سوال، جواب

مصنف : شیخ محمد صالح المنجد

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اپریل 2021

جواب :اسباب اپنانا اللہ تعالی پر اعتماد اور بھروسا کرنے کے منافی نہیں ہے؛ بلکہ اسباب اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے، لیکن ساتھ میں یہ عقیدہ ہونا ضروری ہے کہ نفع اور نقصان صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہی مسبب الاسباب ہے، یعنی اسباب میں تاثیر پیدا کر کے اہداف مکمل فرما دیتا ہے۔اسی طرح اسباب ایسے ہوں جن کا حقیقی معنوں میں باہمی تعلق ہو، اور اپنائے جانے والے اسباب کی کامیابی مشاہداتی، یا عرف یا شرعی ذریعے یا کسی اور انداز سے مشہور و معروف ہو۔اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اپنائے جانے والے اسباب شرعی طور پر بھی جائز ہوں؛ چنانچہ اچھے اہداف کے لیے وسائل و اسباب کا شرعاً درست ہونا بھی از بس ضروری ہے۔
اسباب اپنانے کے بعد انسان کو معتدل رہنا چاہیے، لہذا یہ درست نہیں ہے کہ کلی طور پر اسباب اپنانا ہی چھوڑ دے، اور نہ ہی کلی طور پر اسباب کے ساتھ ہی دل لگا لے، چنانچہ ہونا یہ چاہیے کہ اسباب کو اسی طرح صرف ذریعہ ہی سمجھے جیسے دیگر لوگ اپنی زندگی کے معاملات میں اسباب کو ذریعہ سمجھتے ہیں، ان پر کلی اعتماد نہ کرے، بلکہ اعتماد صرف خالق باری تعالی پر ہی کرے؛ کیونکہ وہی شہنشاہ اور تمام امور کو چلانے والا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:''اسباب پر اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ: دل کلی طور پر اسباب پر بھروسا کر بیٹھے اور اسی سے امید لگائے، اسی کو سہارا سمجھے؛ حالانکہ مخلوقات میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جن پر مکمل طور پر اعتماد کیا جا سکے؛ کیونکہ مخلوق تنہا کچھ بھی نہیں اور مخلوق کے حامی اور مخالفین بھی ہوتے ہیں، اس تفصیل کے بعد: اگر مسبب الاسباب ذات ان اسباب کو مؤثر نہ بنائے تو یہ اسباب غیر مؤثر ہی رہتے ہیں'' انتہی
''مجموع الفتاوی'' (8/169)
اور جہاں تک اسباب اپنانے کے ضابطوں کا معاملہ ہے تو وہ ہر معاملے کے اعتبار سے الگ ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے معمولی بیماری کے لیے احتیاط ایسے نہیں ہوتی جیسے غیر معمولی بیماری کے لیے ہوتی ہے، اسی طرح قیمتی چیز کی حفاظت ایسے نہیں ہو تی جیسے معمولی قیمت کی چیز کی ہوتی ہے، تو یہی معاملہ اسباب اپنانے کا بھی ہے۔اسی طرح تلاشِ معاش کیلیے اسباب اپنانے کا ضابطہ بیماریوں سے بچاؤ سے مختلف ہو گا، اسی طرح کھانے پینے کے لیے اسباب اپنانے کا ضابطہ حصولِ اولاد کے ضابطوں اور اسباب سے مختلف ہو گا، اسی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کیلیے اسباب بھی مختلف ہوں گے، چنانچہ ہر معاملے کے لیے اسباب مختلف اور ان کے ضابطے بھی الگ الگ ہوں گے۔اسی طرح اسباب نہ اپناتے ہوئے سستی اور کاہلی میں پڑے ہوئے شخص کے درمیان اور اسباب اپنانے کیلیے خوب تگ و دو کرنے والے میں بھی فرق ہوتا ہے، ہر ایک اپنے اپنے معاملات اور حالات کے اعتبار سے بھی مختلف ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں لوگوں کو اپنے بارے میں زیادہ جانکاری ہوتی ہے وہ اپنی عادات اور طور اطوار سے بھی اسباب اپنانے کی کیفیت جان لیتے ہیں۔

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:آپ نے شادی کے اخراجات میں اپنے منگیتر کا تعاون کرنے کی نیت کر کے بہت اچھا کیا ہے، تا کہ آپ کی شادی کی تکمیل جلد ہو سکے، آپ اس پر شکریہ کی مستحق ہیں اور یہ چیز دین متین اور عقل و دانشمندی کی دلیل ہے۔آپ کا اپنے منگیتر کی شادی میں تعاون کرنا اس کے دین و ایمان میں معاونت کہلاتی ہے، اور یہ عظیم الشان اطاعت میں آتا ہے، اور شریعت مطہرہ میں قابل تعریف امر ہے، اور مال خرچ کرنے کے عظیم مصرف میں شامل ہوتا ہے.ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:جب درج ذیل آیت نازل ہوئی:
اور وہ لوگ جو سونے اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں۔تو ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ کے کسی صحابی نے کہا:سونے اور چاندی کے متعلق جو کچھ نازل کیا جا چکا ہے وہ تو نازل ہوگیا، اگر ہمیں پتہ چل جائے کہ کونسا مال اچھا ہے تو ہم وہ حاصل کریں۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ذکر کرنے والی زبان، اور شکر کرنے والا دل، اور مومنہ بیوی جو خاوند کے ایمان پر اس کی معاونت کرے ''سنن ترمذی حدیث نمبر (3094) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر (1856)۔ابن ماجہ کے یہ الفاظ ہیں:
'' تم میں سے کوئی ایک آخرت کے معاملہ میں اس کی مدد کرے ''شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اور مومنہ بیوی جو اس کے ایمان میں اس کی معاونت کرے ''
یعنی خاوند کے دین پر اس کی معاونت کرے، کہ اسے نماز روزہ اور دوسری عبادات یاد دلائے، اور اسے زنا وغیرہ دوسری حرام اشیاء سے منع کرے.دیکھیں: تحفۃ الاحوذی (8 / 390).اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شادی آدمی کے لیے اطاعت و فرمانبرداری میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے، اور اسے حرام کاموں مثلا حرام نظر اور حرام سننے سے روکتی ہے اور اسی طرح زنا کاری کے وقوع سے بھی روکتی ہے۔یہ تو ابتدائی اشیاء تھیں، لیکن آپ کو چند ایک امور کا خیال کرنا چاہیے جو درج ذیل ہیں:
 شادی کے معاملہ میں سنجیدگی اختیار کرنا اور اس کے اخراجات اور ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرنا، کیونکہ بعض لوگ مطلوبہ چیز کو حاصل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کی کوشش کرتے ہیں.
 اگر منگیتر خاوند شادی کے مسئلہ میں سنجیدہ ہے اور شادی کے کچھ اخراجات پورے کرنے سے عاجز ہے تو پھر اس کی کچھ ضروریات پوری کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلا بیوی کچھ گھریلو سامان خریدنے میں یا پھر شادی کی تقریب کے کچھ اخراجات برداشت کرنے میں شریک ہو سکتی ہے۔ منگیتر شخص اپنی منگیتر لڑکی کے لیے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے، جب تک نکاح نہیں ہوتا وہ اجنبی ہی رہے گا، اس لیے منگنی کے دوران ان کا آپس میں خلوت یا مصافحہ کرنا، یا اکٹھے باہر جانا منع ہے، بلکہ وہ بھی دوسرے اجنبی مردوں کی طرح ہی ہے۔اللہ سبحانہ و تعالی سے ہماری دعا ہے کہ وہ آپ دونوں کو ان امور کی توفیق سے نوازے جس سے اللہ راضی ہوتا ہے اور جنہیں پسند کرتا ہے، اور آپ کو نیک و صالح اولاد عطا فرمائے۔

 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:لوگوں کو خیر و بھلائی کی دعوت دیتے ہوئے اس طرح کے معاملات پیش آنا معمول کی بات ہے، تو داعیان حق اور لوگوں کو دین سکھانے والے شخص کے لئے ضروری ہے کہ صبر اور نرمی سے کام لے، اور حکمت بھرا طریقہ اپنائے۔اب آپ کے کچھ ساتھی دینی علم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ ساتھی نہیں چاہتے تو آپ دینی علم حاصل کرنے کی ترغیب رکھنے والوں کو پڑھاتے رہیں اور نیکی کے اس کام کو جاری رکھیں روکیں مت۔اب اگر کچھ لوگ حسد کریں یا جلن محسوس کریں تو خیر و بھلائی سکھانے والے کا اخلاق یہ ہوتا ہے کہ صبر کرے اور ان کی مبنی بر جہالت باتوں پر کان بھی نہ دھرے، یہ صفت قرآن کریم نے عباد الرحمن کی بتلائی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَی الْأَرْضِ ہَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَامًا 
ترجمہ: رحمان کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو وہ سلام کہہ کر چل دیتے ہیں۔ الفرقان: 63
اگر وہ برا سلوک کریں تو اس کے بدلے میں آپ ان سے اچھا سلوک کریں، تو اس سے امید ہے کہ ان کے دلوں میں موجود منفی باتیں ختم ہو جائیں، اور آپ کے اور ان کے درمیان شیطانی وسوسے جاتے رہیں۔
لیکن اگر سب کے سب ہی آپ کے درس میں نہیں بیٹھنا چاہتے تو پھر حکمت عملی یہ ہو گی کہ آپ انہیں مجبور نہ کریں؛ کیونکہ مجبور کرنے سے عام طور پر فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ان کے دلوں میں حق بات سے نفرت پیدا ہو گی۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 اُدْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ 
ترجمہ: اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور وہ راہ راست پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔]النحل: 125
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''حکمت: یہ ہوتی ہے کہ معاملات کو ان کا حقیقی مقام دیں، اس کے لئے مناسب وقت اور مناسب الفاظ استعمال کریں اور مناسب گفتگو کریں؛ کیونکہ کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں کہ جہاں وعظ و نصیحت مناسب نہیں ہوتی، ایسے ہی بعض اوقات ایسے آتے ہیں جہاں وعظ و نصیحت مناسب نہیں ہوتی۔ایسے ہی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپ کبھی بھی کسی بھی صورت میں وعظ و نصیحت نہ کریں، بلکہ آپ انتظار کریں کہ جب وہ نصیحت قبول کرنے کے موڈ میں ہو تو پھر اسے نصیحت کریں۔'' 
لہذا اگر ملازمت کی جگہ میں آپ کے ساتھی آپ سے علم حاصل کرنے کی رغبت نہیں رکھتے تو آپ دیگر لوگوں کو تلاش کریں جو حصولِ علم اور استفادہ چاہتے ہیں۔

 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب:میری رائے میں تویہ تجسس یعنی جاسوسی ہے، اورکسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کی بھی جاسوسی اورعیب تلاش کرتا پھرے، اس لیے کہ ہمارے لیے توظاہر کے علاوہ کچھ نہیں، اگرہم لوگوں کے عیب تلاش کرنا شروع کردیں اورتجسس کرنے لگیں تواس میں ہمیں بہت ہی مشکلات اورتھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا، اورہمارے ضمیر بھی جوکچھ ہم سنیں اور دیکھیں گے اس کی وجہ سے پریشان ہو جائیں گے۔اورجب اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان:‘‘ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو یقین جانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اوربھید نہ ٹٹولا کرو’’ الحجرات (12)۔
اس فرمان کے آخر میں فرمایا ہے کہ بھید نہ تلاش کیا کرو توہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :اوپر کی سطور میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی بنا پر آپ کی والدہ کے لیے شرعاً جائز ہے کہ وہ ملازمہ کو کھانے پکانے کا طریقہ اور کھانے کی صفات اور تیار کرنے کا طریقہ بتانے کی اجرت لیں، لیکن آپ کی والدہ کو چاہیے تھا کہ وہ اسے یہ سب کچھ سکھانے سے قبل بتا دیتی کہ وہ اس کی اجرت لے گی۔اب جبکہ حالت یہ ہے جو آپ نے سوال میں بیان کی ہے کہ ملازمہ آپ کی والدہ کی رغبت اور اختیار سے کھانا پکانا اور تیار کرنا سیکھ چکی ہے اور آپ کی والدہ نے ہی ارادتاً اس پر تعاون کیا ہے، اس لیے ملازمہ کی کاپی جس میں اس نے کھانا پکانے کے طریقہ جات لکھ رکھے ہیں آپ کی والدہ کے لیے لینی جائز نہیں؛ کیونکہ یہ ملازمہ کی ملکیت ہے، اس نے یہ کاپی اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس کا خیال رکھا اور اسے سنبھال رکھا ہے، اور آپ کی والدہ کا اسے طریقہ سکھانا تو بطور معاونت ہے۔
اس لیے آپ اسے کمزور سمجھ کر اس کا حق نہ لیں، چاہے وہ غیر مسلم ہی ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ ہے اسے ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ: (اہل مدینہ کو شدید قحط سالی کا سامنا تھا، تو انہوں نے سیدہ عائشہ کے سامنے شکایت پیش کی، تو انہوں نے کہا کہ: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر دیکھو اور اس کی چھت میں ایک کھڑکی بنا دو کہ آسمان اور آپ کی قبر کے درمیان کوئی چھت نہ ہو، تو لوگوں نے ایسا ہی کیا، پھر اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہو گئے کہ چربی سے پھٹنے لگے، اور اس سال کو ''عام فتق'' موٹاپے سے پھٹ جانے کا سال کہا گیا۔)
اس روایت کو دارمی: (1/56) نے حدیث نمبر: (92) کے تحت ذکر کیا ہے اور اس پر باب قائم کیا ہے کہ: ''باب ہے اس بارے میں کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وفات کے بعد بھی عزت سے نوازا''
لیکن یہ روایت ضعیف ہے، صحیح نہیں ہے، علامہ البانی ؒ نے اس کی وضاحت کی ہے، دیکھیے ان کی کتاب: ''التوسل'' صفحہ: (128) 
 یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر موقوف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوع نہیں ہے، چنانچہ اگر صحیح بھی ہوتی تو یہ دلیل نہیں بن سکتی؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ یہ صحابہ کرام کے اجتہادی فیصلوں میں سے ہو جو کہ صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی، اور صحابہ کرام کے اجتہادی فیصلوں پر ہمارے لیے عمل لازمی نہیں کیا گیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: ''الرد علی البکری'' میں لکھا ہے کہ:
''اور بارش کے لیے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر کھڑکی کھولنے کے بارے میں روایت بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے، نہ ہی اس کی سند ثابت ہے، اس کے جھوٹ ہونے کی دلیل میں یہی کافی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں چھت کی جانب کوئی کھڑکی تھی ہی نہیں، یعنی وہ ایسے ہی تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تھا، گھر کا کچھ حصہ چھتا ہوا تھا اور کچھ کھلا تھا، اور کھلی جانب سے گھر میں سورج کی روشنی بھی آتی تھیں، جیسے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب دھوپ آپ کے صحن میں ہوتی تھی، ابھی تک سایہ نہیں آیا ہوتا تھا۔ پھر یہ گھر ولید بن عبد الملک کے دور تک اسی طرح رہا، پھر جب ولید نے اپنے عہد میں مسجد کی توسیع کی تو ان گھروں کو بھی مسجد نبوی میں شامل کر لیا، تو اس وقت سے یہ حجرے مسجد نبوی میں شامل ہو گئے، اور پھر قبر مبارک والے سیدہ عائشہ کے حجرے کے اردگرد بلند دیوار بنائی، اور اس میں یہ کھڑکی رکھی گئی تا کہ صفائی ستھرائی کے لیے اگر کوئی آنا چاہیے تو یہاں سے نیچے اتر سکے، لہذا یہ کہنا کہ یہ طاقچہ سیدہ عائشہ کی زندگی میں موجود تھا تو یہ سفید جھوٹ ہے۔''
نیز اس اثر میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حاجت روائی کا مطالبہ جائز ہے، اس روایت میں ایسی کوئی بات دور یا قریب سے آپ کو نظر نہیں آئے گی، زیادہ سے زیادہ اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد بھی آپ کا مقام بہت بلند تھا، اور یہی بات امام دارمی کے اس حدیث پر قائم کردہ باب سے عیاں ہوتی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد اطہر کی برکت، اور آپ کی اللہ تعالی کے ہاں عزت بہت بلند ہے۔ اب اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مسلمان آپ کی قبر پر آئیں اور حاجت روائی کا مطالبہ کریں، صحابہ کرام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا، زیادہ سے زیادہ ان سے جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرے کی چھت کی جانب طاقچہ کھول دیا تھا، کسی نے بھی یہ نہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی بارش نازل کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں، نہ ہی انہوں نے اپنی حاجت روائی کے لیے آپ سے دعائیں مانگیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ''اقتضاء الصراط المستقیم''کے صفحہ:(338) میں کہتے ہیں:
''قبروں کے پاس دعائیں مانگنے کے لیے جانا اور یہ سمجھنا کہ یہاں پر دعائیں کسی اور جگہ کے مقابلے میں زیادہ قبول ہوتی ہیں، یہ غیر شرعی کام ہے، اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بالکل اجازت نہیں دی، پھر کسی بھی صحابی، تابعی، یا مسلمانوں کے ائمہ کرام میں سے کسی نے یہ کام نہیں کیا، پھر سلف صالحین میں سے کسی نے ایسے عمل کا تذکرہ بھی نہیں کیا، بلکہ اس بارے میں جو کچھ بھی نقل کیا جاتا ہے وہ دوسری صدی ہجری کے بعد کا ہے۔
حالانکہ صحابہ کرام نے کئی بار اپنی زندگی میں قحط سالی کا سامنا کیا، اس کے علاوہ بھی انہیں سنگین نوعیت کی پریشانیوں سے گزرنا پڑا، توکیا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر آکر بارش مانگی، یا حاجت روائی کا مطالبہ رکھا؟!بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروا کر بارش طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر آ کر بارش نہیں مانگی۔بلکہ یہاں تک ذکر کیا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر سے پردہ ہٹایا تا کہ بارش ہو جائے؛ کیونکہ آپ کی قبر پر رحمت نازل ہوتی ہے سیدہ عائشہ نے آپ کے پاس بارش کی دعا نہیں فرمائی، نہ ہی قبر کے پاس جا کر حاجت روائی کا مطالبہ کیا۔'' 
تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں صوفیوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سے استغاثہ، یا آپ کی ذات یا جاہ کا وسیلہ دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
 

(شیخ محمد صالح المنجد)

جواب :جعفر صادق رحمہ اللہ کی جانب منسوب قول میں اللہ تعالی کے اس فرمان کی جانب اشارہ ہے جس میں آل فرعون کے ایک مومن کا واقعہ ہے اور وہ اپنی قوم سے کہتا ہے:فَسَتَذْکُرُونَ مَا أَقُولُ لَکُمْ وَأُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَی اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ بَصِیرٌ بِالْعِبَادِ 44فَوَقَاہُ اللَّہُ سَیِّئَاتِ مَا مَکَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ
ترجمہ: پس عنقریب تم یاد کرو گے جو میں تمہیں کہتا ہوں اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں بیشک اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے 44 تو اللہ نے اسے ان کی چلی ہوئی چال بازیوں سے بچا لیا اور آل فرعون کو سخت عذاب نے پکڑ لیا۔ غافر:44 - 45
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''اس آیت کریمہ میں واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی پر سچا توکل اور معاملات اللہ کے سپرد کر دینا ہمہ قسم کے نقصانات سے تحفظ اور بچاؤ کا ذریعہ ہے۔
چنانچہ اس آیت کریمہ میں یہ دلیل ہے کہ فرعون اور اس کی قوم نے اس ایک مومن کے خلاف چال بازی کی اور اللہ تعالی نے اسے بچا لیا، یعنی اسے ان کی چالبازیوں اور مکاریوں سے تحفظ عطا کر کے نجات دے دی، صرف اللہ تعالی پر توکل کرنے کی وجہ سے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کی وجہ سے'' ''أضواء البیان'' (7 / 96 - 97)
امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''اللہ تعالی کا فرمان: (وَأُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَی اللَّہِ) اس کا مطلب یہ ہے کہ: میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، اپنے معاملے کو اللہ کے ذمے چھوڑتا ہوں اور اسی پر توکل کرتا ہوں؛ کیونکہ وہ توکل کرنے والوں کے لیے کافی ہے'' 
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَأُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَی اللَّہِ) کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالی پر توکل کرتا ہوں اور اسی سے مدد چاہتا ہوں'' تفسیر ابن کثیر'' (7 / 146)
تمام معاملات اللہ کے سپرد کرنا اور اسی پر توکل کرنا دینی یا دنیاوی تمام امور میں مطلوب ہے۔
لیکن صحیح توکل اور سپردگی کا مطلب یہ ہے کہ: شرعی اور جائز اسباب بھی لازمی طور پر اپنائے جائیں، جیسے کہ اس بات کی طرف سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں اشارہ بھی موجود ہے، آپ کہتے ہیں کہ: (ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں سواری کا گھٹنا باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹنا باندھ کر توکل کرو)یعنی اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں۔
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''واضح رہے کہ توکل کی حقیقت ایسے اسباب اپنانے کے منافی نہیں ہے جن کے ساتھ اللہ تعالی نے انسانی قدرت کے دائرے میں امور کو منسلک کیا ہوا ہے، اور اسباب اپنانا اللہ کی مخلوق میں مسلمہ قانون الہی بھی ہے کہ اللہ تعالی اسباب اپنانے والے کو نوازتا ہے، لیکن ساتھ میں توکل کا بھی حکم ہے، تو ایسی صورت میں اسباب اپنانے کیلیے جد و جہد کرنا عملی طور پر اللہ کی اطاعت ہے، جبکہ دلی طور پر توکل اس پر ایمان کا تقاضا ہے۔
انسان جو اعمال کرتا ہے ان کی تین اقسام ہیں:ان میں سے پہلی قسم ایسی عبادات ہیں جنہیں سر انجام دینے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، پھر اللہ تعالی نے ان عبادات کو جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا، تو ایسے کاموں کو کئے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن ساتھ میں توکل کرنا ضروری ہے اور ایسے نیک کاموں کیلیے اللہ تعالی سے مدد بھی مانگنی چاہیے؛ کیونکہ نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔لہذا اگر کوئی شخص اپنے ذمہ واجبات میں کمی یا کوتاہی کا شکار ہوتا ہے تو وہ دنیا و آخرت میں کوتاہی کی مقدار کے برابر شرعی اور تقدیری ہر اعتبار سے سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے'' 
بچوں کی پرورش کے حوالے سے یہ بات لازمی ہے کہ اللہ تعالی پر توکل بھی ہو اور صحیح تربیتی وسائل اور اسباب بھی اپنائے جائیں ، جیسے کہ شریعت میں بھی انہیں اپنانے کا حکم موجود ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:
(یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ)ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر سخت گیر فرشتے ہیں وہ اللہ کے دئیے ہوئے حکم کی یکسر نافرمانی نہیں کرتے، اور وہ وہی کچھ کر گزرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔التحریم:
٭٭٭

 

(شیخ محمد صالح المنجد)