وہ جنھیں وطن کو لَوٹنا ہے

مصنف : ریحان احمد یوسفی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2004

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں پر کشش تنخواہوں ور اجرتوں پر کام کرتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد ۱۴ سے ۱۵ لاکھ ہے جن میں سے ۹ لاکھ افراد صرف سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ دنیا کے دوسرے خطوں مثلاً امریکہ ، کینیڈا ، مشرق بعید،برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے برعکس ان لوگوں کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ سالہا سال ملک سے باہررہنا۔اس کا سبب خلیجی ممالک کا وہ قانون ہے جس کے تحت کسی غیر ملکی کے لیے عملی طورپر وہاں کی شہریت حاصل کرنا ممکن نہیں۔چنانچہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وہاں گذار دینے والے غیرملکیوں کا مقدر بھی یہی ہے کہ آخر کار انہیں اپنے وطن کولوٹنا ہے۔

خلیج میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کو ایک دوسری صورت ِ حال سے بھی واسطہ پیش آتا ہے۔ وہ یہ کہ ان ممالک میں کسی فرد کی مدت ِ قیام کا تمام تر انحصار اس شخص یا کمپنی پر ہوتاہے۔ جس کے ویزہ پر وہ یہاں ملازمت کے لیے آیا ہوتاہے۔ اسے یہاں کی اصطلاح میں ‘‘کفیل ’’ کہتے ہیں۔جب تک کفیل کی مرضی ہوگی وہ آدمی یہاں کام کرتا رہے گا اورجب وہ چاہے گا اسے نہ صرف ملازمت سے فارغ کر دے گا، بلکہ فوراً ملک چھوڑنے پر بھی مجبور کر دے گا۔ یہ کوئی انفرادی سطح پر پیش آنے والا معاملہ نہیں، بلکہ یہ حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے تحت وہ سرکاری اور نجی شعبوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے ہاں سے غیر ملکیوں کو نکال کر زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو روزگارمہیا کریں۔

ان مسائل کی بناء پر یہاں کام کرنے والوں میں ایک خاص قسم کی ذہنیت پیدا ہو جاتی ہے، جس کے باعث انہیں ہمیشہ احساس رہتا ہے کہ یہ جگہ ان کے مستقل قیام کی نہیں ہے اور یہ کہ ایک روز انہیں بہر حال اپنے وطن کو لوٹنا ہے۔ ان چیزوں سے ان کے اوپر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک اثر ان کی زندگی پر یہ پڑتا ہے کہ یہ اس بات کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جب وہ اپنے وطن کولوٹ کر جائیں توخالی ہاتھ نہ ہوں، بلکہ ان کے پاس کافی سرمایہ بچت کی صورت میں موجود ہو جس سے وہ اپنے مستقل وطن میں بہتر زندگی گذار سکیں چنانچہ یہ لوگ اپنی کمائی کا بڑا حصہ ملک میں انویسٹ کرتے ہیں ۔ بعض لوگ بچت کی کسی اسکیم میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بعض زمین و جائیداد میں رقم لگاتے ہیں۔ بعض شیئرز خرید لیتے ہیں اور بعض اپنا پیسہ فارن کرنسی کی شکل میں محفوظ رکھتے ہیں۔

دوسرا اثر جو ان کے طرز زندگی پر پڑتا ہے اسے بجا طورپر ‘‘سیکنڈ ہینڈ’’ زندگی کا نام دیا جاسکتاہے ۔ ایک طرف تو ان لوگوں کو اپنے مستقبل کے لیے کچھ رقم پس انداز کرنی ہوتی ہے تودوسری طرف یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے انہیں یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں ان کا تمام تر ساز و سامان دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔چنانچہ وہ ہر معاملے میں سیکنڈ ہینڈ، گذارے کے قابل اور سستی چیز کوترجیح دیتے ہیں تاکہ جاتے وقت اگر کسی چیز کو پھینکنا بھی پڑے توزیادہ دکھ نہ ہو۔ورنہ قیمتی سامان ایسے وقت میں کوڑیوں کے مول ہی بکتاہے۔ چنانچہ یہاں رہنے والے کم و بیش تمام لوگوں کا طرز عمل یہی ہوتاہے کہ وہ فرسٹ کلاس تنخواہیں لے کر سیکنڈ کلاس زندگی گذارتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں وہ جس طرح کی پر آسائش زندگی گذارسکتے ہیں ، اس سے کم درجے کی زندگی اختیاری طورپر گذارتے ہیں۔

خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ان پاکستانیوں کی زندگی ان لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں یقین ہے کہ ان کا اصلی وطن جنت ہے۔ اس دنیامیں تو وہ صرف کمانے کے لیے آئے ہیں اور اس کمائی کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے اپنے اصل وطن یعنی جنت کی زمین میں انویسٹ کریں، خدا کی قرضِ حسنہ کی اسکیم میں لگائیں،اللہ کی رحمت کے شیئرز خریدیں اور زیادہ زیادہ نیکیوں کی فارن کرنسی محفوظ رکھیں۔غرض یہ کہ وہ اپنی تمامتر صلاحیتوں اور بہترین مساعی کے ساتھ حشر کے بازار میں سرمایہ کاری کریں تاکہ کل جب اپنے ‘وطن’ کو لوٹیں توکوئی پچھتاوا نہ ہو۔

وہ لوگ جودنیا میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر فرسٹ کلاس زندگی گذار سکتے ہوں، کیوں سیکنڈکلاس زندگی کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس لیے کہ انہیں احساس ہوتاہے کہ دنیا میں ان کے ویزے کی مدت کسی وقت بھی ختم ہوسکتی ہے۔اگر ان کی پونجی اس دنیا کے سامان ِ عیش وعشرت ہی میں صرف ہوگئی تو اگلی دنیا میں ان کا کیا بنے گا۔ان کے عالی شان بنگلے وارثوں کے تصرف میں آجائیں گے، ان کی شان دار گاڑیاں دوسروں کے استعمال میں آجائیں گی، ان کے بڑے بڑے کارخانے دوسروں کے حصے میں آجائیں گے۔ مرنے والوں کو تو اپنے سازوسامان میں سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملا کرتی ۔سوجب سب کچھ چھوڑنا ہی ٹھہرا تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خراب چیز چھوڑ کر جائے تاکہ دکھ بھی کم ہو، ورنہ اپنے خون پسینے کی کمائی کویوں اکارت جاتا دیکھ کر اس کا جی بہت کڑھے گا۔

ہم مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص ‘‘خلیج’’ میں کام کرنے والا ایسا ‘‘غیر ملکی’’ ہے جسے خوش قسمتی سے اپنا مستقبل سنوارنے کا ایک موقع مل گیاہے۔اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے لیے کچھ بچت نہیں کی تو اپنے ‘‘وطن ’’ کو لوٹتے وقت سوائے حسرت ویاس کے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا۔

وہ جنھیں وطن کولوٹنا ہے ، انہیں اس بارے میں کچھ سوچنا چاہیے ۔ وہ جنھیں وطن کولوٹنا ہے ، انہیں اس بارے میں کچھ کرنا چاہیے۔