہاں بارود کے ذخیرے ہوں وہاں آدمی دیا سلائی نہیں جلاتا۔ جس ٹرین میں پٹرول کے ڈبے لگے ہوئے ہوں، اس کا ڈرائیور بے احتیاطی کے ساتھ اس کی شنٹنگ نہیں کرتا۔ مگر اسی اصول کو اکثر لوگ سماجی زندگی میں بھول جاتے ہیں۔ ہر سماج میں طرح طرح کے انسان ہوتے ہیں اور وہ طرح طرح کے حالات پیدا کیے رہتے ہیں۔ سماج میں کہیں ‘‘دلدل’’ ہوتا ہے اور کہیں ‘‘پٹرول’’۔ کہیں ‘‘کانٹا’’ ہوتا ہے اور کہیں ‘‘گڑھا’’۔ عقل مند وہ ہے جو اس قسم کے سماجی مواقع سے بچ کر نکل جائے نہ کہ اس سے الجھ کر اپنے راستے کو کھوٹا کرلے۔جس آدمی کے سامنے کوئی مقصد ہو وہ راستے کی ناخوش گواریوں سے کبھی نہیں الجھے گا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان سے الجھنا اپنے آپ کو اپنے مقصد سے دور کرلینا ہے۔ بامقصد آدمی کی توجہ آگے کی طرف ہوتی ہے نہ کہ دائیں بائیں کی طرف۔ وہ مستقل نتائج پر نظر رکھتا ہے نہ کہ وقتی کارروائیوں پر۔ وہ حقیقت کی نسبت سے چیزوں کو دیکھتا ہے نہ کہ ذاتی خواہشات کی نسبت سے۔