اسلامی ریاست میں ذرائع ابلاغ کا کردار

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مئی 2005

یہ ایک تقریر ہے جو 7جولائی1985ء کو جناب مصطفےٰ صادق کی دعوت پر روزنامہ وفاق کی سلور جوبلی کی تقریب میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کی زیرصدارت اسلام آباد ہوٹل، اسلام آباد میں کی گئی۔اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ آج بھی اتنی ہی موثر ہے جتنی اس وقت تھی، اس لیے قند مکر ر کے طور پر شائع کی جا رہی ہے۔

            حمد و ثنا کے بعد،

            جنابِ صدر، خواتین و حضرات! ذرائع ابلاغ کے الفاظ زبان پر آتے ہی اس زمانے میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور رسائل کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ قدیم زمانے میں یہی حیثیت مشاعرے، چوپال، جلسے اور منادی کے اونٹ کو حاصل تھی۔ ماضی میں بھی ان ذرائع ابلاغ کی اثر انگیزی تسلیم کی جاتی رہی ہے اور حال میں بھی اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔میں اس وقت ذرائع ابلاغ کے اس کردار سے تو غضِ بصر کر لینا چاہتا ہوں جو وہ ہمارے معاشرے میں بالعموم ادا کر رہے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ شرفاء کی اس مجلس میں اس سے غضِ بصر ہی مناسب ہے۔ مجھے تو چند حرف ان کے اس کردار کے بارے میں کہنے ہیں جو میرے نزدیک انھیں کسی معاشرے میں ادا کرنا چاہیے۔

            خواتین و حضرات! اہل دانش نے اس موضوع سے متعلق جو کچھ لکھا اور جو کچھ کہا ہے، اس کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے اور اس کا خلاصہ مختصر لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو تین عنوانات سامنے آتے ہیں:

            ایک اطلاع، دوسرے تعلیم، تیسرے تزکیہ۔

            اطلاع کے معنی یہ ہیں کہ آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اور کانوں نے جو کچھ سنا، اسے ان آنکھوں اور ان کانوں تک پہنچا دیا جائے جو دیکھنے اور سننے سے قاصر رہیں۔ تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ اس ذخیرۂ اطلاعات میں جو کچھ مستقل اہمیت کا حامل ہے، اسے تجزیہ و تحلیل کے بعد قلب و ذہن میں اتارا جائے، اس کے مطابق ان کی تربیت کی جائے اور اسے کسی معاشرے کی سیرت اور اس کا کردار بنانے کی سعی کی جائے۔ تزکیہ، اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے دہقان کی مثال سامنے رکھیے: وہ جب کسی زمین میں فصل کاشت کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے زمین کا جائزہ لیتا ہے۔ ماحول اور اس کے عوامل کا تجزیہ کرتا ہے۔ فصل اور زمین کی مناسبت کا اندازہ کرتا ہے۔ مطمئن ہو جاتا ہے تو اس میں ہل چلاتا ہے۔ اس کے نشیب و فراز دور کرتا ہے۔ اس سے جھاڑ جھنکار ختم کرتا ہے۔ اسے ہموار کرتا ہے۔ غرض ہر پہلو سے اسے بیج کو اپنی آغوش میں لینے کے لیے تیار کرتا ہے۔ پھر بیج کا انتخاب کرتا اور اسے زمین کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کے بعد شب و روز اس کی دیکھ بھال میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ کونپل نکلتی ہے، اپنے تنے پر کھڑی ہوتی ہے، گدراتی ہے، اپنے مقام تک پہنچتی ہے، کھیت لہلہاتا ہے، فصل کاٹی جاتی ہے، خرمن میں آتی ہے اور دہقان اپنے کھتے بھر لیتا ہے۔ بعینہٖ یہی عمل تزکیہ ہے۔ آپ کسی معاشرے کے قلوب و اذہان میں جو کچھ کاشت کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے تجزیہ، تبصرہ، نقد و احتساب اور دوسرے ذرائع سے زمین ہموار کرتے ہیں، بیج بوتے ہیں اور خواتین و حضرات، جو کچھ بوتے ہیں، کاٹ لیتے ہیں۔

            ذرائع ابلاغ یہی کردار ہر معاشرے میں ادا کرتے ہیں۔ اسلام کے حوالے سے جب ہم اس موضوع پر غور کرتے ہیں تو نگاہ بغیر کسی تامل کے قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اٹھتی ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے:

            یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ (البقرہ:۱۲۹)

            ‘‘ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انھیں تیرے قانون اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔’’

            اس سے بالبداہت معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں ذرائع ابلاغ کا کردار فی الواقع نیابتِ نبوت کا ہے۔ اور خواتین و حضرات، غور فرمائیے، یہ کوئی معمولی منصب نہیں ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وحئ نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ آسمان اب زمین سے براہِ راست خطاب نہیں فرماتا۔ لیکن ہمارے پاس خدا کا آخری فرمان قرآنِ مجید اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صورت میں موجود ہے۔ اس وجہ سے، مجھے یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ اس منصب کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنی خواہشات، رغبات، جذبات اور عقل و فکر کو پوری طرح قرآن و سنت کے تابع بنالیں۔

            لیکن ، خواتین و حضرات، ہم اپنے آپ کو قرآن و سنت کا تابع کس طرح بنا سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا جواب دو لفظوں میں یہ ہے کہ ذرائعِ ابلاغ کے کارپرداز اور اربابِ اقتدار دونوں اپنے اندر اس کا شعور اور ارادہ پیدا کریں۔

            جنابِ صدر، معاف فرمائیے گا۔ شعور محض کسی چیزکے احساس کا نام نہیں ہوتا اور ارادہ محض خواہش کو نہیں کہتے۔ شعور کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے کسی چیز کو سمجھا ہے، جس طرح کہ اسے سمجھنے کا حق تھا اور اب وہ آپ کے دل و دماغ کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور ارادہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جس چیز کو شعوری طور پر سمجھا ہے، اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے آپ اپنے مال کاآخری حبہ تک خرچ کرنے اور اپنی طاقت کا آخری شمہ تک کھپا دینے اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کے لیے تیار ہوں۔

            جنابِ صدر اور خواتین و حضرات ، یہ شعور و ارادہ اگر ذرائعِ ابلاغ کے کارپردازوں میں پیدا ہو جائے تو ان کے قلم سے غزالی لکھتے اور ان کی زبان سے ابن تیمیہ اور احمد بن حنبل بولتے ہیں اور اربابِ اقتدار میں پیدا ہو جائے تو خدا کی بادشاہی زمین پر قائم ہوجاتی ہے۔ انصاف لوگوں کے دروازوں تک پہنچتا ہے۔ حکمران اور اس کی رعایا میں حائل پردے اٹھ جاتے ہیں۔ خلیفہ مدینہ کی گلیوں میں پھرتا ہے۔ اپنی کمر پر اناج کی بوریاں ڈھو کر ضرورت مندوں تک پہنچتا ہے۔بیت المال کے اونٹ خود ہانکتا ہے۔ سفر میں اپنے غلام کے ساتھ باری باری اونٹ پر سوار ہوتا ہے۔ دجلہ کے کنارے بھوکوں مرنے والے کتے کے لیے اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس کے زمانے میں زلزلہ آتا ہے تو زمین پر اپنا درہ مار کر کہتا ہے: ‘‘کیوں ہلتی ہو، کیا میں نے تم پر انصاف نہیں کیا؟’’

            وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ کوئی چیز اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ زمین اس کا ساتھ نہیں دیتی تو آسمان زمین پر اتر آتا ہے۔ لوگ اس کے لیے راستے تاریک کر دیتے ہیں تو بجلیاں اسے راہ سجھاتی ہیں۔ انسان اس سے گریزاں ہوتے ہیں تو شجر و حجر اس کے ساتھ چلتے ہیں۔ زمانہ اس کی بات نہیں سنتا تو فضا کے پرندے اس کی لے میں لے ملاتے ہیں۔

            جنابِ صدر اور خواتین و حضرات، لیکن معاف فرمائیے گا۔ یہ شعور و ارادہ اگر پیدا نہ ہو تو مصطفےٰ صادق اپنے اخبار کی سلور جوبلی مناتے ہیں۔ ہم اور پروفیسر منور تقریریں کرتے ہیں۔ جناب صدر صدارت فرماتے ہیں۔ ہم آتے ہیں۔ ہم چلے جاتے ہیں۔ ہماری مثال اس بارش کی سی ہوتی ہے جس سے پہلے کوئی گھٹا نہیں اٹھتی اور جس کے برس جانے کے بعد کہیں روئیدگی نظر نہیں آتی۔ تاریخ اپنے اوراق سے ہمارا تذکرہ حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتی ہے۔ ہمارے جانے پر آسمان روتا ہے نہ زمین آنسو بہاتی ہے۔ اور جنابِ صدر ، معاف فرمائیے گا، آئندہ نسلیں سیاست کے اسٹیج پر کھیلے جانے والے اس طرح کے مذہبی ڈراموں کے لیے (Divine Comedy)کا نام تجویز کرتی ہیں۔

            خواتین و حضرات، مدیر ‘‘وفاق’’ بہت با ہمت آدمی ہیں۔ ان کا حوصلہ دیکھیے، یہ چلموں کے مارے چولہے سے آگ کی توقع رکھتے ہیں اور اولوں کے مارے کھیت سے اناج کی تمنا کرتے ہیں اور کھلے آسمان سے بارش کی امید باندھتے ہیں اور پچھلے آٹھ سال سے جو کچھ ہوا ہے، اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی اسلامی نظام کا خواب دیکھتے ہیں۔ ان کی ہمت کی داد دیجیے:

ان کو ، ان ، سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

            خواتین و حضرات، بات شایدبہت نازک مقام پر پہنچ گئی۔ مصطفےٰ صادق میرے بزرگ، میرے جلیل القدر استاذ مولانا امین احسن اصلاحی کے دوست ہیں۔ ان کی ناراضی کے اندیشہ میں دوری اور درازی دونوں کا تحمل کم از کم میں نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے اس گزارش کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں کہ :

فروزاں ہے سینے میں شمع نفس

مگر تابِ گفتار کہتی ہے بس

(بحوالہ ، اشراق، اگست ۱۹۸۵)