احکامِ شرعیہ کی حکمت

مصنف : حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : نومبر 2005

۱۔         یہ امر مسلم ہے کہ شریعت کی بنیادحکمت اور مصلحت پر قائم ہے۔ شارع حکیم نے کوئی حکم بھی بے معنی اور بے مقصد نہیں دیا ہے، نہ کسی حکم کو بجا لانے کا طریقہ مقرر کرنے میں کہیں حکمت و مصلحت کو نظر انداز کیا ہے۔ جب یہ مسلم ہے تو لا محالہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ شریعت کا صحیح اتباع تفقہ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ جو شخص یہ نہیں جانتا کہ کسی کام کا حکم دینے یا کسی فعل سے منع کرنے میں شارعؐ کے پیش نظر کون سا مقصد اور کون سی مصلحت ہے، اور جو شخص یہ نہیں سمجھتا کہ کسی حکم کی بجا آوری کے لیے شارعؐ نے جو عملی صورت مقرر کی ہے اس خاص صورت میں کیا حکمت مدنظر ہے اور اصل مقصد کی تحصیل میں کون کون سا جزئیہ کس کس حد تک مددگار ہوتا ہے، اس کے لیے زندگی کے مختلف احوال میں شریعت کا صحیح اتباع کرنا بہت مشکل بلکہ تقریبا محال ہو گا۔ اس کے پاس شریعت کا صرف جسم ہو گا، اس کی روح نہ ہو گی۔بعض حالات میں نہیں، بلکہ اکثر حالات میں وہ اس طرح عمل کرے گا کہ بظاہر تو وہ شارعؐ کے احکام کی پیروی ہو گی ، مگر درحقیقت شارعؐ کے اصلی مقاصد فوت ہو جائیں گے، کیونکہ اس کی نگاہ احکام کی مجرد عملی صورتوں اور ان کے جزئیات پر ہو گی۔ ان احکام میں جو مصالح اور مقاصد پوشیدہ ہیں وہ اس کی نظر سے اوجھل ہی رہیں گے، پھر کس طرح وہ مقاصد و مصالح کے لحاظ سے جزئیات میں تغیر و تبدیل کر سکے گا؟

۲۔        یہ حقیقت یقینا ناقابل انکار ہے کہ شارعؐ نے غایت درجہ کی حکمت اور کمال درجہ کے علم سے کام لے کر اپنے احکام کی بجا آوری کے لیے زیادہ تر ایسی ہی صورتیں تجویز کی ہیں جو تمام ازمنہ و امکنہ اور تمام احوال میں اس کے مقاصد کو پورا کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود بکثرت جزئیات ایسے بھی ہیں جن میں حالات کے لحاظ سے تغیر ہونا ضروری ہے۔ جو حالات عہد رسالتؐ اور عہد صحابہؓ میں عرب اور دنیائے اسلام کے تھے، لازم نہیں کہ بعینہ وہی حالات ہر زمانہ اور ہر ملک کے ہوں۔ لہٰذا احکام اسلامی پر عمل کرنے کی جو صورتیں ان حالات میں اختیار کی گئی تھیں، ان کو ہو بہو تمام زمانوں اور تمام حالات میں قائم رکھنا اور مصالح و حکم کے لحاظ سے ان کے جزئیات میں کسی قسم کا ردوبدل نہ کرنا ایک طرح کی رسم پرستی ہے جس کو روحِ اسلامی سے کوئی علاقہ نہیں۔ ایک موٹی سی مثال لے لیجیے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے سورج کی حرکت کے لحاظ سے اوقات مقرر فرمائے ہیں، اس لیے کہ عرب اور ربع مسکونہ کے بیشتر حصوں کے لیے تعین اوقات کی یہ صورت مناسب ہے لیکن اگر کوئی شخص قطبین کے قریب رہنے والوں کے لیے بھی نمازوں کے اوقات متعین کرنے میں وہی سورج کے طلوع و غروب اور سایہ کے اتار چڑھاؤ کا لحاظ کرے تو بظاہر یہ شارعؐ کے منصوص احکام کی حرف بحرف پیروی ہو گی، مگر درحقیقت اس سے شارعؐ کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا اور اس کا شمار خلاف ورزی احکام میں ہو گا۔ کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ترک صلوٰۃ اور اسقاطِ فرض ہے پس معلوم ہوا کہ جزئیات میں دلالۃ النص اور اشارۃ النص تو درکنار، صراحۃ النص کی پیروی بھی تفقہ کے بغیر درست نہیں ہوتی اور تفقہ کا اقتضا یہ ہے کہ انسان ہر مسئلہ میں شارعؐ کے مقاصد و مصالح پر نظر رکھے، اور انہی کے لحاظ سے جزئیات میں تغیر، احوال کے تغیر کے ساتھ اس طرح کرتا رہے کہ جو شارعؐ کے اصول تشریعی پر مبنی اور اس کے طرزِ عمل سے اقرب ہو۔

۳۔        مگر تفقہ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان محض اپنی عقل و فہم کی پیروی کرنے لگے اور اس کے پیچھے پیچھے جدھر چاہے نکل جائے خواہ وہ حدود شریعت سے متجاوز ہی کیوں نہ ہوں۔ اس قسم کی عقل پرستی وہ چیز نہیں ہے جس کو اسلام کی اصطلاح میں ‘‘تفقہ’’ کہتے ہیں، بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کو قرآن میں اتباع ہوا کہا گیا ہے ۔ہوا پرستی کی لازمی خصوصیت افراط پسندی ہے، اور اسلامی تفقہ کی سب سے بڑی خصوصیت اعتدال اور توازن ہے۔ ہوا پرست ہر معاملہ میں کسی ایک مصلحت یا ایک فائدہ کا ایسا شیدائی بن جاتا ہے کہ اس کی خاطر دوسرے مصالح اور فوائد سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ بخلاف اس کے تفقہ اسلامی تمام مصالح اور فوائد کا مناسب لحاظ کرتا ہے، اور کسی مصلحت کو اگر نظر انداز بھی کرتا ہے تو صرف اس صورت میں جب کہ کوئی عظیم تر مصلحت ،چھوٹی مصلحت کی قربانی چاہتی ہو۔ پھر مصلحت اور مضرت کے معیار میں بھی اسلامی تفقہ اور ہوا پرستی کے درمیان اختلاف ہے۔ ہوا پرست اسلام کے معیار پر نہیں بلکہ اپنے رجحان طبع کے معیار پر مصلحت و مضرت کا تعین کرتا ہے اور مصالح میں بعض کو اہم اور بعض کو غیر اہم قرار دیتا ہے۔ بخلاف اس کے اسلامی تفقہ کا مقتضا یہ ہے کہ آپ کی نظر اسلام کی نظر ہو۔ آپ اس چیز کو مصلحت سمجھیں جسے اسلام مصلحت سمجھتا ہے اور اس چیز کو مضرت سمجھیں جسے اسلام مضرت سمجھتا ہے، اور مختلف مصالح اور مضرات کے درجے مقرر کرنے میں وہی معیار مدنظر رکھیں جو اسلام کے پیش نظر ہے۔ پس کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ مجرد عقل پرستی کا نام تفقہ ہے اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی عقل کی پیروی میں شریعت کے جس حکم کو جس طرح چاہے بدل لے۔ ہرگز نہیں اور یقینا نہیں۔ اسلامی تفقہ یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی نگاہ میں جس چیز کو مصلحت سمجھتے ہیں اس کی خاطر ان بہت سی مصلحتوں کو قربان کر دیں جنھیں شارعؐ نے اپنے احکام میں ملحوظ رکھا ہے یا آپ بزعم خود جس مضرت کو اہم سمجھتے ہیں اس سے بچنے کے لیے ایسی بہت سی مضرتوں کو قبول کر لیں جن سے شارعؐ آپ کو بچانا چاہتا ہے بلکہ اسلامی تفقہ یہ ہے کہ آپ شارعؐ کی تمام مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، اور ان میں سے ایک ایک کو وہی اہمیت دیں جو خود شارعؐ نے دی ہے، اور جزئیات میں تغیر و تبدل اس طور پر کریں کہ شارعؐ کے قائم کیے ہوئے توازن میں فرق نہ آنے پائے۔ یاد رکھیے کہ شارعؐ کے تجویز کردہ طرزِ عمل میں تغیر صرف اسی صورت میں جائز ہو سکتا ہے جب کہ تغیر احوال کی بنا پر اس کی پیروی سے کوئی ایسی مصلحت فوت ہوتی ہو جو آپ کے شخصی رجحان کے لحاظ سے نہیں بلکہ خود شارع ؐکے نقطہ نظر سے اہم ہو پھر ایسی صورت میں بھی صرف اس حد تک جزئی تغیر کیا جا سکتا ہے کہ اس اہم تر شرعی مصلحت کی حفاظت کے ساتھ دوسری شرعی مصلحتوں کو نقصان نہ پہنچے یا اگر پہنچے بھی تو وہ ایسی مصلحتیں ہوں جو شارع ؐکی نگاہ میں نسبتاً زیادہ اہمیت نہ رکھتی ہوں۔

            نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تربیت یافتہ بزرگوں کے عمل سے احکام کے استنباط میں ایک قاعدہ کو ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ‘‘شرعی عمل’’ اور ‘‘طبعی ’’ یا ‘‘عادی عمل’’ میں فرق کیا جائے۔شرعی عمل سے مراد ایسا عمل ہے جو اس بنا پر اختیار کیا گیا ہو کہ شریعت کا منشا وہی خاص طرزِ عمل اختیار کرنے سے پورا ہوتا ہے اور طبعی یا عادی عمل سے وہ طرزِ عمل مراد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ نے اپنے شخصی و طبیعی رجحان یا اپنے خاص زمانے اور ملک کے اجتماعی حالات کے اقتضات سے اختیار کیا تھا۔ یہ دوسری قسم کا طرزِ عمل متعدد حیثیات سے ہمارے لیے سبق آموز اور موجب رشد و ہدایت ہو سکتا ہے، مگر اس سے شرعی احکام کا استنباط درست نہیں۔ دلیل شرعی صرف پہلی قسم ہی کا طرزِ عمل ہے۔ بعض معاملات میں ان دونوں کا فرق بالکل نمایاں ہوتا ہے، حتیٰ کہ ہر شخص سرسری نظر میں اس کو سمجھ سکتا ہے، مگر بعض امور، خصوصاً دینی امور میں یہ دونوں طرزِ عمل اس درجہ مخلوط ہوتے ہیں کہ ان کے درمیان فرق کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں ایک قسم کے طرزِ عمل کو دوسری قسم کے طرزِ عمل کی حیثیت سے لینے اور اس سے غیر مناسب نتائج اخذ کرنے کی غلطی اکثر پیش آئی ہے اور بڑے بڑوں کو پیش آئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی وقت میں رسول بھی تھے، ایک انسان بھی تھے اور ایک عرب بھی تھے۔ ایک خاص زمانہ اور خاص اجتماعی ماحول کے رہنے والے بھی تھے۔ آپ کے ہر فعل میں ، خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی، یہ سب حیثیتیں ایک ساتھ موجود تھیں۔ ان مختلف حیثیات کے مخلوط ہونے کی وجہ سے یہ تمیز کرنا بہت مشکل ہے کہ کسی فعل میں کون سا حصہ آپؐ کی حیثیت رسالت سے تعلق رکھتا ہے تاکہ اسے حجت شرعی بنایا جائے اور کون سا حصہ آپ کی دوسری حیثیات سے متعلق ہے جو حجت شرعی نہیں۔ اس سے زیادہ اختلاط حیثیات صحابہ کرامؓ کے افعال میں ہے۔ ہمارے لیے ان کے عمل میں شرعی رہنمائی صرف اس حیثیت سے ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ تربیت پائی ہے اور آپ ؐ سے احکام شریعت کا براہِ راست استفادہ کیا ہے۔ اس حیثیت کے علاوہ ان کی دوسری حیثیات جس قدر بھی ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں، بہرحال کسی شرعی ہدایت کی حامل نہیں۔ اب ان کے افعال میں خصوصاً دینی افعال میں یہ تمیز کرنا بسا اوقات بہت مشکل ہو جاتاہے کہ کون سی چیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی ہدایت پر مبنی ہے، کون سی ان کی رائے اور اجتہاد پر، اور کون سی ان کے خاص شخصی اور زمانی و مکانی حالات پر۔ یہاں امتیاز کا ذریعہ ہمارے پاس صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن اور سنت کے وسیع اور غائر مطالعہ سے ہمارے اندر جو اسلامی بصیرت پیدا ہوتی ہے، اس سے ہم شرعی عمل اور طبیعی و عادی عمل کے باریک فرق کو محسوس کرتے ہیں، اور ہمارا ذوق ہم کو بتاتا ہے کہ کون سی چیز طبیعت اسلام سے تعلق رکھتی ہے، اور کون سی اس سے غیر متعلق ہے، کون سی چیز مصالح شرعیہ کی حامل ہے اور کون سی نہیں، کون سی چیز اسلامی سسٹم کا ایک جزو ہے اور کون سی نہیں۔ اس باب میں اختلاف کی بھی کافی گنجائش ہے، کیونکہ ایک شخص کا ذوق اور اس کی بصیرت لازماً دوسرے شخص کے ذوق اور بصیرت سے بالکل مطابق نہیں ہو سکتی، اگرچہ ماخذ دونوں کا ایک ہی ہو لہٰذا کسی شخص کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ صرف وہی چیز ‘‘شرعی’’ ہے جس کو اس کی بصیرت شرعی کہہ رہی ہے، اور وہ دوسرے شخص کی بصیرت جس کو ‘‘شرعی’’ کہتی ہے وہ قطعاً و یقینا غلط ہے۔

(بشکریہ: ترجمان القرآن، اگست ۱۹۹۶ء)

٭٭٭