کتے والی خاتون

مصنف : انتون چیخوف

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : اپریل 2021

انسانی فطرت اور ضمیر میں گناہ و ثواب کی کشمکش بیان کرتی ہوئی خوبصورت تحریر

یالٹا شہر کے تفریحی مقام پر کچھ دنوں سے دھوم مچی ہوئی تھی کہ ایک انتہائی خوبصورت خاتون تفنن طبع کے لئے آئی ہوئی ہے جس کے ساتھ ایک انتہائی اعلی پولش نسل کا کتا ہوتا ہے۔ جب وہ اسے اپنے ساتھ لے کر گھومتی ہے تو خاص و عام کی نگاہیں اس کا طواف کرنے لگتی ہیں لیکن وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنی دھن میں کتے سے اٹھکیلیاں کرتی جاتی ہے اور دنیا بھر کوبے قرار کر جاتی ہے۔ اس کے نام کا تو کسی کو علم نہیں تھا لیکن سب اسے کتے والی سرکار کہہ کر یاد کرتے تھے۔
ڈمٹی گروف اتفاقاً ان دنوں ماسکو سے چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔ وہ ایک بڑے بینک میں اعلی عہدے پر فائز تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ماسکو میں کافی جائیداد تھی۔ وہ ایک عمدہ ہوٹل میں مقیم تھا۔ اس وقت وہ گھومتے ہوئے ایک بہترین ریستوران کے صحن میں بیٹھا کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا تو اسے ہلکے بھورے بالوں والی ایک نوجوان خاتون چوڑے شیشوں والی دھوپ کی عینک پہنے خراماں خراماں چلتی نظر آئی۔ اس کے پیچھے کتا دلکی چال چلتے ہوئے آ رہا تھا۔ بعد ازاں اس کو یہ نظارہ میونسپل پارک اور سکوئر کے مقامات پربھی دکھائی دیا۔ یہ کون تھی؟ کہاں سے آئی تھی؟ کب تک قیام کرے گی؟ کیا نام تھا؟ وغیرہ کے بارے میں سب بے خبر تھے۔ وہ ہمیشہ اکیلی ہی گھوم رہی ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ نہ تو کوئی مرد اور نہ ہی کوئی خاتون ہوتی تھی بلکہ اس کا ساتھی صرف کتا ہی تھا۔
گروف نے سوچا کہ اگر یہ اکیلی ہے تو اسے پاکٹ کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس وقت تیس کے پیٹے میں تھا۔ بوجوہ اس کے والدین نے اس کی شادی نو عمری میں ہی کر دی تھی۔ اس کی ایک بارہ سالہ بیٹی اور دو سکول جانے والے بیٹے تھے۔ وہ خوبرو تھا اور کثرتی جسم کا مالک تھا۔ اس کی شخصیت کرشماتی تھی اور پہلی ہی نظر میں لوگ اس سے متاثر ہو جاتے تھے۔
گروف کی بیوی عمر میں اس سے چھوٹی تھی۔ وہ دراز قد، عقلمند، بہترین مقررہ، خوش لباس اور خوش گفتار تھی۔ اس نے خود کو مکمل طور پر فٹ رکھا ہوا تھا۔ ادب میں دلچسپی رکھتی تھی۔ عرصہ گزرنے کے بعد ان کی خانگی زندگی جمود کا شکارہو گئی تھی کیونکہ ان کے مزاج میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی تھی۔ وہ اپنے خاوند کو بد سلیقہ، اوچھا، دل پھینک اور غیر ذمہ دار سمجھتی تھی۔ گروف کے خواتین کے بارے میں ایسے نظریات تھے جن میں وہ ہر خاتون کی بد تعریفی کرتا تھا تاہم بہر صورت وہ اسے برداشت کر رہی تھی اور شادی نبھا رہی تھی۔گروف ہمیشہ سے ہی خواتین کا ناقد تھا۔ ان کی برائیوں کے قلابے ملاتا رہتا تھا لیکن ان کی صحبت کے بغیر دو دن بھی نہیں گزار سکتا تھا۔ مردوں کی موجودگی میں وہ لئے دئے رہتا تھا اور بہت جلد اکتا جاتا تھا۔ اگر اسے گفتگو میں حصہ لینا ہی پڑتا تو تمام موضوعات پر کم گفتگو کرتا لیکن اگر موضوع خواتین ہوتیں تو ان کی بد تعریفی کرتااور ان کی تذلیل کے قصے سناتا لیکن جب وہ خواتین کے ساتھ ہوتا تو خوب چہک اٹھتا۔ اس کی زبان کو لگام نہ ملتی۔ ان کے ساتھ گفتگو میں اسے مہارت حاصل تھی۔ کن موضوعات پر کونسی بات کرنی ہے؟ کسی محفل میں کس طرح برتاؤ کرنا ہے؟ یا ان سے روابط کیسے قائم کئے جا سکتے ہیں؟ یا کس طرح ان سے ترک تعلق کیا جا سکتا ہے؟ ان سب معاملات میں وہ شاطر تھا لیکن یہ جوش محض عارضی ہوتا تھا اور مقصد حاصل کرنے کے بعد وہ انہیں بھول جاتا تھا۔ اس کی شخصیت کی یہ خوبی تھی کہ سب کچھ جاننے کے باوجود خواتین شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے ارد گرد منڈلانے لگتی تھیں اور اپنی اس صلاحیت کا وہ بھرپور فائدہ اٹھاتا تھا۔ ہر شکار کے بعد وہ خاتون اسے زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں تک یاد رہتی اور اس کے بعد قصہ پارینہ بن جاتی۔ کچھ تو بعد میں اس کا پیچھا بھی کرتیں لیکن وہ ہمیشہ جُل دے جاتا۔اس روز گروف حسبِ معمول ریستوران میں کافی سے محظوظ ہو رہا تھا کہ کتے والی سرکار داخل ہوئی اور ساتھ والے میز پر بیٹھ گئی۔ اس کا ہیئر سٹائل دلفریب تھا، چلنے کا انداز فیشن ماڈلوں کا سا تھا، چہرہ پر اعتماد تھا لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے ۔ اس وقت اس کی کیفیت ایسی دکھ رہی تھی جیسے کہ وہ تفریحی مقام اسے پسند نہیں آیا اور وہ بور ہو رہی تھی۔ اس کا کتا اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔گروف کی عقابی نگاہیں بھانپ گئیں کہ اس بے زار خاتون کو شیشے میں اتارنا مشکل نہیں ہو گا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس سے گفتگو کا آغاز کیسے کیا جائے؟ وہ اس کے نام تک سے واقف نہیں تھا۔ یک دم اس کے ذہن میں اس سے رابطہ قائم کرنے کا ایک طریقہ آیا۔ اس نے کتے کو بڑی دلچسپی سے دیکھا اور پھر چٹکی بجا کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنے لگا۔ کتا یہ دیکھ کر غرایا، اس پر اس نے اپنی انگلی پھر لہرائی۔ کتے کے غرانے پر خاتون متوجہ ہوئی اور اپنے خیالوں سے نکل کر چٹکی بجانے والے گروف کی طرف دیکھا اور پھر نگاہیں جھکا لیں۔کیا میں اسے ہڈی دے سکتا ہوں؟ گروف نے اس سے پوچھا۔ہاں! خاتون نے جواب دیا۔مادام! کیا آپ یہاں کافی عرصے سے مقیم ہیں؟ گروف نے پوچھا۔
میں یہاں پچھلے کچھ دنوں سے مقیم ہوں اور بے حد اکتاہٹ محسوس کر رہی ہوں اور یہ وقت میں نے بڑی مشکل سے گزارا ہے، خاتون نے جواب دیا۔اس کے بعد گفتگو میں وقفہ ہو گیا اور کافی دیر تک خاموشی رہی۔مقام دلچسپ ہو تو وقت تیزی سے بیت جاتا ہے اور اگر جگہ بور ہو تو ایک ایک لمحہ بھاری پڑتا ہے۔ پل پل رینگ رینگ کر چلتا ہے، خاتون بڑبڑائی۔جب سیاح یہاں آتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں کہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں سے کچھ عرصہ کے لئے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا اور تازہ دم ہو کر واپس اپنے اپنے کام میں محو ہو جائیں گے لیکن اس دفعہ یہاں کی دھول، مکھیوں اور مچھروں کی بہتات اور چلچلاتی دھوپ نے سپین کی یاد تازہ کر دی تھی۔ میرے خیال میں اگر آپ کو اچھی کمپنی مل جائے تو آپ کا یہ جمود ختم ہو سکتا ہے، گروف نے تجویز پیش کی۔
یہ بات سن کر خاتون ہنس دی۔ دونوں اپنا اپنا کھانا اجنبیوں کی طرح اپنی اپنی میز پر بیٹھ کر کھاتے رہے۔ کھانا ختم ہوا، خاتون اٹھی تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلنے لگی۔ ہلکی ہلکی باتیں ہونے لگی لیکن وہ بعد ازاں مزاح میں بدل گئی۔ وہ چلتے چلتے ساحل سمندر کی طرف مڑ گئے۔ سمندر میں ایک روشنی نظر آئی۔ سمندر کے کاسنی پانی کا بہاؤ اس وقت نرم و گرم تھا۔ وہ دونوں باتوں میں مگن دور تک نکل گئے۔ سورج ڈھلنے کے بعد رات ہونے کو آئی تو حبس میں اضافہ ہو گیا۔
میں گروف ہوں اور ماسکو سے آیا ہوں۔ میں نے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی ہے اور بینک میں ملازم ہوں۔ مجھے موسیقی کا شوق ہے۔ ایک وقت تو ایسا تھا کہ میں نے اوپرا گائک کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی تھی جو بعد ازاں دیگر مصروفیات کی وجہ سے ترک کر دینا پڑی۔خاتون نے بتایا کہ اس کے والدین پیٹرزبرگ میں رہتے ہیں۔ شادی کے بعد وہ اپنے خاوند کے ساتھ دوسرے شہر چلی آئی۔ اس کا خاوند اشرافیہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور میونسپلٹی میں اعلی درجے پر فائز ہے۔ اس کی شادی کو دو سال ہو چکے ہیں۔ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اور دنیا کو زیادہ جاننا چاہتی تھی لیکن اس کی شادی زبردستی کر دی گئی اور اس کی دنیا سمٹ کر رہ گئی۔ اپنی اداسی مٹانے کے لئے وہ اس تفریحی مقام پر آئی ہے۔ جب وہ چاہے گی تواس کا خاوند اسے یہاں سے آ کر واپس اپنے ساتھ لے جائے گا۔
میں آپ کے نام سے ناواقف ہوں۔ یہاں کے احباب آپ کو کتے والی سرکار کے نام سے پکارتے ہیں۔ کیا آپ اپنا نام بتا سکتی ہیں؟این۔۔ اور اب مجھے کتے والی سرکار کہنے کی ضرورت نہیں، خاتون نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ پھر ملیں گے یہ کہہ کر وہ رخصت ہو گئی۔
؂ گروف اپنے ہوٹل کے کمرے میں لوٹ آیا اور این کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ اس نے اس سے پھر ملاقات کا عندیہ دیا تھا۔ وہ سونے کے لئے لیٹا تو اسے خیال آیا کہ این کے وصائف بھی اس کی بیٹی جیسے تھے۔ وہ بھی ایک سکول گرل کی طرح لگ رہی تھی۔ سلیقے سے باتیں کرتے وقت مسکرا دیتی تھی۔ اس میں اس کی بیٹی کی طرح شرم و حیا بھی تھی اور جھجک بھی۔اگلے روز وہ نظر نہ آئی۔ اس سے اگلے اور اس سے اگلے دن بھی وہ اسے دکھائی نہ دی۔ یہاں تک کہ پورا ہفتہ گزر گیا۔ یہ یا تو اتوار یا پھر کسی تہوار کی وجہ سے چھٹی کا دن تھا۔ اندر دم گھٹنے والی حبس اور کھلے آسمان میں تند و تیز ہوا سر سے ہیٹ اڑا رہی تھی، خشکی سے گلا خشک ہو رہا تھا تو این اسے اسی ریستوران میں مل گئی۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ اس کو گرمی کی تمازتسے بچانے کے لئے بار بار ٹھنڈے مشروب اور آئس کریم کھلا تارہا لیکن لُو سے بچنے کی کوئی تدبیر کار گر نہ ہو پا رہی تھی۔ بہرحا ل وہ بہت دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔
شام کو موسم میں قدرے بہتری آئی تو وہ ساحل پر چلے گئے۔ جہاز لنگر انداز ہو رہا تھا۔ وہ اسے دیکھنے لگے۔ مسافروں کواپنے ساتھ لے جانے کے لئے ان کے احباب بھی موجود تھے۔ بہت سوں کے ہاتھوں میں نام کے کتبے اور پھولوں کے گلدستے تھے۔ یہ سما ں کچھ ایسا بندھا تھا کہ این کو بے حد دلچسپ لگا۔ وہ بڑے انہماک سے ان مناظر کو دیکھنے لگی۔ ایسا لگا کہ اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک آ گئی ہے۔ اس میں جوش پیدا ہوا۔ وہ گروف سے کوئی سوال کرتی، جواب آنے سے پہلے دوسرا سوال جڑ دیتی اور ساتھ ہی اگلا سوال۔ اسے یاد نہ رہتا کہ اس نے کون سا سوال کیا تھا۔ اس دوران اس کی عینک زمین پر جا گری جو اس نے اٹھا لی۔استقبالی حضرات اپنے اپنے پیاروں کو لے کر اپنی راہ ہو لئے۔ ساحل خالی ہو گیاتو بھی وہ وہیں کھڑے رہے۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ وہ بھی کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے میں کشش محسوس کرنے لگے اور ایک دوسرے کی موجودگی ان کوبھانے لگی۔ این پھولوں کو سونگھنے لگی اور مد بھری نگاہوں سے گروف کا جائزہ لینے لگی۔شام کے وقت موسم خوشگوار ہو گیا ہے این۔ اب ہم کہاں جائیں؟ کیوں نہ ہم ایک لمبی ڈرائیو پر چلیں؟ گروف نے تجویز پیش کی۔
این نے کوئی جواب نہ دیا اور نظریں نیچی کئے کھڑی رہی۔گروف کو اس کی یہ ادا بے حد پسند آئی۔ اس نے اچانک قدم بڑھائے اور این سے بغل گیر ہو گیا اور اسے چومنے لگ گیا۔اس کے جسم کی خوشبو، پھولوں کی مہک اور سرسراتی ہوا نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ گروف نے بے اختیاری میں یہ قدم اٹھا تو لیا تھا۔ جبلی تقاضے کے تحت اس نے یہ حرکت کر تو دی تھی، اسے خیال آیا کہ کہیں وہ بھڑک نہ جائے لیکن وہ نظریں جھکائے خاموش رہی۔این! آؤ تمہارے کمرے میں چلتے ہیں، گروف نے آہستہ سے تجویز پیش کی۔
این کا کمرہ بے ترتیب تھااور چیزیں اِدھر ُادھر بکھری پڑی تھیں لیکن اس کا کمرہ چار سُو معطر تھا۔
زندگی کن کن مراحل سے گزارتی ہے، ایسے افراد سے ملاتی ہے جن کے بارے میں کبھی تصور بھی نہ کیا ہو، گروف نے سوچا۔اس کے ذہن میں اپنے ماضی کے درجنوں معاشقوں کی یادیں ابھری۔ وہ تمام خواتین تعلیم یافتہ، اعلی خاندانوں سے متعلق، وضع دار، سلیقہ شعار، خوبصورت اور خوش مزاج تھیں۔ ہر خاتون اپنے طور پر پرامید تھی کہ وہ بالآخر گروف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پا لے گی۔ وہ اس کی سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے تعلقات پر فخر محسوس کرتی تھیں اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن جب انہیں پتہ چلتا کہ گروف نے انہیں استعمال کیا ہے تو وہ بد دل ہو کر راہِ فراراختیار کر لیتی تھیں۔ جبکہ دوسری طرف گروف انہیں ناکارہ، گھٹیا، بیہودہ، لالچی اور ہوس کی پجارن خیال کرتا تھا۔ محفلوں میں وہ ایسی تمام خواتین کو کند ذہن، بد مزاج، نا معقول اور بد کردار کے خطاب سے نواز تا۔ ان کی خوبصورتی کو بد صورتی اور ان کی چاہت نفرت میں بدل جاتی تھی۔ ان کے زیر جاموں میں اشتہا پید ا کرنے والی جھالر کو وہ چھپکلی سے ترجیح دیتا تھا۔اپنے نئے شکار میں حسبِ معمول پہلے معاشقوں کی طرح پر جوش تھا۔ این اسے حور لگ رہی تھی۔ وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین شخص تصور کرنے لگا تھاجس نے بالآخر اس سے وصال حاصل کر لیا تھا۔ جنسی تسکین کے بعد اس نے دیکھا کہ اگرچہ این نے اس وقت اس کا بھرپور ساتھ دیا تھا لیکن اب این کے چہرے کا تیکھا پن ماند پڑ گیا تھا۔ اس کے لمبے بکھرے ہوئے بال جو اس کے کندھوں کے دونوں طرف تھے، چہرے پر افسردگی طاری کر رہے تھے۔ وہ ایک منفعل، پست ہمت اور شکستہ صورت خاتون دکھائی دے رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا ضمیر اسے کچوکے لگا رہا تھا۔ لیکن گروف کو اس وقت وہ ایک مکار اور بدکار عورت لگ رہی تھی۔
یہ سب کچھ غلط ہو ا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میں خود کو اپنا منہ نہیں دکھا پاؤں گی۔ اس کے علاوہ تم مجھے حقیر سمجھنا شروع کر دو گے، این نے کہا۔میز پر تربوز پڑا تھا۔ گروف نے چاقو سے کاش اتاری اور مزے سے آہستہ آہستہ کھانے لگا۔ اسے ختم کرنے میں آدھ گھنٹہ لگا۔ اس دوران وہ مکمل طور پر خاموش رہا۔ وہ سوچتا رہا کہ اس کے غیر متوقع رد عمل سے وہ کیسے نپٹے۔ اس نے این کو دیکھا۔ اس کی حالت ایک اجڑی ہوئی خاتون کی سی تھی۔ اس لمحے وہ اسے معصوم دکھائی دی۔ اس کی رقت سے ایسا لگا کہ جیسے اس نے ایک پاکباز عورت سے زنا بالجبر کیا ہو۔ وہ دنیا سے لا تعلق لگ رہی تھی اور سہمی ہوئی تھی۔ وہ پریشان اورحواس باختہ تھی کیونکہ اس نے ہمیشہ اپنی عصمت اور وقار کا خیال رکھا تھا۔پھر بھی اسے مطمئن کرنے کے لئے گروف نے کہا، میری نظر میں تمہاری عزت کیوں کم ہو گی؟ تمہیں معلوم نہیں کہ تم کیا کہہ رہی ہو؟
یا خدا! مجھے معاف کر دو۔ میں ہمیشہ سے پاک دامن رہی ہوں اور اپنے خاوند سے بے وفائی کا کبھی لاشعور میں بھی نہیں سوچا۔ میرے ساتھ یہ کیا ہو گیا۔ میں اپنی نظروں میں گر گئی ہوں اور خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔ یہ واقعہ میرے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔ میں اپنے اس مکروہ فعل کو کیسے بھول سکتی ہوں؟ آج میں ایک اخلاق باختہ عورت بن گئی ہوں اور مجھے خود سے گھن آنے لگی ہے۔ یہ پچھتاوا خاوند سے بے وفائی کا ہی نہیں بلکہ میں دل سے احساس ندامت میں مبتلا ہو گئی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے اپنا خاوند بالکل اچھا نہیں لگتا۔ میں اس سے بے حد تنگ ہوں۔ میں اسے ایک گھٹیا شخص مانتی ہوں لیکن میں نے اسے دھوکہ دینے کا قطعاً نہیں سوچا تھا۔ بیس سال کی عمر میں ،میں نے شادی کی ہاں اس لئے کی تھی کہ مجھ پر دنیا کھل جائے گی۔ میں نئے نئے تجربات کروں گی لیکن دو سال گزرنے کے بعد ایسا کچھ نہ ہو پایا تو میں اپنی اس زندگی سے اکتا گئی اور اپنے خاوند کو بہانہ بنایا کہ میں بیمار ہوں۔ میں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانا چاہتی ہوں اورکسی تفریحی مقام پر اپنی بیگانگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ میں یہاں آ کر بد حواس سی پھرتی رہی۔ میں اپنے آپ میں نہیں تھی لیکن تم سے ملنے کے بعد آج میں بازاری عورت بن گئی ہوں جسے ہر کوئی حاصل کر سکتا ہے۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔
گروف اس کی باتیں سن کربیزار ہو گیا۔ اس کے سابقہ تجربات میں کوئی بھی ایسی خاتون نہیں تھی جس نے اس طرح کا رد عمل پیش کیا تھا۔ اسے اس کی پاک دامنی او ر سچے معصومانہ خیالات اچھے نہ لگے۔ اس کا سارا مزہ کرکرا ہو گیا۔ وہ چڑ گیا۔ اس کی باتیں غیر متوقع اور ندامت انگیز تھیں۔ اس نے سوچا کہ این مگر مچھ کے آنسو رو رہی تھی۔ وہ اس کی باتوں کو حقیقی نہیں مان رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ وہ صرف اداکاری کر رہی تھی۔ تاہم اس کا احساس گناہ مٹانے کے لئے اور اپنے مطلب پر لانے کے اسے کچھ تو کہنا تھا۔میں تمہاری باتیں سمجھ نہیں پایا۔ ہم آپس میں محبت کرتے ہیں۔ جو کچھ ہوا ہے تمہاری مرضی سے ہوا ہے۔ میں نے کوئی زبردستی نہیں کی، گروف نے تاویل پیش کی۔ میں نے جذبات میں اندھی ہو کر خود کو تمہارے سپرد کر دیا۔ میں نے بہت مزاحمت کی تھی لیکن تمہارے سامنے بے بس ہو گئی۔ جو ہو چکا سو ہو چکا، وہ واپس نہیں آ سکتا۔ میں تم سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہوں۔ میں بھی شادی شدہ ہوں۔ میرے تین بچے ہیں پھر بھی میں تمہاری طرف متوجہ ہوا اور سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ضمیر کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کروں اور ہم اپنے تعلقات کو جاری رکھیں، اگر تم خطرے میں ہو تو مجھے بھی تم سے زیادہ خطرہ ہے۔ گروف نے اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہا۔ اس نے سوچا کہ اس کے یہ دلائل اسے قائل کر لیں گے اور وہ تعلقات منقطع نہیں کرے گی۔گروف کا اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ اس کی چکنی چپڑی باتیں اثر کر گئیں۔ اس کے آنسو بند ہو گئے اور وہ زور سے گروف کے گلے لگ گئی۔ اپنا چہرہ اس کی چھاتی میں چھپا لیا اور کہنے لگی۔
پلیز، پلیز، میرا یقین کرو۔ میں پاکیزہ تھی اور ایسی ہی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ میں گناہ کو قابلِ کراہت سمجھتی ہوں۔ میں نہیں جانتی کہ میں نے خود کو کیا کر دیا ہے۔ ایک عام خیال ہے کہ شیطان برے کاموں کے لئے بہکاتا ہے تو لوگ گناہ کرتے ہیں۔ اپنے بارے میں بھی اب میں یہ بات کہہ سکتی ہوں۔گروف نے اس کی خوف زدہ آنکھوں میں جھانکا، چوما اور بڑے پیار بھرے لہجے میں بولا، اب۔۔ بس۔۔ بس کرو۔ جو ہو گیا اسے بھول جاؤ۔ آؤ اب سے ہم نئی زندگی شروع کریں اور اسے جاری رکھیں۔آہستہ آہستہ این کا تناؤ کم ہوتا گیا۔ اس کے ضمیر سے بوجھ اترنے لگا۔ حال اسے بھلا محسوس ہونے لگا اور وہ پھر سے نارمل ہو گئی۔ اس کے بعد وہ دونوں کمرے سے نکلے اور گل گشت کرنے لگے۔ باہر سناٹا تھا۔ صنوبر کے درختوں پر ایسا سکوت طاری تھا جیسے قبرستان میں خاموشی ہو۔ دوسری طرف سمندر بپھر رہا تھا۔ اس کی لہریں ساحل سے ٹکرا کر شور کر رہی تھیں۔ اور دور کہیں ایک لیمپ جھلملا رہا تھا۔
مجھے تمہارے ہوٹل سے پہلی بار تمہارے خاندان کا علم ہوا ہے جو کہ جرمن نام ہے۔ کیا تمہارا خاوند جرمن ہے؟نہیں۔ یہ اس کے دادا کی عرفیت ہے۔ میرے خیال میں وہ روسی ہے، این نے جواب دیا۔چلتے چلتے وہ گرجے کے پہلو میں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ اس وقت ہوا بند ہو گئی تھی۔ درخت ساکن تھے۔ پرندے گھونسلوں میں آرام کر رہے تھے۔ دور کہیں ایک جہاز جا رہا تھا۔ رات کی تاریکی میں سمندر کی لہریں ہیبت پیدا کر رہی تھیں جو اس وقت بھی موجو د تھیں جب ہم اس دنیا میں نہیں آئے تھے اور اس وقت بھی رہیں گی جب ہم اس دنیا میں نہیں ہوں گے۔ یہ عمل جاری و ساری ہے۔ ہماری زندگی میں یہ عناصر سمندر، پہاڑ، بادل، وسیع آسمان ہیں جو ہم میں وجدانی کیفیت طاری کرتے رہتے تھے اور کرتے رہیں گے۔ گروف نے سوچا۔
چپکی ہوئی این اس کے سفلی جذبات میں ہلچل پیدا کر رہی تھی اور دنیا اسے حسین لگ رہی تھی۔ ہر سو کو بکو سب کچھ دلکش تھا ما سوائے ان احساسات کے جو این نے کچھ دیر پہلے ظاہر کئے تھے۔ اتنے میں ایک چوکیدار وہاں آیا۔ اس نے ان کو دیکھا اور بلا کچھ کہے آگے بڑھ گیا۔گھاس پر شبنم ہے، این نے کچھ وقفے کے بعد کہا۔ہاں۔ اب واپس جانے کا وقت ہو گیا ہے، گروف نے تائید کی۔پھر وہ دنیا سے بے نیاز ہر روز ملتے، ریستوران میں اکٹھے کھانا کھاتے، چہل قدمی کرتے، ایک دوسرے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور وصل کرتے وقت گزارنے لگے۔ این اپنی بے خوابی اور دل کی دھڑکنوں کا ماجرا بیان کرتی رہتی۔ گناہ کی وجہ سے پریشان ہوتی رہتی اور گروف اس دوران این کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا رہتا کہ وہ کتنی دلکش اور دل لبھانے والی تھی۔ یہ وہ جوشیلے جذبات تھے جو اوائل میں وہ اپنے ہر معاشقے میں ظاہر کرتا تھا۔ این کو ہمیشہ اس سے یہ شکایت رہی کہ وہ اسے کھلونا سمجھتا ہے لیکن جانے انجانے وہ اس سے بے پناہ محبت کرنے لگ گئی تھی۔
این اپنے خاوند کے آنے کا انتظار کر رہی تھی کہ اسے اپنے خاوند کی طرف سے پیغام ملا کہ وہ بیمار ہو گیا ہے، اس کی آنکھیں خراب ہو گئی ہیں اور وہ دیکھ نہیں سکتا۔ اس لئے وہ خود ہی واپس چلی آئے۔ وہ گروف کی جدائی سے بے حد افسردہ تھی۔ وہ اسے ٹرین تک چھوڑنے آیا اور وہ روتی ہوئی ٹرین پر سوار ہو گئی۔ جاتے وقت کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے کہا کہ میں تمہارے بارے میں سوچا کروں گی۔ میں تمہیں بھلا نہ پاؤں گی۔ خدا تم پر رحم کرے اور میرے بارے میں کبھی برا نہ سوچنا۔ آج ہم ہمیشہ کے لئے الگ ہو رہے ہیں۔ ہمیں الگ ہی ہونا چاہئے۔ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ الوداع۔
ٹرین تیزی سے اپنے راہ چل پڑی۔ این کی آواز ہلکی ہلکی مدھم ہوتی گئی۔ اس کے ساتھ بیتے لمحات اورپاگل پن کا سحر ٹوٹنے لگا اور گروف سٹیشن پر خیالوں میں محو اکیلا ہی کھڑا رہ گیا۔ یکایک جھینگروں کی آوازوں نے اسے چونکا دیا۔ اس نے سوچا کہ اس کی زندگی کا ایک اور باب ختم ہوا۔ اب صرف اس کی یاد ہی رہ جائے گی جو سابقہ معاشقوں کی طرح وقت کی گرد میں بہہ جائے گی۔
گروف افسردہ، پریشان اور غمزدہ لگ رہا تھا۔ یہ جوان خاتون جس کو وہ دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائے گا جو اس سے ہمیشہ شاکی رہی، نے اس کے ساتھ انتہائی شفقت اور میزبانی ظاہر کی تھی۔ وہ جو اس سے دگنی عمر کا تھا، اس پر غالب تھا، کو آخری وقت تک غیر معمولی شخص قرار دیتی رہی۔ اس نے کبھی اس کی اصلیت جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس کے ماضی کے بارے میں کبھی بھی نہیں پوچھا اور وہ اس بات پر مطمئن تھا کہ وہ اسے دھوکہ دینے میں پوری طرح کامیاب ہو گیا تھااور اپنا مقصد پوری طرح حاصل کر لیا تھا۔
گروف ماسکو چلا آیا۔ وہاں سردی کی آمد آمد تھی۔ وہ گھر پہنچا تو آتش دان جل رہا تھا صبح ناشتے کی میز پر اس کے بچے موجود تھے جو ناشتے کے بعد سکول چلے گئے۔اگلے دن برفباری شروع ہو گئی۔ سڑکیں برف سے ڈھک گئیں۔ برف گاڑیاں چلنے لگیں۔ یخ بستہ ہوا کے جھونکوں نے اسے اپنی جوانی یاد دلا دی۔ اس نے سمور کا کوٹ اور چمڑے کے دستانے زیب تن کئے ہوئے تھے۔ سر پر بھی سموری ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور وہ اپنے پیشہ وارانہ اور معاشرتی فرائض کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ یالٹا کی تفریح اس کے ذہن سے اتر چکی تھی۔ ہر روز صبح وہ تین ایسے اخبارات کا مطالعہ کرتا تھا جو ماسکو میں نہیں چھپتے تھے۔ وہ اخبارات میں کلبوں، تقریبات، ناچ گانے کی محفلوں، کنسرٹ، ڈراموں، فلموں، سالگروں کی تقریبات، رات کی رنگین محفلوں، ڈاکٹروں اور نوکر شاہی کے ساتھ تاش وغیرہ کھیلنے کے پروگراموں میں نہ صرف دلچسپی لیتا بلکہ بڑھ چڑھ کرحصہ لیتا تھا۔ حسبِ معمول جب بھی وہ خواتین کے بارے میں اظہار خیال کرتا تو ہمیشہ ان کا منفی پہلو ہی اجا گر کیا کرتا تھا۔گروف کو یقینِ کامل تھاکہ سابقہ معاشقوں کی طرح این کی یاد بھی ایک یا دو مہینوں میں ماند پڑ جائے گی۔ اس سے پہلے اگر کبھی کسی کی یاد ستاتی بھی تھی تو اس کی مدت زیادہ سے زیادہ دو ہفتے تھی۔ ایک مہینہ گزر گیا پھر دو مہینے، چھ مہینے گزر گئے لیکن اس کے باوجود این کی ایک ایک بات اس کے ذہن میں تازہ رہی۔ اسے ایسا لگتا تھا کہ یہ بات کل ہی واقع ہوئی تھی۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ این کی یاد مزید تیز ہونے لگی۔ اس کی دلکش مسکراہٹ اور اس کے وصل کی یادیں اسی طرح برقرار رہیں۔ جب شام کو بچے سٹڈی روم میں پڑھ رہے ہوتے یا ریستوران میں موسیقی کی مدھر دھنیں بج رہی ہوتیں یاگھر میں آتش دان کی لو بھڑکتی تو این کی یاد اسے تڑپا دیتی۔ وہ ہر وقت اس کے دل و دماغ پر چھائی رہتی۔
بینک میں ملازمت، جائیداد کے جھمیلے، رینگتی ہوئی خانگی زندگی، پہاڑوں پر صبح کی کہر، سمندری دخانی کشتی اس کے سلگتے ہوئے ارمانوں میں اضافہ کر دیتے تھے۔ وہ اپنے کمرے میں گھنٹوں پاگلوں کی طرح گھومتا رہتا۔ این کی باتیں یاد کر کے مسکراتا رہتا۔ پھر یہ یادیں تخیلات اور خواہشات میں تبدیل ہو کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتیں کہ این سے کیسے رابطہ بحال کیا جائے۔ وہ ہر دم اس کے ساتھ سائے کی طرح تعاقب کرتی رہتی۔ آنکھیں بند کر کے لیٹتا تو وہ ایک حسین سپنے کی طرح لگتی۔ وہ اسے کتابوں کی الماری، آتش دان اور کمرے کے کونوں کھدروں سے اسے جھانکتی نظر آتی۔ وہ اس کے سانسوں کی مہک اور اس کے کپڑوں کی خوشبو سونگھ سکتا تھا۔ گلیوں اور سڑکوں پر اس کی آنکھیں این کی تلاش میں بھٹکتی رہتیں۔گروف کی یہ کیفیت غیر معمولی تھی۔ اس کی بیوی نے بھانپ لیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ اس کی اپنے میاں سے لڑائی ہوئی تو اس نے اسے کہا کہ عورتوں کے شکاری! اس بڑھاپے میں رومیو کا کردار تمارے لئے انتہائی غیر موزوں ہے۔اپنے من کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ایک باراس نے تاش کلب سے واپسی پراپنے ایک دوست کواپنی محبت کا بتایا تو اس نے اس کا خوب مذاق اڑایاجس پر وہ اس سے لڑ پڑا۔ این کے بارے میں مسلسل سوچنے سے اس کی صحت بگڑنے لگی۔ صلاحیتیں کمزور پڑنے لگیں اور اپنے بارے میں نظریہ بے وقعت نظر آ نے لگا۔ اس میں اس بات کا خوف پیدا ہونے لگا کہ یا تو وہ ذہنی مریض بن جائے گا یا جیل کی ہوا کھائے گا۔ بے خوابی سے اس کے سر میں مسلسل درد رہنے لگا تھا۔ بینک، جائیداد اور گھریلو معاملات میں دلچسپی کم سے کم تر ہونے لگی تھی۔ وہ آدم بیزار اور مردم بیزار ہو گیا یہاں تک کہ کرسمس کا تہوار آن پہنچا تو وہ ایک حتمی نتیجے پر پہنچ گیا۔
گروف نے اپنی بیوی کو بتایا کہ وہ سرکاری کام کے سلسلے میں پیٹرزبرگ جا رہا ہے جبکہ دراصل وہ این کے شہر جا کے اس سے خفیہ ملاقات کر کے ذہنی سکون حاصل کرنا چاہتا تھا۔وہ این کے شہر گیا۔ عمدہ ترین ہوٹل میں قیام کیا۔ اس نے این کے خاوند جس کا عرف روسی تھا، کے خاندان کے بارے میں لوگوں سے معلومات حاصل کیں تو اسے پتہ چلا کہ وہ شخص اس شہر کے معروف ترین لوگوں میں سے تھا۔ ایک انتہائی مہنگے مقام پر رہتا تھا اور اسے اس شہر کا ہر شخص جانتا تھا۔ وہ اس کا پتہ حاصل کر کے این سے ملاقات کے لئے اس کے گھر کی جانب چل دیا اور جلد ہی گھر ڈھونڈ نکالا۔ اس کے گھر کے چاروں طرف خار دار تاریں لگی ہوئی تھیں۔اتوار کا روز تھا۔ چھٹی کی وجہ سے عین ممکن تھا کہ این کا خاوند اس وقت گھر پر ہی ہو اس لئے اس نے گھنٹی بجا کر گھر کا ماحول خراب کرنے کی کوشش نہ کی۔ پھر سوچا کہ رقعہ لکھ کر کسی کے ہاتھ این کو بھجوا دے لیکن یہ طریقہ بھی اسے غیر معقول لگا۔ اگر وہ اس کے خاوند کے ہاتھ لگ جاتا تو تباہی یقینی تھی۔ اس لئے اس نے موزوں موقع کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ وہ گھر کے ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا اور بیرونی دروازے پر نظریں جما دیں۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک فقیر کو دروازے پر دیکھا جو سیدھا اندر چلا گیا۔ وہ اپنی مچان پر جما رہا۔ ایک گھنٹے بعد اسے پیانو کی آواز سنائی دی۔ اسے شک ہوا کہ پیا نو این ہی بجا رہی ہو گی۔ عین اسی وقت گھر سے نکلتے ہوئے اس نے ایک بزرگ خاتون کو دیکھا جس کے پیچھے این کا کتا تھا۔ گروف کا دل مچلا کہ وہ اس کتے کو پکارے کیونکہ وہ اسے اچھی طرح پہچانتا تھا لیکن شومئی قسمت اسے کتے کا نام یاد نہ آیا اور وہ وہیں کھڑا رہا۔ اس دوران اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ میں تو این کے لئے باؤلا ہو رہا ہوں، کیا پتہ میں اسے یاد رہا بھی ہوں گا یا نہیں۔ ہو سکتا ہے این مجھے مکمل طور پر بھول چکی ہو یا اس عرصے میں اس نے کسی اور سے تعلقات قائم کر لئے ہوں۔ یہ سوچتے ہی وہ مایوس ہو کر واپس ہوٹل پلٹ گیا۔ گھنٹوں بیٹھا رہا اور سوچتا رہا کہ این سے ملاقات کیسے کی جائے۔ اس کا دماغ ماؤف ہو گیا اور کوئی حل سجھائی نہ دیا۔ وہ کھانا کھا کر سو گیا۔
شام کے وقت وہ جاگا، اسے خود پر غصہ بھی آیا اور رحم بھی۔ دن کو اس نے جی بھر کے سو لیا تھا، اب رات کیسے گزاری جائے کیونکہ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے خود پر ایک بار پھر ملامت کی کہ اس سے ملنے کا تصور کتنابے کار تھا۔ وہ بستر پر بیٹھ گیا اور خود کو کوسنے لگا۔ ایک کتے والی سرکار کے لئے اتنی خواری۔اس نے طنزیہ طور پر سوچا۔اپنے تفریحی رومان کے لئے اتنا کچھ۔ اب وہ اس گندگی کے ڈھیر میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ تمام رات وہ اپنے خیالوں میں کھو کر خود پر ملامت کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔
صبح وہ باہر نکلا اور وقت بسری کے لئے بے مقصد بازارمیں گھومنے لگا۔ اسے ایک اشتہار نظر آیا جس میں اس رات ایک مشہور اور بلند پایہ جاپانی رقاصہ شاہی تھیٹر میں شو کرنے جا رہی تھی۔ اس تھیٹر میں اشرافیہ اور اعلی طبقہ ہی جاتا تھا کیونکہ اس کی ٹکٹ بہت مہنگی تھی۔ اس نے سوچا کہ چلوایک اچھا شو ہی دیکھ لیں۔ اس نے ٹکٹ خریدا اور تھیٹر چلا گیا۔تھیٹر تماشائیوں سے بھرا پڑا تھا۔ گورنر، وزرا، درباری، نوکر شاہی، کارخانہ دار، جاگیردار اور امرا رنگ برنگے قیمتی اورجدید فیشن کے ملبوسات میں جوق در جوق اندر داخل ہو رہے تھے۔یہ دیکھ کر اس کی آس بندھی کہ شاید اس اجتماع میں این بھی نظر آ جائے اس لئے اس نے بڑے غور سے تماشائیوں پر کڑی نگاہ رکھنا شروع کر دی۔
گروف کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ این عینک لگائے ہوئے آہستہ آہستہ باوقار طریقے سے چلتی ہوئی تیسری لائن میں بیٹھ گئی۔ اس کے دل کی دھڑکن ڈوبنے لگی۔ وہ اس وقت حور کی مانند بہت پیاری لگی۔ سٹیج پر آرکیسٹرا مدھم سروں میں بج رہا تھا۔ اصل پروگرام شروع ہونے سے پہلے طرح طرح کے دلچسپ پروگرام پیش کئے جا رہے تھے لیکن گروف کی توجہ این پر ہی ٹکی ہوئی تھی۔ وہ کتنی شاندار لگ رہی تھی۔
این ایک نوجوان جس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی، کے ساتھ آئی تھی۔ اس کے کندھے چوڑے تھے اور وہ اس کے بغل میں براجمان تھا۔ وہ آرکیسٹرا کی ہر دھن پر اپنے ہاتھوں کو اپنی ران پر مار کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ سٹیج شو میں بھرپور دلچسپی لے رہا تھا۔ اس کی موجودگی میں این سے رابطہ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اسے یاد آیا کہ این نے اپنے خاوند کو یالٹا کے تفریحی شہر میں سونڈی کے لقب سے نوازا تھا۔ اگرچہ اس کا حلیہ یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ اعلی مرتبت ہے لیکن اس کی شخصیت اس تاثر کی نفی کرتی تھی۔ وہ ایک نا معقول شخص معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک عیارانہ مسکراہٹ تھی جو وہ ہر ایرے غیرے کو دے رہا تھا۔ وقفہ ہوا تو سگریٹ پینے کے لئے وہ اکیلا ہی اٹھ کر تھیٹر سے باہر چلا گیا جبکہ این وہیں بیٹھی رہی۔ یہ این سے ملنے کا بہترین موقع تھا۔ وہ اپنی سیٹ سے اٹھا اور این کی طرف بڑھااور اس کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے لب تھر تھر کانپ رہے تھے۔ وہ کوئی فقرہ تو ادا نہ کر سکا لیکن اسے ہیلو کہا۔این نے گروف کی طرف دیکھااور اسے دیکھ کر ششدر رہ گئی۔ اس کی طرف پھر دیکھا۔ اپنی آنکھوں پر اسے یقین نہ آیا۔ اس کے ہاتھ سے پرس گر پڑا اور وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی کچھ نہ بولا۔ وہ بیٹھی رہی اور یہ اس کے سامنے کھڑا رہا۔ وہ ایک
 عجیب سی صورت حال تھی۔ وہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ سٹیج پر اس وقت وائلن بجنے لگا جس کا مطلب تھا کہ وقفہ ختم ہو گیا ہے اور شو شروع ہونا چاہتا ہے۔ تماشائی واپس آنے لگے۔ این فوراً اٹھی اور تھیٹر سے باہر کی طرف چل دی۔ گروف بھی اس کا پیچھا کرتے راہداری سے ہوتے ہوئے سیڑھیوں سے اتر کر بیرونی ہال پہنچ گیا۔اوہ خدایا! اس جگہ اتنا زیادہ ہجوم کیوں ہے؟ گروف بولا۔اس وقت اسے وہ بات یاد آئی جب این نے الوداع کہتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہے۔ لیکن اب یہ سب کیا تھا؟تم نے مجھے خوف زدہ کر دیا ہے، این بولی۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ تم نے مجھے اتنا ڈرا دیا ہے کہ میں تو تقریباً مر ہی گئی تھی۔ کیوں؟۔۔ کیوں؟۔۔ کیوں تم یہاں آئے ہو؟ این نے دریافت کیا۔سمجھنے کی کوشش کرو این!۔۔ گروف نے انکساری سے کہا۔این نے گروف کی طرف دیکھا جس میں خوف، محبت اور شک کے جذبات پائے جاتے تھے۔ اس لمحے اسے اس کے ساتھ بیتے ہوئے تمام لمحات یاد آگئے۔گروف نے این کو اپنی طرف کھینچا، چھاتی سے لگایا اور اسے چوم لیا۔یہ تم کیا کر رہے ہو؟ کیا تم ہوش میں تو ہو؟ آج ہی واپس چلے جاؤ۔ میں تمہیں یہاں نہیں مل سکتی۔ میں منت کرتی ہوں، تمام مقدس ترین ہستیوں کا واسطہ دیتی ہوں کہ چلے جاؤ۔اس وقت انہوں نے کسی کے آنے کی آواز سنی۔ این نے سرگوشی کی کہ تم چلے جاؤ۔ کیا تم نے مجھے سن لیا؟ میں تمہیں ماسکو میں ملوں گی۔ میں اپنے خاوند کے ساتھ کبھی بھی خوش نہیں رہی۔ میں سونے کے پنجرے میں بند ہوں میں ہمیشہ افسردہ رہی ہوں۔ میں یہاں کبھی بھی آرام سے نہیں رہ سکتی۔ میری مشکلات میں اضافہ نہ کرو۔ اب ہمیں فوری طور پر علیحدہ ہو جانا چاہئے۔ ہم کو الوداع کہہ دینا چاہئے۔ اس کا ہاتھ دبا کر وہ واپس چلی گئی۔این ہر دو تین ماہ بعد ماسکو آنے لگی۔ اپنے خاوند کو یہ بہانہ بناتی کہ وہ نسوانی بیماری کے علاج کے لئے دارالخلافہ کے بہترین ڈاکٹروں سے علاج کے لئے جا رہی ہے۔ اس کے خاوند کو اس کی بات پر یہ شک نہ تھا کہ وہ بہانہ بنا رہی ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے۔ ماسکو پہنچ کر وہ شاندار ہوٹلو ں میں ٹھہرتی اوراپنے با اعتماد ایلچی کے ذریعے گروف کو ملنے کاپیغام بھجوا دیتی۔ یہ سلسلہ سال ہا سال تک جاری رہا۔ اس دوران گروف اپنی بیوی بچوں کے ساتھ تمام تقریبات میں شرکت کرتا رہا اور اپنے سوشل کلبوں میں جاتارہا جبکہ اپنے اور این کے معاملات کو چھپائے رکھا۔
ایک دفعہ گروف ماسکو آئی اور ایلچی کے ذریعے پیغام بھیجا تو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ سیر کر رہا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو گھر چھوڑا اور این سے ملنے کے لئے چل پڑا۔ سمور کا کوٹ پہنے اس نے این کے کمرے کے دروازے پر دستک دی۔ این نے اپنا پسندیدہ سلیٹی رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ طویل سفر سے تھکی ہوئی تھی۔ سالہا سال کی بے وفائی سے اس کے ضمیر پر بوجھ روز بروز بڑھ رہا تھا۔ جب اس نے اس کا چہرہ دیکھا تو وہ زرد تھا اور اس نے گروف کو بغیر مسکرائے دیکھا۔تمہارے حالات کیسے جا رہے ہیں؟ کوئی نئی بات؟ گروف نے پوچھا۔این نے رونا شروع کر دیا اور بول نہ پائی۔گروف نے سوچا کہ اسے اپنا من ہلکا کرنے دے۔ اسے اچھی طرح رونے دے تاکہ اس کا غم چھٹ جائے۔اس نے گھنٹی بجا کر ویٹر کو چائے کا کہا۔ این اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑکی میں کھڑی رہی۔ وہ بے حد رنج و الم میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ وہ چوروں کی سی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی یہ زندگی پراسرار ہے، دوسروں سے اوجھل ہے اور گناہ آلود ہے۔ اس کی یہ زندگی صحیح نہیں۔ بربادی ہی بربادی ہے۔ وہ دوسروں کا سامنا نہیں کر سکتی۔ کیا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟جب وہ رو دھو کر ہلکی ہوئی تو گروف نے کہا کہ اب مزید اس پر سوچنا بند کر دے۔گروف کے نزدیک اس وقت این کا رونا دھونا بجا تھا۔ جن مسائل کا وہ ذکر کر رہی تھی، حقیقی تھے۔ وہ وقتی اور عارضی نہیں تھے بلکہ مستقل نوعیت کے تھے۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اس معاشقے کا انجام کیا ہو گا اور یہ کب تک چلے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ این کے جذبات کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ اسے جنون کی حد تک چاہنے لگی تھی اور جزو لا ینفک سمجھنے لگی تھی۔ وہ اس خیال کو بھی رد کرتی تھی کہ اس کا یہ رومانس کبھی ختم بھی ہو سکتا ہے۔
گروف اٹھ کر این کے پاس گیا۔ اپنے ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھے اور چھیڑنے کے انداز میں اس کے جذبات کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی تو اس کی نظر سامنے والے شیشے پر پڑی۔ گروف کے بالوں میں چاندی اترنے لگی تھی۔ وہ اپنی شکل دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند ہی سالوں میں وہ اتنا بوڑھا کیوں ہو گیا تھا۔ اس کا رنگ و روپ بگڑ گیا تھا۔ اس کے ہاتھ جو این کے کندھوں پر تھے، کانپ رہے تھے۔ اس کا جسم گرم تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اسے بخار ہے۔ اسے اپنی دوغلی زندگی پر غصہ بھی آیا اور ترس بھی۔ این کے کندھے ابھی تک سیکسی تھے لیکن اسے معلوم تھاکہ اس کی خوبصورتی بھی چند دنوں کی مہمان تھی اور وہ بھی اس کی طرح ڈھل جائے گی۔
گروف اس بات پر بھی حیران تھا کہ این اسے ٹوٹ کر کیوں چاہتی ہے؟ تعلقات کے آغاز پر خواتین کو اس کی اصلیت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا تھا تو وہ اس سے فائدہ حاصل کر لیتا تھا۔ اس کی خوبصورتی، وجاہت، اندازِ تکلم، عہدے، رتبے اور دولت سے متاثر ہوتیں اور اس کی شخصیت کے تاریک پہلوؤں پر ان کی نظر نہ جاتی اور وہ اپنا الو سیدھا کرتا رہتا تھا۔اب جبکہ اس کا سر رو پہلا ہو گیا تھا تو کیا اسے اس عمر میں حقیقی محبت ہو گئی تھی؟ہاں! اب وہ این سے محبت کرنے لگا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے بنے تھے۔ اب وہ اس کی بیوی بن سکتی تھی۔ لیکن کیا اس عمر میں یہ رشتہ قائم کرنا مناسب تھا؟ کیا وہ ان تمام عواقب کو برداشت کر سکتا تھا جو اس رشتہ نبھانے کے بعد پیدا ہونے تھے؟وہ دو ایسے پرندوں کی طرح تھے جو نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ دونوں ایک مخصوص مقام پر آتے، ملتے اور جدا ہو کر اپنے اپنے گھونسلوں میں بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس وقت ان کی اپنی زندگی پنجرے والی لگتی ہے۔ ملاپ کے بعد وہ دوبارہ معمول کے کاروبار زندگی میں مصروف ہو جاتے۔ ہر تقریب میں بھرپور حصہ لیتے اور یہ رومانوی زندگی پیچھے چلی جاتی۔ کچھ دنوں بعد انکے ذہن میں پھر ابال آتا اور وہ مل لیتے اور پرانی یادیں تازہ کرتے رہتے تھے۔اس بار گروف کو خود پر ترس آیا۔ اس نے رومانوی زندگی کو جائز قرار دینے کے لئے طرح طرح کی تاویلیں پیش کیں لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ پایا۔ڈارلنگ! ہمارے تعلقات کی نوعیت روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں ان روابط پر سنجیدگی سے غور کرکے حتمی فیصلہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے اپنی دوہری زندگی اور خفیہ ملاقاتوں کے سلسلے کو کس طرح ختم یا کم کر سکتے ہیں،کے منصوبے پر سوچنا شروع کر دیا۔ وہ دونوں سر جوڑ کو بیٹھ گئے اوربہت سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ انہوں نے ایک طویل سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ وہ یہ سفر کیسے طے کر پائیں گے، کاعلم نہ تھا۔ خود کو حالات کے سپرد کر دیا اور کہا، آج تو جی بھر کے جی لیں۔۔ کل کس نے دیکھی ہے؟ 
٭٭٭

 

بشکریہ : تحریر: انتون چیخوف (روس) انگریزی سے اردو ترجمہ: پروفیسر غلام محی الدین